
Getty Imagesمغوی یرغمالیوں کی تصویر جو عسکریت پسندوں کی جانب سے جاری کی گئی تھیاس رپورٹ میں شامل تفصیلات قارئین کے لیے تکیلف دہ ہو سکتی ہیںوہ 13 اگست 1995 کی صبح تھی۔ سورج کی سنہری کرنیں جموں و کشمیر کی دلفریب پہاڑیوں پر اپنا جلوا دکھا رہی تھیں۔ ضلع اننت ناگ کے گاؤں پنجمولہ کی خواتین اپنے روزمرہ کے معمول کے مطابق جنگل سے لکڑیاں کاٹنے کے لیے نکل رہی تھیں۔مگر جب یہ عورتیں گاؤں کی دھول بھری سڑک کو عبور کر کے لکڑیاں کاٹنے آبادی سے باہر جنگل کے علاقے میں پہنچیں تو ایک عورت نے ایک ایسا منظر دیکھا کہ وہ چِلا اٹھیں۔ پاکستان، انڈیا کشیدگی سے متعلق تازہ ترین تفصیلات بی بی سی اُردو لائیو پیج پردوسری خوفزدہ خواتین نے اپنے چہرے چھپا لیے۔ ایک خاتون کے مطابق ’میری آنکھوں کے سامنے کا منظر ایسا تھا کہ میں کانپ کر رہ گئی۔‘ان خواتین کی آنکھوں کے سامنے نامعلوم شخص کی سرکٹی لاش تھی۔ لاش کا سر جسم سے کچھ فاصلے پر پڑا تھا اور اُس کے سر کے گھنگریالے بال دھول سے اٹے ہوئے تھے۔چند منٹوں میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ مقامی لوگ لاش کے گرد جمع ہوئے۔ پولیس نے سنجیدگی سے تفتیش شروع کر دی۔ مرنے والا یہ شخص کون تھا، کہاں سے آیا تھا؟ اس بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔پولیس نے لاش کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ مرنے والے کے سینے پر ’الفاران‘ کا نام کندہ تھا۔اس کی قمیض کی جیب میں کاغذ کے کچھ ٹکڑے تھے جن پر اشعار درج تھے۔ اس کے علاوہ پولیس کو جیب سے ایک نوٹ بھی ملا ہے، جس پر اُردو میں کچھ تحریر تھا۔ ’ہم نے یرغمالی کو اس لیے مارا کہ حکومت نے ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے، اگر ہمارے مطالبات 48 گھنٹوں کے اندر پورے نہ ہوئے تو باقی یرغمالیوں کا بھی یہی حشر ہو گا۔‘اس کیس کا حوالہ انگریزی کتاب ’Ransom: The Untold Story of International Kidnapping‘ میں دیا گیا ہے۔وہ سر کٹی لاش کس کی تھی؟ اس کا سر اس کے دھڑ سے کیوں جدا ہوا؟ الفاران کون سا گروہتھا؟ اس کے مطالبات کیا تھے؟انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ہوئے حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد تین دہائیوں قبل جموں و کشمیر کے اسی علاقے سے چھ غیر ملکی سیاحوں کے اغوا کی یہ پراسرار اور خوفناک کہانی پھر سے جیسے تازہ ہو گئی۔پہلگام میں ہوئے حملے اور تین دہائیوں قبل سیاحوں کے اغوا کے واقعات میں خاصی مماثلتیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ اس کہانی کے کڑیاں پہلگام کے علاقے سے جڑی ہوئی ہیں۔ دوسری یہ کہ دونوں واقعات میں سیاحوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک اور مماثلت یہ ہے کہ حالیہ پہلگام حملے میں خواتین کو کچھ نہیں کہا گیا اور سنہ 1995 کے واقعے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ جب چھ غیر ملکی شہریوں کو یرغمال بنا لیا گیا1990 کی دہائی میں جب جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی مہم اپنے عروج پر تھی، اس دوران غیر ملکی سیاحوں کے اغوا کا یہ واقعہ پیش آیا جس نے پوری دنیا کو چونکا دیا۔صحافیوں ایڈرین لیوی اور کیتھی سکاٹ کلارک نے اس پورے واقعے پر مبنی ایک تحقیقی کتاب The Meadow: Kashmir 1995 – Where the Terror Began لکھی ہے۔یہ کتاب 1995 کے اغوا کے واقعے کے اہم حقائق پر روشنی ڈالتی ہے۔اغوا ہونے والے سیاحوں میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور ناروے کے چھ شہری شامل تھے۔ جیسا کہاس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ اُن میں ایک امریکی جوڑا، 42 سالہ ڈونلڈ ہچنگز اور ان کی بیوی جین شیلی شامل تھیں۔ انگلینڈ کے جولی اور کیتھ مینگن، فوٹو گرافی کے طالبعلم پال ویلز اور ان کی گرل فرینڈ کیتھرین موسلی بھی شامل تھے۔ایک امریکی جان چائلڈز، ایک جرمن ٹریکر ڈرک ہاسرٹ، اور ناروے کے ایک شہری ہنس کرسچن اوسٹرو بھی ان میں شامل تھے۔آخر میں یہ سبھی لوگ جموں اور کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں پہلگام کے لدر واٹ کے علاقے میں ایک کیمپ سائٹ پر جمع ہوئے۔تاہم کشمیر میں اتفاق سے جمع ہونے والے ان غیر ملکی سیاحوں کی قسمت اب ایک غیر متوقع اور خوفناک موڑ لینے والی تھی۔اندھیری رات کو نامعلوم مسلح افراد وہاں پہنچےGetty Imagesپہلگام کا علاقہ اپنی خوبصورتی کے لیے معروف ہےکتاب ’دی میڈو‘ کے مصنفین ایڈرین لیوی اور کیتھرین سکاٹ کلارک نے اُس واقعے میں زندہ بچ جانے والوں کا انٹرویو کیا اور ان کی کہانیاں جاننے کی کوشش کی۔اغوا سے بچ جانے والے افراد کے انٹرویوز پر مبنی کتاب میں کہا گیا ہے کہ پہلگام کے قریب لدرواٹ علاقے میں کیمپ سائٹ پر ٹھہرے غیر ملکی سیاح سبز گھاس کے میدانوں اور سفید پہاڑیوں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو رہے تھے جب یہ چونکا دینے والا واقعہ پیش آیا۔4 جولائی 1995 کی تاریک رات کو کچھ نامعلوم مسلح افراد نے آ کر چار غیر ملکی سیاحوں، جان چائلڈز (امریکی شہری)، ڈونلڈ ہچنگز (امریکی شہری)، کیتھ مینگن (برطانوی شہری) اور پال ویلز (برطانوی شہری) کو کلاشنکوف اے کے 47 کی نوک پر یرغمال بنا لیا۔اور کچھ دیر بعد دو مزید غیر ملکی سیاحوں کا نام ڈرک ہاسرٹ (جرمن شہری) اور ہنس کرسچن اوسٹرو (نارویجن شہری) اس فہرست میں شامل ہو گئے۔ اپنی کتاب ’دی میڈو‘ کے مطابق جین شیلی نے اس رات کے خوفناک تجربے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’جب ہم رات کا کھانا کھانے کی تیاری کر رہے تھے، پہاڑیوں سے ایک درجن یا اس سے زیادہ بندوق بردار نکل آئے۔ ان میں سے زیادہ تر نوعمر تھے۔ ان کے پاس خودکار رائفلیں تھیں۔‘’دو افراد نے اپنے مقامی گائیڈ کے ذریعے مجھے (جین شیلی) اور ہچنگز کو بیٹھنے اور ہمارے پاسپورٹ دکھانے کو کہا۔ بندوق برداروں نے ہچنگز کو خیمے میں جانے کا حکم دیا۔ خیمے میں ہیچنگز نے اپنی ’منی بیلٹ‘ نکالی، اسے کمبل میں لپیٹ کر میرے حوالے کر دیا۔‘پاکستان انڈیا کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کو کیوں نہیں روک پایا؟انڈیا کے فضائی حملوں کا پاکستان کیسے جواب دے گا اور کیا جوابی کارروائی اب ناگزیر ہو چکی؟مسعود اظہر: ہائی جیکرز کے مطالبے پر انڈین جیل سے رہائی اور پھر عالمی دہشتگردوں کی فہرست تکپاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟جین شیلی نے مزید کہا ’اس رات تقریباً 8 بجے تک، زیادہ تر سیاحوں کو ایک دوسرے کیمپ کی جگہ پر منتقل کر دیا گیا جب مسلح افراد کی طرف سے امریکی اور برطانوی مردوں کو بندوق کی نوک پر ان کا پیچھا کرنے کا حکم دیا گیا۔‘بندوق برداروں نے کہا کہ تمام افراد کے پاسپورٹ پر موجود تمام معلومات کی جانچ پڑتال کی جائے گی اور کچھ افراد کو پہلی ہی رات ہی رہا کر دیا جائے گا۔کتاب 'دی میڈو' کے مطابق بندوق بردار یرغمالیوں کو پہاڑیوں پر لے گئے۔ جب اگلے دن ہچنگز اور دوسرے مرد واپس نہیں آئے تو جین شیلی اور دوسری خواتین مایوس ہو گئیں۔بندوق برداروں نے گائیڈ کو چھوڑ دیا اور اسے ایک نوٹ دے کر روانہ کر دیا۔ خط میں جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر اور سجاد افغانی سمیت 21 انتہا پسندوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا، جو انڈین جیلوں میں قید تھے۔ اس خط پر ’الفاران‘ کنندہ تھا۔الفاران کیا تھا؟Getty Imagesمغویوں کے اہلخانہ پریس کانفرنس کرتے ہوئےانڈیا کا دورہ کرنے والے چھ مغربی سیاحوں کے اغوا کی ذمہ داری کشمیری شدت پسند تنظیم ’الفاران‘ نے قبول کی تھی۔ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق جموں و کشمیر کی دو انتہا پسند تنظیموں حرکت الجہاد اسلامی اور حرکت المجاہدین نے مل کر حرکت الانصار کے نام سے ایک شدت پسند تنظیم تشکیل دی تھی۔ الفاران حرکت الانصار کی ہی ایک ذیلی تنظیم تھی۔پہلگام پولیس سٹیشن میں اس واقعے کی ایف آئی آر درج کی گئی۔ انڈین پولیس نے مغویوں کی رہائی کے لیے عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی کوشش کی۔ ایف بی آئی اور سکاٹ لینڈ یارڈ کے اعلیٰ حکام انڈیا پہنچ گئے۔ایک یرغمال ٹوائلٹ جانے کا بہانہ بنا کر فرار ہو گیامیڈیا رپورٹس کے مطابق اغوا کے چار دن بعد مغوی امریکی جان چائلڈز نے ٹوائلٹ جانے کا بہانہ بنا کر باہر جانے کی اجازت مانگی۔ جان چائلڈز نے اپنے اغوا کاروں کے چنگل سے بچنے کے لیے اندھیری رات کا فائدہ اٹھایا۔42 سالہ جان چائلڈز اونچے پہاڑوں پر چڑھے تھے، اسی دوران امرناتھ یاترا کی حفاظت کی غرض سے فضا میں گشت کرنے والے ہیلی کاپٹر میں موجود اہلکاروں نے انھیں دیکھا اور بچا لیا۔تاہم، اسی دن، الفاران نے اسی پہاڑی سلسلے سے جرمن ٹریکر ڈرک ہاسرٹ اور نارویجن ہانس کرسچن اوسٹرو کو یرغمال بنا لیا۔اس واقعے نے پوری دنیا کو جیسے اپنی گرفت میں لے لیا ہو اور عالمی میڈیا اب جموں و کشمیر اور انڈین حکومت کے اگلے لائحہ عمل کے انتظار میں تھا۔Getty Imagesاغواکار کون تھے؟’دی میڈو‘ کے مطابق اس اغوا کے اصل مجرم سکندر نامی ایک کشمیری عسکریت پسند کی قیادت میں ایک ٹیم تھی، جو 1980 کی دہائی میں افغانستان میں ’جہاد‘ میں حصہ لے چکے تھے۔ تفتیش کاروں کے مطابق سکندر اس سے قبل ایک آپریشن کی قیادت کر چکے تھے جس میں دو برطانوی شہریوں کِم ہاؤسگو اور ڈیوڈ میکی کو جون 1994 میں اغوا کیا گیا تھا اور مسعود اظہر کو رہا کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی تھی جس کے بعد ’الفاران‘ گروپ بنایا گیا۔جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی مقبول ساحل نے 1995 کے اغوا کے ماسٹر مائنڈ سکندر عرف جاوید احمد کا انٹرویو کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔انھوں نے سکندر کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا، ’کشمیر میں حرکت المجاہدین سے وابستہ کمانڈر سکندر کے نام سے جانے جانے والے جاوید احمد نے سائنس میں گریجویشن کی ہے۔ سکندر کے کارکن انھیں بابا کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔‘مقبول ساحل کے مطابق حرکت الانصار کے رہنماؤں نے کچھ اہم غیر ملکی یرغمالیوں کو نکالنے کے لیے تربیت یافتہ کمانڈوز کا ایک خصوصی مشن تیار کیا۔ کمانڈوز کے اس گروپ کا نام الفاران تھا۔ الفاران تقریباً 25 شدت پسندوں کا گروپ تھا۔ انھیں غیر ملکیوں کو اغوا کرنے، انھیں محفوظ مقام پر منتقل کرنے اور جنگل میں چھپانے کی خصوصی تربیت دی گئی تھی۔Getty Imagesمغویوں کے اہلخانہوہ مسافر جس کا سر قلم کیا گیا تھا’جب سے مجھے پکڑا گیا ہے، میں پہاڑوں اور گھاٹیوں میں پیدل چل رہا ہوں اور میں تھک گیا ہوں۔ میں ہندوستانی حکومت اور ناروے کی حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہمیں آزاد کرانے کے لیے جو بھی کر سکتے ہیں کریں کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمیں کب قتل کر دیا جائے گا۔ میں خصوصی طور پر ٹورازم آفس سے اپیل کرتا ہوں کیونکہ وہاں موجود ہر شخص نے مجھے بتایا کہ یہ جگہ محفوظ ہے۔ ایک اہلکار نے مجھے اپنا کارڈ بھی دیا اور کہا کہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو میں انھیں فون کر سکتا ہوں۔‘یہ کرسچن آسٹرو کے الفاظ ہیں۔ وہی کرسچن آسٹرو جن کی بعدازاں سر کٹی ہوئی لاش ملی تھی۔کتاب ’دی میڈو‘ کے مطابق کرسچن آسٹرو ایک مصور تھے، انھیں شاعری اور کتھک سے لگاؤ تھا۔بعدازاں کرسچن آسٹرو کی فلم ساز بہن اینیٹ آسٹرو نے اپنے بھائی کی کہانی پر مبنی ایک دستاویزی فلم ’دی گولڈن سوان‘ بنائی تھی۔دیگر یرغمالی کہاں گئے؟اس وقت کی حکومت عسکریت پسندوں کے مطالبات پر ذرا بھی توجہ نہیں دے رہی تھی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق جین شیلی نے اپنے شوہر کے معاملے پر توجہ مبذول کروانے کے لیے زمین آسمان ایک کر رکھا تھا۔ انھوں نے امریکہ کے صدر بل کلنٹن، پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور متعدد سرکاری حکام سے مدد طلب کی۔شیلی نے پانچ مہینے انڈیا میں گزارے، اس امید پر کہ جب ان کے شوہر کی رہائی ہوئی تو وہ وہاں ہوں گی۔ وقت کی سوئی تیز رفتاری سے آگے بڑھی لیکن کوئی ٹھوس اطلاع نہ مل سکی۔کتاب ’دی میڈو‘ کے مطابق سیاحوں کے اغوا میں ملوث افراد میں سے ایک عبدالحمید ضلع اننت ناگ کے ایک گاؤں میں فوج کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا۔مئی 1996 میں ایک گرفتار عسکریت پسند نے انڈین تفتیش کاروں اور ایف بی آئی کے ایجنٹوں کو بتایا کہ اس نے 13 دسمبر 1995 کو چار مغویوں کو گولی مارنے کی آواز سنی تھی۔اس معلومات کی بنیاد پر ماگام کے جنگلاتی علاقے میں 10 دن تک کھدائی کی گئی لیکن کوئی لاش نہیں ملی۔کتاب ’دی میڈو‘ میں ایڈرین لیوی اور کیتھی سکاٹ کلارک نے دعویٰ کیا ہے کہ یرغمالیوں کو سکھنوئی گاؤں کے ایک گیسٹ ہاؤس اور وروان کی وادیوں میں ہفتوں تک رکھا گیا۔ کتاب میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ان سیاحوں کو پیسوں کے عوض ایک دوسرے گروہ کو بیچ دیا گیا جس نے چار مغوی مغربی باشندوں کو 2 دسمبر 1995 کو جنوبی کشمیر کے شہر اننت ناگ سے پانچ گھنٹے کی مسافت پر واقع جڑواں گاؤں متی اور گاوران میں قتل کر دیا گیا تھا۔تاہم اس بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔صحافی مقبول ساحل کے مطابق انھوں نے جین شیلے کا انٹرویو کیا۔ جین شیلی نے ڈان ہچنگز کی حفاظت کے بدلے میں امریکی سفارت خانے کو جو چاہا دینے کی پیشکش کی۔ 13 فروری 1996 کو مقبول ساحل نے کمانڈر سکندر سے دوبارہ ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور سمجھایا کہ یرغمالیوں کی رہائی کئی طریقوں سے فائدہ مند ہو گی۔ ٹیلی فون پر گفتگو میں سکندر نے اشارہ کیا کہ تین یرغمالی زندہ ہیں۔ تاہم اس سے پہلے کہ مقبول کی طے شدہ تاریخ پر سکندر سے ملاقات ہوتی، سکندر ایک بم دھماکے میں ہلاک ہو گیا۔ اگرچہ اس وقت انڈین حکومت نے یرغمالیوں کے بدلے مسعود اظہر کو رہا کرنے کا مطالبہ نہیں مانا لیکن عسکریت پسندوں کی طرف سے اس ضمن میں کوشش ترک نہیں کی گئی۔ بعدازاں ایک انڈین مسافر طیارے کو اغوا کر کے کابل لے جایا گیا اور یرغمالیوں کے بدلے مسعود اظہر کی رہائی ممکن ہو پائی۔آج تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی مغوی غیر ملکی سیاحوں کی لاشیں نہیں مل سکیں اور نہ ہی وہ کہیں سے زندہ مل پائے۔ کئی سالوں سے میڈیا کی دنیا میں گونجنے والے اغوا کا یہ کیس آج بھی ایک معمہ ہی ہے۔پاکستان انڈیا کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کو کیوں نہیں روک پایا؟انڈیا کے فضائی حملوں کا پاکستان کیسے جواب دے گا اور کیا جوابی کارروائی اب ناگزیر ہو چکی؟پاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟مسعود اظہر: ہائی جیکرز کے مطالبے پر انڈین جیل سے رہائی اور پھر عالمی دہشتگردوں کی فہرست تک