
Getty Imagesگذشتہ کئی گھنٹوں سے پاکستان میں سوشل میڈیا پر اسلام آباد کے معروف کابل ریسٹورنٹ کو بند کرنے کی اطلاعات گردش کر رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس کے مالکان ڈیجیٹل یا کیش لیس ادائیگیاں قبول نہیں کر رہے تھے۔پاکستان میں کاروباری شخصیات کا ڈیجیٹل ادائیگیاں قبول نہ کرنا کوئی نہیں بات نہیں ہے بلکہ اکثر کچھ دکانداروں کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ کارڈ سے رقم کی ادائیگی کی صورت میں کچھ فیصد رقم زیادہ چارج کی جائے گی۔پاکستان کی اقتصادی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے ماہرِ معیشت شاہد محمود کہتے ہیں کہ کاروباری شخصیات کی جانب سے نقد ادائیگیوں پر اصرار کرنا کوئی نہیں بات نہیں ہے۔انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’حکومت ڈیجیٹل ادائیگیوں پر اس لیے زور دے رہی ہے کیونکہ نقد ادائیگیوں کی اصل قدر معلوم کرنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے۔‘انھوں نے کابل ریسٹورنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میڈیا میں ایک ریسٹورنٹ کے بارے میں جو بات کی گئی ہے کہ وہ کیش لیتا ہے تو وہ کوئی اکیلا ایسا ریسٹونٹ نہیں ہے بلکہ ایسے بہت سارے دوسرے ریسٹورنٹس اور شاپنگ سنٹرز بھی ہیں جو صرف نقد ادائیگیوں پر ہی کام کرتے ہیں۔‘لیکن ان تمام باتوں کے باوجود بھی حکومتی حکام ملک کی معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے لیے کوشاں ہیں اور کیش لیس یا ڈیجیٹل ادائیگیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس حوالے سے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق اس اضافے کی وجہ ریگولیٹری اقدامات، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں بہتری اور عوام میں موبائل اور انٹرنیٹ بینکنگ کے بڑھتے ہوئے رجحانات شامل ہیں۔سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ مالی سال میں ڈیجیٹل ادائیگیوں میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور ملک بھر میں نو ارب سے زیادہ کی ٹرانزیکشنز نوٹ کی گئی ہیں، جن کی مجموعی مالیت 612 روپے بنتی ہے۔سٹیٹ بینک کے مطابق گذشتہ برس ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے کی جانے والی ادائیگیوں کا حصہ بڑھ کر 88 فیصد ہو گیا ہے، جو اس سے پچھلے سال 85 فیصد تھا۔Getty Imagesسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ریٹیل سیکٹر میں ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے کی جانے والی ادائیگیوں کا حصہ بڑھ کر 88 فیصد ہو گیا ہےرپورٹ کے مطابق موبائل بینکنگ ایپس کے ذریعے 6.2 ارب سے زائد کی ٹرانزیکشنز ہوئیں، جو کہ گذشتہ برس کے مقابلے میں 52 فیصد زیادہ تھیں۔ دوسری طرف انٹرنیٹ بینکنگ کے ذریعے ساڑھے 29 کروڑ سے زیادہ ادائیگیاں کی گئی ہیں، جس میں مجموعی طور پر 33 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔مرکزی بینک کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فوری ادائیگی کے پلیٹ فارم ’راست‘ کے ذریعے ادائیگیوں کی تعداد اور مالیت دونوں میں دُگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور یہ ملک میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کے سسٹم کا ایک اہم ستون ثابت ہوا ہے۔مرکزی بینک کے مطابق ڈیجٹیل ادائیگیوں میں اضافہ صارفین میں ڈیجیٹل مالیاتی اداروں پر اعتماد میں اضافے کو ظاہر ہوتا ہے۔معاشی امور کے ماہرین کےمطابق ڈیجٹیل ادائیگیوں میں بلاشبہ اضافہ تو ہوا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کے پاس موجود ادائیگیوں کا ڈیٹا صرف ان ریٹیل سٹورز کا ہے جو ایف بی آر کے سسٹم سے منسلک ہیں اور بڑے شہروں مین واقع ہیں۔ ان کے مطابق ابھی بھی پاکستان کے ریٹیل کے شعبے میں نقد ادائیگیاں ہی سب سے زیادہ کی جاتی ہیں۔ماہر معیشت شاہد محمود نے بی بی سی کو بتایا کہ سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کہ اگر کوئی کیش میں ٹرانزیکشن کر رہا ہے تو یہ غیر قانونی نہیں ہےکیونکہ کرنسی نوٹ حکومت پاکستان ہی جاری کرتی ہے۔’بڑے شہروں میں تو انٹرنیٹ کی سپیڈ بہتر ہوتی ہے لیکن جب شہروں سے باہر نکل کر خریداری کرنا پڑے تو اس کے لیے کیش ہی استعمال ہوتا ہے، کیونکہ شہروں سے باہر ڈیجیٹل ادائیگیوں کا کلچر نہیں ہے اور اس کے ساتھ انٹرنیٹ کی سپیڈ اور دوسرے مسائل بھی موجود ہیں۔‘Getty Imagesمرکزی بینک کے مطابق پاکستان میں فوری ادائیگی کے پلیٹ فارم ’راست‘ کے ذریعے ادائیگیوں کی تعداد اور مالیت دونوں میں دُگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہےریٹیل ڈیجٹیل ادائیگیاں اور ادارہ جاتی و انٹر بینک ٹرانسفرزمرکزی بینک کی جانب سےڈیجیٹیل ادائیگیوں میں اضافے کے بارے میں بات کرتے ہوئے مالیاتی امور کے ماہر اور بینکاری شعبے سے وابستہ راشد مسعود کہتے ہیں کہ سٹیٹ بینک کے فراہم کردہ اعداد و شمار میں ادارہ جاتیاور بینکوں کے مابین ہونے والی منتقلیوں (انٹر بینک ٹرانسفر) کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتا گیا۔’رپورٹ میں ریٹیل ادائیگیوں کا ذکر کیا گیا ہے، جو صارفین یا انفرادی بنیادوں پر مختلف الیکٹرانک ذرائع (جیسے کہ والیٹ اکاؤنٹس، راست، موبائل بینکنگ وغیرہ) کے ذریعے انجام پانے والی ادائیگیوں اور منتقلیوں پر مشتمل ہیں۔‘تربیلا ڈیم میں اربوں ڈالر مالیت کے سونے کی موجودگی کا دعویٰ: ’خواب دکھانا چھوڑیں اور مستند نتائج دکھائیں‘سیمی کنڈکٹر چپس کی عالمی دوڑ اور پاکستان کا منصوبہپاکستان میں تیل کے آف شور بلاکس کی کامیاب بولیاں موصول: ’وسیع ذخائر‘ کہاں ہیں اور دریافت کا کام دوبارہ کیوں شروع کیا گیا؟مختلف ممالک اپنے ذخائر میں ہزاروں ٹن سونا کیوں رکھتے ہیں اور کیا اس قیمتی دھات کی قیمت میں حالیہ اضافے کی وجہ چین ہے؟تاہم کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عوام اب بھی نقد ادائیگیوں کو ترجیح دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔بینکاری اور مالیاتی امور پر دسترس رکھنے والے ابراہیم امین نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ سٹیٹ بینک نے جو ڈیجٹل اور الیکٹرنک ادائیگیوں کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں ان میں بینکوں، کارپوریٹ اور عوامی لین دین کو شامل کیا گیا ہے۔’مگر عوامی سطح پر ڈیجٹل لین دین ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔ پاکستان میں اس وقت تقریباً ایک لاکھ پوائنٹ آف سیلز ہیں۔ اس وقت بھی عوامی سطح پر لین دین نقد رقم میں ہورہا ہے۔‘کیا 88 فیصد ڈیجیٹل ادائیگیاں کا دعویٰ بازاروں اور روزمرہ کے ریٹیل خریداری کے رویوں سے مطابقت رکھتا ہے؟سٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ریٹیل سیکٹر میں ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے کی جانے والی ادائیگیوں کا حصہ بڑھ کر 88 فیصد ہو گیا ہے۔تاہم ابراہیم امین اس بات سے پوری طرح اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار دیکھ کر یہ ابہام پیدا ہوا ہے کہ ریٹیل سیکٹر میں 88 فیصد ادائیگیاں ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے کی گئی ہیں۔’دراصل یہ ڈیٹا ان ریٹیل سٹورز کا ہے جو کہ براہ راست ایف بی آر کے سسٹم سے منسلک ہیں۔ یہ سٹورز شہروں میں واقع ہیں اور یہاں سے زیادہ تر خریداری متوسط طبقے کے افراد کرتے ہیں، جو کہ نقد کے بجائے ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کو استعمال کرتے ہیں۔‘’یہ سٹورز جن کا ذکر سٹیٹ بینک کی پریس ریلیز میں کیا گیا ہے وہ بہت کم تعداد میں ہیں اور آبادی کا ایک مخصوص حصہ ہی انہیں استعمال کرتا ہے۔‘تاہم ابراہیم امین کہتے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کل نوجوان اور تعلیم یافتہ افراد ڈیجیٹل ذرائع سے ادائیگیاں کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اب بینکوں کے باہر یوٹیلیٹی بلز جمع کروانے والوں کا رش نظر نہیں آتا ہے۔Getty Imagesتاہم کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عوام اب بھی نقد ادائیگیوں کو ترجیح دیتے ہوئے نظر آتے ہیںکچھ ماہرین کہتے ہیں کہ اب مزدور طبقہ بھی ڈیجیٹل ادائیگیوں کی طرف آ رہا ہے۔ معاشی امور کے ماہر راشد مسعود کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ موجودہ دور میں مزدور طبقہ اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد کے پاس بھی ایزی پیسہاکاؤنٹس موجود ہیں۔انھوں نے کہایہ بات عام مشاہدے میں آئی ہے کہ مکینک، پلمبر اور دیگر ہنر مند بھی ان دنوں موبائل والٹس کا استعمال کر رہے ہیں۔پاکستان میں معیشت کا کتنا حصہ دستاویزی شکل میں نہیں ہے ؟وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر موجود ایک پریس ریلیز کے مطابق وزیر خزانہ کے مشیر خرم شہزاد اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان میں اب بھی زیادہ تر لین دین نقد کی صورت میں ہوتا ہے اور اندازہ ہے کہ ملک کی غیر دستاویزی معیشت اب بھی جی ڈی پی کا 40 فیصد ہے، جس کی وجہ سے مجموعی قومی پیداوار اور مـحصولات میں کمی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔تاہم ماہرمعیشت راشد مسعود سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں کوئی درست تخمینہ لگانا مشکل ہے کیونکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کبھی باضابطہ طور پر غیر دستاویزی معیشت کے حوالے سے اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں۔’لیکن وزیرِ خزانہ کے حالیہ بیانات کے مطابق پاکستان کی معیشت کا مجموعی حجم ایک کھرب امریکی ڈالر لگایا گیا ہے، جس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ معیشت کا حقیقی حجم 500 سے 600 ارب امریکی ڈالر کے درمیان ہے۔‘دوسری جانب راشد مسعود کے بقول بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق پاکستان کی معیشت کا موجودہ حجم تقریباً 410 ارب امریکی ڈالر ہے۔ماہرِ معیشت کا کہنا ہے کہ ریٹیل میں ڈیجیٹیل ادائیگیوں سے معیشت کو مکمل طور پر دستاویزی شکل نہیں دی جا سکتی۔ڈیجیٹل ادائیگیوں میں اضافے کے لیے کیا اقدامات لیے جا رہے ہیں؟سٹیٹ بینک کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی جانب سے ’ویژن 2028 کے تحت ریگولیٹری اقدامات اُٹھائے ہیں جو ڈیجیٹل مالیاتی نطا٘ کو جدید بنانے کی سمت ایک اہم قدم ہے۔‘Getty Imagesکچھ ماہرین کہتے ہیں کہ اب مزدور طبقہ بھی ڈیجیٹل ادائیگیوں کی طرف آ رہا ہےمعاشی تجزیہ کار ابراہیم امین کہتے ہیں کہ سٹیٹ بینک اور حکومتی سطح پر ڈیجیٹل لین دین کو فروغ دینے پر بہت کام ہورہا ہے۔’سٹیٹ بینک نے چھوٹی ادائیگیوں کے لیے راست پلیٹ فارم متعارف کروایا ہے، اس کے بعد کیو آر کوڈ اور ڈیجٹل ایپس کے ذریعے ادائیگیوں میں اضافہ ہورہا ہے، مگر ابھی بھی ایک مکمل ایکو سسٹم کے بننے میں وقت لگے گا۔‘انھوں نے کہا کہ ڈیجٹل ادائیگیوں خصوصاً کیو آر کوڈ کے زریعے ادائیگیوں میں سب سے بڑی رکاوٹ انٹرنیٹ کی سست رفتار ہے، جس کے باعث اکثر اوقات ایپس کنیکٹ ہی نہیں ہوپاتیں۔پاکستان کا سیمی کنڈکٹر چِپس بنائے بغیر اس شعبے میں ہزاروں نوکریاں پیدا کرنے کا منصوبہ اور سعودی شراکت کی امیدحاملہ خاتون کی برطرفی پر کمپنی کو 10 لاکھ جرمانہ: پاکستان میں خواتین ’میٹرنٹی لیو‘ مانگنے سے کیوں ہچکچاتی ہیں؟پاکستان میں سونے کے بعد چاندی کی قیمت میں اضافے کی وجوہات کیا ہیںچناب پر 313 ارب روپے مالیت کے انڈین آبی منصوبے کی ماحولیاتی منظوری: اس منصوبے کے پاکستان پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟’22 امیر ترین خاندان‘: پاکستان کے ماضی کے امیر ترین خاندانوں کی دولت میں کمی کیسے ہوئی اور ارب پتیوں کی نئی فہرست میں کون شامل ہے؟