
تاریخ کی کتاب تقسیم کے زخموں سے بھری پڑی ہے۔ بنگال میں ان زخموں کی شروعات 1905 میں برطانوی حکومت کی طرف سے بنگال کی تقسیم سے ہوئی. جس کا مقصد مذہبی بنیادوں پر بنگالیوں کو تقسیم کر کے اُن کی بڑھتے ہوئے قومیت کے نظریے کو کمزور کرنا تھا۔ یہ تقسیم محض انتظامی فیصلہ نہیں بلکہ ایک گہرا زخم تھی جو آج تک محسوس کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد 1947 کی تقسیمِ ہند نے بنگال کو ایک بار پھر چیر کر رکھ دیا۔ ایک طرف مغربی بنگال بھارت کا حصہ بنا، اور دوسری طرف مشرقی بنگال مشرقی پاکستان کہلایا (جو بعد میں بنگلہ دیش بنا)۔ اس تقسیم نے صرف جغرافیہ نہیں بدلا، بلکہ لاکھوں لوگوں کو بے گھر، بے یار و مددگار کر دیا، اور بنگالی شناخت کو بری طرح مجروح کیا۔ آج "گریٹر بنگال" کا نظریہ ان ہی ناانصافیوں کے ازالے کے طور پر ابھر رہا ہے۔
برسوں سے آسام اور مغربی بنگال میں رہنے والی بنگالی برادریوں کو حاشیے پر دھکیلا گیا ہے۔ 30 فیصد سے زائد بنگالی افراد نے روزگار، رہائش، اور شناخت کے بنیادی حقوق میں امتیازی سلوک کی جیتی جاگتی تصویر ہیں
"لائیک یونٹی فاؤنڈیشن" کے حالیہ سروے کے مطابق ان علاقوں کے 68 فیصد بنگالی نوجوان خود کو نئی دہلی کے بجائے بنگلہ دیش کی ثقافت اور سیاست سے زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں۔ یہ احساس صرف نوجوان نسل تک محدود نہیں بلکہ نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے، اور اتحاد کی خواہش کو مزید مضبوط کر رہا ہے۔
1971 کے بعد بھارتی پالیسیوں کو اکثر ایسے اقدامات کے طور پر دیکھا گیا ہے جو بنگالی برادری کو تقسیم اور الگ تھلگ کرنے کے لیے بنائے جاتے رہے.
شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) جیسے اقدامات نے بنگالی برادریوں میں بے دخلی اور بے وطنی کا خوف پیدا کیا۔ ایک سروے کے مطابق، 55 فیصد بنگالی باشندوں نے ان قوانین کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
ادھر بنگلہ دیش بھی خاموش نہیں۔ "گریٹر بنگال" کی بازگشت دونوں اطراف سنی جا رہی ہے۔ یہ مطالبہ نہ صرف مشترکہ ثقافت، زبان اور نسل کی بنیاد پر کھڑا ہے بلکہ اس کے پیچھے مضبوط معاشی وجوہات بھی ہیں۔ بنگلہ دیش اور ان سرحدی علاقوں کے درمیان سالانہ تین ارب ڈالر سے زائد کی تجارت ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک متحد ریاست وجود میں آ جائے تو یہ معاشی امکانات مکمل طور پر روشن ہوسکتے ہیں.
تاہم، یہ راستہ مشکلات سے خالی نہیں۔ مغربی بنگال اور آسام کے کچھ علاقوں میں مسلح مزاحمت کی کارروائیاں بھی تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ جنوبی ایشیائی قوم پرستی کے ایک ممتاز ماہر کہتے ہیں: "اب یہ صرف خواب نہیں رہا بلکہ اتحاد کی پکار ایک حقیقت بنتی جا رہی ہے۔"
گریٹر بنگال کا خواب صرف جذبات یا خواہشات پر مبنی نہیں، بلکہ یہ اعداد و شمار، مشترکہ کہانیوں اور صدیوں پر محیط ثقافتی رشتوں پر کھڑا ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک، مشرقی اور مغربی بنگال کا دوبارہ ایک ہونا اب محض تھوڑے وقت کی بات ہے۔