
خضدار میں سکول بس پر حملے کو یاد کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے اہلکار ناصر محمود بتاتے ہیں کہ ’جب مجھے حملے کا پتا چلا تو میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ تمام والدین بس کی طرف بھاگنے لگے۔ کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے۔‘ناصر اور میں صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں واقع سب سے بڑے فوجی ہسپتال سی ایم ایچ کے ویٹنگ روم میں موجود تھے۔ ان کے 14 سالہ بیٹے محمد احمد نے انھیں بتایا تھا کہ خضدار میں جب آرمی سکول بس پر حملہ ہوا تو وہ بس میں اچھل کر ایک طرف گِر گئے تھے۔بدھ کو بس میں سکول کے 40 طلبہ موجود تھے جب صبح سات بج کر 40 منٹ پر دھماکہ ہوا۔ناصر محمود کہتے ہیں کہ ’میں ہسپتال پہنچا جہاں ہر طرف بچوں کے چیخنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ آپ صرف یہ واحد چیز سن سکتے تھے۔ میری آنکھیں صرف اپنے بیٹے کو تلاش کر رہی تھیں۔‘شدید زخمی بچوں کو سی ایم ایچ کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ چھ بچوں سمیت آٹھ افراد کی ہلاکت ہوئی ہے جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔ کسی بھی گروہ نے تاحال اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔سی ایم ایچ کوئٹہ تو دور غیر ملکی صحافیوں کو بلوچستان میں بہت کم داخلے کی اجازت ملتی ہے۔ یہ صوبہ ملک کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ پاکستانی فوج کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی میڈیا خود دیکھے کہ اس حملے کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔پاکستان نے انڈیا کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے تاہم اب تک کوئی آزادانہ شواہد موجود نہیں ہیں۔ اس الزام کی نئی دہلی نے تردید کی ہے۔BBCخضدار حملے میں ناصر محمود کا بیٹا بھی زخمی ہواپاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک کمزور سیز فائر نافذ ہے۔ دونوں کے بیچ گذشتہ دہائیوں میں پہلی بار دو ہفتے تک جاری رہنے والی ایک بڑی لڑائی دیکھی گئی۔ اس دوران دونوں ملکوں میں ڈرونز اور میزائلوں حملوں کے علاوہ گولہ باری اور درجنوں عام شہریوں کی ہلاکت بھی ہوئی۔ بلوچستان میں یہ حملہ اب مزید تناؤ کا سبب بن رہا ہے۔ نیوز چینل ہلاک ہونے والے بچوں کی تصاویر دکھا رہے ہیں۔ ان میں اکثر 12 سے 16 برس عمر کی لڑکیاں ہیں۔ جبکہ خضدار حملے پر بار بار ’انڈیا کی دہشتگردی مہم‘ کا الزام لگایا جا رہا ہے۔خضدار سکول بس حملہ: ’ایک باپ نے اپنے سارے بچے کھو دیے، بچوں کی ٹانگیں چاک جبکہ آنتیں جسم سے باہر لٹکی ہوئی تھیں‘عطا اللہ مینگل: ’ایک سردار جس نے سرداری نظام کے خلاف جدوجہد کی`جعفر ایکسپریس: یرغمالیوں اور خودکُش حملہ آوروں کی موجودگی میں پیچیدہ فوجی آپریشنز کیسے اور کن بنیادوں پر کیے جاتے ہیں؟قلات میں بی ایل اے کا حملہ: منگیچر میں جمعے کی شب کیا ہوامقامی چینلوں کی نشریات میں جائے وقوعہ سے دھات کے ٹکڑوں، بچوں کے جوتوں اور بستوں کے مناظر بھی دکھائے گئے۔جب ہم ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں داخل ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ کچھ بچے بستر پر بے ہوش ہیں جبکہ دوسرے بچے تکلیف میں ہیں۔ ایک لڑکی بار بار اپنی ماں کو بُلا رہی تھی جبکہ نرس اسے تسلی دینے کی کوشش کر رہی تھی۔ڈاکٹروں نے بتایا کہ کئی بچے شدید زخمی تھے، جیسے ان کی ہڈیاں فریکچر ہو چکی تھیں، جسم جھلس چکا تھا اور وہ شدید صدمے میں تھے۔BBCسی ایم ایچ کوئٹہ میں زیرِ علاج طالبہپاکستان کے وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ بلوچستان میں انڈین پراکسیوں کی ایک تاریخ رہی ہے۔ جواب میں انڈیا کہتا ہے کہ پاکستان کئی برسوں سے اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں اِن شدت پسندوں کی پشت پناہی کرتا ہے جو حملے کرتے ہیں۔اس تناؤ کی شروعات اپریل میں ہوئی جب پہلگام میں سیاحوں سمیت 26 افراد کو قتل کیا گیا۔ پاکستان نے اس پر غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔تاہم تارڑ کے مطابق بلوچستان میں ایسی کسی تحقیقات کی ضرورت نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’پہلگام ایک بار ہونے والا واقعہ تھا۔ اس معاملے میں ہم متاثرہ فریق ہیں۔ ہم اب بھی یہ مصیبت جھیل رہے ہیں۔ ایک تاریخ رہی ہے۔ ہمارے پاس شواہد ہیں۔ تو میں مزید کیا کہہ سکتا ہوں؟'جب ہم نے پوچھا کہ یہ شواہد کیا ہیں تو انھوں نے ماضی میں ہونے والے حملوں کے دعوؤں کی جانب اشارہ کیا۔ انھوں نے اس حملے میں انڈیا کے مبینہ طور پر ملوث ہونے سے جڑی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔بعد میں ایک اہلکار ہمیں بس میں کوئٹہ کی سڑکوں پر لے گئے۔ اس بس میں رائفلز اٹھائے فوجی اہلکار موجود تھے۔بلوچستان دہائیوں سے قوم پرست گروہوں کی شدت پسند کارروائیوں سے متاثر رہا ہے۔ یہاں کئی گروہ حکومت پر قدرتی وسائل کے استحصال کا الزام لگاتے ہیں۔BBCمارچ میں بلوچستان کے علاقے بولان پاس کے قریب شدت پسندوں نے جعفر ایکسپریس نامی ٹرین کو ہائی جیک کر لیا تھا۔ اس حملے میں قریب 21 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے جو آف ڈیوٹی تھے۔ حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔پاکستان کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی ممالک نے بی ایل اے کو دہشتگرد گروہ قرار دیا ہے۔فوج کی جانب سے مسلح شورش کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں جبکہ بلوچستان میں سماجی کارکن سکیورٹی فورسز پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ دو دہائیوں میں ہزاروں بلوچ لاپتہ ہوئے اور مبینہ طور پر وہ بغیر کسی قانونی کارروائی کے زیرِ حراست ہیں۔وزیر اطلاعات نے بتایا کہ حکومت کا خیال تھا کہ صوبے میں ’بنا چہرے والی عدالتیں‘ درکار ہوں گی جس کے تحت دہشتگردی کے مقدمات میں ججز اور پراسیکیوٹرز کی شناختیں ظاہر نہیں کی جاتیں۔ تارڑ کا کہنا تھا کہ مقامی عدالتیں اکثر ملزمان کو سزائیں نہیں دے پاتیں کیونکہ انھیں شدت پسند گروہوں کی جانب سے انتقامی کارروائی کا ڈر ہوتا ہے۔ایک پریس کانفرنس میں فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ سکول بس حملے کا ’بلوچ شناخت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ صرف انڈیا کی اشتعال انگیزی تھی۔‘حکومت کا کہنا ہے کہ وہ عالمی سطح پر ’سفارتی چینلز کے ذریعے‘ اس معاملے کو اٹھا رہی ہے۔اس حملے کے سیزفائر اور پاکستان اور انڈیا کے بیچ مذاکرات کے امکانات پر کیا اثرات ہوں گے، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ملک مدثر کی اضافی رپورٹنگخضدار سکول بس حملہ: ’ایک باپ نے اپنے سارے بچے کھو دیے، بچوں کی ٹانگیں چاک جبکہ آنتیں جسم سے باہر لٹکی ہوئی تھیں‘ بلوچستان میں شدت پسندی اور حکومتی حکمتِ عملی پر سوال: ’شورش سے دہشت گردی کے انداز میں نمٹنا بیک فائر کر جاتا ہے‘جعفر ایکسپریس: یرغمالیوں اور خودکُش حملہ آوروں کی موجودگی میں پیچیدہ فوجی آپریشنز کیسے اور کن بنیادوں پر کیے جاتے ہیں؟قلات میں بی ایل اے کا حملہ: منگیچر میں جمعے کی شب کیا ہواعطا اللہ مینگل: ’ایک سردار جس نے سرداری نظام کے خلاف جدوجہد کی`