
پاکستان کے سوشل میڈیا پر ان دنوں پنجاب کے ضلع قصور میں ہونے والے ایک واقعے کی وائرل ویڈیو زیر بحث ہے۔دو روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ نوجوان لڑکے لڑکیاں بظاہر پولیس کی حراست میں ہیں اور ان کی ویڈیو بنائی جا رہی ہے۔ جبکہ ویڈیو بنانے والا انہیں ان کے چہرے کیمرے کی طرف کرنے پر مجبور بھی کر رہا ہے۔اس ویڈیو میں ایک خاتون کو مخاطب کر کے یہ کمنٹ بھی سننے کو ملتا ہے کہ ’منہ ادھر کرو۔ یہ ویڈیو دنیا بھر میں جائے گی (وڈیو ٹھیک نہ بننے پر) دنیا کیا کہے گی۔‘ویڈیوز بنانے والا خواتین کو چہرے سے ہاتھ ہٹانے کی ہدایات بھی دے رہا ہے اور کچھ جگہوں پر روشنی زیادہ کرنے کے لیے موبائل کی فلیش لائٹ بھی آن کی جاتی ہے۔ واقعہ ہے کیا؟ضلع قصور کے تھانہ مصطفی آباد میں درج ایف آئی آر کے مطابق پانچ اپریل کی رات پولیس کو مخبر کے ذریعے ایک اطلاع ملی کہ ایک فارم ہاؤس پر ڈانس پارٹی ہو رہی ہے۔ اطلاع ملنے کے بعد پولیس نے اس جگہ پر چھاپہ مارا تو ایک فارم ہاوس کے اندر اونچی آواز میں گانے چلائے جا رہے تھے، جبکہ کچھ لڑکے اور لڑکیاں ڈانس کر رہے تھے۔ جبکہ ان کے قبضے سے شراب اور لاوڈ سپیکر بھی برآمد ہوا ہے۔ یہ سب قانون کی خلاف ورزی تھی۔ اس لیے مقدمہ درج کر کے وہاں پر موجود لڑکے اور لڑکیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔گرفتاری کے بعد مبینہ طور پر ان لڑکے اور لڑکیوں کی ’تحقیر آمیز‘ ویڈیو بنائی گئی جس کے بعد اسے سوشل میڈیا پر جاری کر دیا گیا۔ تاہم اس کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے بڑی تعداد میں اس ویڈیو کو بنانے، وائرل کرنے اور خواتین کی شناخت کو ایسے ظاہر کرنے پر پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔اس تنقید کے بعد قصور پولیس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ویڈیو نہ تو سرکاری طور پر بنائی گئی نہ ریلیز کی گئی۔اس حوالے سے جب اردو نیوز نے ڈی پی او قصور محمد عیسی خان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ واقعہ ہمارے علم میں ہے جس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور ویڈیو بنانے اور اس میں ملوث ہونے والے اہلکاروں کے خلاف تادیبی کاروائی بھی کی جا رہی ہے۔ اور دو اہلکار گرفتار بھی کیے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ قانونی طور پر زیرحراست ملزمان کی ویڈیو بنانا اور سوشل میڈیا پر جاری کرنا ایک غیر قانونی عمل ہے۔ ہم ابھی اس معاملے کی تحقیقات کر کے میڈیا کو اس حوالے مزید آگاہ کریں گے۔‘پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کہتی ہیں کہ اس معاملے پر وزیر اعلی پنجاب نے نوٹس لیا ہے اور رپورٹ طلب کی ہے۔ثقلین امام کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو ماروائے عدالت سزا دینے کے زمرے میں آتا ہے۔ (فوٹو: گیٹی امیچز)’پولیس کا کام لوگوں کی عزتوں کی حفاظت ہے اگر کوئی کام غیر قانونی ہوا ہے تو اس سے قانون کے مطابق نمٹا جائے نہ کہ پولیس خود غیر قانونی کام کرے۔‘ایک صدی پرانی پولیس:قصور میں پولیس کے ایک نجی فارم ہاؤس پر چھاپے اور ویڈیو وائرل کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیئر صحافی ثقلین امام کہتے ہیں کہ ’پنجاب پولیس آج بھی انگریزوں کے زمانے کی استعماری پولیس کی طرح کام کر رہی ہے۔ یہ پولیس ریڈ ایک بہت بڑے سماجی ، قانونی، انتظامی اور ریاستی بحران کی علامت ہے۔ ایک نجی گھر میں لڑکے لڑکیاں اپنی کسی خوشی کی تقریب میں شریک تھے نہ سڑک بند ہوئی نہ قانون توڑا گیا نہ کوئی عوامی بے چینی پھیلی جبکہ پولیس نے اس جگہ پر چڑھائی کی اور ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر جاری کیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو ماروائے عدالت سزا دینے کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسی سزا جو پولیس نے خود ہی طے کی، نافذ کی اور شائع کی۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ ایسے کام سو سال پہلے پولیس کرتی تھی جب یہاں نوآبادیاتی نظام تھا۔‘اس معاملے پر بات کرتے ہوئے دانشور اور تجزیہ کار وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ ’جس ملک میں تفریح نام کی کوئی شے نہیں اور جہاں دہشت گردی کے لیے نوجوانوں کو ایندھن بنایا جاتا ہے وہاں سب سے بڑے صوبے کی پولیس اس کام میں مصروف ہے کہ اس صورت حال کو مزید دگرگوں کیسے کیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ صاحبان اقتدار کو دیکھنا ہو گا کہ وہ مزید اس ملک کو کسی گہرائی میں پہنچانا چاہ رہے ہیں۔ لوگوں کے لیے کچھ کر نہیں سکتے تو ان کم از کم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔‘