
پہلگام حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی کے بیچ پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک کو قومی سلامتی کا مشیر مقرر کر دیا تو ماہرین کے مطابق یہ پہلا موقع تھا کہ آئی ایس آئی کے کسی حاضر سروس سربراہ کو مشیر قومی سلامتی جیسے اہم عہدے کا اضافی چارج دیا گیا۔یاد رہے کہ مشیر قومی سلامتی کا عہدہ اپریل 2022 سے خالی تھا۔اس ضمن میں بدھ کی شام جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کو اِس عہدے کا اضافی چارج دیا گیا یعنی وہ بطور ڈی جی آئی ایس آئی اپنا کام بدستور جاری رکھیں گے۔گذشتہ رات پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کی بطور مشیرِ قومی سلامتی تقرری کا انڈیا کے ساتھ مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم مذاکرات کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔نجی چینل جیو نیوز پر شاہزیب خانزادہ کے اس سوال پر کہ کیا آئی ایس آئی چیف کو قومی سلامتی کے مشیر کا چارج اس لیے دیا گیا ہے کہ پاکستان کو انڈیا کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کی توقع ہے؟ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’چاہے جتنی بھی کشیدگی ہو بلاخر مذاکرات کا راستہ ہی اپنایا جاتا ہے تاہم آئی ایس آئی کے سربراہ کو مشیر برائے قومی سلامتی کا اضافی چارج دینے کا انڈیا کے ساتھ مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘ان کا کہنا تھا ’ملک جب مشکل صورتحال سے گزر رہا ہو تو کسی سویلین یا سیاستدان کے مقابلے میں ایسے شخص کو قومی سلامتی کا چارج دینا بہتر ہوتا ہے جسے مشکل حالات سے بہتر انداز میں نمٹنے کا پہلے سے ’ہینڈز آن‘ تجربہ ہو۔‘خیال رہے مشیر قومی سلامتی کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر کا درجہ رکھتا ہے اور اس منصب پر تعینات شخص قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اور سٹریٹجک امور جیسے معاملات پر وزیر اعظم کے پرنسپل مشیر کے طور پر کام کرتا ہے۔ مشیر قومی سلامتی اسلام آباد میں وزیراعظم سیکریٹریٹ میں قائم قومی سلامتی ڈویژن کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔پاکستان کے سیاسی و سماجی حلقوں میں اس تعیناتی کو اِس وقت بڑی اہمیت دی جا رہی ہے اور اس تعیناتی، اس کی ٹائمنگ اور مقاصد پر بحث زور پکڑ رہی ہے۔https://twitter.com/AVeteran1956/status/1917676087670366617پاکستانی فوج کے سابق افسر اور دفاعی امور کے ماہر لیفٹیننٹ جنرل محمد ہارون اسلم نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایک ایسے وقت میں جب انڈیا کے ساتھ تناؤ کا ماحول ہے، ڈی جی آئی ایس آئی کی بطور مشیر قومی سلامتی مشیر تعیناتی ایک اچھی حکمت عملی ہے جو بحرانی کیفیت سے نکلنے میں مدد گار ثابت ہو گی اور میرا خیال ہے کہ شاید یہ انڈین قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈول کے ساتھ رابطہ چینل کھولنے کا امکان پیدا کرے گا۔‘تاہم دوسری جانب پاکستان کے امریکہ میں سابق سفیر حسین حقانی نے اس تعیناتی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’قومی سلامتی کے مشیر کا کام انٹیلیجنس چیف سے بہت مختلف ہے۔ اس طرح کی دوہری ذمہ داریاں دیے جانے سے ان لوگوں کی تعداد کم ہوتی ہیں جو فیصلہ سازی میں شامل ہیں اور اس سے فیصلہ سازی کے دوران معلومات اور ممکنہ نتائج اور امکانات پر تنقیدی جائزہ کے مواقع کو محدود ہوتے ہیں۔‘جہاں سوشل میڈیا اور سیاسی و سماجی حلقوں میں اس فیصلے سے متعلق ہونے والی بحث سے مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں، تو وہیں چند سوالات بھی پیدا ہوئے ہیں کہ مشیر قومی سلامتی کا کردار کیا ہوتا ہے؟ ڈی جی آئی ایس آئی کی بطور مشیر قومی سلامتی تعیناتی کیوں کی گئی اور اس وقت یہ کتنی اہم ہے؟ اور عاصم ملک کو مشیر قومی سلامتی تعینات کرنا کیا ظاہر کرتا ہے اور کیا یہ کسی کے لیے پیغام ہے؟مگر اس سے قبل یہ جان لیتے ہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کون ہیں؟https://twitter.com/husainhaqqani/status/1917658419340742659لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کون ہیں؟لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کا تعلق ایک عسکری خاندان سے ہے اور اُن کے والد لیفٹیننٹ جنرل (ر) جنرل غلام محمد ملک 90 کی دہائی کے اوائل میں راولپنڈی کے کور کمانڈر رہ چکے ہیں۔پاکستان آرمی کی بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک نے پاکستان ملٹری اکیڈمی سے اعزازی شمشیر کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی تھی۔ وہ امریکہ کے ’فورٹ لیون ورتھ‘ آرمی کالج کے علاوہ برطانیہ کے رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز سے بھی فارغ التحصیل ہیں۔یہ وہی برطانوی کالج ہے جہاں سے پاکستان کی برّی فوج کے سابق سربراہان پرویز مشرف، اشفاق کیانی اور راحیل شریف بھی مختلف کورسز کر چکے ہیں۔عسکری حلقوں میں جنرل عاصم ملک کو خاص طور پر بلوچستان کے امور پر دسترس رکھنے والے افسر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اپنے عسکری کریئر میں انھوں نے دالبندین میں 41 ویں انفنٹری ڈویژن کی کمان کے علاوہ وزیرستان میں انفنٹری بریگیڈ کی کمان بھی کی۔ اس کے علاوہ وہ نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں ’وار ونگ‘ کے چیف انسٹرکٹر اور کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ میں بھی بطور انسٹرکٹر تعینات رہ چکے ہیں۔عاصم ملک ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز کے عہدے پر بھی کام کر چکے ہیں اور بطور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تعیناتی سے قبل وہ ایڈجوٹنٹ جنرل کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔عاصم ملک نے سال 2023 میں پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے لیے بنائے گئے ادارے ’ایس آئی ایف سی‘ کے تحت ملک میں زرعی اصلاحات کے لیے ’گرین انیشیئیٹو‘ پروگرام کی منصوبہ بندی کی اور بحیثیت ایڈجوٹنٹ جنرل اس کے منتظم بھی رہے۔مشیر قومی سلامتی کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور ماضی میں کون کون اس عہدے پر فائز رہا؟کسی بھی ملک میں مشیر قومی سلامتی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اور اسے ملک کے سربراہ کی ’کان اور آنکھیں‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اُن کی اہم ذمہ داریوں میں ملک کی قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اراکین کو ملک کی قومی سلامتی سے متعلق امور پر بریفنگ دینا، ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات سے متعلق تمام امور پر وزیراعظم کو باقاعدگی سے مشورہ دینا، وزیر اعظم کے ساتھ اکثر غیر ملکی دوروں پر سفارتی و عسکری نوعیت کے سٹریٹجک امور کی نگرانی کرنا، فوج اور سول حکومت کے درمیان ایک مسلسل رابطے کا کردار ادا کرنا وغیرہ ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بیرونی دوروں کے دوران وزیر اعظم کو ذاتی طور پر خارجہ پالیسی کے کردار میں شامل کرنے کے علاوہ اس بات کو یقینی بنانا بھی ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کو تمام اہم اور ضروری معلومات فراہم کی جائیں، سفارتی ملاقاتوں، دوروں اور گفت و شنید سے قبل انھیں بریف کیا جائے۔قومی سلامتی کے مشیر کا سب سے اہم کردار فیصلہ سازی کے عمل کو مؤثر طریقے سے منظم کرنا ہے۔مشیر برائے قومی سلامتی کا کام اہم خارجہ اور قومی سلامتی کے مسائل پر پالیسی سازی کے عمل کی رہنمائی کرنا بھی ہوتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس عمل میں تمام فریق شامل ہیں اور حقیقت پسندانہ پالیسی کے تمام پہلوؤں پر غور کرنا اور وزیر اعظم کے فیصلوں پر عمل درآمد کی نگرانی کرنا ہے۔قومی سلامتی کے مشیر کو اسلام آباد میں وزیر اعظم کے سیکرٹریٹ میں قومی سلامتی ڈویژن (این ایس ڈی) کی مدد حاصل ہوتی ہے جو قومی سلامتی کے مشیر کے لیے مختلف اہم نوعیت کے امور پر قومی سلامتی کونسل یا براہ راست وزیر اعظم کو رپورٹ اور جائزہ پیش کرنے کے لیے تحقیق اور بریفنگ کا کام کرتا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں سب سے پہلے یہ عہدہ سنہ 1969 میں اُس وقت کے فوجی صدر یحییٰ خان نے تخلیق کیا تھا اور پاکستان کے پہلے مشیر قومی سلامتی میجر جنرل غلام عمر تھے۔جبکہ ان کے بعد محمد اکبر خان کو فروری 1976 میں مشیر قومی سلامتی مقرر کیا گیا۔ اُن کے بعد ٹکا خان وزیر مملکت دفاع و قومی سلامتی بنے۔ پھر یہ ذمہ داری غلام حسن خان کو دی گئی۔ سنہ 1988 سے 1990 تک اقبال اخند نے مشیر قومی سلامتی کی ذمہ داری ادا کی۔ان کے بعد محمد علی درانی کو مشیر قومی سلامتی بنایا گیا۔ پھر سرتاج عزیز نے 2013 سے 2015 تک یہ عہدہ سنبھالا۔ ان کے بعد اکتوبر 2015 سے 2018 تک لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ نے قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ان کے بعد پاکستان میں 2018 کے عام انتخابات کے وقت نگران حکومت کے دور میں عبداللہ حسین ہارون چند ہفتوں کے لیے نگران وفاقی وزیر برائے قومی سلامتی بنے۔ تاہم ان کے بعد یہ ذمہ داری سابق فوجی افسر لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد لودھی کو دی گئی۔بعدازاں سنہ 2019 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں ڈاکٹر معید یوسف کو مشیر قومی سلامتی امور مقرر کیا گیا۔ اور اب ڈی جی آئی ایس آئی عاصم ملک کو پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی کا اضافی چارج دیا گیا ہے۔ڈی جی آئی ایس آئی کی بطور مشیر قومی سلامتی تعیناتی کیوں کی گئی اور یہ کتنی اہم ہے؟ڈی جی آئی ایس آئی کی بطور مشیر قومی سلامتی امور تعیناتی کتنی اہم ہے؟ اس بارے میں بات کرتے ہوئے سابق وزیر قومی سلامتی امور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ ’یہ تعیناتی اس لیے اہم ہے کیونکہ مشیر قومی سلامتی امور نہ صرف وفاقی کابینہ کا حصہ ہوتا ہے بلکہ وہ وزیر اعظم کو ملک کے تمام داخلی اور خارجی معاملات پر مشاورت کے لیے دستیاب ہوتا ہے، ایسے میں اگر ایک ایسا شخص جو ملک کی عسکری انٹیلجنس سے بھی آگاہ ہو وہ وزیر اعظم کو موجودہ حالات میں سیکورٹی امور پر بہتر تصویر پیش کر سکے گا۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آج کل قومی سلامتی صرف عسکری نہیں بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی اس کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے تاہم موجودہ صورتحال میں اس کا بنیادی محور عسکری سکیورٹی ہے اور ایسے میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی ایک اچھا فیصلہ ہے کیونکہ وہ وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کو بہتر طور پر صورتحال سے آگاہ کر سکیں گے۔‘سینئیر صحافی فہد حسین نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مشیر قومی سلامتی کا بنیاد کام یہ ہے کہ جب بھی قومی سلامتی سے جڑا کوئی مسئلہ یا بحران جنم لے تو ایک رابطہ چینل کو برقرار رکھا جائے۔‘’مشیر قومی سلامتی کے معاملات میں ایک طرح سے سیکورٹی معاملات میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے اور وہ نہ صرف عسکری و سول قیادت کے درمیان رابطہ چینل ہوتا ہے بلکہ دوسرے فریقوں کے ساتھ بھی رابطوں میں جڑا ہوتا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اس تعیناتی میں اہم یہ ہے انڈیا کے پاس اجیت ڈوول کی صورت میں ایک با اختیار، طاقتور اور انٹیلجنس کو جاننے اور وزیر اعظم کے قریب سمجھے جانے والے مشیر قومی سلامتی موجود ہیں جبکہ پاکستان کے پاس یہ عہدہ گذشتہ چند برسوں سے خالی تھا۔‘انھوں نے کہا کہ ’اب ڈی جی آئی ایس آئی کو یہ عہدہ دینے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس سے طاقتور کوئی اور نہیں ہوتا تو جب دو بااختیار افراد یہ عہدہ رکھیں گے تو دونوں جانب بات چیت کے امکانات زیادہ ہو جائیں گے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگرچہ انڈیا کی جانب سے جنگی جنون کم ہوتا نظر تو نہیں آ رہا تاہم اگر اگلے کچھ دنوں میں کوئی بھی رابطے کا چینل کھلے گا تو اس میں دونوں طرف سے قومی سلامتی کے مشیروں کا خاص کردار ہو گا۔‘سابق ڈی جی آئی ایس آئی جاوید اشرف قاضی نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ چند برسوں سے ملک میں یہ کمی محسوس کی جا رہی تھی کہ انٹیلجنس بیک گراؤنڈ کے حامل شخص کو قومی سلامتی کا مشیر ہونا چاہیے ’جیسا انڈیا میں اجیت ڈوول بڑی کامیابی سے یہ کام کر رہے ہیں کیونکہ ان کو انٹیلجنس کا تجربہ بھی ہے۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ اس لیے اہم ہے کہ عسکری بیک گراؤنڈ والے قومی سلامتی کے مشیر وزیر اعظم کو کسی بھی غیر ملکی دورے کے دوران عسکری نوعیت کا مشورہ بھی دے سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم ہاؤس اور جی ایچ کیو میں ایک پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘جاوید اشرف قاضی کہتے ہیں ’عاصم ملک کا انتخاب بہت اچھا فیصلہ ہے کیونکہ وہ عسکری اور انٹیلجنس کا تجربہ رکھتے ہیں اور وہ یہ کام بہت بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔‘آئی ایس آئی کیسے کام کرتی ہے اور تنقید کی زد میں کیوں رہتی ہے؟جاسوسی کی دنیا میں سابق انڈین آئی بی چیفس اجیت ڈوول اور ایم کے ناراینن کا نام عزت سے کیوں لیا جاتا ہے؟پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکپہلگام حملہ انڈین سکیورٹی اداروں کی ناکامی، پاکستان اور انڈیا کے درمیان باقاعدہ جنگ کا امکان نہیں: سابق سربراہ ’را‘ کا بی بی سی کو انٹرویوکیا جب انڈیا کے ساتھ کشیدگی عروج پر ہے ایسے میں ڈی جی آئی ایس آئی کو بطور مشیر قومی سلامتی مقرر کرنا ان کے اصل کام پر متاثر ہو سکتا ہے؟اس سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ ’میرا نہیں خیال کہ اس سے ان کے اصل کام پر کوئی خاص اثر پڑے گا، کیونکہ موجودہ حالات میں عسکری فیصلہ سازی جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز میں ہونی ہے، اس کے علاوہ انٹیلیجنس کا ایک مربوط نظام ہےایسے میں کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔‘جنگی صورتحال میں مشیر قومی سلامتی کی ذمہ داریوں کے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اور عسکری قیادت کے درمیان مسلسل رابطہ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اگر سکیورٹی معاملے پر کوئی میڈیا کو کوئی بیان جاری کرنا ہو تو وہ قومی سلامتی کے مشیر کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ دنوں قومی سلامتی اور سکیورٹی سے متعلق کچھ حلقوں کی جانب سے چند ایسے بیانات سامنے آئے جو متنازع سمجھے گئے، ایسے میں ڈی جی آئی ایس آئی تو میڈیا سے بات نہیں کرتے لیکن قومی سلامتی کے مشیر بات کر سکتے ہیں۔‘سینیئر صحافی فہد حسین نے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’بطور انٹیلیجنس سربراہ اُن کے کام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ وہ جس ادارے کی سربراہی کرتے ہیں اس کا نظام بہت مربوط ہے بلکہ جنرل عاصم کو انٹیلجنس چیف کی وجہ سے قومی سلامتی کے مشیر کے کردار کو بہتر طور پر ادا کرنے میں زیادہ آسانی ہو گی۔‘فہد حسین کا کہنا تھا کہ ’اگر ایسے میں کسی نئے شخص کو مشیر قومی سلامتی لگایا جاتا تو اس نے بھی ان ہی تمام اداروں سے معلومات حاصل کرنا تھا، اس لیے بہتر ہے کسی ایسے شخص کو بنایا گیا جو اس نظام سے اچھی طرح واقف ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’کسی بھی ملک سے کشیدگی یا تناؤ جیسے مواقع پر قومی سلامتی کے مشیر کا اہم کام رابطہ کاری کے چینل کو بروقت اور ہر ممکن طور پر قائم یا بحال رکھنا ہے۔‘سابق ڈی جی آئی ایس آئی جاوید اشرف قاضی کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’آئی ایس آئی ایک مضبوط ادارہ ہے اور وہ کسی فرد یا افسر کا مرہون منت نہیں ہوتا۔‘انھوں نے تبصرہ کیا کہ ’وہ یہ دونوں کام با آسانی کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس تمام طرح کی معلومات ہو گی اور وہ اس کی بنیاد پر وزیر اعظم کو بہتر تجاویز اور مشورے دے سکیں گے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ عاصم ملک کی تعیناتی سے سول و ملٹری قیادت کے درمیان کووارڈینشن مزید بہتر ہو گی۔عاصم ملک کو مشیر قومی سلامتی تعینات کرنا کیا ظاہر کرتا ہے اور کیا یہ کسی کے لیے پیغام ہے؟لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ ’موجودہ صورتحال میں حکومتی پالیسی قومی سلامتی کی ہے اور ایسے میں وزیر اعظم کو عسکری قیادت کی جانب سے کیے جانے والے تمام فیصلوں پر آن بورڈ رکھا جائے گا، ایسے میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوں گے اور بطور مشیر قومی سلامتی وہ وزیر اعظم کو بہتر آگاہ رکھ سکتے ہیں۔‘ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’جیسا کہ انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کا بیگ گراؤنڈ بھی انٹیلجنس سے ہے، ایسے میں اُن کی تعیناتی کے بعد دونوں عہدوں میں توازن برابر ہوا ہے اور یہ بہتر طور پر رابطہ چینلز قائم کر سکتے ہیں۔‘سینئیر صحافی فہد حسین نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کی جانب سے یہ ایک اچھا اقدام ہے جیسا کہ پاکستان میں ڈی جی آئی ایس آئی ایک طاقتور ادارے کے سربراہ کے طور پر بااختیار اور عسکری فیصلہ سازی کا حصہ ہوتے ہیں اور بطور مشیر قومی سلامتی وہ وفاقی کابینہ کا بھی حصہ ہیں۔‘ فہد حسین کا کہنا تھا ’اُن کو یہ عہدہ دینے سے ہم نے انڈیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر انڈیا سے بات چیت یا رابطہ کاری کا کوئی چینل کھلا تو جب وہ کوئی بات کریں گے تو اس میں پورے نظام کا وزن ہو گا۔ یہ پاکستان کی جانب سے بڑا اہم اور مثبت پیغام گیا ہے، مگر یہ دیکھنا پڑے گا کہ انڈیا کی طرف سے اس کا جواب آتا ہے یا نہیں۔‘سابق ڈی جی آئی ایس آئی جاوید اشرف قاضی اس بارے میں رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس کا مقصد انڈیا یا کسی کو کوئی خاص پیغام دینا نہیں بلکہ اپنے نظام کو بہتر بنانا ہے۔‘پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکپہلگام حملہ انڈین سکیورٹی اداروں کی ناکامی، پاکستان اور انڈیا کے درمیان باقاعدہ جنگ کا امکان نہیں: سابق سربراہ ’را‘ کا بی بی سی کو انٹرویوآئی ایس آئی کیسے کام کرتی ہے اور تنقید کی زد میں کیوں رہتی ہے؟پہلگام: انڈیا میں تحقیقات کہاں تک پہنچیں اور پاکستان کیوں غیر جانبدارنہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے؟پہلگام حملہ، ٹکراؤ کی پالیسی اور جنرل عاصم منیر کا امتحانجاسوسی کی دنیا میں سابق انڈین آئی بی چیفس اجیت ڈوول اور ایم کے ناراینن کا نام عزت سے کیوں لیا جاتا ہے؟