
پاکستان کی حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف ان دنوں لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایم پی ایز سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ بڑے شہروں اور ڈویژنز کے ایم پی ایز سے پانچ ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔گزشتہ سال کے عام انتخابات کے بعد نواز شریف پہلی مرتبہ نچلی سطح کی قیادت سے مل رہے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ ان ملاقاتوں میں ہو کیا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے اردو نیوز نے مختلف ایم پی ایز سے بات کی جو ان ملاقاتوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔صوبائی اسمبلی کے ارکان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کی۔ تاہم اس سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ آن ریکارڈ کیا مواد دستیاب ہے جو ان ملاقاتوں کا سیاق و سباق واضح کرتا ہے۔10 فروری کو ایم پی ایز کے گروپ سے ملاقات کرنے کے بعد وزیراعلٰی آفس سے دو بیان جاری کیے گئے۔ ایک اعلامیے میں یہ بتایا گیا کہ اراکین اسمبلی حکومت کی کارکردگی سے بہت مطمئن ہیں اور جاری سکیموں پر خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ جبکہ چند گھنٹوں بعد ایک اور پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ وزیراعلی مریم نواز نے پنجاب میں تجاوزات کے خاتمے کی مہم کی زد میں آنے والے افراد کی بحالی کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اس بات کی ہدایت پارٹی سربراہ نواز شریف نے دی ہے۔ایک دوسرے تناظر میں حال ہی میں ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اجلاسوں میں حکومت اور اس کے اتحادی اراکین اسمبلی نے اپنی ہی حکومت پر کھل کر تنقید کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ برس گندم نہ خریدنے کی سرکاری پالیسی سے شروع ہوا۔پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی ممتاز چانگ نے تو اسمبلی میں بات کرتے ہوئے حکومت پر کچے کے ڈاکوؤں کی پشت پناہی کا الزام بھی لگا دیا۔نواز شریف کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں بھی ایم پی ایز شکایات لگاتے نظر آئے۔ ایسی ہی ایک میٹنگ میں شریک ایک ایم پی اے نے بتایا کہ ’پچھلے سال سے گندم نہ خریدنے پر کسانوں کو سمجھانا مشکل ہے۔ اب آگے پھر گندم کی فصل آ رہی ہے کسی کو یہ تک نہیں پتا کہ ریٹ کیا نکلے گا۔ اسی طرح تجاوزات کے خلاف مہم میں لوگ ہمارے پاس آ رہے ہیں۔ اور جب ہم انتظامیہ سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ آرڈر اوپر سے آ رہے ہیں۔ تو بس اسی طرح کے گلے شکوے میاں صاحب کے سامنے رکھے ہیں۔‘ارکان اسمبلی کو شکایت ہے کہ وزیراعلٰی کے دفتر تک اُن کی رسائی نہیں۔ فوٹو: پی ایم ایل این (ایکس)ایک اور ایم پی اے نے بتایا کہ ’ہم حکومتی اراکین اسمبلی ہیں، ہم اپنی مرضی سے تبادلے نہیں کروا سکتے ہیں۔ لوگوں کے کام نہیں کروا سکتے۔ اسی طرح وزیراعلٰی آفس تک رسائی نہیں ہے۔ تو یہ سارے گلے شکوے کیے گئے۔ اور ہمیں کہا گیا ہے کہ اب اس طرح کی شکایات کا ازالہ کیا جائے گا۔ ہمیں بلدیاتی انتخابات کی تیاری کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔‘خیال رہے کہ حال ہی وزیراعلٰی مریم نواز نے چار مختلف یونیورسٹیز میں تقاریر کے دوران کہا تھا کہ وہ اپنے ایم پی ایز کی سفارشوں کو نہیں مان رہیں۔ اراکین اسمبلی نے ان ملاقاتوں میں یہ بھی کہا ہے کہ انہیں ساتھ بٹھا کر ایسے بیانات نہ دیے جائیں۔ایک اہم لیگی رہنما نے صورت حال سے متعلق بتایا کہ ’کچھ رپورٹس ایسی آ رہی تھیں کہ پنجاب کے ایم پی ایز بہت نالاں ہیں۔ ان رپورٹس کو سنجیدگی سے لیا گیا اور پھر یہ فیصلہ ہوا کہ ان کے شکوے شکایتیں خود نواز شریف مل کر دور کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ بھی ہر ملاقات میں موجود ہوتے ہیں۔ تمام گلے شکوے خندہ پیشانی سے سنے جا رہے ہیں۔ اور ان کو دور کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔‘ن لیگ سیاست پھر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی سلمان غنی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’مریم نواز کام تو بہت اچھے کر رہی ہیں لیکن اس کے ساتھ اپنے اراکین اسمبلی سے اپنے آپ کو دور رکھنا سیاسی اعتبار سے درست نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف خود میدان میں آئے ہیں۔ میرا خیال ہے جتنی پرانی سیاست نواز شریف کی ہے وہ ان سارے معاملات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ کام تو غلام حیدر وائیں نے بھی بہت کیے تھے لیکن جب الیکشن آئے تو ساری پارٹی دوسری طرف کھڑی ہو گئی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اراکین اسمبلی کا سب سے بڑا شکوہ یہ تھا کہ حکومت پالیسی سازی میں انہیں اعتماد میں نہیں لے رہی۔ میرا خیال ہے یہ نشست بہت پہلی ہونا تھی لیکن سیاسی حالات کی وجہ سے اسے موخر رکھا گیا۔ اور اس بات کی بھی کچھ حدت نواز شریف تک پہنچی تھی کہ اپنے ہی لوگوں کا پارہ ہائی ہو رہا ہے۔ ان ساری باتوں کے علاوہ مجھے ان ملاقاتوں کی کوئی اور وجہ نظر نہیں آ رہی۔ جہاں تک بلدیاتی انتخابات کی بات ہے تو میرا نہیں خیال کہ مسلم لیگ ن اس بارے میں سنجیدہ ہے۔‘