
Samii Woodسمی وُڈ ہر دو ہفتے بعد کچھ اجنبی لوگوں کے ساتھ ایک خاص ملاقات کرتی ہیں جسے وہ ’کڈل پڈل‘ کا نام دیتی ہیں۔اس میں شامل سب لوگ نرم گدوں اور کمبلوں کے درمیان آرام سے لیٹ کر ایک دوسرے کو دوستانہ انداز میں گلے لگاتے ہیں تاکہ سکون اور محبت کا احساس مل سکے۔41 سالہ سمی بیڈفورڈ میں رہتی ہیں اور ایک پیشہ ور ’کڈل تھراپسٹ‘ ہیں۔ وہ نہ صرف گروپ میں بلکہ اکیلے افراد کو بھی گلے لگانے کی تھیراپی دیتی ہیں۔سمی کا ماننا ہے کہ کسی کو گلے لگا کر آپ کو صرف اچھا ہی محسوس نہیں ہوتا بلکہ یہ صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب آپ کسی کو گلے لگاتے ہیں تو آپ کے جسم میں سیروٹونن، یعنی خوشی کا ہارمون بڑھتا ہے۔ اسی طرح آکسیٹوسن بھی بڑھتا ہے جو محبت اور تعلق بنانے والا ہارمون ہوتا ہے۔Samii Woodسمی کہتی ہیں کہ چھونے سے نہ صرف تناؤ پیدا کرنے والے ہارمون کورٹیسول کی سطح کم ہوتی ہے بلکہ یہ ہمارے اعصابی نظام کو بھی متوازن کر سکتا ہے۔سمی کے پاس آنے والے افراد اعصابی مسائل، پی ٹی ایس ڈی یا تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ میری یہ سروس صرف عجیب و غریب مردوں کے لیے ہو گی، لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ میرے پاس مختلف عمر کے مرد اور خواتین آتی ہیں۔‘بیڈفورڈ کے 36 سالہ پیپ ویلیریو پچھلے چند ماہ سے سمی کی ’کڈل پڈل‘ میں شریک ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’یہ باتوں کے بغیر شفا دینے والا عمل ہے۔ آپ کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ دوسرا شخص کس تکلیف سے گزر رہا ہے، آپ صرف اتنا جانتے ہیں کہ آپ کا لمس (ٹچ) اسے سکون دے رہا ہے۔‘فیملی تھیراپی کیا ہے اور عامر خان اپنی بیٹی کے ساتھ اس کا حصہ کیوں بنے؟بات بات پر بھڑک اُٹھنے والے والدین سے کیسے نمٹا جائے؟مختلف بیماریوں کا جونکوں کی مدد سے ’قدرتی علاج‘ کیا ہے اور یہ دوبارہ مقبول کیوں ہو رہا ہے؟وہ خاتون جنھوں نے سگریٹ نوشی ترک کی اور کامیاب کاروبار کی بنیاد رکھیDanny Fullbrook/BBCسمی بتاتی ہیں کہ گروپ سیشنز میں شریک افراد کو کچھ خاص جذباتی منظرنامے تصور کرنے کو کہا جاتا ہے تاکہ وہ احساسات کی گہرائی کو محسوس کر سکیں۔وہ کہتی ہیں کہ میں کبھی کبھار یہ کہتی ہوں ’ذرا سوچیں کہ جس شخص کو آپ گلے لگا رہے ہیں، یہ وہ وہی شخص ہو جسے آپ زندگی میں ایک بار اور گلے لگانا چاہتے ہوں۔‘وہ بتاتی ہیں کہ یہ بات خود سمی کو بھی جذباتی کر دیتی ہے اور ’ہم نے کئی بار مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے کندھے پر پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا ہے۔‘ون آن ون سیشنز میں تھراپی ہر فرد کی ضرورت کے مطابق ہوتی ہے۔کبھی صرف ساتھ بیٹھ کر بات چیت ہوتی ہے اور بازو کندھے پر رکھا جاتا ہے، تو کبھی لیٹ کر آرام دہ انداز میں ایک دوسرے کو تھامنا شامل ہوتا ہے۔اس میں نرمی سے پیٹھ سہلانا یا کسی کو بانہوں میں لے کر سنبھالنے جیسے پر سکون لمحات بھی شامل ہوتے ہیں جن کا مقصد جذباتی سہارا دینا ہوتا ہے۔Samii Woodکچھ لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہو سکتی ہے کہ لوگ اس قسم کی تھیراپی کے لیے پیسے بھی دیتے ہیں، لیکن سمی واضح کرتی ہیں کہ یہ ’مکمل طور پر کپڑوں میں ملبوس ہو کر، دوستانہ اور محبت بھرا سہارا دینے والا سیشن‘ ہوتا ہے۔محفوظ ماحول قائم رکھنے کے لیے سمی ہر نئے کلائنٹ کو سیشن سے پہلے اچھی طرح جانچتی ہیں اور ایک رضامندی کے فارم پر دستخط کرواتی ہیں جس میں باؤنڈریز یا حدود واضح طور پر درج ہوتی ہیں۔سمی کہتی ہیں ’یہ سارا عمل کلائنٹ کی مرضی سے ہوتا ہے۔ وہ خود بتاتے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کس چیز میں آرام محسوس کرتے ہیں۔ ہم مسلسل بات چیت کر رہے ہوتے ہیں۔‘وہ یہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بعض اوقات جسمانی لمس سے کسی میں جنسی جذبات بھی پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن ایسی صورت میں وہفوراً سیشن روک دیتی ہیں یا پوزیشن تبدیل کر دیتی ہیں تاکہ کلائنٹ کی توجہ دوبارہ سیشن کے اصل مقصد یعنی سکون اور جذباتی سہارا دینے کی طرف واپس لائی جا سکے۔برطانیہ میں اس قسم کی تھیراپی کے لیے کوئی سرکاری ادارہ موجود نہیں ہے لیکن سمی جیسے پیشہ ور افراد ’کڈل پروفیشنلز انٹرنیشنل‘ (سی پی آئی) نامی تنظیم سے سند حاصل کر سکتے ہیں۔یہ ادارہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس کے ارکان ’اخلاقی لمس‘ کے اصول سیکھیں اور ہر سیشن میں باقاعدہ رضامندی کو یقینی بنائیں۔اگرچہ بہت سے لوگ اس پیشے میں پیشہ ورانہ معیار برقرار رکھتے ہیں لیکن پھر بھی یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں بدسلوکی یا غلط فائدہ اٹھانے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔سمی کہتی ہیں ک اگر کسی کو لگے کہ سیشن کے دوران کچھ غلط ہوا ہے تو وہ پولیس، مقامی انتظامیہ یا سی پی آئی کو رپورٹ کر سکتے ہیں۔سی پی آئی کی بنیاد ویلنیس ایکسپرٹ کلیئر مینڈلسن نے رکھی جن کے مطابق اس پیشے میں نظم و ضبط اور رہنمائی کی سخت ضرورت تھی۔آج سی پی آئی ایک رجسٹرڈ ادارہ ہے جو ’کمپلیمنٹری میڈیکل اسوسی ایشن‘ سے تسلیم شدہ ہے اور ’انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار کمپلیمنٹری تھراپسٹس‘ کی منظوری سے تربیت بھی فراہم کرتا ہے۔سمی نے کڈل تھیراپی کے بارے میں ایک ڈاکیومنٹری میں دیکھا کہ دوسرے ملکوں میں لوگ اسے بہت پسند کرتے ہیں۔لیکن وہ کہتی ہیں کہ برطانیہ میں لوگ ایک دوسرے کو گلے لگانے یا چھونے سے کتراتے ہیں۔ان کے خیال میں اس کی وجہ کورونا اور لاک ڈاؤنز ہیں جن کی وجہ سے لوگ ایک طرف تو جسمانی لمس کو ترس گئے اور دوسری طرف اس سے گھبرا بھی گئے۔وہ کہتی ہیں کہ ’امریکہ اور یورپ میں یہ تھیراپی عام ہے، لیکن یہاں نہیں۔ حالانکہ یہاں بھی لوگوں کو اس کی ضرورت ہے۔ اگر نہ ہوتی تو لوگ میرے پاس کیوں آتے؟‘وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ہمیں لگتا ہے کہ ہم آن لائن ہیں تو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں لیکن اصل میں ہم ایک دوسرے سے دور ہو چکے ہیں۔‘’’ہم سب کسی نہ کسی تعلق، کسی احساس کی تلاش میں ہیں اور اگر کوئی ایسا کہے کہ ’مجھے بس کسی کا سہارا چاہیے، کوئی مجھے گلے لگائے، مجھے محسوس کرے اور میں اپنے جذبات کے خول سے باہر آ سکوں‘ تو اس میں شرمانے کی کوئی بات نہیں ہے۔‘گلے لگانے کے فائدےGetty Imagesچھونے یعنی لمس کا ہماری جسمانی اور ذہنی صحت پر مثبت اثر ہوتا ہے۔ یہ بات ڈنمارک کے ایک نیورو سائنسدان ڈاکٹر جولیان پیک ہائزر اور ان کے ساتھیوں کی تحقیق میں سامنے آئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چاہے ہمیں کوئی اپنا قریبی شخص چھوئے یا کوئی ڈاکٹر، دونوں سے صحت کو برابر فائدہ ہو سکتا ہے۔لیکن لندن کی یونیورسٹی کالج کی پروفیسر صوفی سکاٹ کا کہنا ہے کہ چھونے کے فائدے ضرور ہیں، مگر یہ بھی بہت اہم ہے کہ چھونے والا شخص کون ہے۔وہ ایک اور تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں: ’اس تحقیق میں لوگوں کو سکینر میں رکھا گیا اور جسمانی تکلیف دی گئی۔ دماغ نے اس درد کا ردعمل دکھایا۔ لیکن جب ان کا قریبی ساتھی ان کا ہاتھ پکڑتا تھا، تو انھیں درد کم محسوس ہوتا تھا۔‘’جسم میں کیمیائی تبدیلیاں ہو رہی ہوتی ہیں یعنی جب کوئی اپنا ہوتا ہے تو جسم میں ایسے کیمیکل بنتے ہیں جو سکون دیتے ہیں۔‘صوفی سکاٹ کہتی ہیں کہ کسی پیشہ ور شخص سے ایسا تعلق بنانا آسان نہیں ہوتا۔ ہم سب ہر کسی کو گلے نہیں لگا سکتے یا ہاتھ نہیں پکڑا سکتے۔مثال کے طور پر بال کٹوانا یا نیل پالش لگوانا آرام دہ ہوتا ہے کیونکہ وہ جسم کے ایسے حصے ہیں جو حساس نہیں ہوتے۔لیکن گلے لگانا یا کسی کے بہت قریب آنا کچھ لوگوں کو عجیب یا غیرمحفوظ محسوس کروا سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر انسان کو تحفظ کا احساس نہ ہو تو ایسا لمس فائدہ دینے کے بجائے نقصان بھی دے سکتا ہے۔البتہ دنیا بھر میں کئی تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ پیار بھرے، محفوظ لمس سے جسمانی اور ذہنی صحت کو واضح فائدے پہنچتے ہیں۔Kimberley Piper/BBCویلیریو مختلف طریقوں سے ذہنی سکون حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جیسے ’تائی چی‘ اور ’ٹیپنگ‘ وغیرہ، تب انھیں ’کڈل تھراپی‘ کے بارے میں پتا چلا۔وہ کہتے ہیں: ’یہ تھراپی ذہنی دباؤ کم کرتی ہے، سکون دیتی ہے اور انسان کو دوسروں سے جُڑے ہونے کا احساس دلاتی ہے۔‘سمی نے ایسا ماحول بنایا ہے جہاں نرم موسیقی چلتی ہے اور شروع میں گلے ملنے کی آسان مشقیں کروائی جاتی ہیں تاکہ لوگ شرم محسوس نہ کریں۔ویلیریو کہتے ہیں: یہ مشقیں کرنے کے بعد زمین پر لیٹ کر اجنبی لوگوں سے گلے ملنا بالکل عام سی بات لگتی ہے۔‘کئی بار لوگ صرف ان مشقوں کے دوران ہی جذباتی ہو کر رونے لگتے ہیں۔ویلیریو نے سمی کے ساتھ اکیلے سیشنز بھی کیے ہیں جو ان کے مطابق زیادہ گہرا تعلق بناتے ہیں۔وہ کہتے ہیں: ’جب میں سمی کے ساتھ لیٹتا ہوں اور وہ مجھے گلے لگاتی ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی مجھے سنبھال رہا ہو۔‘آخر میں وہ کہتے ہیں ’مجھے سکون ملتا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے میرا بوجھ ہلکا ہو گیا ہو اور میں زیادہ محفوظ محسوس کرتا ہوں۔‘فیملی تھیراپی کیا ہے اور عامر خان اپنی بیٹی کے ساتھ اس کا حصہ کیوں بنے؟بات بات پر بھڑک اُٹھنے والے والدین سے کیسے نمٹا جائے؟خاتون فُٹ بال شائق کو گلے لگانے پر ایرانی گول کیپر پر 30 کروڑ تومان جُرمانہ عائد: ’یہ تاریخ میں گلے ملنے کا سب سے مہنگا واقعہ ثابت ہوا‘وہ خاتون جنھوں نے سگریٹ نوشی ترک کی اور کامیاب کاروبار کی بنیاد رکھیمختلف بیماریوں کا جونکوں کی مدد سے ’قدرتی علاج‘ کیا ہے اور یہ دوبارہ مقبول کیوں ہو رہا ہے؟