لال نور اسلام آباد کے نواحی علاقے بھارہ کہو کے رہائشی ہیں اور پیشے کے اعتبار سے ایک پراپرٹی ڈیلر ہیں۔وہ تین نومبر کو اپنے ایک معمول کے کام سے بنی گالہ میں موجود تھے تو اُنہیں ایک کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ان کے کرایہ دار کا انتقال ہو گیا ہے۔بلال نور نے ابتدا میں تو یہ سمجھا کہ شاید اُن کی موت طبعی ہے، لیکن جب اُنہیں دوبارہ ایک پولیس افسر کی جانب سے فون کال پر بتایا گیا کہ آپ کے کرایہ دار محمد قیوم کا قتل ہوا ہے، اور ملزموں نے تیز دھار آلے کی مدد سے اُن کا گلا کاٹ دیا ہے تو انہیں معاملے کی سنگینی کا ادراک ہوا۔مقدمہ کے مدعی بلال نور کے مطابق 115 برس کے مقتول محمد قیوم کا تعلق مری سے تھا، جو گذشتہ 16 ماہ سے اُن کے کرایہ دار تھے۔ محمد قیوم اکیلے رہتے تھے اور اُن کا اپنے خاندان کے کسی فرد کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں تھا اور بظاہر اُن کا کوئی ذریعۂ معاش بھی نہیں تھا۔بلال نور نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’اُنہوں نے بھارہ کہو مری روڈ سے ملحقہ جمعہ بازار میں رہائشی کمرے اور دو دکانیں کرایہ پر دے رکھی تھیں۔محمد قیوم بھی انہی رہائشی کمروں میں سے ایک میں کرایہ دار تھے، جو ماہانہ ایک ہزار روپے کرایہ ادا کرتے تھے۔‘تھانہ بھارہ کہو کے ایس ایچ او عالمگیر خان کے مطابق مقتول شہری محمد قیوم بھیک مانگا کرتے تھے۔ جس دن اُنہیں قتل کیا گیا اُن کے پاس 94 ہزار روپے نقدی موجود تھی جو ملزم لے کر فرار ہو گئے تھے۔محمد قیوم کو قتل کرنے والے ملزموں کا تعلق بھی مری سے ہے، جو گذشتہ کچھ عرصہ سے محمد قیوم پر نظر رکھے ہوئے تھے کہ وہ بھیک مانگ کر روزانہ کنتی کمائی کر لیتے ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ ’ملزموں کو جب یہ معلوم ہوا کہ بزرگ شہری کے پاس 94 ہزار روپے موجود ہیں تو وہ مری روڈ بھارہ کہو سے ملحقہ جمعہ بازار میں محمد قیوم کے کمرے میں پہنچ گئے اور اُنہیں موت کی نیند سلا دیا۔‘اسلام آباد پولیس نے بزرگ شہری کے قتل میں ملوث ملزم گرفتار کر لیے ہیں۔تھانہ بھارہ کہو کے ایس ایچ او عالمگیر خان کے مطابق اندھے قتل کو ٹریس کرنے کے لیے مختلف تفتیشی ٹیمیں بنائی گئی تھیں۔ پولیس ٹیموں نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا اور ملزموں کو ٹریس کر لیا۔‘دوسری جانب بھارہ کہو میں ہی رہائش پذیر ایک اور 70 سالہ بزرگ شہری محمد اشرف قائدااعظم یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے گھر میں رکھی ہوئی ایک گائے کی دیکھ بھال کرتے تھے۔وہ بھارہ کہو کے علاقے محلہ چوہدریاں میں مقیم ہیں، اور ہر شام چار بجے کے قریب اپنی گائے کے لیے گھاس لانے کے لیے چلے جاتے تھے۔محمد اشرف کے بیٹے کشور محمود کے مطابق اُن کے والد نے ریٹائرمنٹ کے بعد خود کو مصروف رکھنے کے لیے گائے خرید لی تھی جس کی وہ خود ہی دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔بزرگ شہری محمد اشرف نے یکم نومبر کو جمعہ کے بعد بینک سے اپنی پنشن لینے بھی جانا تھا، اس لیے وہ صبح کے وقت ہی اپنی گائے کے لیے گھاس لانے کے لیے چلے گئے تھے۔محمد اشرف نے صبح 10 بجے کے قریب اپنے گھر والوں کو بتایا کہ وہ گائے کے لیے گھر کے قریب سے ہی گھاس کاٹ کر لا رہے ہیں کیونکہ جمعہ کے بعد اُنہوں نے بینک سے پنشن نکلوانے جانا ہے۔70 سالہ بزرگ شہری گھر سے باہر گھاس کاٹنے کے لیے گئے، لیکن پھر زندہ واپس نہ لوٹے۔ محمد اشرف کے بیٹے کشور محمود جو وزیراعظم آفس میں نیم سرکاری ملازمت کر رہے ہیں، اُنہیں دوپہر کے وقت گھر سے ایک کال آئی کہ ’ابا گھاس کاٹنے گئے تھے مگر کافی وقت گزرنے کے بعد بھی واپس نہیں لوٹے۔‘کشور محمود یہ سنتے ہی فوری طور پر گھر پہنچے اور انہوں نے اہل محلہ کے ساتھ مل کر اپنے والد کی تلاش شروع کر دی۔اپنے والد کی تلاش میں جب وہ مری روڈ پر قائم ایک نجی سپر سٹور کے قریب پہچنے تو اُنہیں اس کے قریب جھاڑیوں میں ایک شخص کی لاش دکھائی دی۔ اُنہوں نے قریب سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ اُن کے والد محمد اشرف کی لاش تھی جنہیں گلا کاٹ کر قتل کر دیا گیا تھا۔بھارہ کہو پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او عالمگیر خان نے اس حوالے سے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بزرگ شہری محمد اشرف کے قتل کی ایف آئی آر اُن کے بیٹے کی مدعیت میں درج کر کے تفتیش کی جا رہی ہیں اور جلد ہی ملزموں کو گرفتار کر لیا جائے گا۔کیا دونوں بزرگ شہریوں کے قتل کے ملزم ایک ہی ہیں؟رواں ماہ کے دوران بھارہ کہو میں ایک ہی انداز میں دو بزرگ شہریوں کا قتل ہوا، جس سے بظاہر یہ معلوم ہو رہا تھا کہ شاید کوئی ایک ہی گینگ اس طرح شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔تاہم جب اُردو نیوز نے تھانہ بھارہ کہو کے ایس ایچ او عالمگیر خان سے اس بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’جب محمد قیوم نامی شہری کے قتل میں ملوث ملزموں کو گرفتار کیا گیا تو ابتدا میں یہی شبہ گزرا کہ شاید ان دونوں وارداتوں میں ملوث ملزم ایک ہی ہیں۔‘’تاہم جب ہم نے ملزموں کی گرفتاری کے بعد مزید تفتیش کی، تو یہ بات سامنے آئی کہ ان دونوں کیسز کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ ان ملزموں نے 115 سالہ شہری کو ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر قتل کیا جب کہ محمد اشرف کے قتل کی تفتیش کی جا رہی ہیں مگر ملزموں کا سراغ لگانے میں سرِدست کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔‘