’نظارے نہیں ہوں گے تو کاروبار بھی نہیں ہو گا‘: ہمالیہ کے وہ پہاڑ جو نظروں سے اوجھل ہوتے جا رہے ہیں


BBCنیپال کے اناپورنا علاقے میں دھند کی ہمالیہ کی چوٹیوں نظارے کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ میں نیپال کے دارالحکومت میں ہمالیہ کے پہاڑیوں کو دیکھتے ہوئے پلا بڑھا ہوں۔ وہاں سے نکلنے کے بعد مجھے زمین کی سب سے بلند پہاڑی چوٹیوں کے دلکش نظاروں کی یاد ستاتی رہی ہے۔جب بھی میں کھٹمنڈو جاتا ہوں تو مجھے اس ڈرامائی پہاڑی سلسلے کی ایک جھلک دیکھنے کی خواہش رہتی ہے مگر اِن دنوں بدقسمتی سے ایسا ممکن نہیں ہو پاتا۔اس کا سب سے بڑی ذمہ داری فضائی آلودگی پر عائد ہوتی ہے جو خطے میں بہت زیادہ پھیل چکی ہے۔ ایسا بہار اور خزاں کے مہینوں میں بھی ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا جب آسمان اِن دنوں صاف ہوتا تھا۔گذشتہ سال اپریل میں میری بین الاقوامی پرواز نے کھٹمنڈو میں لینڈنگ سے قبل آسمان میں قریب 20 چکر کاٹے کیونکہ خراب موسم سے ایئرپورٹ کی حد نگاہ بُری طرح متاثر تھی۔میں نے جس ہوٹل میں چیک اِن کیا وہاں عام حالات میں پہاڑ واضح نظر آتے ہیں کیونکہ یہ اونچائی پر واقع ہے لیکن دو ہفتوں کے قیام کے دوران ایسا ایک بھی دن نہیں آیا۔کھٹمنڈو کے نواح میں واقع نگرکوٹ جہاں سے عام طور ہمالیہ کے پہاڑ صاف دکھائی دیتے ہیں لیکن وہاں سے بھی ہمیں صرف گردوغبار ہی دکھا جیسے کہ پہاڑ وہاں موجود ہی نہ ہوں۔یوگینڈرشکیا 1996 سے نگر کوٹ میں ہوٹل چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے اب وہ لوگوں کو یہ نہیں کہتے کہ ان کا ہوٹل طلوعِ آفتاب یا غروبِ آفتاب اور ہمالیہ کے پہاڑوں کا نظارہ کرنے کے لیے بہترین جگہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اب فضا میں موجود گرد و غبار کی وجہ سے آپ بیشتر دنوں میں یہ نظارے نہیں کر سکتے ہیں۔ وہ اب اپنے ہوٹل کو ایک تاریخی اور پرسکون جگہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔پچھلے سال کے میرے دورے کے دوران مجھے امید تھی کہ اناپورنا میں ٹریکنگ کے دوران شاید ہمالیہ کی چوٹیوں کا نظارہ دیکھنے کو مل جائے لیکن میری قسمت اتنی اچھی نہ تھی۔BBCدھند کے باعث نگرکوٹ سے ہمالیہ کی چوٹیاں نہیں دکھائی دے رہیںسائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ خطے میں دھند شدید اور دیرپا ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے اب لوگوں کے لیے دور تک دیکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔یہ دھند فضا میں موجود آلودگی کے باعث پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ گرد و غبار کے ذرات اور آگ سے اٹھنے والا دھواں شامل ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں حدِ نگاہ پانچ ہزار میٹر (16 ہزار 400 فٹ) تک رہ گئی ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث خشک موسم اب زیادہ عرصے تک رہتا ہے اور یہ دھند آلود صورتحال اس موسم میں زیادہ پائی جاتی ہے۔خطے میں مون سون جون سے ستمبر تک رہتا ہے اور اس دوران بادلوں کے باعث پہاڑ نظر نہیں آتے اور حدِ نگاہ بھی کم رہتی ہے۔پہلے مارچ سے مئی اور اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں سیاح زیادہ آیا کرتے تھے کیونکہ ان مہینوں میں آسمان میں صاف رہتا تھا اور دور تک باآسانی دیکھا جا سکتا تھا۔لیکن بڑھتے درجہ حرارت، بارشوں میں کمی اور فضائی آلودگی میں اضافے کے باعث اب موسمِ بہار کے مہینوں میں بھی ہر طرف گہری دھند ہوتی ہے اور حدِ نگاہ میں کمی آتی جا رہی ہے۔ اب یہ صورتحال دسمبر سے ہی ہونا شروع ہو گئی ہے۔’نظارے نہیں ہوں گے تو کاروبار بھی نہیں ہو گا‘نیپال کی جانی مانی خواتین ٹریننگ گائیڈ لکی چھیتری کہتی ہیں کہ اس دھند آلود صورتحال کی وجہ سے کاروبار میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔لکی چھیتری بتاتی ہیں کہ گذشتہ برس انھیں ایک ٹریکر گروپ کو پیسے واپس کرنے پڑے کیونکہ گائیڈ دھند کی وجہ سے انھیں ہمالیہ کی چوٹیاں دکھا نہیں سکا تھا۔ایک آسٹریلین سیاح جو 1986 سے لے کر اب تک تقریباً ایک درجن مرتبہ نیپال کا دورہ کر چکے ہیں کا کہنا ہے کہ پہاڑ نہ دیکھ پانا کافی مایوس کن تھا۔جان کیرول کہتے ہیں کہ دس سال قبل ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔ ’اب ایسا لگتا ہے جیسے دھںد نے ہر چیز ڈھانپ لی ہے اور یہ مجھ جیسے سیاحوں کے لیے بہت زیادہ مایوس کن ہے۔‘نیپال کے ٹریکنگ ایجنٹس اسوسی ایشن کے عہدیدار کرشنا اچاریا لکھتے ہیں کہ ٹریکنگ انڈسٹری مشکلات کا شکار ہے۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے ٹریکنگ آپریٹرز مایوسی کا شکار ہیں کیوں کہ نظارے نہ دکھنے کا مطلب ہے کہ کام بھی نہیں ہو گا۔ ان میں بہت سے افراد کوئی دوسرا پیشہ اپنانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔‘سرحد کی دوسری جانب انڈین ہوٹل مالکان اور ٹوئر پریٹرز کا کہنا ہے کہ دھند پہلے سے کہیں زیادہ گہری اور پہلے سے کہیں زیادہ جلدی واپس آ رہی ہے۔مالیکہ ورڈی اتراکھںڈ میں کمیونٹی کے تحت چلائے جانے والا ایک کاروبار چلاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی کے برعکس خشک سپیلز کا دورانیہ طویل ہوتا اور اس کے بعد تیز بارش ہوتی ہے۔ تاہم سیاح اب بھی آ رہے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ جو سیاح دھند کے باعث نظارے نہیں کر پاتے وہ دوبارہ لوٹ کر آتے ہیں۔پاکستان میں مغربی ہمالیہ کا علاقہ فضائی آلودگی کے باعث پیدا ہونے والی اس دھند سے نسبتاً کم متاثر دکھائی دیتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں شہر پہاڑوں سے نسبتاً زیادہ دوری پر واقع ہیں۔تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ وہ پہاڑی سلسلے جو پہلے پشاور یا گلگت سے باآسانی دکھائی دیتے تھے اب نظر نہیں آتے۔پاکستان کی ماحولیاتی ایجنسی کے سابق سربراہ آصف شجاع کہتے ہیں کہ دھند کی چادر اب زیادہ عرصے تک رہتی ہے اور ہمیں وہ پہاڑ نظر نہیں آتے جو ہم ماضی میں دیکھ سکتے تھے۔دھند اور گرد آلود طوفانوں میں اضافہدنیا کے سب سے زیادہ فضائی آلودگی والے شہروں کی فہرست میں جنوبی ایشیا کے شہر باقاعدگی سے سرفہرست آتے ہیں۔خطے بھر میں زہریلی ہوا نے عوامی صحت کو شدید متاثر کیا ہے، جس کے باعث اکثر سفر میں رکاوٹ اور تعلیمی اداروں کی بندش دیکھنے میں آتی ہے۔گاڑیوں اور صنعتوں سے نکلنے والا دھواں، تعمیراتی منصوبوں سے اٹھنے والی گرد، کچی سڑکوں سے اُڑتی دھول اور کوڑا کرکٹ جلانے جیسے عوامل پورے سال فضائی آلودگی کا سبب بنتے ہیں۔اس کے علاوہ لمبے خشک موسم کے باعث بڑھتی ہوئی جنگلاتی آگ اور انڈیا، پاکستان اور نیپال میں فصلوں کی کٹائی کے بعد باقیات جلانے کا عمل بھی آلودگی میں نمایاں اضافہ کرتا ہے۔موسمی حالات، جن میں گرم ہوا نیچے کی ٹھنڈی ہوا پر موجود ہوتی ہے، ان آلودہ ذرات کو نیچے کی طرف پھنسائے رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ فضا میں تحلیل نہیں ہو پاتے۔جنوبی ایشیائی ماہرِ موسمیات ڈاکٹر سومیشر داس نے بی بی سی کو بتایا: ’جنوبی ایشیا میں دھند اور گرد آلود طوفانوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سمیت دیگر عوامل کی وجہ سے یہ رجحان مستقبل میں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔‘نیپال کے محکمہ موسمیات کے مطابق، سیاحتی مقام پوکھرا کے ہوائی اڈے پر 2024 میں 168 دن ایسے ریکارڈ کیے گئے جب فضا دھند آلود تھی جبکہ 2020 میں یہ تعداد صرف 23 اور 2021 میں 84 تھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمالیہ شاید دنیا کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا پہاڑی سلسلہ ہے، کیونکہ یہ ایک گنجان آباد اور آلودہ خطے میں واقع ہے۔اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ شاید ہمالیہ کے دلکش نظارے صرف تصاویر، مصوری یا پوسٹ کارڈز تک محدود ہو جائیں۔کوہ پیمائی کی ایک کمپنی سے وابستہ چھیتری کہتی ہیں: ’جب ہم سیاحوں کو وہ پہاڑ نہ دکھا پائیں جس کے انھوں نے پیسے دیے ہوتے ہیں، تو ہمیں شرمندگی ہوتی ہے لیکن ہم دھند کا کچھ نہیں کر سکتے۔‘

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

جوہری توانائی ایجنسی کی پاکستان میں تابکاری کے اخراج کی تردید: انڈیا میں زیر گردش افواہوں کی حقیقت کیا ہے؟

انڈیا کے ساتھ 18 مئی تک سیزفائر پر اتفاق ہوا، کشیدگی کم ہونے میں کچھ وقت لگے گا، معاملہ مذاکرات کی طرف جائے گا: وزیر خارجہ

وہ شہر جہاں سکیورٹی گارڈ اور دکاندار کے بغیر 24 گھٹنے تک دکانیں اور شراب خانے کھلے رہتے ہیں

’تاریکی میں امید کی کرن‘: ٹرمپ کی شامی صدر الشرع سے وہ ملاقات، جس کا چند ماہ پہلے تک تصور بھی ممکن نہ تھا

غزہ میں اسرائیلی فوج کے تازہ فضائی حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی

کرنل صوفیہ قریشی سے متعلق متنازع بیان پر سپریم کورٹ بھی برہم: ’ملک سنگین صورتحال سے گزر رہا ہو تو ہر لفظ ذمہ داری سے بولنا چاہیے‘

آج کراچی کا موسم کیسا رہے گا؟ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی

رافیل ڈیل میں 41 ہزار کروڑ روپے کی کرپشن؟ مودی پر اربوں روپے کھانے کا الزام ! ویڈیو

کوششوں کے باوجود انڈیا آئی ایم ایف کو پاکستان کے لیے قرض کی قسط جاری کرنے سے کیوں نہیں روک پایا؟

پیٹرول سستا ہوگا یا مہنگا۔۔ فی لیٹر پیٹرول پر کتنے روپے بڑھانے کی منظوری دے دی گئی؟

دوحہ میں سجے اونٹوں، سائبر ٹرکس اور جیٹ طیاروں سے ٹرمپ کا شاہانہ استقبال اور 96 ارب ڈالر کے تاریخی معاہدے کی روداد

پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی نگرانی میں لیا جانا چاہیے: راج ناتھ سنگھ

لاہور میں ماں بیٹی کا گمشدگی کے بعد قتل اور ’لاشوں کے ٹکڑے نہر میں بہانے کے بعد‘ مرکزی ملزم کی ’پولیس مقابلے‘ میں ہلاکت کا معمہ

’باتوں کے بغیر شفا کا عمل‘: گلے لگانے کا منفرد طریقہ جو ذہنی و جسمانی صحت میں بہتری لا سکتا ہے

روس نے پاکستان کے ساتھ تنازع میں انڈیا کی کھل کر حمایت کیوں نہیں کی؟

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی