
یہ 20 فروری 1994 اتوار کی ایک سرد صبح تھی۔۔۔ رمضان کا مہینہ تھا اور پشاور میں صبح سے موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔چودہ سالہ شیراز صمد پشاور ماڈل سکول میں میٹرک کے طالبعلم تھے اور اس دن ان کا انگریزی کا پرچہ تھا۔شیراز اور ان کے تین بھائیوں کو سکول کی بس پک اور ڈراپ کرتی تھی۔ مگر اس دن ان کے دو بھائیوں کی طبعیت کچھ ناساز تھی لہذا وہ سکول کے لیے تیار نہیں ہوئے۔شیراز اور ان کے چھوٹے بھائی ذیشان کو بس نے تقریباً 6:45 پر پک کیا۔ بس میں بیٹھتے ہیں انھوں نے اپنی کاپیاں نکالیں اور پیپر کی تیاری دہرانا شروع کر دی (یاد رہے ان دنوں اتوار کے بجائے جمعہ کے روز عام تعطیل ہوتی تھی)۔آٹھویں جماعت کے طالبعلم رب نواز کو پک کرنے کے بعد بس حاجی کیمپ کے آخری سٹاپ پر پہنچی تو اساتذہ و طلبا کے بس میں سوار ہونے کے بعد تین نقاب پوش نوجوانوں نے بھی بس میں چڑھنے کی کوشش کی۔۔۔ بس کے کنڈیکٹر نے جلدی سے دروازہ بند کر کے لاک لگا دیا مگر ان نقاب پوشوں نے پستول شیشے پر مار کر اندر سے لاک کھول لیا اور بس کے اندر آ گئے۔نسرین اختر کی عمر اس وقت 20 سال تھی اور وہ دوسری جماعت کی ٹیچر تھیں۔ انھیںیاد ہے کہ ان ہائی جیکروں نے ہاتھوں میں پستول اور گرینیڈ اٹھا رکھے تھے۔ انھوں نے ایسے نقاب پہن رکھے تھے جن میں صرف ایک سوراخ تھا جس سے ان کی ایک آنکھ نظر آتی تھی جو انھیں مزید خوفناک بنا رہی تھی۔‘بس میں گھسنے کے بعد ایک نقاب پوش بس ڈرائیور اورنگزیب خان کے بالکل پاس بیٹھ گیا اور ان کی کنپٹی پر پستول رکھ کر بس اسلام آباد کی جانب موڑنے کا حکم دیا۔ دوسرا نقاب پوش بس کے درمیان میں کھڑا ہو گیا اور تیسرا آخری حصے کی جانب چلا گیا۔اورنگزیب خان اس وقت 35 سالہ نوجوان تھے۔۔۔ نسرین بتاتی ہیں کہ ’وہ لڑنے مرنے والا پشتون تھا۔ اس نے بس چلانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جب تک بس انچارج نہیں کہیں گے میں یہاں سے نہیں ہلوں گا۔‘نقاب پوشوں نے گرینیڈ سے پن نکالنے کی دھمکی دی اور کہا کہ ’ہم بس کو بچوں سمیت اڑا دیں گے‘۔ اورنگزیب خان نے ایک نظر پیچھے مڑ کر بچوں سے بھری بس کو دیکھا اور گاڑی چلانے کا فیصلہ کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’اگر صرف میری جان کی بات ہوتی تو میں اڑا رہتا مگر یہ بچوں کی زندگی کا سوال تھا۔‘اس بس میں پانچ خواتین اساتذہ، ایک مرد استاد کے علاوہپہلی سے دسویں جماعت کے تقریباً 70 سے زائد طالبعلم سوار تھے اور سبھی بہت سہم گئے تھے۔کاغذ پر ’ہماری بس ہائی جیک ہو گئی، مدد کریں‘ لکھ کر باہر پھینکتے رہےیہ تینوں نقاب پوش فارسی زبان بول رہے تھے اور رب نواز کو یاد ہے کہ ان کا رویہ بچوں کے ساتھ اچھا تھا تاہم انھوں نے کہا ’یہ بس ہائی جیک ہو گئی، آپ نے کوئی حرکت نہیں کرنی‘ شرارت کرنے کی صورت میں انھوں نے گرینیڈ سے پن نکالنے کی دھمکی دی تھی۔ وہبتاتے ہیں کہ ’مجھے فارسی زبان کی تھوڑی سمجھ تھی اور ان تینوں کو پشتو زبان ٹھیک سے بولنی نہیں آ رہی تھی، وہ افغانستان میں بولی جانے والی فارسی زبان بول رہے تھے۔‘ڈرائیور اورنگزیب خان نے راستے میں ایک آدھ بار بس واپس سکول کی جانب مڑنے کی کوشش کی مگر وہ سمجھ گئے اور پستول ان کے سر پر مارا اور کہا کہ ’تمھیں بات سمجھ نہیں آ رہی؟ سیدھا چلو۔‘اسلام آباد پہنچنے سے قبل ڈرائیور نے ہائی جیکروں کو بتایا کہ بس کا ایندھن ختم ہونے کو ہے۔ہر روز کی طرح اس دن بھی شیراز کی جیب میں پانچ روپے تھے جو ان کے والدین نے کھانے پینے کے لیے دیے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہائی جیکروں نے مجھ سے وہ پانچ روپے لے لیے اور باقی بچوں اور اساتذہ کی جیبوں اور پرسوں سے جتنے جتنے پیسے نکلے، انھیں جمع کر کے انھوں نے بس میں ڈیزل بھروایا۔‘چونکہ بارش بہت شدید تھی اور کھڑکیوں کے شیشوں پر دھند چھا گئی تھی جس سے اندر باہر سے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، اسی لیے پیٹرول پمپ پر بھی کسی کو شک نہیں ہوا کہ اس بس میں کوئی مشکوک افراد سوار ہیں یا بس ہائی جیک ہو چکی ہے۔شیراز، رب نواز اور ان کے باقی ساتھی یہ سوچ رہے تھے کہ ’پتا نہیں ہمار کیا انجام ہونے والا ہے‘۔ راستے بھر وہ کاغذ پر یہ لکھ کر کہ 'ہماری بس ہائی جیک ہو گئی، ہماری مدد کریں‘ کھڑکیوں سے باہر پھینکتے رہے۔وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم چھوٹے بچوں کو اتنی سمجھ نہیں تھی کہ یہ پرچیاں باہر کی موسلادھار بارش میں گرتے ہی پھٹ کر خراب ہو جائیں گی اور کوئی مدد کو نہیں آ پائے گا۔‘چونکہ یہ ایک سکول بس تھی لہذا راستے میں کسی نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی اور دیکھنے والوں کو لگا کہ بچے پکنک پر جا رہے ہیں۔ اس وقت اسلام آباد میں بھی زیادہ رکاوٹیں نہیں ہوتی تھیں اور بس باآسانی پشاور سے پارلیمنٹ ہاؤس تک پہنچ گئی۔بی بی سی نے 31 برس قبل پیش آنے والے اس واقعے کی تفصیلات جاننے کے لیے اس دن بس میں سوار طلبا، اساتذہ، ڈرائیور، سکول کے مالک، اسلام آباد میں اس واقعے کی کوریج کرنے والے صحافیوں اور آپریشن کی پلاننگ و نگرانی کرنے والے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جاوید اشرف قاضی سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد اگلے 36 گھنٹے میں بس میں سوار افراد پر کیا بیتی اور پشاور میں بس کو کہاں کہاں تلاش کیا گیا۔’نارنجی رنگ کی سکول بس اٹک کا پُل کراس کرتے دیکھی گئی‘یہ سوشل میڈیا اور موبائل فون کا زمانہ نہیں تھا اور کئی گھنٹوں تک کسی کو خبر تک نہ ہوئی کہ بس ہائی جیک ہو چکی ہے۔ادھر پشاور میں ماڈل سکول کے مالک غیور سیٹھی 7 بجے سکول پہنچ چکے تھے۔ ان دنوں بسوں کے آنے کا وقت 7:30 تک تھا اور ٹریفک یا رش کے باعث زیادہ سے زیادہ 7:45 تک سب بسیں پہنچ جاتی تھیں۔غیور سیٹھی کو اطلاع ملی کہ ایک بس سکول نہیں پہنچی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہماری بسیں پرانے ماڈل کی تھیں اور اکثر خراب ہو جاتی تھیں، میں نے سوچا کہ شاید راستے میں بس کہیں خراب ہو گئی ہے۔‘غیور سیٹھی یاد کرتے ہیں کہ لگاتار بارش ہو رہی تھی مگر جب 9 بج گئے تو انھیں پریشانی شروع ہوئی اور انھوں نے گاڑی نکالی اور ان ورکشاپس کا رخ کیا جہاں سکول کی بسیں ٹھیک کروائی جاتی تھیں۔ورکشاپ والوں نے بتایا کہ یہاں کوئی بس نہیں آئی۔جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیاIC-423 ہائی جیکنگ: پاکستانی کمانڈوز کا وہ آپریشن جس پر انڈیا نے جنرل ضیا کا شکریہ ادا کیاقندھار ہائی جیکنگ: انڈین مسافر طیارے کا اغوا جس کے بعد کھٹمنڈو ایئرپورٹ پر انڈیا کو اضافی سکیورٹی چیک کی اجازت دینا پڑیکولمبیا کی وہ پرواز جسے 60 گھنٹے تک ہائی جیک رکھنے والے کا آج تک کوئی سراغ نہیں ملا غیور سیٹھی بتاتے ہیں کہ کچھ دیر وہ پشاور کی سڑکوں پر گاڑی دوڑاتے رہے مگر بے سود۔ بس کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ بلاخر انھوں نے تھانے کا رخ کیا مگر پولیس کو بھی کوئی خبر نہیں تھی۔ اس کے بعد وہ ڈپٹی کمشنر کے پاس گئے اور انھیں بتایا کہ ’ہماری سکول کی بس میں 70 سے زائد بچے بیٹھے ہیں اور بس کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔‘ڈپٹی کمشنر کو وائرلیس کی مدد سے اطلاع ملی تھی کہ نارنجی رنگ کی ایک سکول بس اٹک کا پُل کراس کرتے دیکھی گئی ہے۔غیور سیٹھی نے اپنے ایک ساتھی کو ہمراہ لیا اور اسلام آباد کی جانب چل پڑے اور دارالحکومت پہنچ کر جو پہلا تھانہ نظر آیا، وہاں گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’تھانے والوں کے پاس مکمل معلومات تھیں انھوں نے ہمیں بتایا کہ یہ بس اس وقت افغان سفارت خانے میں کھڑی ہے۔‘بی بی سی نے جن طلبا سے بات کی انھوں نے بتایا کہ بس ہائی جیک ہونے کے بعد جب ان کے والدین نے اسلام آباد کا رخ کیا تو پولیس نے ان میں سے اکثریت کو اٹک کے پل پر روک لیا اور آگے نہیں آنے دیا گیا۔ہائی جیکروں کے مطالبات کیا تھے؟رب نواز بتاتے ہیں کہ کہ جس وقت ہماری بس پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر پہنچی ایک پولیس اہلکار دوڑتا آیا اور بس ڈرائیور سے کہا کہ ’یہاں گاڑی پارک کرنا ممنوع ہے‘ جس پر ڈرائیور نے انھیں بتایا کہ یہ بس ہائی جیک ہو چکی ہے۔پاکستان میں اس وقت پیپلز پارٹی کی سابق رہنما بینظیر بھٹو کی حکومت تھی اور پارلیمنٹ ہاؤس میں کابینہ کا اجلاس جاری تھا جس میں اس وقت کے وزیرِ داخلہ میجر جنرل نصیر اللہ بابر شامل تھے۔اس وقت (1993-1995) پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل جاوید اشرف قاضی تھے، بعد میں انھوں نے میڈیا کو اس واقعے کے حوالے سے کئی تفصیلی انٹرویوز دیے جو انھوں نے بی بی سی کے ساتھ شئیر کیے ہیں۔لیفٹینٹ جنرل جاوید اشرف قاضی اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’جنرل نصیر اللہ بابر یہ کہتے ہوئے بس پر چڑھ گئے کہ ’میں ان سے بات کروں گا‘۔ ہم نے آئی ایس آئی کے بریگیڈیر مجید کو ان کے ساتھ بھیجا اور انھوں نے بس میں جا کر ہائی جیکروں سے بات چیت شروع کر دی۔‘نسرین کو یاد ہے کہ نصیر اللہ بابر نے تقریباً اڑھائی گھنٹے بس میں بیٹھ کر ہائی جیکروں سے مذاکرات کیے تھے۔ہائی جیکروں نے حکومت سے 10 ملین ڈالر، افغانستان میں گندم کے ٹرک بھجوانے، ایک یرغمالی اور ہیلی کاپٹر کا مطالبہ کیا۔رب نواز کو یاد ہے کہ اس وقت پاکستان میں افغانستان کے سفارت کار کو بھی بس میں بلایا گیا جنھوں نے ہائی جیکروں سے کہا کہ ’ہمارا ملک خانہ جنگی سے گزر رہا ہے اور تم یہ کسی حرکتیں کر رہے ہو؟ کیوں ہمیں مزید بدنام کر رہے ہو۔‘جنرل جاوید اشرف قاضی کے مطابق نصیر اللہ بابر اور بریگیڈیر مجید نے ہائی جیکروں کو شرم دلائی کہ ’یہ ہماری روایت نہیں کہ بچیوں اور عورتوں کو اغوا کر کے رکھیں‘۔ انھوں نے مسلح افراد سے کہا کہ ’چھوٹی بچیاں رو رہی ہیں، خواتین اساتذہ و طلبہ کو رہا کر دیں، ہم آپ کے مطالبات کے لیے حکومت سے بات کریں گے۔‘اس کے جواب میں ہائی جیکروں نے مطالبہ کیا کہ انھیں افغانستان کے سفارت خانے جانے دیا جائے تو وہ چھوٹے بچے بچیوں اور خواتین اساتذہ کو چھوڑ دیں گے۔جنرل نصیر اللہ بابر نے ہائی جیکروں کا یہ مطالبہ مان لیا اور یوں تقریباً شام کے چار بجے انھوں نے میٹرک کے تقریباً 16 لڑکوں اور ایک مرد استاد کے علاوہ تقریباً 55 طلبا اور پانچ خواتین اساتذہ کو رہا کر دیا۔ ہائی جیکروں نے جن بچوں کو جانے دیا ان میں رب نواز کے علاوہ شیراز کا چھوٹا بھائی ذیشان بھی شامل تھا۔رہا ہونے والے بچوں اور خواتین اساتذہ کو میریٹ ہوٹل لیجایا گیا جہاں انھیں کھانا اور ٹیلیفون دیا گیا کہ ’دنیا میں جس سے بھی بات کرنی ہے اسے اپنی خیریت کی اطلاع دے دیں۔‘نسرین اختر کے مطابق اس کے بعد ہمیں کوسٹر میں بٹھا کر پشاور کی طرف روانہ کر دیا گیا۔ جب بینظیر کو پتا چلا تو وہ بہت خفا ہوئیں، انھوں نے کوسٹر کو ٹیکسلا سے واپس بلوایا اور کہا ’یہ بذریعہ سڑک پشاور نہیں جائیں گے۔‘بینظر نے ان طلبا کے لیے اپنا ذاتی فوکر طیارہ بھجوایا جس میں یہ سب پشاور واپس پہنچے۔’کھانے کے ایک ڈبے یا جوس میں کچھ ملایا جاتا‘پارلیمنٹ کے باہر چھوٹے بچوں اور خواتین اساتذہ کو چھوڑنے کے بعد ہائی جیکر تقریباً 16 طلبا اور ایک مرد استاد کے ساتھ بس کو افغانستان کے سفارت خانے لے گئے۔ناصر ملک اس وقت اسلام آباد میں ڈان اخبار سے وابستہ سینئیر صحافی تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دفتر پہنچ کر جب 10 بجے ٹی وی آن کیا تو پتا چلا کہ کوئی بس ہائی جیک ہو گئی ہے۔ ’ٹی وی پر مسلسل یہی بتایا جا رہا تھا کہ بس پشاور سے ہائی جیک ہو گئی، کوئی یہ نہیں بتا رہا تھا کہ بس جا کہاں رہی تھی۔‘گھنٹے ڈیڑھ بعد ان کے دوست نے فون کیا اور کہا ’تجھے پتا ہے بچوں سے بھری بس پشاور سے ہائی جیک ہو گئی اور اسلام آباد پہنچ گئی۔‘دوست نے انھیں بتایا کہ بس پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے کھڑی ہے اور ’پولیس منع کرتی رہی مگر نصیر اللہ بابر بس میں چڑھ گئے ہیں۔‘ناصر ملک کہتے ہیں کہ ’نصیر اللہ بابر بہت دلیر آدمی تھے۔ میں نے اور میرے دوست نے سوچا یہ کتنا پاگل آدمی ہے۔‘انھوں نے دوست سے پوچھا کہ اچھا اب بس کہاں ہے، ان کے دوست نے بتایا بس کابل کے سفارت خانے میں ہے اور یہ سنتے ہی ناصر ملک اس طرف دوڑے، یہ عمارت ان کے دفتر کے نزدیک رہائشی علاقے میں واقع تھی۔وہ بتاتے ہیں کہ وہاں صحافیوں کا رش لگا تھا اور پولیس کے لباس میں کمانڈوز نے چاروں طرف سے عمارت کو گھیرا ہوا تھا اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ناصر ملک بتاتے ہیں کہ سب کچھ نظر آ رہا تھا اور ہم ’پولیس اور رحمان ملک کی آنیاں جانیاں دیکھ رہے تھے۔‘یار رہے رحمان ملک اس وقت ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل تھے اور انھیں نصیر اللہ بابر کا دائیاں بازو سمجھا جاتا تھا۔ناصر ملک بتاتے ہیں اس دوران کھانے کی اشیا اندر بھجوائی گئیں اور تقریباً گھنٹے ڈیڑھ بعد ایک بچہ بیمار ہو گیا جسے ہائی جیکروں نے باہر بھیج دیا کہ یہ الٹیاں کر رہا ہے۔ناصر ملک کے مطابق جیسے ہی وہ باہر نکلا پولیس والے اسے ایک گاڑی میں بٹھا کر لے گئے بعد میں انھیں پتا چلا کہ نکالا تو پولیس والوں نے تھا مگر انھوں نے بچے کو فوجیوں کے حوالے کر دیا تھا۔وہ بتاتے ہیں کہ ایک پولیس والے نے ہمیں بتایا کہ ’اندر بھیجے گئے کھانے میں سے ایک ڈبے یا جوس میں جان بوجھ کر کچھ ملایا گیا تاکہ صرف ایک بچے کی طبعیت خراب ہو اور وہ اسے باہر بھیجنے پر مجبور ہوں۔‘ناصر ملک کہتے ہیں کہ ’سب کو بیمار کر دیتے تو ہائی جیکروں کو شک پڑ جاتا۔ ایک بچے کو باہر نکالے کا مقصد یہ تھا کہ اس سے اندر کی خبر لی جائے کہ کون کس جگہ بیٹھا یا کھڑا ہے، بچے کہاں بیٹھے ہیں، صوفہ کدھر ہے،وہ اندر کی پوزیشن جاننا چاہتے تھے۔‘Getty Imagesبینظیر نے کہا کہ آئی ایس آئی کلیئر کر کے بچوں کو چھڑوائے گی’کچھ ایسا کرو یہ تمھیں باہر بھیجنے پر مجبور ہو جائیں‘شیراز بھی ان بچوں میں شامل تھے جنھیں سفارت خانے لیجایا گیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہاں ہم سب بچوں کو ایک ہال نما بڑے کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ ایک نقاب پوش یرغمال بنائے گئے طلبا کے سر پر بندوق پکڑے بیٹھ گیا۔ اس کمرے کا دروازہ مین گیلری میں کھلتا تھا اور اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹا کمرہ بھی موجود تھا۔ان بچوں کو باہر سے بھیجی گئی افطاری دی گئی۔ شیراز کے مطابق ’باہر سے جب بھی کھانے کی کوئی چیز اندر بھیجی جاتی تو ہائی جیکر پہلے بچوں کو کھلاتے تاکہ معلوم کر سکیں کہ کھانے میں کچھ ملایا تو نہیں گیا۔‘ان کے مطابق اس وقت کے افغان سفارت کار بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔وہ بتاتے ہیں کہ ’جس وقت میں واش روم گیا اور کموڈ پر کھڑا ہو کر روشندان سے باہر دیکھا تو اتنے سارے ایس ایس جی کمانڈو کھڑے تھے جنھیں دیکھ کر میں پریشان ہو گیا کہ یہ پتا نہیں کیا ہونے والا ہے آج۔‘وہ بتاتے ہیں کہ اسی دن شام کو میرے والد مجھ سے ملنے آئے۔ ان کے انتظامیہ کے ساتھ اچھے تعلقات تھے لہذا انھیں سفارت خانے کے اندر آ کر مجھ سے ملنے کی اجازت دی گئی۔وہ کہتے ہیں کہ ان کے والد جاتے ہوئے کہہ گئے کہ ’کچھ ایسا کرو کہ یہ تمھیں باہر بھیجنے پر مجبور ہو جائیں۔‘شیراز کہتے ہیں کہ ’میں نے پوچھا کہ کیا کروں؟ تو انھوں نے کہا کہنا کہ پیٹ میں شدید درد ہے۔‘شیراز کو یاد ہے کہ ان سے پہلے بھی ایک بچے کی طبعیت بہت خراب ہو گئی تھی اور اسے الٹیاں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ ہائی جیکروں نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ انھیں یہ بھی یاد ہے کہ وہ بچہ بہت ڈرا ہوا تھا اور ذہنی تناؤ کا شکار بھی تھا۔رب نواز کے مطابق ان کے جو دوست سفارت خانے میں یرغمال تھے، انھوں نے بعد میں بتایا کہ ’کھانے میں کچھ ایسا ملا ہوتا تھا کہ ہمیں بہت تکلیف ہوتی اور درد آہستہ آہستہ بڑھتا جاتا۔‘رات ہونے پر شیراز نے والد کی تجویز پر عمل کیا اور چیخنا شروع کر دیا اور بہانہ بنایا کہ ’میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے‘ جس پر ہائی جیکروں نے باہر کھڑے لوگوں سے کہا کہ اسے ہسپتال لے جاؤ۔شیراز بتاتے ہیں کہ باہر نکل کر انھیں میریٹ لیجایا گیا جہاں فوجیوں نے ان سے اندر کی پوزیشن پوچھی کہ ’اندر کتنے آدمی ہیں، کون کہاں بیٹھا ہے اور ان کے پاس کون کون سے ہتھیار ہیں۔‘Getty Images(فائل فوٹو) آپریشن دیر سے شروع کرنے کے متعلق ناصر ملک بتاتے ہیں کہ انھیں بعد میں معلوم ہوا کہ ایس ایس جی نے بچوں سے ملنے والی بریفنگز کی بنیاد پر سفارت خانے کا ایک ماڈل بنا رکھا تھا جہاں وہ مسلسل ٹریننگ کر رہے تھے تاکہ آپریشن اس طرح کیا جائے کہ بچوں کو نقصان نہ پہنچے’فوجی باہر آنے والے ہر بچے سے بریفنگ لیتے‘ناصر ملک بتاتے ہیں کہ وہاں بیٹھنے کی جگہ کوئی نہیں تھی، رمضان کے روزے تھے، موسم سرد اور ابر آلود تھا۔ اسی طرح مغرب ہو گئی، کھانے کو کچھ نہیں تھا مگر کوئی وہاں سے ہلنے کو تیار نہیں تھا۔رات کے 11 بجے انھوں نے ڈان کے دفتر جا کر سٹوری فائل کی اور دوڑتے واپس آئے کہ ’پتا نہیں رات کو کس وقت آپریشن ہو جائے۔‘اس رات شدید بارش شروع ہو گئی اور جب بارش تھمی تو انھوں نے ایک دوست کے اصرار پر گھر جا کر کپڑے تبدیل کیے اور کافی پی کر واپس آ گئے۔ رات کی بچی کچی اشیا پر انھوں نے سحری کی اور انتظار کرتے رہے۔ اسی میں صبح ہو گئی۔وہ بتاتے ہیں کہ ’صبح جو ناشتہ اندر بھجوایا گیا، اسے کھا کر پھر دو سے تین بچے بیمار ہوئے جن کے نکلتے ہی انھیں بریفنگ کے لیے لیجایا گیا اور پوچھا گیا کہ 'رات کو کیا صورتحال رہی، کیا یہ اپنی پوزیشن تبدیل کرتے ہیں یا نہیں، کتنی دیر ایک جگہ بیٹھے رہتے ہیں، فوجی ایک ایک چیز جاننا چاہتے تھے کیونکہ انھوں نے شارپ شوٹرز کے ساتھ اندر دھاوا بولنا تھا۔‘ناصر ملک کے مطابق دوپہر کے کھانے میں بھی یہی ہوا اور اسی مقصد سے ایک اور بچہ باہر آیا۔اس طریقے سے چھ سے سات بچوں کو باہر نکالا گیا اور یوں دوسرے دن کی افطار کا وقت ہو گیا۔اس موقع پر صحافی باہر کھڑے سوچ رہے تھے کہ ’یہ کر کیا رہے ہیں، کچھ ہو کیوں نہیں رہا؟ آپریشن میں تاخیر کیوں کر رہے ہیں۔‘بینظیر نے کہا ’آئی ایس آئی بچوں کو چھڑوائے گی‘اگرچہ افغانستان کے سفارت خانے میں پہنچنے کے بعد ہائی جیکروں سے مذاکرات شروع ہوئے مگر اس دوران یہ بھی سوچا جانے لگا کہ ان ہائی جیکروں کا کیا کیا جائے؟جنرل جاوید اشرف قاضی بتاتے ہیں کہ جنرل میجر نصیر اللہ بابر نے کہا ’ان بچوں کو چھوڑ کر مجھے یرغمال بنا لیں۔‘تاہم ان کی یہ تجویز رد کر دی گئی کیونکہ ملک کے وزیرداخلہ تین افغان باشندوں کے ہاتھوں یرغمالی بن جاتے، اس میں پاکستان کی بہت بدنامی تھی۔جنرل جاوید اشرف قاضی بتاتے ہیں کہ پھر ہم وزیراعظم کے پاس گئے اور میٹنگ میں بینظیر نے کہا کہ ’یہ ایکشن آئی ایس آئی کا ہو گا۔ آئی ایس آئی کلیئر کر کے بچوں کو چھڑوائے گی۔‘وہ بتاتے ہیں کہ جنرل بابر بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ میں یرغمالی بننا چاہتا ہوں لیکن ہم نے وزیراعظم سے کہا کہ اب جنرل بابر کو ریسٹ دے دیں۔۔۔ جس پر بینظیر نے کہا کہ ’جنرل صاحب آپ اب گھر رہیں گے۔‘جنرل جاوید اشرف قاضی کے مطابق جنرل بابر کو گھر بھیجنے کے بعد بینظر بھٹو نے ہم سے کہا کہ ’آپ جس طرح چاہتے ہیں ان سے نمٹیں، پورے اعتماد کے ساتھ ایکشن لیں اور اس دوران اگر کوئی نقصان ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار میں ہوں۔‘’ہائی جیکر بار بار چائے کا مطالبہ کرتے تھے‘جاوید اشرف قاضی بتاتے ہیں کہ واپس آنے کے بعد انھوں نے جنرل وحید کو فون کرکے ساری صورتحال بتائی اور کہا کہ سر ایس ایس جی (سپیشل سروس گروپ) کمانڈوز کا ایک سیکشن چاہیے۔اور یوں ایس ایس جی کمانڈوز کو بذریعہ پرواز فوراً اسلام آباد پہنچایا گیا۔جنرل جاوید اشرف قاضی بتاتے ہیں کہ ہائی جیکر بار بار چائے کا مطالبہ کرتے تھے۔ پاکستانی سکیورٹی اداروں کے سربراہوں نے سر جوڑ کر منصوبہ بنایا جس میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ انھیں چائے میں بے ہوشی کی دوا دی جائے تاکہ وہ تینوں رات کو جاگتے نہ رہیں اور نیند کے ہاتھوں بے حال ہوں۔اور پھر بے ہوشی کی دوا ملی چائے ہائی جیکروں کو بھیجی جاتی رہی۔اس کے بعد فیصلہ ہوا کہ ایس ایس جی کے دو کمانڈوز بمعہ ہتھیار گیلری والے دروازے کے راستے اندر داخل ہوں گے اور اگر کرسی پر بیٹھے ہائی جیکر نے انھیں نشانہ بنانے کی کوشش کی تو اسے وہیں گولی مارنے کے آرڈر دیے گئے۔باقی کے کمانڈوز کو حکم تھا کہ وہ چھوٹے کمرے (جس میں دو ہائی جیکر آرام کر رہے تھے) کی کھڑکی کو توڑ کر اس میں سٹن گرینیڈ پھنکیں گے (جس کی آواز سے انسان کچھ دیر کے لیے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے) اور اندر کود کر انھیں ختم کر دیں گے۔’آپریشن میں کل چھ گولیاں استعمال ہوئیں‘ناصر ملک بتاتے ہیں کہ دوسرے روز رات کے آٹھ بجے تھوڑی ہلچل شروع ہوئی اور صحافیوں کو دور ہونے کا کہا گیا۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے مطابق ایکشن توقعات کے مطابق کامیاب ہوا کیونکہ کمرے میں آرام کر رہے دونوں ہائی جیکر غنودگی کی حالت میں تھے اور دونوں مارے گئے۔تاہم بڑے کمرے میں طلبا پر بندوق تانے ہائی جیکر نے غنودگی کی حالت میں ہونے کے باوجود اندر داخل ہونے والے کمانڈوز پر فائر کیا البتہ اس کا نشانہ درست نھیں لگا اور خوش قسمتی سے گولی ایک کمانڈر کے بازو کو چھوتی ہوئی نکل گئی۔’مگر کمانڈوز کا نشانہ درست تھا اور انھوں نے ہائی جیکر کو ادھر ہی شوٹ کر دیا۔‘آپریشن دیر سے شروع کرنے کے متعلق ناصر ملک کہتے ہیں کہ انھیں بعد میں معلوم ہوا کہ ایس ایس جی نے بچوں سے ملنے والی بریفنگز کی بنیاد پر سفارت خانے کا ایک ماڈل بنا رکھا تھا جہاں وہ مسلسل ٹریننگ کر رہے تھے تاکہ آپریشن اس طرح کیا جائے کہ بچوں کو نقصان نہ پہنچے۔ناصر ملک بتاتے ہیں کہ اس آپریشن میں ’ان کی ٹریننگ اتنی شاندار تھی کہ کل چھ گولیاں استعمال ہوئیں جو تینوں ہائی جیکروں کو دو، دو کر کے ماتھے پر ماری گئیں اور ایک بھی بچہ زخمی نہیں ہوا۔‘اور یوں سکول کے تمام طلبا کو بحفاظت آزاد کروالیا گیا۔ اس آپریشن میں ایس ایس جی کے کم از کم 30 کمانڈوز نے حصہ لیا۔Getty Imagesان تین ہائی جیکروں کو مارے جانے کے بعد 23 فروری 1994 کو مظاہرین کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے اور اپنے ہم وطنوں کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کیا’تینوں ہائی جیکر کابل میں انٹیلیجنس سے بات کر رہے تھے‘ہائی جیکروں کو مارنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ اس کے متعلق جنرل جاوید اشرف قاضی بتاتے ہیں کہ ’جب یہ افغان سفارت خانے میں آئے تو پاکستان کے دفاعی اداروں نے ان کی کمیونیکشن مانیٹر کرنا شروع کی اور انھیں پتا چلا کہ یہ تینوں کابل میں انٹیلیجنس سے بات کر رہے تھے جہاں دوسری طرف سے جنرل قاسم فہیم انھیں ہدایات دے رہے تھے۔ اس سے پاکستانی حکومت کو علم ہوا کہ یہ ہائی جیکر افغان انٹیلیجنس کے آدمی ہیں۔‘یاد رہے جنرل فہیم اس وقت کی درانی حکومت میں انٹیلیجنس چیف تھے۔جاوید اشرف قاضی کے مطابق اس وقت فیصلہ ہوا کہ ’انھیں چھوڑنا نہیں۔‘وہ بتاتے ہیں کہ میں نے بینظیر صاحبہ کے سامنے کہا کہ ’میڈیم ایسے لوگوں کو چھوڑنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ ایک دفعہ ان کی بلیک میلنگ مان لیں تو آئندہ بھی ان کے لیے بس ہائی جیک کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہو گی۔ ان کو چھوڑ دیا تو پشاور سے ہر روز ایک بس ہائی جیک ہو گی۔ انھیں زندہ مت چھوڑیں بلکہ کابل والوں کو سبق سکھائیں۔‘وہ بتاتے ہیں کہ بینظیر بھٹو نے ان سے اتفاق کیا اور کہا کہ ’ٹھیک ہے، انھیں مار ڈالو۔‘اور یوں 40 گھنٹے تک جاری رہنے والی ہائی جیکنگ کا اختتام ہوا اور رہا کروائے گئے باقی بچوں کو اگلی صبح بذریعہ جہاز پشاور بھیجا گیا۔کولمبیا کی وہ پرواز جسے 60 گھنٹے تک ہائی جیک رکھنے والے کا آج تک کوئی سراغ نہیں ملا قندھار ہائی جیکنگ پر سیریز اور ’نام‘ کا تنازع: ’لوگ سوچیں گے IC 814 ہندوؤں نے ہائی جیک کی تھی‘جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیاIC-423 ہائی جیکنگ: پاکستانی کمانڈوز کا وہ آپریشن جس پر انڈیا نے جنرل ضیا کا شکریہ ادا کیاگنگا ہائی جیکنگ: جب دو کشمیری نوجوان انڈین طیارہ اغوا کر کے لاہور لے آئے’فلائیٹ 49‘: وہ پانچ سال جب ہر دو ہفتوں میں امریکا کا ایک طیارہ ہائی جیک ہوتا تھا