
Getty Imagesجب ایشیا کپ شروع ہوا تو چہ میگوئیوں سے گرم بازار کےمبصرین و ماہرین کی اکثریت کے ہاں پاکستان کسی شمار قطار میں نہ تھا۔ کوئی افغانستان کو دوسری بہترین ایشیائی ٹیم قرار دے رہا تھا تو کوئی سری لنکا ہی کی بلائیں لیے جا رہا تھا۔’ماہرین‘ کے مطابق پاکستان کی یہ ٹیم بیٹنگ میں نہایت کمزور تھی، بولنگ میں بھی ناقابلِ تسخیر نہیں تھی اور اس کپتان کو تو ان کے خیال میں الیون کا حصہ بھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔اپنے قیمتی اوقات میں سے ’چند‘ لمحات ٹی وی سکرینوں کو عنایت کرنے والے مبصرین کبھی کسی کھلاڑی پر ’پرچی‘ کا لیبل چپکا رہے تھے تو کبھی کسی کے ٹیلنٹ کا ٹھٹھا اڑا رہے تھے۔اور پھر جو شائقین کی تعداد دو برس پہلے اس کرکٹ ٹیم کو میسر تھی، آج وہ بھی نہیں۔ تمام تر جمع تفریق کے بعد، یہ کہا جا سکتا ہے کہ تقریباً کوئی بھی سلمان آغا کی ٹیم کو خاطر میں نہیں لا رہا تھا۔پاکستان کرکٹ کی دقت اس کا کھیل نہیں، اس کے تماشائی ہیں۔ بدقسمتی اس کی یہ بھی ہے کہ ان ہی تماشائیوں میں سے کچھ مبصرین بھی ہو جاتے ہیں اور گاہے بگاہے ماہرین بھی کہلائے جانے لگتے ہیں۔بڑے ٹورنامنٹس میں ٹیموں کی قسمت اس بل پر طے ہوتی ہے کہ ان کے 11 کھلاڑی ایک ٹیم کے طور پر کیسے دکھائی دیتے ہیں۔ انفرادی صلاحیتیں اپنی جگہ اہم مگر مشکلات سے نکلنا کوئی ٹیم تبھی سیکھتی ہے جب 11 فرد ایک ٹیم بن جائیں۔طویل ٹورنامنٹس میں مشکلات کا آنا ناگزیر ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش کے خلاف بھی پاکستان کا مشکل میں آنا ناگزیر تھا۔ یہ پچ استعمال شدہ تھی اور یقیناً یہاں بیٹنگ دشوار ہونا تھی۔ حالیہ پاکستانی ٹاپ آرڈر کا گیم پلان یہاں چل نہیں سکتا تھا۔غلطی پاکستان سے اندازے کی بھی ہوئی کہ یہاں 170 کے مجموعے تک پہنچنے کی کوشش کی گئی حالانکہ دبئی کی استعمال شدہ پچ پر 150 بھی ایک ناقابلِ تسخیر مجموعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس اندازے کی غلطی نے پاکستان کو مسابقت سے 15 رنز پیچھے ہی روک دیا۔بنگلہ دیشی بولنگ نہ صرف ڈسپلن میں بے مثال تھی بلکہ تھنک ٹینک کی فراہم کردہ سٹریٹیجینبھانے میں بھی خوب رہی۔ پاکستان کی پہلی چاروں وکٹیں لگ بھگ ویسے ہی گریں جیسے کاغذ پر طے کی گئی ہوں گی۔پاکستانی ٹاپ آرڈر کی صلاحیتیں سست پچز پر جارحیت کے لیے ویسے بھی زیادہ موثر نہیں اور پھر بنگلہ دیشی بولنگ کی درستی جب پچ کی سستی کے ہمرکاب ہو رہی تو مشکل بھی دوچند ہو گئی۔Getty Imagesعین اس لمحے جب بولنگ اٹیک کو ان کی سب سے زیادہ ضرورت پڑی، شاہین آفریدی اپنی بہترین فارم میں آ گئے ہیںمشکل ہر ٹیم پر آتی ہے مگر تگڑی ٹیم وہی ہوتی ہے جو کھیل کے بیچوں بیچ اس مشکل سے نکلنے کی راہ کھوجنا جانتی ہو۔پاکستانی لوئر آرڈر نے اس مشکل سے نکلنے کی راہ ڈھونڈی، جو پچ سے مطابقت نہ رکھنے والے ٹاپ آرڈر بیٹنگ پلان نے پیدا کی تھی۔ بلاشبہ پاکستان کا حتمی مجموعہ فاتحانہ نہیں تھا مگر امید افزا بہرحال تھا کہ، اپنے بہترین پر، پاکستانی بولنگ اس کا دفاع کرنے کے قابل تھی۔بڑی خوش بختی پاکستان کی یہ ہے کہ عین اس لمحے جب بولنگ اٹیک کو ان کی سب سے زیادہ ضرورت پڑی، شاہین آفریدی اپنی بہترین فارم میں آ گئے ہیں۔ اس سے بھی نمایاں بات یہ ہے کہ شاہین کا یہ ورژن ان کے ابتدائی کرئیر سے زیادہ ’خطرناک‘ ہے۔اب شاہین کو دستیاب ’ہتھیار‘ بڑھ چکے ہیں۔ پہلے وہ عموماً ایک ہی طرح کی سوئنگ اور اپنی پیس پر بھروسہ کیا کرتے تھے مگر اب وہ اچھی پیس کے ساتھ سوئنگ کی ورائٹی آزمانے کے قابل ہیں۔ بنگلہ دیشی ٹاپ آرڈر کا پالا اگر ان سے نہ پڑتا تو یہ ہدف ہرگز مشکل نہ ہو پاتا۔گو بیٹنگ میں سلمان آغا ابھی تک اپنی مشکلات سے نہیں نکل پائے لیکن بطور کپتان وہ بھی اپنے بہترین پر دکھائی دیے۔ سیف حسن جس بیٹنگ فارم میں ہیں، اس کا توڑ صرف حارث رؤف ہی ہو سکتے تھے اور انھیں پاور پلے کے اندر ہی نمٹا دینے کو جو سٹریٹیجی بنائی گئی، قابلِ تحسین تھی۔جو ٹیم ورک پاکستان نے اس میچ میں دکھایا، وہ نہ صرف ایک ’معجزاتی‘ جیت رقم کر گیا بلکہ اس ٹیم کا اعتماد بھی سیروں بڑھا گیا کہ اگر یہ ایسی مشکلات سے بھی نکل کر جیتنا سیکھ چکی ہے تو یہ چیمپیئن ٹیموں میں شمار ہونے کی دوڑ دوڑ سکتی ہے۔کسی بھی ٹیم میں جب چہرے بدلتے ہیں تو شائقین کی آرا بھی بدلتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے ’قطبیت زدہ‘ ماحول میں بہت سے شائقین نے اس ٹیم کا بائیکاٹ ہی کر ڈالا تھا لیکن جیسی پرفارمنس کے بل پر یہ ٹیم فائنل تک آئی ہے، اب اسے نظر انداز کرنا بھی حماقت سے ارزاں نہ ہو گا۔پاکستان بنگلہ دیش کو ہرا کر ایشیا کپ کے فائنل میں پہنچ گیا، اتوار کو انڈیا سے مقابلہ ہوگاحارث کا 0-6 کا اشارہ، فرحان کا جشن اور ابھیشیک سے تلخ کلامی: پاکستان انڈیا میچ کے دوران سامنے آنے والے پانچ تنازعاتابرار احمد اور ہسرنگا کی ’سپورٹس مین سپرٹ‘ کا چرچا: ’یہ وہ چیز ہے جو انڈین کرکٹ ٹیم کبھی نہیں سیکھ سکتی‘’سوال اب ہاتھ ملانے کا نہیں، پنجہ آزمانے کا ہے‘’ہینڈ شیک‘ تنازع سے اُٹھنے والا طوفان جو تھم نہ سکا: ’دونوں ملک کرکٹ کو وار پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں‘’فاتح اور چیمپیئن کا فرق جیت کے انداز میں چھپا ہوتا ہے‘