
Getty Imagesنیشنل ریسورسز لمیٹڈ (این آر ایل) کا دعویٰ ہے کہ حال ہی میں چاغی میں سونے اور تانبے کے نئے ذخائر دریافت کیے گئے ہیں (فائل فوٹو)پاکستان میں حکام کے صوبہ بلوچستان میں خشک اور گرد آلود ہواؤں کی زد میں رہنے والے علاقے چاغی میں دنیا کے چند سب سے قیمتی معدنی وسائل چھپے ہوئے ہیں جن میں تانبے اور سونے کے ذخائر بھی شامل ہیں اور ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کا خیال ہے کہ اِن وسائل کی مدد سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل ہو سکتی ہے۔’ریکوڈک‘ اور ’سیندک‘ کے بعد حال ہی میں چاغی میں کچھ نئی دریافتوں کے بھی دعوے کیے گئے ہیں۔ چاغی میں معدنیات کی کھوج کا ٹھیکہ حاصل کرنے والی ایک نجی کمپنی نیشنل ریسورسز لمیٹڈ (این آر ایل) کا دعویٰ ہے کہ حال ہی میں چاغی میں سونے اور تانبے کے نئے ذخائر دریافت کیے گئے ہیں۔گذشتہ ہفتے ’پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025‘ کی تقریب میں نیشنل ریسورسز لمیٹڈ نامی کمپنی کا کہنا تھا کہچاغی میں ’تنگ کور‘ کے علاقے میں معدنیات کے واضح آثار ملے ہیں۔ کمپنی کے سربراہ محمد علی ٹبہ کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی ماہرین اور سرمایہ کار اس اہم منصوبے کا حصہ بنیں گے۔اِسی تقریب کے دوران ’ماڑی انرجیز‘ نے خیبر پختونخوا کے علاقے شمالی وزیرستان میں ایک مقام سے گیس اور تیل کے نئے ذخائر دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ’ماڑی انرجیز‘ کے مطابق یہ اس علاقے میں چوتھی دریافت ہے جہاں سے ٹیسٹنگ کے دوران روزانہ 70 ملین مکعب فٹ گیس اور 310 بیرل کنڈینسیٹ نکل رہی ہے۔اس دو روزہ کانفرنس میں پاکستان اور ترکی کی سرکاری کمپنیوں نے بھی ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت وہ سمندر میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے مشترکہ طور پر بولی دیں گے۔ اس معاہدے میں پاکستان کی تین کمپنیاں، ماڑی انرجیز، او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل، ترکی کی سرکاری کمپنی کے ساتھ مل کر سمندری علاقوں میں تلاش کا کام کریں گی۔حکام کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی سرزمین میں چھپی یہ معدنی دولت کبھی بیوروکریسی کی رکاوٹوں، کبھی سکیورٹی خدشات اور کبھی سیاسی قیادت کے توجہ نہ دینے کے باعث زمین سے نکالی ہی نہیں جا سکی ہیں۔ تاہم گذشتہ ہفتے ایک بار پھر پاکستان کی حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اِن قیمتی وسائل کو برؤئے کار لاتے ہوئے قومی معیشت کو بحال کرے گی۔اسلام آباد میں منعقد ہونے والی اس منرلز کانفرنس میں امریکہ، چین اور سعودی عرب سمیت بیس سے زائد ممالک کے نمائندوں، وفود اور سرمایہ کاروں نے شرکت کی تھی۔ یہ شرکا یہاں کی اُن معدنیات میں سرمایہ کاری کے مواقع جانچنے پہنچے تھے، جنھیں پاکستان کی حکومت ’ٹریلین ڈالرز سیکٹر‘ کہتی ہے۔اس کانفرنس کا مقصد پاکستان کی ایک ’اہم کھلاڑی‘ کے طور پر ری برانڈنگ تھا، خاص طور پر اُن معدنیات میں جنھیں دنیا بھر میں ’کریٹیکل منرلز‘ کہا جاتا ہے۔اعلیٰ سرکاری حکام، جن میں پاکستان کی فوجی قیادت بھی شامل ہے، نے اس کانفرنس کو پاکستان کی معیشت کے لیے ایک ’سنگ میل‘ قرار دیا ہے۔ لیکن ناقدین یہ یاد دلا رہے ہیں کہ یہ پہلی بار نہیں کہ پاکستان نے ’پتھروں کو سونا‘ بنانے کے وعدے کیے ہوں۔لیکن بات صرف وعدوں اور دعوؤں تک محدود رہی گی یا آگے بھی بڑھے گی؟ اِس بحث میں جانے سے پہلے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ آخر پاکستان میں کون سی قیمتی معدنیات ہیں اور یہ کہاں کہاں پائی جاتی ہیں۔پاکستان میں معدنیات کہاں کہاں موجود ہیں؟پاکستان معدنیات کو مختلف اقسام میں تقسیم کرتا ہے۔ سٹریٹجک منرلز میں تانبا، سونا، لیتھیئم، ریئر ارتھ منرلز اور کرومائٹ شامل ہیں، جو الیکٹرانکس، دفاع اور گرین ٹیکنالوجی میں استعمال ہوتے ہیں اور یہ قومی سلامتی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے نہایت کشش رکھتے ہیں۔انرجی منرلز جیسے کوئلہ اور یورینیئم توانائی اور جوہری پروگراموں کے لیے اہم ہیں۔ صنعتی منرلز جیسے نمک، چونا پتھر، جپسم اور بیراٹ تعمیرات اور زراعت میں استعمال ہوتے ہیں۔ قیمتی پتھر اگرچہ حجم میں کم مگر قدر میں بلند اور ایکسپورٹ آمدنی کے لحاظ سے اہم ہیں۔معدنیات کا مرکز بلوچستانپاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان کی زمین میں وافر مقدار اور سب سے قیمتی معدنیات پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر سٹریٹجک نوعیت کے معدنیات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اسے پاکستان کا معدنیاتی مرکز قرار دیا جاتا ہے۔سنہ 1970 کی دہائی میں جیولوجیکل سروے آف پاکستان (جی ایس پی) نے ریکوڈک اور سیندک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی نشاندہی کی تھی۔ یہاں چاغی ضلع میں واقع ریکوڈک ذخائر کو اکثر ایک 'سویا ہوا دیو' کہا جاتا ہے۔ کئی دہائیاں قبل جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے یہاں سونے کے ممکنہ ذخائر کا سراغ لگایا تھا لیکن کئی سال تک یہ منصوبہ قانونی اور مالیاتی تنازعات میں پھنسا رہا۔ اب کینیڈین کمپنی ’بیریک گولڈ‘ کی قیادت میں اسے دوبارہ بحال کیا جا رہا ہے۔سنہ 2022 کے آخر میں ایک نئے معاہدے کے تحت اس منصوبے پر دوبارہ کام شروع ہوا، جس میں بلوچستان حکومت کو 25 فیصد، وفاق کو 25 فیصد اور کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کو 25 فیصد شیئر دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت بیریک گولڈ نے یہاں سرمایہ کاری اور اس دہائی کے اختتام تک پیداوار شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔آج ریکوڈک کا سرخ پہاڑی علاقہ، جو طویل عرصے سے خاموش تھا، دوبارہ کھدائی اور سروے ٹیموں کی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔اور اب حکام اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہاں سے پیداوار سنہ 2028 تک شروع ہو جائے گی، جبکہ اس وقت منصوبے کے لیے سرمایہ جمع کرنے کی کوششیں جاری ہیں، جن میں، مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی کمپنی منارا منرلز کی ممکنہ سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔Getty Images’ریکوڈک منصوبہ دوسرے مرحلے کے مکمل ہونے پر سالانہ 400,000 ٹن تانبے کی پیداوار کی صلاحیت رکھتا ہے‘بیرک گولڈ کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) مارک برسٹو نے کہا ہے کہ ریکوڈک منصوبہ دوسرے مرحلے کے مکمل ہونے پر سالانہ 400,000 ٹن تانبے کی پیداوار کی صلاحیت رکھتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ریکوڈیک سے معدنیات کی کان کنی کے لیے پہلے مرحلے میں 5.5 ارب ڈالر کے ترقیاتی اخراجات کیے جائیں گے اور 2028 تک کان سے 2 لاکھ ٹن کاپر (تانبا) کنکریٹ اور 2 لاکھ 50 ہزار اونس سونے کی سالانہ پیداوار شروع ہو جائے گی۔انھوں نے کہا کہ مستقبل قریب میں الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہونے والی بیٹریوں کی طلب میں اضافہ اور متبادل ذرائع سے بجلی کی پیداوار کے فروغ اور بجلی کی طلب میں بڑھوتری کے باعث مستقبل قریب میں تانبا کی بین الاقوامی طلب میں خاطر خواہ اضافہ متوقع ہے اور پاکستان سے تانبا کی پیداوار میں اضافہ سے پاکستان کو بہترین اقتصادی نتائج حاصل ہوں گے۔ریکوڈک کے قریب سیندک میں سنہری پہاڑیوں میں نصب نیلے پلانٹس کا منظر بھی اب مقامی لوگوں کے لیے معمول بن چکا ہے۔ سیندک میں 1973 کے دوران تانبے اور سونے کے ذخائر کی دریافت کے بعد یہ پاکستان کی پہلی بڑی میٹالک مائننگ کی کوشش تھی۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں کئی سو ملین ٹن سے زائد خام مال موجود ہے۔ یہ منصوبہ ایک چینی کمپنی کے زیر انتظام ہے۔بلوچستان صرف تانبے اور سونے کے ذخائر تک محدود نہیں۔ یہاں مختلف اقسام کے درجنوں دیگر معدنیات پائے جاتے ہیں۔ قلعہ سیف اللہ کے مسلم باغ کے پہاڑی علاقے میں صدیوں سے کرومائٹ نکالا جا رہا ہے، جو سٹین لیس سٹیل کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ اب چاغی اور خضدار میں لیتھیئم اور ریئر ارتھ منرلز کی موجودگی کے دعوے بھی کیے گئے ہیں، جنھیں حکومت بڑے سٹریٹیجک معدنیات سمجھتی ہے۔تھر کے ’کالے سونے‘ پر چلنے والے پاور پلانٹ یہاں رہنے والوں کی زندگیاں کیسے تاریک کر رہے ہیں؟اٹک میں 700 ارب روپے مالیت سونے کا دعویٰ: کیا پاکستان میں سونے کے بڑے ذخائر موجود ہیں؟سیندک کا سونا بلوچوں کی زندگی بدلنے میں مددگار کیوں نہیں؟سعودی عرب کو پاکستان جیسی کمزور معیشت میں سرمایہ کاری سے کیا فائدہ حاصل ہو گا؟خضدار میں 1960 کی دہائی میں جی ایس پی نے بھاری معدنیات بیراٹ کے بڑے ذخائر دریافت کیے تھے جو آئل اور گیس کی ڈرلنگ میں استعمال ہوتے ہیں۔ انھی چٹانوں میں قلات اور مستونگ کے آس پاس فلورائٹ کے ذخائر بھی موجود ہیں۔لسبیلہ میں سیسہ، زنک کی کان واقع ہے، جو پاکستان کا پہلا جدید لیڈ، زنک منصوبہ ہے۔ یہ جی ایس پی نے دریافت کیا اور چین کی مدد سے یہاں کام شروع کیا گیا۔ اب یہاں زیر زمین کان سے سیسہ اور زنک نکالا جاتا ہے۔بلوچستان کے سر رینج-دغاری، ڈکی، مچ اور خوست میں کوئلے کے ذخائر بھی موجود ہیں، جو کئی دہائیوں تک مقامی صنعتوں اور ریلوے کو ایندھن فراہم کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ یہ ذخائر پنجاب اور سندھ کے مقابلے میں چھوٹے اور کم توانائی والے ہیں لیکن یہ ہزاروں مزدوروں کے لیے روزگار کا ذریعہ ہیں۔ایک طرف جہاں بلوچستان میں مقامی افراد ان وسائل میں اپنا حق نہ ملنے کی شکایت اور منصوبوں میں شفافیت نہ ہونے کے الزامات عائد کرتے ہیں، اور یہی الزامات بلوچستان میں بدامنی اور مزاحمت کی سب سے بڑی وجہ بن گئے ہے۔خیبر پختونخوا کے قیمتی پتھرGetty Imagesخیبرپختونخوا کی سرسبز وادیوں اور بلند پہاڑوں کے نیچے چھپے قیمتی پتھر ہیں جو دنیا بھر کے جواہرات کے ماہرین کو حیران کرتے ہیںبلوچستان کے علاوہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں معدنیات کے وسیع ذخائر ہیں اور گذشتہ برس منعقد کی گئی منرلز کانفرنس کے موقع پر حکومت نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انھیں خاص طور پر خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر گیس اور کئی منرلز کے بڑےذخائر ملے ہیں، جن کی ایکسپلوریشن کی جائے گی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ خیبر پختونخوا میں مائنز اینڈ منرلز بِل حال ہی میں تنازع کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر اس پر ہونے والی بریفنگ ملتوی کر دی گئی ہے جبکہ صوبے میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اپوزیشن کے رہنماؤں کی جانب سے اس بل پر تحفظات ظاہر کیے گئے ہیں۔خیبرپختونخوا کی سرسبز وادیوں اور بلند پہاڑوں کے نیچے چھپے قیمتی پتھر ہیں جو دنیا بھر کے جواہرات کے ماہرین کو حیران کرتے ہیں۔ سوات کے زمرد دنیا میں ’فائن جیولری‘ میں ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔ آج بھی یہاں مقامی لوگ ندیوں میں پتھر چھانتے ہیں، اس امید پر کہ کوئی چمکدار سبز پتھر ان کے ہاتھ آ جائے۔گذشتہ چند سالوں میں سابق فاٹا جیسا کے شمالی وزیرستان جیسے علاقوں میں حکومت کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر ایکسپلوریشن کا کام جاری ہے۔ گذشتہ برس ماڑی پٹرولیم کمپنی نے شیوا کے علاقے میں گیس کے بڑے ذخائر کی موجودگی کا دعویٰ کیا تھا۔حکام کے مطابق سوات کے بعد خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان اور ملک کے زیرانتظام کشمیر میں کئی مزید جواہرات دریافت ہوئے: ہنزہ میں یاقوت، مردان کے کٹلانگ میں گلابی ٹوپاز، چترال میں ایکوامرین، کوہستان میں سبز پیریڈوٹ، اور نیلم ویلی میں نیلم جیسے پتھر پائے گئے۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں قدرتی طور پر پیریڈوٹ جیسے نایاب پتھر ملتے ہیں۔مگر خیبر پختونخوا کی معدنیات صرف قیمتی پتھروں تک محدود نہیں۔ یہاں مہمند اور وزیرستان میں کرومائٹ، ہزارہ میں کھاد کے لیے فاسفیٹ، شیرون میں صابن پتھر اور مائیکا، اور مالاکنڈ و ہری پور میں آئرن بھی موجود ہے۔حکام کا دعویٰ ہے کہ وزیرستان کے شینکئی علاقے میں تانبے اور سونے کے شواہد بھی پائے گئے ہیں جسے حکومت اب دریافت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کوہاٹ میں تیل اور گیس کی دریافت کے بعد وہاں بھی کچھ سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔ جبکہ ہنگو اور کرک میں کوئلے کی کان کنی جاری ہے۔خیبرپختونخوا ماربل یعنی سنگ مرمر کے شعبے میں بہت آگے ہے۔ سوات کا سفید ماربل اور مہمند کا ’زیارت وائٹ‘ ملک بھر میں مشہور ہے۔ ان پتھروں کی کان کنی اور پالشنگ سے ہزاروں لوگ روزگار کماتے ہیں۔خیبر پختونخوا حکومت نے معدنی علاقوں کو منظم کرنے کے لیے ’منرل اکنامک زونز‘ بنائے ہیں تاہم اب یہاں ایک نیا تنازع اس بل نے پیدا کر دیا ہے جس کے تحت صوبے میں منرلز اور مائینگ سے متعلق اتھارٹی کے قیام کی بات کی گئی ہے جو لائیسنسنگ اور ایکسپولریشن سے متعلق قواعد طے کرے گی۔سندھ میں کوئلے کے ذخائر اور پنجاب میں سالٹ رینجGetty Imagesسندھ، بلوچستان کی طرح معدنیات کا مرکز تو نہیں، لیکن یہاں کی زمین میں کوئلے کے کئی ارب ٹن ذخائر موجود ہیں جو اسے دنیا کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ایک بناتے ہیں۔ تھرپارکر کے علاقے میں دنیا کے ساتویں بڑے لیگنائٹ کوئلے کے ذخائر موجود ہیں جن سے بجلی کے متعدد منصوبے چل رہے ہیں۔چینی کمپنیاں بھی سی پیک کے منصوبے کے تحت تھر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہی ہیں، جبکہ کئی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ منصوبے بھی جاری ہیں۔ سرکاری ڈیٹا کے مطابق یہاں 185 ارب ٹن کوئلہ موجود ہے۔کوئلے کے علاوہ سندھ میں دیگر معدنیات بھی موجود ہیں جیسے جپسم، چونا پتھر، نمک اور گرینائٹ۔ ننگرپارکر کی پہاڑیوں سے سفید اور گلابی رنگ کے قیمتی پتھر نکالے جا رہے ہیں، جو تعمیرات میں استعمال ہوتے ہیں۔سندھ کے تیل اور گیس کے ذخائر بھی بہت اہم ہیں، خاص طور پر مری گیس فیلڈز۔ یہ وسائل صوبے کو توانائی کا مرکز بناتے ہیں۔پنجاب میں نمک، جپسم اور کوئلے کے ذخائر سالٹ رینج میں پائے جاتے ہیں۔ چنیوٹ میں اعلیٰ معیار کا آئرن اور جزوی طور پر تانبا اور سونا بھی موجود ہے۔ چونا پتھر اور فاسفیٹ بھی تعمیرات اور کھاد سازی میں استعمال ہو رہے ہیں۔پاکستانی معدنیات میں غیرملکی سرمایہ کاروں کی دلچسپی کیا عملی بھی ہے؟امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے بیورو کے سینیئر عہدیدار ایرک میئر نے پاکستان منرلز انوسٹمنٹ فورم کی سائیڈ لائنز پر پاکستان کے معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے امریکی دلچسپی کو ظاہر کیا۔اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے سے جاری کیے جانے والے بیان میں ایرک میئر نے کہا ہے کہ ’صدر ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ اس مواد (معدنیات) کے متنوع اور قابل اعتماد ذرائع کو محفوظ بنانا ایک سٹریٹیجک ترجیح ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ امریکہ معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری، تکنیکی تعاون اور ذمہ دار وسائل کے انتظام کے مواقع تلاش کرنے کے لیے بین الاقوامی شراکت داروں اور پاکستانی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ کام جاری رکھے ہوئے ہے۔اس کانفرنس کے دوران دیگر ممالک کی کمپنیوں کے ساتھ کتنے اور کس نوعیت کے ایم او یوز سائن کیے گئے ہیں، اس حوالے سے کوئی واضح تعداد موجود نہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق پاکستانی اور غیرملکی کمپنیوں کے درمیان دس سے زائد ایم او یوز پر دستخط کیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے حکومت کا کہنا تھا کہ متعدد مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط کیے جائیں گے۔اس کانفرنس میں جہاں ایک طرف ریکوڈک منصوبے سے جڑی کینڈین کمپنی بین الاقوامی اداروں اور سرمایہ کاری کرنے والے اداروں سے تقربیاً دو ارب ڈالر کی فنڈنگ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو دوسری جانب امریکہ کی جانب سے بھی پاکستان میں معدنیات کے شعبے میں دلچسپی ظاہر کی گئی ہے۔ چین پہلے ہی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے اس شعبے میں گہری جڑیں رکھتا ہے۔مگر ماہرین کے مطابق بظاہر ایک ’کامیاب نظر آنے والی منرلز کانفرنس‘ کے بعد سامنے آنے والی ان ’مثبت خبروں‘ کے بیچ یہ سوال ضرور پیدا ہو رہا ہے کہ کیا پاکستانی حکومت کا اس سیکٹر میں نئے نظام متعارف کروانا کچھ نتائج دے پائے گا یا نہیں۔خیال رہے کہ اس وقت پاکستان میں معدنیات کی صنعت معیشت میں تین فیصد سے کچھ زیادہ حصہ ڈالتی ہے۔ ماہرین کی رائے میں قانون سازی اور پہلے سے موجود قوانین کی پیچیدگیاں، ریڈ ٹیپ اور غیر شفاف لائسنسنگ جیسے مسائل اس شعبے کو مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں۔ حتی کہ وہ منصوبے جنھیں کامیابی کی مثالیں سمجھا جاتا ہے، جیسے سیندک، اُن میں بھی کئی مسائل اور اعتراضات سامنے آتے رہتے ہیں۔تجزیہ کار دردانہ نجم کہتی ہیں کہ کہ ’اگرچہ حکومت پُرعزم ہے، مگر یہ مفروضہ کہ صرف اس سیکٹر سے پاکستان آئی ایم ایف پر انحصار ختم کر دے گا، کچھ زیادہ پرامید لگتا ہے۔ معدنیات کا شعبہ اس وقت محض 3.2 فیصد جی ڈی پی میں حصہ ڈال رہا ہے۔ اسے خود انحصاری کی بنیاد بنانے کے لیے محض اعلانات اور کانفرنسیں کافی نہیں ہوں گی۔‘’سرمایہ کاری لانے سے پہلے رکاوٹیں دور کریں‘خیال رہے کہ پاکستان میں پہلا منرلز سمٹ 2023 میں ہوا تھا جس میں بیریک گولڈ، ریوٹنٹو اور بی ایچ پی بلٹن جیسے عالمی سرمایہ کاروں نے شرکت کی تھی۔وہ کہتی ہیں کہ ’اصل چیلنج پاکستان کے کاروباری ماحول میں چھپا ہوا ہے۔ سرمایہ کار بارہا ان عوامل کا ذکر کرتے ہیں کہ غیر یقینی قواعد و ضوابط، لائسنسنگ میں تاخیر، سکیورٹی خطرات (خاص طور پر بلوچستان جیسے علاقوں میں)، اور پیچیدہ ٹیکس نظام انھیں (پاکستان میں) سرمایہ کاری سے دور رکھتا ہے۔‘ان کے مطابق ’اگر پاکستان واقعی معدنیات کے شعبے کو فعال بنانا چاہتا ہے، تو اسے محض کانفرنسوں اور منصوبوں سے آگے نکل کر حقیقی اقدامات کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے، تمام صوبوں میں سیاسی ہم آہنگی اوراستحکام ضروری ہے۔ دوسرا، معدنی وسائل سے بھرپور علاقوں میں سکیورٹی کی بہتری کو ترجیح دینی چاہیے، مگر ایسا مقامی آبادی کو ساتھ لیے بغیر ممکن نہیں۔ تیسرا، سرمایہ کاروں کا اعتماد جیتنے کے لیے لائسنسنگ، ماحولیاتی ضوابط، اور منافع کی منصفانہ تقسیم میں مکمل شفافیت ہونی چاہیے۔‘دوسری جانب سینیئر تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ پاکستان کو غیرملکی سرمایہ کاری سے پہلے یہاں رکاوٹیں دور کرنا ہوں گی۔ ان کے مطابق ’پاکستانی حکام کو خاص طور پر ریئر ارتھ معدنیات میں امریکی سرمایہ کاری کی امید ہے۔ یہ سرمایہ کاری واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو محض سکیورٹی تعاون سے آگے بڑھانے میں مددگار ہو سکتی ہے۔ تاہم غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے سے قبل کئی رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔‘دردانہ نجم کے مطابق اگرچہ ایس آئی ایف سی کے قیام سے ان مشکلات میں کمی کا تاثر ملتا ہے، تاہم کئی تجزیہ کار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ غیر منتخب اداروں جیسا کہ ایس آئی ایف سی پر انحصار، اس بات سے قطع نظر کہ وہ تیز رفتار فیصلے کرتے ہوں، صوبائی خودمختاری پر سنجیدہ سوالات کھڑے کرتا ہے۔خیال رہے کہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ منرلز کانفرنس 2025 میں خود شریک نہیں ہو ئے تھے۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب صوبائی اسمبلی میں مائنز اینڈ منرلز ایکٹ پر بحث بھی جاری ہے اور صوبے میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس بل کی منظوری کے نتیجے میں بننے والی اتھارٹی کے ذریعے وفاق ان کے وسائل کا حق اُن سے واپس لے گا۔دوسری جانب بلوچستان اور شمالی علاقوں گلگت بلتستان جیسے وسائل سے مالا مال خطوں کے مقامی لوگ مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ انھیں منافع میں زیادہ حصہ دیا جائے، معاملات اور معاہدے شفاف ہوں، اور ان کی ثقافت اور ان کی قدرتی زمینوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں سکیورٹی کے بڑھتے خدشات، بلوچستان میں مسلح شورش کی لہر اور خیبرپختونخوا میں مضبوط ہوتے دہشتگرد گروپس بین الاقوامی سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں سکیورٹی اور سیاسی استحکام کی عدم موجودگی میں آئی ایس آئی ایف سی جیسے اداروں اور منرلز کانفرنسز کے ذریعے سرمایہ کاروں کو ملک میں لانے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتیں۔تاہم اسی کانفرنس کے دوران پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاروں اور ان کے منصوبوں کو مکمل سکورٹی فراہم کی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کی فوج ایک مضبوط سکیورٹی فریم ورک کو یقینی بنائے گی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد و مفادات کے تحفظ کے لیے پیشگی اقدامات کیے جائیں گے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’آپ پاکستان پر ایک قابلِ اعتماد شراکت دار کے طور پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔‘ہائبرڈ نظام کی معاشی شکل اور فوج کا کردار: زراعت اور سیاحت سے متعلق ’ایس آئی ایف سی‘ کے منصوبوں پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟اٹک میں 700 ارب روپے مالیت سونے کا دعویٰ: کیا پاکستان میں سونے کے بڑے ذخائر موجود ہیں؟تھر کے ’کالے سونے‘ پر چلنے والے پاور پلانٹ یہاں رہنے والوں کی زندگیاں کیسے تاریک کر رہے ہیں؟سعودی عرب کو پاکستان جیسی کمزور معیشت میں سرمایہ کاری سے کیا فائدہ حاصل ہو گا؟