
بنگلہ دیش کی اہم سیاسی جماعت بنگلہ دیشن نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے بدھ کے روز خبردار کیا کہ نئے انتخابات کے طویل انتظار پر ملک میں بے چینی جنم لے رہی ہے جو گذشتہ سال آمرانہ ہتھکنڈوں سے حکومت چلانے والی سابق وزیرِاعظم حسینہ واجد کی برطرفی کے بعد سے التوا کا شکار ہیں۔بنگلہ دیش اس وقت عملاً نوبیل امن انعام یافتہ 84 سالہ محمد یونس کی حکومت ہے، جنہوں نے گذشتہ اگست میں اس وقت اقتدار سنبھالا جب طلبہ تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے وزیراعظم شیخ حسینہ کو جلاوطنی اختیار کرنی پڑی۔محمد یونس کی عبوری حکومت کا کہنا ہے کہ انتخابات سے پہلے جمہوری اصلاحات نافذ کرنا اس کی ذمہ داری ہے اور نئے انتخابات اگلے سال جون تک منعقد کیے جائیں گے۔بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)، جسے اگلے انتخابات جیتنے کے لیے سب سے مضبوط امیدار تصور کیا جا رہا ہے، نے عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس سے ملاقات کی تاکہ انتخابی شیڈول کے اعلان پر زود دیا جاسکے۔ تاہم بی این پی کے وفد اور محمد یونس کی یہ ملاقات بے نتیجہ رہی۔ملاقات کے بعد بی این پی کے سیکریٹری جنرل میرزا فخرالاسلام عالمگیر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم بالکل بھی مطمئن نہیں ہیں۔‘’ہم نے اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے: اگر دسمبر تک انتخابات نہ ہوئے، تو سیاسی، معاشی اور سماجی حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔‘آصف نذرل نے کہا، ’اگر ہم ایک بھی مقدمہ مکمل کیے بغیر انتخابات کرا دیں، تو ہم اپنے آپ کو یا قوم کو جواب نہیں دے سکیں گے۔‘ (فوٹو: ڈھاکہ ٹریبیون)عالمگیر نے کہا کہ ان کی جماعت نے عبوری حکومت کی اصلاحات کی مکمل حمایت کی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انتخابات میں مزید تاخیر کی جائے۔انہوں نے کہا، کہ اگر اصلاحات پر عملدرآمد نہیں ہو سکا، تو ان پر آنے والی منتخب حکومت عمل کر سکتی ہے۔یونس کی حکومت کے ایک رکن، آصف نذرل نے صحافیوں کو بتایا کہ موجودہ حکومت ’محض اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش نہیں رکھتی۔‘انہوں نے کہا کہ حکومت شیخ حسینہ کی حکومت کے اراکین کے خلاف ان مظاہرین کی ہلاکتوں پر مقدمات چلانے کے لیے پرعزم ہے، جو ان کی برطرفی سے قبل مارے گئے تھے۔ ’اس کے علاوہ کچھ کلیدی اصلاحات پر عملدرآمد کرنا چاہتی ہے جس کے بعد انتخابات منعقد ہوں گے۔‘آصف نذرل نے کہا، ’اگر ہم ایک بھی مقدمہ مکمل کیے بغیر انتخابات کرا دیں، تو ہم اپنے آپ کو یا قوم کو جواب نہیں دے سکیں گے۔‘