
سوشل میڈیا دنیا بھر میں رابطوں کو ایک کلک پر لے آیا ہے لیکن روشن سکرین کے پیچھے ایک تاریک حقیقت بھی چھپی ہے۔ جعلی شناخت، جذباتی بلیک میلنگ، اور ہنگامی حالات کے بہانے سے فراڈیے لاکھوں روپے ہتھیا لیتے ہیں۔سوشل میڈیا پر ایک کلک آپ کی زندگی بھر کی کمائی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ یہی کچھ لاہور میں سکیورٹی گارڈ کی نوکری کرنے والے ساحل (فرضی نام) کے ساتھ بھی ہوا۔ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ساحل ایک نجی سوسائٹی میں بطور سکیورٹی گارڈ کام کرتے ہیں اور ایس او پیز کے تحت وہ اپنی شناخت ظاہر کرنا نہیں چاہتے۔ وہ اپنی روزمرہ زندگی میں دوستوں اور رشتہ داروں سے رابطے کے لیے سوشل میڈیا اور خاص طور پر فیس بک کا استعمال کرتے ہیں، لیکن 21 مئی 2025 کو ان کی زندگی میں اس وقت ایک ڈرامائی موڑ آیا جب ایک جعلی فیس بک اکاؤنٹ نے اُن سے لاکھوں روپے ہتھیا لیے۔ فیس بک پر آئے روز صارفین اپنے نام اور تصویر کے ساتھ ایک جعلی پروفائل کی نشاندہی کر کے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں کہ ان کا اس مخصوص جعلی پروفائل سے کوئی تعلق نہیں لہذا اس جعلی پروفائل کے ساتھ کوئی بھی مالی لین دین نہ کیا جائے۔حالیہ دنوں میں جعلی پروفائلز کے ذریعے پیسے ہتھیانے کے رجحان میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ان کا طریقہ واردات نہایت سادہ ہوتا ہے جس پر ایک عام صارف آسانی سے یقین کر لیتا ہے تاہم صارفین اس فراڈ سے کیسے بچ سکتے ہیں اور جعلی پروفائل کے ذریعے فراڈ کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ اس حوالے سے اردو نیوز نے سائبر سکیورٹی کے ماہرین سے گفتگو کی ہے۔ساحل کی کہانی اس وقت شروع ہوئی جب انہیں فیس بک پر ایک فرینڈ ریکوسٹ موصول ہوئی۔ فرینڈ ریکویسٹ قبول کرنے کے بعد انہیں میسنجر پر ایک پیغام موصول ہوا۔ یہ پیغام ایک ایسی آئی ڈی سے آیا تھا جس پر اُن کے کزن کا نام اور تصویر موجود تھی۔ساحل نے پروفائل کو دیکھتے ہی سمجھا کہ یہ واقعی اُن کے کزن ہیں۔ ان کے کزن سکاٹ لینڈ میں ہوتے ہیں۔ ساحل کا کہنا ہے کہ ’ابتدا میں خود کو میرا کزن ظاہر کرتے ہوئے صارف نے ہماری ہی زبان میں احوال دریافت کیا اور پھر واٹس ایپ پر رابطے کا بتایا۔‘دونوں نے میسنجر اور واٹس ایپ پر بات چیت شروع کی اور اس دوران جعلی کزن نے دعویٰ کیا کہ وہ ساحل کو 17 لاکھ روپے بھیجنا چاہتا ہے بشرطیکہ وہ اس کو خفیہ رکھے اور ضرورت پڑنے پر اسے لوٹا دے۔ساحل نے بغیر کسی شک کے اپنا بینک اکاؤنٹ نمبر فراہم کر دیا۔ ساحل کے بقول ’کچھ ہی دیر بعد مجھے واٹس ایپ پر رقم کی منتقلی کی ایک جعلی رسید موصول ہوئی اور فون کال کے ذریعے اس منتقلی کی تصدیق بھی ہوئی۔‘ساحل نے جعلی رسید دیکھ کر یقین کر لیا کہ اس کے اکاؤنٹ میں 17 لاکھ روپے سے زائد رقم منتقل ہو گئی ہے۔ رقم کی جعلی رسید ملنے کے بعد ساحل کو اسی نمبر سے ایک اور فون کال موصول ہوئی۔ اس بار جعلی کزن نے بتایا کہ ان کو ویزا کی تجدید میں مسائل درپیش ہیں اور چونکہ اُن بھیجے گئے 17 لاکھ اُن کو 24 گھنٹوں میں ملنے ہیں اس لیے وہ 9 لاکھ روپے بھیج دیں۔ساحل بتاتے ہیں کہ ’اس کے بعد میرے جعلی کزن نے مجھے ایک ایجنٹ کا حوالہ دیا۔ ایجنٹ نے رابطہ کر کے بتایا کہ ان کے کزن کے ویزے کی میعاد ختم ہو چکی ہے اور اس کی تجدید کی ضرورت ہے۔‘ساحل اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’مجھے کہا گیا کہ ویزا کی تجدید کے لیے 9 لاکھ روپے سے زائد کی رقم درکار ہے اور آج آخری تاریخ ہے اس لیے دفتری اوقات کار کے بعد ویزا منسوخ ہو جائے گا۔ میں نے اسی واٹس ایپ نمبر پر اپنے کزن سے رابطہ کیا جس نے خود کو مجھے اپنا کزن بتایا تھا۔ میرے جعلی کزن نے تصدیق کی اور بتایا کہ میں رقم منتقل کر دوں تاکہ کوئی مسئلہ درپیش نہ آئے۔‘ساحل اب تک یقین کر چکے تھے کہ اُن کا کزن مشکل میں ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنا اکاؤنٹ دیکھے بغیر ہی فوری طور پر پہلے 30 ہزار اور پھر 5 لاکھ روپے جعلی ایجنٹ کی جانب سے دیے گیے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کر دیے۔ساحل کی کہانی اس وقت شروع ہوئی جب انہیں فیس بک پر ایک فرینڈ ریکوسٹ موصول ہوئی۔ فائل فوٹو: فری پکسسوشل میڈیا فراڈ کا دوسرا مرحلہ یہی ہوتا ہے۔ پہلے جذباتی بلیک میلنگ کی جاتی ہے اور پھر جعلی ہنگامی حالات پیدا کیے جاتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں رشتہ داروں کی مدد کے لیے فوری مالی امداد فراہم کرنے کا رجحان عام ہے جو سکیمرز کے لیے ایک آسان ہدف بنتا ہے۔ پانچ لاکھ 30 ہزار روپے ملنے کے بعد جب سکیمرز نے ساحل سے مزید رقم کا مطالبہ کیا تو اُنہیں شک ہوا۔ ساحل نے فوراً اپنے اصل کزن ظہور محمد سے ان کے اصل نمبر پر رابطہ کیا جس نے حیران کن طور پر بتایا کہ اُسے اس سارے معاملے کا کوئی علم نہیں۔ساحل کو احساس ہوا کہ وہ ایک منظم سوشل میڈیا فراڈ کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کے لاکھوں روپے غائب تھے اور جعلی اکاؤنٹ بنانے والا شخص بھی غائب ہو چکا تھا۔ یوں ساحل مجموعی طور پر 5 لاکھ 30 ہزار روپے کھو بیٹھے۔انہوں نے نیشنل سائبر کرائم انوسٹیگیشن ایجنسی میں کارروائی کے لیے درخواست دے رکھی ہے تاہم اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ان کے بقول ’میں سکیورٹی گارڈ کی نوکری کرتا ہوں۔ ایک ایک روپیہ جوڑ کر بنایا تھا لیکن ایک کلک سے لاکھوں روپے ڈوب گئے۔‘سائبر سکیورٹی ماہر اسد الرحمٰن کے مطابق سوشل میڈیا فراڈ کی یہ صورتحال کوئی نئی بات نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’سکیمرز جعلی اکاؤنٹس بنانے کے لیے عوامی طور پر دستیاب معلومات (اوپن سورس ڈیٹا) یا لیک شدہ حساس معلومات (بریچڈ ڈیٹا) کا استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر فیس بک پر شیئر کی گئی تصاویر، نام، یا دیگر ذاتی تفصیلات آسانی سے سکیمرز کے ہاتھ لگ سکتی ہیں۔‘اسد الرحمٰن مشورہ دیتے ہیں کہ صارفین سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو پرائیویٹ رکھیں اور ذاتی تصاویر یا حساس معلومات کم سے کم شیئر کی جائیں۔عام طور پر صارفین جعلی اکاؤنٹس کو رپورٹ کرتے ہیں تاہم اسد الرحمان اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے بقول ’متاثرین کو فوری طور پر نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) سے رابطہ کرنا چاہیے۔‘