
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر کی تحصیل ادینزے کے ایک چھوٹے سے گاؤں کمالا خادگزے میں گزرے برسوں میں کیلنڈر پر سال تبدیل ہوتے رہے لیکن ایک چیز جوں کی توں رہی اور وہ ہے اس گاؤں کی مرکزی سڑک۔یہ سڑک لوگوں کی زندگیوں سے جڑی ہے لیکن مقامی افراد کا کہنا ہے کہ علاقے کے سیاسی نمائندں کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔یہ سڑک اس قدر خستہ حال ہے کہ بہت سے افراد کو یاد تک نہیں کہ اس کی آخری بار کب مرمت کی گئی تھی۔بارشوں میں یہ دلدل بن جاتی ہے اور گرمیوں میں گردوغبار کے طوفان اٹھتے ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔تعلیم، صحت اور بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی نے اس گاؤں کو ترقی کی دوڑ سے باہر کر دیا ہے لیکن اس سب کے باوجود کمالا کے عوام نے ہمت ہارنے کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی سڑک کی مرمت کا بیڑہ اٹھایا ہے۔مقامی افراد کے مطابق آج اس سڑک کی حالت ایسی ہو چکی ہے کہ اس پر ’گدھا گاڑی بھی مشکل سے چل سکتی ہے۔‘ چنانچہ انہوں نے خود ہی اس کی تعمیر و مرمت کا کام شروع کر دیا ہے۔کمالا خادگزے سے چکدرہ تک چھ کلومیٹر طویل لنک روڈ سنہ 1988 میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے اس کی کوئی خاطر خواہ مرمت نہیں ہوئی۔مقامی رہائشی حنیف اللہ ریٹائرڈ فوجی ہیں اور اب اسی گاؤں میں کپڑوں کی دکان چلاتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ ’اس سڑک کی حالت اب ایسی ہو چکی ہے کہ اس پر ’گدھا گاڑی چل سکتی ہے نہ پیدل چلنا آسان ہے۔‘انہوں نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’مریضوں کو ہسپتال لے جانا ایک عذاب بن چکا ہے۔ معمولی بیماری بھی اس سڑک پر سفر کے باعث سنگین ہو جاتی ہے۔‘زاہد زمان خان اسی ویلیج کونسل سے کسان کونسلر منتخب ہوئے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’دو کلومیٹر سے بھی کم فاصلہ ہم 600 روپے میں طے کرتے ہیں۔ ہمارے مریض، بوڑھے اور بچے اس سڑک کی وجہ سے عذاب میں مبتلا تھے، اس صورتِ حال نے گاؤں کے مشران کو مجبور کیا کہ وہ خود ہی کوئی قدم اٹھائیں۔‘کمالا کے قریباً 1300 رہائشیوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ اب کسی سیاسی نمائندے کے وعدوں کا انتظار نہیں کریں گے۔گاؤں کے نوجوانوں، بوڑھوں حتیٰ کہ خواتین نے چندہ اکٹھا کیا تاکہ یہ سڑک تعمیر کی جا سکے۔زاہد زمان کے مطابق اس سڑک پر گزشتہ 40 برس سے کوئی کام نہیں ہوا۔گاؤں کے نوجوانوں، بوڑھوں حتیٰ کہ خواتین نے چندہ اکٹھا کیا تاکہ یہ سڑک تعمیر کی جا سکے (فائل فوٹو: نثار علی باچا)ان کے مطابق’ہم نے اپنے سیاسی نمائندوں کو بارہا درخواست دی، ان کے پاس جرگے بھیجے، نوجوان گئے، بزرگ منت سماجت کرتے رہے لیکن کسی نے اس پر توجہ نہیں دی بالآخر 40 سال کی مسلسل خواری سے ہم تنگ آگئے اور خود ہی میدان میں کود پڑے۔‘اس علاقے میں مشران پر مشتمل ایک کمیٹی پہلے سے موجود ہے جو گاؤں کے گلی کوچوں میں صفائی اور دیگر کاموں سے متعلق فیصلے کرتی ہے۔اس گاؤں کے زیادہ تر باسیوں کا پیشہ کھیتی باڑی ہے اور ایک بڑی تعداد کراچی میں سمندر کے آس پاس روزگار سے وابستہ ہے۔زاہد زمان بتاتے ہیں کہ ’ہماری کمیٹی نے سعودی عرب، دبئی اور کراچی میں کام کرنے والے گاؤں کے افراد سے رابطہ کیا اور انہیں صورتِ حال سے آگاہ کیا جنہوں نے فوری طور پر مالی امداد کرنے کی یقین دہانی کرائی۔گزشتہ جمعےکو ہم نے علاقے کی تمام مساجد سے چندہ اکھٹا کیا۔ ہمارے پاس پانچ لاکھ روپے سے زائد رقم جمع ہوئی جس میں سے اب تک چار لاکھ روپے سے زائد خرچ کیے جا چکے ہیں۔‘ان کے مطابق سمینٹ اور بجری سے سڑک کی مرمت کا کام جاری ہے اور آنے والے دنوں میں یہ مکمل طور پر ازسرنو تعمیر کر لی جائے گی۔’اس وقت تو ہم اسے گاڑیوں اور انسانوں کے لیے قابل استعمال بنا رہے ہیں لیکن ہمارا کام جاری رہے گا اور اسے مکمل طور پر تعمیر کریں گے۔‘سڑک کے علاوہ کمالا میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کی حالت بھی ابتر ہے (فائل فوٹو: نثار علی باچا)مقامی مستریوں اور مشینری کے ہمراہ یہاں گاؤں کے نوجوان اور بزرگ خود کام کر رہے ہیں۔زاہد زمان بتاتے ہیں کہ ’ہم اب کسی کے انتظار میں نہیں ہیں۔ ہم خود اپنی گلیاں، سڑکیں اور گاؤں بنائیں گے۔ اس سڑک میں جس طرح خواتین، نوجوانوں اور بزرگوں نے ساتھ دیا، اب سب کچھ آسان لگتا ہے۔‘کمالا کے عوام کا بڑا شکوہ اپنے منتخب نمائندوں سے ہے۔گزشتہ عام انتخابات میں گاؤں کے افراد نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں محبوب شاہ اور شفیع اللہ کو بھاری اکثریت سے کامیاب کیا تھا۔حنیف اللہ کے مطابق ’الیکشن کے بعد یہ لوگ غائب ہو جاتے ہیں۔ ہم نے ہر سیاسی جماعت سے رابطہ کیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ چنانچہ جب حکومتی دروازے بند ہوں تو امیدیں لوکل کمیٹیوں سے وابستہ ہو جاتی ہیں۔‘سڑک کے علاوہ کمالا میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کی حالت بھی ابتر ہے۔ گاؤں میں کوئی معیاری سکول یا کالج نہیں۔ مقامی افراد کے مطابق آج اس سڑک کی حالت ایسی ہو چکی ہے کہ اس پر ’گدھا گاڑی بھی مشکل سے چل سکتی ہے۔‘ (فائل فوٹو: نثار علی باچا)حنیف اللہ نے بتایا کہ ’کوئی معیاری ڈسپنسری ہے نہ ہی ہسپتال۔ معمولی بیماری پر مریضوں کو چکدرہ یا دیگر شہروں کا رُخ کرنا پڑتا ہے اور اکثر بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے جان بھی چلی جاتی ہے۔ اس دور میں ہمارے بچے چیئر لفٹ کے ذریعے کالج جاتے ہیں۔‘سید نثار علی باچا بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’کمالا کے عوام نے ثابت کر دیا کہ جہاں جذبہ ہو وہاں راستہ نکل آتا ہے۔ سڑک کی مرمت کا کام دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے۔ گندم کی کٹائی کے سبب مقامی لوگ مصروف ہوگئے ہیں لیکن جس کو جتنا وقت ملتا ہے وہ اس کارِخیر میں حصہ ڈالتا ہے۔‘چھ کلومیٹر سڑک میں سے اب تک چار کلومیٹر کی ابتدائی مرمت کا کام مکمل ہوچکا ہے جبکہ مزید گڑھے بھی بھرے جا رہے ہیں۔ زاہد زمان بتاتے ہیں کہ ’یہ کام اب صرف مرمت تک محدود نہیں رہے گا۔ ہم یہ سڑک مکمل طور پر اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کر رہے ہیں اور صرف سڑک ہی نہیں بلکہ گاؤں کا ہر کام اب خود کریں گے۔‘’ہمیں مقامی افراد کے علاوہ بیرون ملک اور علاقوں میں کام کرنے والوں کا ساتھ حاصل ہے۔ ہم ان سب کی مدد سے اس گاؤں کو ماڈل ویلیج بنائیں گے۔‘