پاکستان سٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس میں ایک لاکھ پوائنٹس کی نفسیاتی حد عبور کر گئی۔ یہ وہ خبر ہے جو جمعرات کو ملک کے تمام میڈیا میں شہ سرخیوں کی زینت ہے۔وزیراعظم شہباز شریف سمیت حکومت اتحاد کے رہنما اس خبر کو ملکی معیشت میں بہتری کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ وہیں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے افراد اس کو ’جعلی بلبلے‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔سیاست اپنی جگہ لیکن سٹاک ایکسچینج کی خبروں میں سب سے زیادہ تواتر سے استعمال ہونے والی اصطلاحات جیسا کہ ’نفسیاتی حد‘ عبور ہو گئی کا اصل میں مطلب کیا ہوتا ہے؟اس حوالے سے سابقہ لاہور سٹاک ایکسچینج کے چئیرمین عاصم ظفر بتاتے ہیں ’جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ لفظ کا تعلق کاروباری افراد کی نفسیات سے ہے۔ اور سٹاک ایکسچینج اوپر جا رہی ہو یا نیچے جا رہی وہ انوسیٹرز کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ یعنی وہ اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ اب انہوں نے اپنا سٹاک بیچنا ہے یا خریدنا ہے۔‘عاصم ظفر کا کہنا تھا کہ ’ویسے میڈیا میں ایک ہزار پوائنٹس اوپر جانے پر بھی عام طور پر یہی اصطلاح استعمال کر دی جاتی ہے لیکن اصل میں یہ بینچ مارک پانچ ہزار اور دس ہزار پوائنٹس اوپر جانے پر استعمال ہوتی ہے۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج کا اوپر جانے کا سفر 44 ہزار پوائنٹس سے شروع ہوا تو 50 ہزار پوائنٹس پر پہنچنے پر ایک نفسیاتی حد عبور ہوئی، کہ یہ ایک مستحکم مارکیٹ بن رہی ہے اور خریداروں کا اعتماد بڑھ رہا ہے۔‘انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’اسی طرح 55 اور 60 ہزار پوائنٹس کراس کرنے پر بھی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں مزید بہتری آئی تو اسی کو نفسیاتی حد کہا جاتا ہے۔ اسی طرح جب مارکیٹ نیچے آئے تو بھی یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔‘اپوزیشن نے سٹاک ایکسچینج میں اضافے کو ’جعلی بلبلے‘ سے تعبیر کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پیمعاشی ماہرین کے مطابق پاکستان سٹاک ایکسچینج کا شمار دنیا کی ان چند مارکیٹوں میں ہو گیا ہے جنہوں نے 100 انڈیکس میں ایک لاکھ پوائنٹس کی نفسیاتی حد عبور کی ہے۔ سٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس سے مراد ہے کہ اس سٹاک ایکسچینج میں 100 ایسی کمپنیوں کا انڈیکس مرتب ہے جو اپنے شئیرز فروخت کر سکتی ہیں۔‘بلز اینڈ بیئر کیا ہے؟دنیا کی تقریباً تمام سٹاک مارکیٹس کے باہر عام طور پر ایک سینگھوں والے بیل یا ایک ریچھ کا مجسمہ بھی نصب ہوتا ہے۔ اس تصور کی وضاحت کرتے ہوئے لاہور سٹاک ایکسچینج کے سابق ایم ڈی آفتاب چوہدری کا کہنا تھا کہ ’جیسے ایک ترو تیز بیل اپنے سینگھوں کی طاقت سے مخالف کو پچھاڑ دیتا ہے، اسی طاقت کا اظہار کسی سٹاک مارکیٹ کے مستحکم ہونے کے سبب اس کو بُلز ٹرینڈ کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیل کا بڑا عام طور پر تانبے کا مجسمہ لگا کر مارکیٹ کے مستحکم ہونے کو ظاہر کیا جاتا ہے۔‘اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اسی طرح بیئر یا ریچھ کی اگر بات کریں تو یہ ایسا ٹرینڈ ہے جس میں مارکیٹ نیچے جا رہی ہوتی ہے۔ لیکن ایک خاص طرح کا سرمایہ کار ہوتا ہے جو ایسے مواقع کی تاڑ میں ہوتا ہے اور وہ ایسے وقت میں خریداری کرتا ہے۔ بیئر کی نسبت بُل کا ٹرینڈ عام طور پر سرمایہ کاروں کے لیے زیادہ دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔‘یاد رہے کہ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ 1947 میں کراچی سٹاک مارکیٹ کے نام سے کراچی میں وجود میں آئی تھی۔ اس کے بعد لاہور اور اسلام آباد میں دو الگ الگ سٹاک مارکیٹس قائم کی گئیں۔ تاہم 2016 میں لاہور اور اسلام آباد سٹاک مارکیٹس کو کراچی سٹاک مارکیٹ میں ضم کر کے اسے پاکستان سٹاک مارکیٹ کا نام دیا گیا ہے۔