
پنجاب حکومت نے صارف عدالتوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس حوالے سے سمری کابینہ سے منظوری کے لیے بھیج دی گئی ہے۔اردو نیوز کو دستیاب سمری کی کاپی میں صارف عدالتوں کو بند کرنے کی وجہ بے تحاشہ اخراجات بتائے گئے ہیں، جبکہ حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ صارفین کے حقوق کے لیے پہلے سے موجود عدالتوں پر انحصار کیا جائے۔کابینہ کی منظوری کے بعد صارف عدالتوں کو ختم کرنے کا بل پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ جس کے بعد جن صارفین نے ان عدالتوں میں مقدمے درج کر رکھے ہیں ان کے مقدمے سول اور سیشن عدالتوں میں شفٹ کر دیے جائیں گے۔لاہور کے شہری عمر فاروق نے گذشتہ دسمبر میں لاہور کی صارف عدالت میں ایک درزی کے خلاف کیس دائر کیا تھا کہ ان کے کپڑے خراب کر دیے گئے ہیں۔انہوں نے اپنے کیس سے متعلق بتایا کہ ’درزی کو میں نے تین سوٹ دیے تھے۔ میرے کزن کی شادی تھی اور اس سے ایک دن پہلے جب مجھے سِلے ہوئے سوٹ ملے تو وہ میرے ناپ کے نہیں تھے۔ اس پر جب میں نے درزی کو شکایت کی تو بجائے میری بات سننے کے اس نے میرے ساتھ بدتمیزی شروع کر دی۔ اس کے بعد پھر میں نے عدالت سے رجوع کیا اور کیس کی دو سماعتیں ہو چکی ہیں اور درزی کو نوٹس بھی چلا گیا ہے۔ اس نے مجھے معاملہ حل کرنے کے لیے پیش کش بھی کی ہے کہ میں مقدمہ واپس لے لوں۔ لیکن اب سن رہے ہیں کہ عدالتیں ہی بند کی جا رہی ہیں۔ ایک یہی تو عدالت تھی جس سے فوری انصاف ملتا تھا۔‘عمر فاروق کو شائد انصاف مل جائے کیوںکہ صارف عدالتوں کو بند ہوتے اور قانونی عمل مکمل ہونے میں ابھی چند مہینے لگیں گے۔ لیکن زہرہ علی جنہوں نے ابھی گذشتہ ہفتے ہی ایک دکاندار کے خلاف کیس کیا ہے وہ زیادہ پُرامید نہیں۔انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے اپنی بیٹی کے جہیز کے لیے کچھ سامان لیا تھا جس میں فرنیچر بھی تھا۔ لیکن دکاندار نے ناقص میٹریل استعمال کیا جبکہ پیسے اس نے جس میٹریل کا بتا کر لیے اس حساب سے ہمیں بہت ہی مہنگا پڑا ہے۔ عدالت میں کیس دائر کر رکھا ہے۔ ابھی تک دوسری پارٹی کو نوٹس بھی نہیں ہوئے۔ اور اب سننے میں آ رہا ہے کہ عدالت ہی بند کی جا رہی ہے، یہ تکلیف دہ ہے۔‘پنجاب کابینہ میں بھیجی گئی سمری میں بتایا گیا ہے کہ ’گذشتہ تین مالی سالوں میں صوبے کی 17 صارف عدالتوں میں 8381 مقدمات دائر کیے گئے جبکہ ان کیسز کے لیے ان تین سالوں میں 98 کروڑ روپے سے زائد کی رقم جاری کی گئی۔ اس طرح ہر کیس پر اوسطاً ایک لاکھ 17 ہزار روپے خرچہ آیا جو ’انتہائی مہنگے‘ انصاف کے زمرے میں آتا ہے۔‘صارف عدالتوں کو آج تک مستقل سرکاری عمارتیں نہیں ملیں اور انہیں کرائے کی عمارتوں میں چلایا جا رہا ہے۔ (فوٹو: ایکس)اس سمری میں تجویز کیا گیا ہے کہ ’کنزیومر پروٹیکش کونسلز کو ختم کر کے ہر ضلعے میں ڈسڑکٹ جوڈیشری سے ایک جج کو صارفین کے مقدمات سننے کے لیے مختص کر دیا جائے۔‘صوبہ پنجاب میں سنہ 2005 میں اس وقت کے وزیراعلٰی پرویز الٰہی نے اسمبلی سے کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ منظور کروایا تھا جس کے تحت صوبے میں صارفین کو تیز ترین انصاف فراہم کے لیے صارف عدالتوں کی داغ بیل پڑی۔ابتدائی طور پر لاہور میں صرف ایک صارف عدالت سے کام کا آغاز ہوا اور اب 17 اضلاع میں عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج تک ان عدالتوں کو مستقل سرکاری عمارتیں نہیں ملیں جبکہ کرائے کی عمارتوں میں ہی ان عدالتوں کو چلایا جا رہا ہے۔