
’میرے بیٹے نے کہا ابو اُوپر ڈرون ہے۔ میں نے پوچھا کدھر ہے؟ بیٹے نے بتایا کہ وہ بہت نیچے پرواز کر رہا ہے۔ میں دیکھنے کے لیے اٹھنے ہی والا تھا کہ دھماکہ ہو گیا۔‘پاکستان میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کے گاؤں ہرمز کے رہائشی شاہ فہد وہ لمحہ شاید پوری زندگی نہ بُھلا پائیں جب اُن کے گھر پر ایک ڈرون حملے کے نتیجے میں اُن کے تین کم عمر بیٹے ہلاک ہو گئے۔ اُن کے تین بیٹوں کے ساتھ ساتھ اس واقعے میں ان کا ایک بھتیجا بھی ہلاک ہوا تھا جبکہ شاہ فہد کی اہلیہ سمیت چار بچے زخمی ہوئے تھے۔رواں برس 19 مئی کو پیش آئے اس واقعے کی تفصیلات شاہ فہد کچھ یوں بتاتے ہیں کہ ’میں کمرے میں تلاوت کر رہا تھا جبکہ بچوں کی والدہ انھیں ناشتہ کروانے اور تیار کرنے میں مصروف تھیں۔میرے بچے مدرسے جانے کے لیے چھوٹے بھائی کا انتظار کر رہے تھے جو کہ ابھی اپنی چائے ختم کر رہا تھا۔‘شاہ فہد کے مطابق اسی دوران ان کے ایک بیٹے نے گھر کے اوپر فضا میں موجود ڈرون سے متعلق انھیں بتایا اور ابھی وہ اسے دیکھنے کے لیے اٹھنے ہی والے تھے کہ زور دار دھماکہ ہو گیا۔’دھماکے کے بعد گرد اور دھواں اٹھا۔ میں باہر بھاگا تو دیکھا کہ میرے دو بچے میرے سامنے موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ میں نے اپنے تیسرے شدید زخمی بچے کو گود میں اٹھایا، وہ بھی چند ہی لمحوں میں میری گود میں ہی دم توڑ گیا۔‘شاہ فہد کہتے ہیں کہ اس موقع پر محلے کے لوگ اُن کے گھر کے اندر مدد کے لیے داخل نہیں ہو پا رہے تھے کیونکہ حملہ آور ڈرون اوپر فضا میں ہی موجود تھا۔یہ واقعہ پیش آنے کے بعد میر علی میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا۔ شاہ فہد اپنے بچوں کی میتوں اور مقامی قبائل کے ہمراہ چھ روز کے لیے دھرنے پر بیٹھے اور یہ مطالبہ کیا کہ انھیں انصاف فراہم کیا جائے اور اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔ مقامی قبائل کی جانب سے متعلقہ سکیورٹی حکام کے اس علاقے سے تبادلے کے بارے میں بھی مطالبہ کیا گیا جبکہ مظاہرین کے ساتھ مذاکرات میں شامل سرکاری حکام نے مقامی قبائلی رہنماؤں کو آگاہ کیا کہ یہ ڈرون حملہ سکیورٹی حکام کی جانب سے نہیں کیا گیا تھا۔19 مئی کو پیش آئے اس واقعے کے چند روز بعد پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے یہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ ’اس واقعے کے فوراً بعد ایک جامع تفتیش کا آغاز کیا گیا اور ابتدائی نتائج سے یہ ثابت ہوا کہ اس گھناؤنے اقدام کی منصوبہ بندی اور اسے عملی جامع انڈیا کی پشت پناہی سے فتنہ الخوارج (طالبان) نے پہنایا ہے۔‘ آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا کہ ’سکیورٹی فورسز اس بات کو یقینی بنانے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتی ہیں کہ اس غیر انسانی فعل میں ملوث مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘اس نوعیت کے بیانات اور یقین دہانیوں کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا اور بچوں کی تدفین ہو گئی مگر شاہ فہد کے مطابق اس کے بعد وہ اپنا علاقہ چھوڑ کر ایک دوسرے شہر منتقل ہو گئے ہیں اور اپنے خاندان کے ہمراہ نئی زندگی شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔شاہ فہد کہتے ہیں کہ ’میں نے اُس وقت بھی کہا تھا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے لیکن یہ وعدہ کیا جائے کہ اس طرح کا واقعہ پھر نہیں ہو گا۔۔۔ لیکن کچھ دنوں بعد ہی قریبی گاؤں میں پھر ڈرون حملہ ہوا۔ اس میں کرکٹ کھیلتے ہوئے بچے زخمی ہو گئے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ جنوبی وزیرستان میں پیش آیا جہاں گراؤنڈ میں کھیلتے بچے زخمی ہو گئے تھے۔‘شاہ فہد ان دنوں اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے کرائے کا مکان لے لیا ہے اور اب ایک دکان میں کام شروع کریں گے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس نوعیت کے واقعات کے بعد اور بھی لوگ ہیں جو علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ ’اب بھی علاقے سے اطلاع آتی ہے کہ فضا میں ڈرون یا کواڈ کاپٹر ہیں۔ یہ کون کر رہا ہے، حکومت کچھ نہیں بتا رہی۔ حکومت ان کو کیوں نہیں روک پا رہی؟‘شدت پسندوں کی جانب سے ڈرونز کا بڑھتا استعمالBBCضلع بنوں کے تھانہ میریان پر گذشتہ چند ماہ کے دوران مجموعی طور پر کواڈ کاپٹرز کی مدد سے 13 حملے کیے جا چکے ہیں جس کے واضح آثار در و دیوار پر نظر آتے ہیںگذشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں اور ضلع بنوں میں کواڈ کاپٹر یا ڈرونز کے ذریعے حملوں کی مسلسل اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ اب شدت پسندوں کی جانب سے حملوں کے لیے کواڈ کاپٹرز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ضلع بنوں میں ایک ایسا تھانہ بھی ہے جہاں گذشتہ چند ماہ کے دوران مجموعی طور پر کواڈ کاپٹرز کی مدد سے 13 حملے کیے جا چکے ہیں۔ بی بی سی نے حال ہی میں اس تھانے کا دورہ کیا جہاں کے در و دیوار پر ان حملوں کے اثرات اب بھی واضح نظر آتے ہیں۔بنوں پولیس کے مطابق تھانہ میریان پر 13 کواڈ کاپٹر حملوں میں مجموعی طور پر اس تھانے میں تعینات دس پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔اس تھانے میں تعینات پولیس اہلکاروں کو اب ہر لمحے چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ یہاں اینٹی ڈرون ٹیکنالوجی نصب کی گئی ہے جبکہ حفاظت پر تعینات اہلکار نائٹ ویژن تھرمل ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اور یہ صورتحال اب محض تھانہ میریان تک محدود نہیں بلکہ طالبان کے حملوں کا زیادہ شکار بننے والے اضلاع میں پولیس چوکیوں اور تھانوں میں لگ بھگ ایسی ہی صورتحال ہے۔بنوں کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) سلیم عباس کلاچی نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس اب اس نوعیت کے حملوں کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے۔انھوں نے بتایا کہ ان کواڈ کاپٹر سے متعلق تفتیش یہ ظاہر کرتی ہے کہ شدت پسند بنیادی طور پر کمرشل کواڈ کاپٹرز کا استعمال کر رہے ہیں جو عام طور پر میڈیکل کٹس اور چھوٹا سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ ترسیل کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ طالبان کی نئی حکمت عملی، دوحہ معاہدہ یا سیاسی چپقلش: خیبرپختونخوا میں کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں شدت کیسے آئی؟جب نیک محمد نے ساتھی سے پوچھا ’سروں پر اُڑتا یہ عجیب دھاتی پرندہ کیا ہے؟‘جنت، حوریں اور شدت پسندی: ایک افغان نوجوان کی کہانی جو ’فدائی‘ بننے کے قریب پہنچ گیا تھا’پاکستانی سکیورٹی ادارے اپنی کمزوری چھپانے کے لیے افغانستان پر الزامات عائد کرتے ہیں‘: افغان وزیرِ دفاع کا اسلام آباد کو تعاون بڑھانے کا مشورہسلیم عباس کے مطابق ’مسلح افراد اِن کمرشل کواڈ کاپٹرز میں دیسی طریقے سے بارودی مواد نصب کر کے انھیں حملوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘انھوں نے کہا اس نوعیت کے حملوں کو روکنا مشکل تو ضرور ہے لیکن پولیس اب اس حوالے سے تیار رہتی ہے اور ماضی قریب میں کواڈ کاپٹر کے کئی حملے ناکام بھی بنائے گئے ہیں۔صرف ضلع بنوں ہی کی بات کی جائے تو پولیس کے مطابق رواں برس اپریل کے بعد سے اب تک اس ضلع میں واقع تھانوں اور چوکیوں پر کواڈ کاپٹرز کے ذریعے 18 حملے کیے جا چکے ہیں۔خیبرپختونحوا کے شدت پسندی سے متاثرہ اضلاع میں واقع چوکیوں اور تھانوں پر گولیوں اور دھماکوں کے نشانات واضح نظر آتے ہیں۔ اب ان کے گرد دیواروں کو کنکریٹ کے ساتھ مضبوط کیا جا رہا ہے جبکہ مورچوں کو بھی بہتر انداز میں تیار کیا جا رہا ہے۔ان اضلاع کے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ وہ اب اکثر فضا میں ڈرون یا کواڈ کاپٹرز دیکھتے ہیں اور ان کی موجودگی انھیں خوف کا إحساس دلاتی ہے۔بنوں، شمالی وزیرستان اور لکی مروت ریجن کے پولیس سربراہ سجاد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اب تک شدت پسندوں کے دو کواڈ کاپٹر گرائے بھی جا چکے ہیں۔ انھوں نے اس تاثر کی تردید کہ ان حملوں میں زیادہ نقصان عام شہریوں کا ہوا ہے۔سجاد خان کہتے ہیں کہ شدت پسندوں کے پاس جو کواڈ کاپٹرز ہیں وہ دیسی ساختہ ہیں جن میں بڑی ٹیکنالوجی نہیں ہوتی اور نہ ہی شدت پسند انھیں استعمال کرتے ہوئے مطلوبہ ہدف حاصل کر پاتے ہیں۔ ’اکثر ان شدت پسندوں کے حملے ناکام رہے ہیں، یعنی دھماکہ خیز مواد پھٹ نہیں پاتا۔‘انھوں نے کہا کہ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے سکیورٹی فورسز اور صوبائی حکومت نے خیبر پختونخوا پولیس کو جدید اسلحہ فراہم کرنا شروع کیا ہے جن میں اینٹی ڈرون ڈیوائس بھی شامل ہیں جو بنیادی طور پر پہلے ڈرونز کی نشاندہی کرکے انھیں جام کر دیتی ہیں اور پھر سکوپنگ کے عمل کے ذریعے انھیں فضا میں ہی ناکارہ بنا دیا جاتا ہے یا ان کا کنٹرول حاصل کر لیا جاتا ہے۔’سستے چینی کواڈ کاپٹرز اور کمرشل ڈرون‘سینیئر صحافی اور تجزیہ کار احسان اللہ ٹیپو محسود نے بی بی سی کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں شدت پسندوں کی جانب سے حملوں میں استعمال ہونے والے کواڈ کاپٹر اُن ڈرونز سے یکسر مختلف ہیں جو امریکہ، پاکستان اور أفغانستان سمیت دیگر ممالک میں اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سستے چینی کواڈ کاپٹر ہیں۔ شدت پسند اِن میں رد و بدل کر کے اور ان میں بارودی مواد نصب کر کے استعمال کر رہے ہیں۔‘احسان اللہ ٹیپو محسود کے مطابق حالیہ دنوں میں کالعدم عسکریت پسند تنظیمیں جیسا کہ اتحاد المجاہدین پاکستان اور طالبان کے حافظ گل بہادر گروپ کی جانب سے یہ کواڈ کاپٹر استعمال کرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور ان تنظیموں کی جانب سے تھانوں پر حملوں کے بعد ویڈیوز بھی جاری کی گئی ہیں۔سوشل میڈیا پر حکام اور شدت پسندوں کی جانب سے اس ضمن میں ریلیز کی گئی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے پلاسٹک کی بوتل میں بارودی مواد ڈال کر اور اس پر بیڈمنٹن شٹل لگا کر اسے ڈرون کی مدد سے ہدف پر پھینکا جاتا ہے۔امریکہ میں مقیم پروفیسر مدیحہ طاہر نے وار ٹیکنالوجی پر تحقیق کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’عموماً کمرشل کمپنیاں بھی ڈرون تیار کرتی ہیں اور انھیں فوٹو گرافی یا ہلکا سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے یا ڈیلیوری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں یہ کمرشل ڈرون یا کواڈ کاپٹرز ’سٹیٹ ایکٹرز اور نان سٹیٹ ایکٹرز دونوں کی جانب سے استعمال کیے جا رہے ہیں۔‘پروفیسر مدیحہ طاہر نے کہا کہ ’اس نوعیت کی ٹیکنالوجی میں ایکوریسی (یعنی ہدف کو درستگی سے نشانہ بنانا) ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے۔‘تجزیہ کار عبدالسید کے مطابق حالیہ مہینوں میں پاکستانی طالبان کی جانب سے کواڈ کاپٹرز اور چھوٹے سائز کے کمرشل ڈرونز کے ذریعے حملے کر کے اُن کی ذمہ داری قبول کرنے کے عمل میں اضافہ ہوا ہے اور بظاہر یہ سیکورٹی فورسز پر شدت پسندوں کے حملوں کے تخریبی پہلو میں ایک اضافہ ہے۔عبدالسید کے مطابق پاکستان میں اس نوعیت کے حملوں کی خبریں پہلی مرتبہ 2024 کے اوائل میں شمالی وزیرستان سے سامنے آئیں، تاہم پاکستانی طالبان نے ابتدا میں ان کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کیا۔اُن کے مطابق رواں برس کے آغاز سے ’طالبان نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے ساتھ اِن حملوں کی ریکارڈڈ ویڈیو فوٹیج بھی اپنے پراپیگنڈا آؤٹ لیٹس پر ریلیز کرنا شروع کیں۔‘عبدالسید کہتے ہیں کہ ابتدا میں اِن حملوں کی اعلانیہ طور پر ذمہ داری قبول کرنے سے متعلق کالعدم تحریک طالبان کے دھڑوں میں اختلافات تھے، جو سوشل میڈیا پر اِن گروہوں کے مختلف رسمی چینلز پر باہمی تنازع کی صورت میں بھی سامنے آئے۔ ’اِس نوعیت کے حملوں کی پہلی مرتبہ ذمہ داری اپریل 2025 میں حافظ گل بہادر کی قیادت میں بننے والی پاکستانی طالبان کے اتحادِ المجاہدین نے میڈیا بیانات میں قبول کی، جس پر پاکستانی طالبان کے سب سے بڑے دھڑے تحریکِ طالبانِ پاکستان کے حمایتیوں کی جانب سے کافی تنقید کی گئی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ ڈرون کے استعمال کی اعلانیہ تصدیق نہ کی جائے۔‘عبدالسید کے مطابق ’یہ تنقید کرنے والوں کی رائے یہ تھی کہ یہ طالبان کی جانب سے استعمال کی جانے والی ایک نئی ٹیکنالوجی ہے اور اس سے متعلق ذمہ داری قبول کرنے اور ویڈیوز ریلیز کرنے کی صورت میں اس کی سپلائی لائن متاثر ہو سکتی ہے۔ تاہم تنقید کے باوجود جب اتحادِ المجاہدین کی جانب سے اس پر کوئی کان نہ دھرا گیا تو کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے بھی اپنے حملوں کی روزمرہ اور ماہانہ رپورٹس میں ذمہ داری قبول کرنا شروع کر دی۔‘انھوں نے کہا کہ کالعدم تنظیموں جیسا کہ ’اتحادِ المجاہدین اور تحریکِ طالبانِ پاکستان کی جانب سے اب اس پر خصوصی پراپیگنڈا ویڈیوز تیار کر کے انھیں ایک اہم کامیابی کے طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔‘عبدالسید کے مطابق ’اگر دیکھا جائے تو فقط شدت پسند ہی نہیں بلکہ سکیورٹی فورسز بھی شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں ڈرون حملوں کا استعمال کرتی ہیں، جس کی فوٹیج فورسز کے حامی میڈیا آؤٹ لیٹس سے ریلیز ہوتی ہیں۔‘جنت، حوریں اور شدت پسندی: ایک افغان نوجوان کی کہانی جو ’فدائی‘ بننے کے قریب پہنچ گیا تھا’پاکستانی سکیورٹی ادارے اپنی کمزوری چھپانے کے لیے افغانستان پر الزامات عائد کرتے ہیں‘: افغان وزیرِ دفاع کا اسلام آباد کو تعاون بڑھانے کا مشورہجب نیک محمد نے ساتھی سے پوچھا ’سروں پر اُڑتا یہ عجیب دھاتی پرندہ کیا ہے؟‘انڈین فوج کی نئی ’ڈرون بٹالین‘ کیا اسے پاکستانی فوج پر برتری دلائے گی؟خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں مبینہ ڈرون حملوں کے بعد خوف: ’اب لوگ گھروں میں بھی محفوظ نہیں‘فوجی آپریشن کی ڈرون ویڈیوز: کیا پاکستانی فوج کی شدت پسندوں کے خلاف حکمت عملی تبدیل ہوئی ہے؟