
کوئی بھی فصل جب پک کر تیار ہو جاتی ہے تو سب سے زیادہ خوشی کسانوں کو ہوتی ہے کیونکہ اب ان کی محنت کا صلہ ملنے کا وقت ہوتا ہے۔اب جبکہ بیساکھی شروع ہو چکی ہے اور گندم منڈیوں میں جانے کو تیار ہے، ایسے وقت میں پنجاب بھر میں اپنی نوعیت کی افسردگی سی دکھائی دے رہی ہے۔ اس پریشانی کا براہ راست تعلق گندم کی فی من قیمت ہے۔جاوید اقبال کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ وہ ایک چھوٹے کسان ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس وقت گندم کا ریٹ 25 سو روپے من ہے اور یہ سوچ کے ہی دم گھٹ رہا ہے۔‘’سرکار نے گندم خریدنے کے محکمے بند کر دیے ہیں۔ اب مارکیٹ آڑھتیوں کے رحم کرم پر ہے۔ دو برس پہلے خود حکومت نے بجلی اور کھاد کی قیمتوں کے سبب امدادی قیمت 4 ہزار روپے فی من مقرر کی تھی۔ اب ہر چیز کا ریٹ وہی ہے لیکن گندم 25 سو روپے کی ہو گئی ہے۔‘جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ادھر اوسطاً گندم 40 من نکلتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ایک ایکڑ ایک لاکھ روپے کا ہو گا۔ کھاد، پانی، بجلی، ادویات اور مزدوری کا خرچ فی ایکڑ 85 سے 90 ہزار روپے ہے۔ یہ سنی سنائی بات نہیں ہے خرچ کا حساب آپ انگلیوں پر کر سکتے ہیں۔ اور یہ ہرجگہ ایک ہی ہے۔‘ ’اب اگر چھ ماہ بعد بھی ایک ایکڑ سے 10 سے 15 ہزار بچت آئے گی تو وہ کیا بچت ہے؟ مجھ پر تو قرض بھی بہت ہے۔ جو بھی حکومت آتی ہے، کسان اس کا نشانہ ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم نے بگاڑا کیا ہے۔‘کچھ ایسی ہی کہانی شیخوپورہ کے عطاء اللہ کی ہے۔ ان کی اپنی زمین نہیں ہے، پچھلی کئی دہائیوں سے وہ ٹھیکے پر زمین لے کر کاشتکاری کر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ’یہ سیزن تو میری جیب پر بھاری ہو گیا ہے۔ چھ مہینے کا ٹھیکہ 75 ہزار ہے، اتنا ہی خرچہ آیا ہے۔ مجھے تو ہر ایکڑ کی کاشت کا جیب سے 50 ہزار دینا پڑ گیا ہے۔‘انہوں نے کہا ’میرا خیال ہے کسان تو پھر بھی بچ گیا ہے کہ اس کی جیب سے کچھ نہیں نکلا، وہ خالی ہاتھ گھر آ رہا ہے۔ اصل تباہی تو ٹھیکے داروں کی ہوئی ہے جنہوں نے زمین بھی کرائے پر حاصل کی تھی۔ اب تو چاول کاشت کرنے کا سوچ کے ہی ڈر لگ رہا ہے۔‘پنجاب حکومت نے بدھ کے روز کسانوں کی مدد کے لیے ایک کسان پیکج کا اعلان کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)گندم بحران کی وجہ کیا ہے؟پنجاب بھر میں اٹک سے لے کر راجن پور تک گندم کاشت کرنے والے درمیانے اور چھوٹے درجے کے کسان مارکیٹ میں گندم کے ریٹ کے سبب پریشان ہیں۔ گندم خریداری کے کام سے وابستہ تاجروں کا کہنا ہے اس سب کی ذمہ دار حکومت ہے۔گندم کے تاجر صہیب ملک نے بتایا کہ ’ہم سمیت کئی افراد نے اس مرتبہ گندم نہ خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ حکومت نے 27 سو روپے قیمت مقرر کر رکھی ہے۔ اس صورت حال میں انویسٹرز کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اوپن ریٹ میں وہ گندم بیچ نہیں سکیں گے اور حکومت پکڑ دھکڑ کرے گی جس وجہ سے لوگوں نے پیسہ نکالا ہی نہیں اور ریٹ 25 سو سے بھی نیچے آ گیا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’صرف حافظ آباد کی دانہ منڈی میں ایک سیزن میں ایک ارب روپے کی گندم آتی ہے۔ لیکن اب خریدار زیادہ نہیں ہیں، اس لیے ریٹ مسلسل نیچے جا رہا ہے۔ یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس کی ذمہ داری نظام چلانے والوں پر ہی آئے گی۔‘ پنجاب حکومت نے گزشتہ برس ہی سرکاری طور پر گندم کی خریداری کا محکمہ ختم کر دیا تھا جبکہ اس سال وفاقی حکومت کا محکمہ پاسکو بھی ختم ہو چکا ہے۔یوں سرکار طلب و رسد کی دوڑ سے مکمل طور پر باہر ہو گئی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں غیریقینی کی کیفیت ہے۔وزیراعلیٰ آفس کے ایک بیان میں کہا گیا کہ آٹے کی ملوں کو گندم کی براہ راست خریداری پر سود کے بغیر قرضے دیے جائیں گے (فائل فوٹو: اے ایف پی)حکومت کی کسانوں کو بچانے کی کوششصورت حال کو بھانپتے ہوئے پنجاب حکومت نے بدھ کے روز کسانوں کی مدد کے لیے ایک کسان پیکج کا اعلان کیا ہے۔اس پیکج کے ذریعے پانچ لاکھ رجسٹرڈ کسانوں کو کسان کارڈ کے ذریعے 15 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔اس براہ راست مالی معاونت سے حکومت ایک طرح سے کسانوں کی جیب سے پیسے ادا کرے گی۔ اسی طرح حکومت نے آبیانہ اور ٹیکس چھوٹ کا بھی اعلان کیا ہے۔حکومت نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ جو کسان اپنی گندم بیچنا نہیں چاہتے، وہ چار ماہ کے لیے محکمہ خوراک کے سرکاری گودام مفت میں استعمال کر سکتے ہیں۔حکومت نے گندم صوبے اور اضلاع سے باہر لے جانے پر عائد پابندی بھی اٹھا لی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)وزیراعلیٰ آفس سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آٹے کی ملوں کو گندم کی براہ راست خریداری پر سود کے بغیر قرضے دیے جائیں گے اور ان کا سود حکومت برداشت کرے گی۔اسی طرح حکومت نے گندم کے ریٹ کو استحکام دینے کے لیے گندم صوبے اور اضلاع سے باہر لے جانے پر عائد پابندی بھی اٹھا لی ہے۔بدھ کو جاری کی گئی نئی پالیسی کس حد تک کسانوں کی مدد کر سکے گیم اس بات اندازہ اگلے چند ہفتوں میں ہو جائے گا۔