
Getty Imagesتانبے کی کان کی سائٹ پر اب تک مزدوروں کی رہائش کے لیے چند کیبن بنائے گئے ہیں جو فی الحال استعمال میں نہیں ہیںافغانستان اور چین کے درمیان تانبے کی کان کُنی سے متعلق 17 سال قبل ہونے والے تاریخی معاہدے کے باوجود چین اب تک اس کان سے تانبہ نکالنے کا کام شروع نہیں کر سکا ہے۔تانبے کی یہ کان افغانستان کے صوبہ لوگر میں ’مس عینک‘ نامی مقام پر واقع ہے۔اس شعبے کے ماہرین اور اس منصوبے کے متعلقہ حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ چین شاید فی الوقت اس منصوبے میں دلچسپی نہیں لے رہا ہے تاہم طالبان حکومت نے اس منصوبے سے متعلق اپنے ’اعتماد‘ کا اظہار کیا ہے۔ چین اور افغانستان کے درمیان 17 سال قبل طے پانے والے کان کنی کے اس معاہدے کو افغانستان کی تاریخ کا پہلا بڑا بین الاقوامی معاہدہ قرار دیا جاتا ہے اور یہ کابل اور بیجنگ کے درمیان تعلقات میں ایک اہم موڑ تھا۔سنہ 2008 میں چینی کمپنی چائنہ میٹلرجیکل کارپوریشن (ایم سی سی) نے 2.9 ارب ڈالر میں اس کان سے تانبہ نکالنے کا 30 سالہ معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت چین نے اس علاقے میں سڑکوں، ریلوے اور 400 میگا واٹ کے پاور پلانٹ سمیت انفراسٹرکچر کی ترقی میں پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عہد کیا تھا۔سابق افغان حکومت کی وزارت کان کنی کے دو سینیئر عہدیداروں نے بی بی سی کو بتایا کہ چین کا ’شروع سے ہی تانبے کی اس کان سے فائدہ اٹھانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا کیونکہ چین نے اِس کان کو مستقبل کے لیے سٹریٹجک ریزرو کے طور پر رکھا ہوا ہے۔‘’طالبان حکومت نے چین کے ساتھ کچھ نئی شرائط پر اتفاق کیا ہے‘بظاہر افغانستان میں سیاسی نظام میں تبدیلی کے ساتھ ’ایم سی سی‘ نے تانبے کی کان کے اس معاہدے میں کچھ تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی ہے۔وزارت مائننگ کے ترجمان ہمایوں افغان نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان حکومت کے ابتدائی طور پر ایم سی سی کمپنی کے ساتھ بعض معاملات پر اختلافات تھے اور اس ضمن میں گذشتہ سال سے بات چیت جاری ہے۔انھوں نے تسلیم کیا کہ یہ معاہدہ حاصل کرنے والی چینی کمپنی نے ’معاہدے میں تبدیلی کی درخواست کی تھی۔‘اُن کے مطابق ایم سی سی کمپنی نے طالبان حکومت کو تجویز دی تھی کہ اس کان سے حاصل ہونے والے منافع میں افغانستان کا حصہ 19.5 فیصد سے کم کر دیا جائے اور بجلی کی پیداوار کے منصوبے کو 400 میگاواٹ سے کم کر کے 200 میگا واٹ کر دیا جائے۔ہمایوں افغان کے مطابق سب سے اہم بات یہ ہے کہ چینی کمپنی کا اصرار تھا کہ افغانستان سے نکالے جانے والے تانبے کو ’نیم صاف‘ کیا جائے، تاہم اصل معاہدے میں کہا گیا تھا کہ تانبے کو مکمل طور پر صاف کرنے کے بعد ہی افغانستان سے باہر برآمد کیا جائے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے چینی کمپنی کی اس تجویز کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ سب کچھ اصل معاہدے کے مطابق ہونا چاہیے۔‘ہمایوں افغان نے کہا کہ ’صرف ایک چیز پر ہم نے اتفاق کیا تھا کہ معاہدے کی موجودہ مدت ختم ہونے کے بعد معاہدے کو مزید 15 سال کے لیے بڑھایا جائے۔‘اس طرح تانبے کی کان کا یہ معاہدہ اب 45 سال کے لیے ہو گا۔اُن کا کہنا ہے کہ ایم سی سی اس وقت منصوبے کی جگہ پر ’سرنگیں بنانے، کیمپ بنانے، اور تانبے کے پروسیسنگ پلانٹس پر تحقیق کرنے میں مصروف ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہاں کان کنی کا عملی کام جلد شروع ہو جائے گا۔‘بی بی سی نے اس بابت ایم سی سی سے رابطہ کیا لیکن اس نے منصوبے کی تاخیر کی وجوہات کے بارے میں بی بی سی کی بارہا کی جانے والی درخواستوں کا اب تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔لیکن کئی سالوں سے اس منصوبے کے ساتھ کام کرنے والے ایک متعلقہ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ متعدد تکنیکی مسائل اور متعلقہ بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی وجہ سے جنھیں ایم سی سی افغان حکومت کی ذمہ داری سمجھتا ہے، مستقبل قریب میں وہاں سے تانبہ نکالنا ممکن نظر نہیں آتا۔Getty Imagesماہرین کے مطابق اس کان میں تابنے کے ’50 ارب ڈالر‘ مالیت کے ذخائر موجود ہیںتازہ ترین پیش رفت میں نو مئی 2025 کو طالبان حکومت کے نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر نے چینی کمپنی ایم سی سی کے سربراہ وانگ جیچینگ پر زور دیا کہ وہ اس منصوبے پر جلد از جلد کام شروع کریں۔کان کنی کی وزارت کی ویب سائٹ کا تخمینہ ہے کہ کابل سے 40 کلومیٹر دور لوگر کے محمد آغا ضلع میں اس کان کے ذخائر کا تخمینہ 5.11 ملین ٹن ہے جس کی مالیت تقریباً ’50 ارب ڈالر‘ ہے۔سنہ 2010 میں امریکی جیولوجیکل سروے نے افغانستان میں موجود معدنیات کی کُل مالیت کا تخمینہ ایک کھرب (ٹریلین) ڈالر لگایا گیا تھا۔طالبان کی حکومت نے اپنے بجٹ کو سپورٹ کرنے کے لیے کان کنی میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی طرف توجہ دی ہے۔ طالبان حکام نے سینکڑوں چھوٹی اور درمیانے درجے کی کانیں تیار کرنے کے لیے ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں سے ’6.5 ارب ڈالر‘ کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔چینی نجی شعبے کے سرمایہ کار باقاعدگی سے کابل کا دورہ کر رہے ہیں اور وزارت کانکنی کے حکام کے ساتھ لیتھیئم (الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہونے والا ایک اہم عنصر)، تانبا، زنک، ٹاک اور سونے سمیت دیگر کانوں میں سرمایہ کاری پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔Getty Images24 جولائی 2024 کو کان کنی کے اس منصوبے کا ازسرنو افتتاح ہوا تھا’مجھے نہیں لگتا کہ چین کان سے تانبہ نکالے گا‘سنہ 2008 میں عینک کاپر مائن کے منصوبے اور چینی حکام کی طرف سے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے وعدوں نے بڑی امیدیں جگائی تھیں۔ تاہم بطور رائلٹی 800 ملین ڈالر کی افغان حکومت کو فوری ادائیگی، جو تین اقساط میں کی جانی تھی، کبھی پوری نہیں ہوئی۔ چین نے اس منصوبے میں لندن سٹاک ایکسچینج کے مطابق 20 فیصد حصص کا وعدہ بھی کیا۔ اس کے تحت سڑک اور بجلی کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور مقامی کارکنوں کی تربیت بھی شامل تھی۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے داؤد شاہ صبا کا کہنا تھا کہ جب وہ 2015 میں اشرف غنی کی حکومت میں کانوں اور پیٹرولیم کے وزیر بنے تو انھیں احساس ہوا کہ ’چین والوں کا شروع سے ہی تانبے کی اس کان سے فائدہ اٹھانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔‘ان کے مطابق معاہدے کو اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ چینی کمپنی جب چاہے ’معاہدے سے باہر نکل سکتی ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس سے متعلق کابینہ کو رپورٹ پیش کر دی ہے لیکن اُس وقت کے صدر معاہدے کی منسوخی کے کسی بھی اقدام کے خلاف تھے۔افغانستان میں زیر زمین سونا بھرا پڑا ہے، یہ خزانہ اب کس کے ہاتھ آئے گا؟اٹک میں 700 ارب روپے مالیت سونے کا دعویٰ: کیا پاکستان میں سونے کے بڑے ذخائر موجود ہیں؟استعمال شدہ لیپ ٹاپ اور پرانے موبائل فون میں چھپا سونا نکال کر زیورات کیسے بنائے جا رہے ہیں؟سمندر کی گہرائیوں میں موجود معدنی خزانے کے حصول کی دوڑ جس کے باعث عالمی طاقتوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہےطالبان حکومت نے شروع سے ہی معاہدے پر عمل درآمد کو ترجیح دی ہے۔ کان کے افتتاح میں چین کے نائب وزیر ثقافت لی چون، کابل میں چین کے سفیر ژاؤ جنگ اور طالبان حکومت کے اقتصادی امور کے نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر سمیت طالبان کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی تھی۔طویل تاخیر کی وجہ سے چینی کمپنی کو 24 جولائی 2024 تک ایک ماہ کی رعایت دی گئی تھی۔ایم سی سی کمپنی کا کام معطل کرنے کی ایک وجہ سکیورٹی بھی تھی، لیکن پچھلی حکومت نے کان پر سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ایک خصوصی یونٹ بنایا تھا۔داؤد شاہ صبا کا کہنا ہے کہ وہ انھیں ایم سی سی کی جانب سے تانبے کی کان کی کان کنی شروع کرنے کی امید نظر نہیں آتی۔انھوں نے کہا کہ ’وہ بہانے بنا رہے ہیں اور اس کا جو افتتاح ہوا ہے وہ سیاسی چال ہے اور اس کی ماہرین اور میری رائے میں کوئی اہمیت نہیں ہے اور یہ کہ وہ مستقبل قریب میں ایسا کچھ نہیں کریں گے۔‘چین کو تانبے کی کان کا ٹھیکہ کیسے ملا؟وزارت معدنیات کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے معاہدے کے ایک ورژن کے مطابق، چینی کمپنی کو معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد زیادہ سے زیادہ پانچ سال کے اندر کان کنی شروع کرنی تھی، بصورت دیگر معاہدے کو منسوخ تصور کیا جانا تھا۔افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے دور حکومت میں تانبے کی اس کان کو سنہ 2007 میں بین الاقوامی نیلامی کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ نو بین الاقوامی کمپنیوں نے کان کی جگہ کا باریک بینی سے جائزہ لیا تھا اور کینیڈا کی ہنٹر ڈکنسن، قازقستان کی قازقستان کاپر کمپنی، چین کی ایم سی سی، امریکہ کی فلپس ڈوج، اور روس کی ساؤٹریک جیسی پانچ کمپنیوں نے اس میں حصہ لیا تھا۔ایم سی سی نے اپنے حریفوں سے زیادہ وعدے کیے تھے اور 91/90 کے سکور کے ساتھ اسے فاتح قرار دیا گیا تھا جبکہ کینیڈا کی ہنٹر ڈکنسن 73/3 کے سکور کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔حامد کرزئی کی حکومت کے وزرا کی کونسل نے 6 اپریل 2008 کو ایم سی سی کے ساتھ اس منصوبے کی منظوری دی۔معاہدے کے متن میں کہا گیا ہے کہ ایم سی سی کو اس تاریخ سے 60 ماہ کے اندر کان کنی شروع کرنا ہو گی۔معاہدے کے آرٹیکل 30 میں کہا گیا ہے کہ ایم سی سی افغان حکومت سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ ’اس منصوبے سے منسلک ریلوے اپنے خرچ پر تعمیر کرے گی۔‘ معاہدے میں اس بات کا بھی ذکر ہے ایسا کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں معاہدہ ختم ہو سکتا ہے۔اس معاہدے میں مشرقی افغانستان میں طورخم سے شمال میں تاجکستان، عینک کان کے راستے کابل، بامیان اور سمنگان کی وادی صوف تک ریلوے کی تعمیر شامل ہے۔تاہم ایم سی سی نے ابھی تک ریلوے کی تعمیر کے کسی منصوبے کا اعلان نہیں کیا ہے۔معاہدے کے تحت ایم سی سی نے مقامی رہائشیوں کو عالمی بینک کے معیارات کے مطابق معاوضہ دینے اور علاقے میں کان کے مزدوروں کے لیے رہائش اور طبی سہولیات فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔عینک کاپر پراجیکٹ پر اب تک جو عملی کام کیا گیا ہے وہ کان تک 25 کلومیٹر سڑک کی تعمیر ہے، جس کا ایم سی سی نے 2024 کے موسم گرما میں اعلان کیا تھا۔کمپنی نے صوبہ بامیان میں خمار کان سے کوئلہ استعمال کرتے ہوئے '400 میگا واٹ' بجلی پیدا کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ کمپنی نے کان کے ذخائر کو طویل مدتی بجلی کی پیداوار کے لیے کافی نہیں سمجھا۔تاہم وزارت کان کے ترجمان ہمایوں افغان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایم سی سی کو کوئلے کے متبادل کے طور پر ہائیڈرو پاور جنریشن کی سہولیات فراہم کرنے کی تجویز دی ہے۔’قدیم یادگاروں کے باقیات کھدائی میں حائل نہیں‘Getty Imagesتانبے کی کان کے پاس قدیم باقیات ہیں جو بدھ مت سے منسلک ہیںعینک تانبے کی کان کے مرکزی حصے کے اوپر بدھ مت کے آثار بھی ملے ہیں جہاں تانبے کے سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں۔کہا جاتا ہے کہ قدیم نوادرات کی کھدائی پر ’تقریباً 150 ملین ڈالر‘ لاگت آئے گی۔ اس علاقے میں بدھ راہبوں کی 20 سے زیادہ مدفن بھی موجود ہیں۔کان کنی کے کام کی معطلی کی ایک وجہ کان کے آس پاس موجود قدیم مقامات سے ان نوادرات کو ہٹانا بھی تھا لیکن طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ ان نوادرات کی باقیات عینک تانبے کی کان کنی میں حائل نہیں ہیں۔اپریل 2024 میں چینی سفیر کے ہمراہ تانبے کی کان کے دورے کے دوران طالبان حکومت کے سابق وزیر برائے کان کنی شہاب الدین دلاور نے کہا تھا کہ ’'ہزاروں تاریخی نوادرات کو کان کی جگہ سے مقامی عجائب گھروں میں منتقل کر دیا گیا ہے، اور باقیوں کو کان کنی کے عمل کے دوران منتقل کیا جائے گا۔‘ایم سی سی علاقے میں آثار قدیمہ کی کھدائی یا تحفظ کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا۔کانوں کی وزارت کے ترجمان ہمایوں افغان کا کہنا ہے کہ ان کی نقل و حمل بہت مشکل اور مہنگا سودا ہے، اس لیے ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ تاریخی نوادرات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے بجائے، نوادرات کے نیچے سرنگ کھود کر تانبہ نکالنے کا کام کیا جائے۔Getty Imagesکہا جاتا ہے کہ تابنے کی اس کان کی سائیٹ سے ملنے والے نوادرات دو ہزار سے 2200 سال پرانے ہیں’چین اس خلا کو پُر کرنے کے لیے تیار ہے‘طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے صرف پانچ دن بعد یعنی 20 اگست 2021 کو چینی تجزیہ نگار ژاؤ بو نے نیویارک ٹائمز کے لیے ایک اوپینین کالم میں لکھا: ’چین اس خلا کو پر کرنے کے لیے تیار ہے۔‘انھوں نے مزید لکھا: ’امریکہ کے باہر جانے کے بعد، بیجنگ وہ چیز فراہم کر سکتا ہے جس کی کابل کو سب سے زیادہ ضرورت ہے یعنی سیاسی غیرجانبداری اور اقتصادی سرمایہ کاری۔۔۔ بدلے میں، افغانستان کو چین کی جانب سے سب سے زیادہ رعایتیں بھی حاصل ہیں یعنی غیر استعمال شدہ معدنی ذخائر میں ایک کھرب ڈالر تک رسائی۔‘اس کے بعد سے چینی رہنما شی جن پنگ نے طالبان کے سفیر کا استقبال کیا اور اس کے بدلے میں اپنا سفیر کابل بھیج دیا۔ مسٹر ژاؤ بو کی پیشین گوئی کا صرف ایک حصہ سچ ثابت ہوا یعنی چین افغانستان کی کان کنی، تیل اور گیس کے وسائل کو نکالنے کے لیے سب سے بڑے معاہدے جیتنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔لیکن چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے مئی سنہ 2025 میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ چین نے 'کبھی بھی افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔'مغربی مبصرین افغانستان کی کانوں، تیل اور گیس میں چین کی سرمایہ کاری کو افغانستان میں چین کے اثر و رسوخ کے لیے کھلنے والے دروازے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس کے برعکس، افغانستان نے ہمیشہ اپنی ترقی کو بنیاد فراہم کرنے کے لیے چین کے ساتھ ہمسائیگی اور جغرافیائی تعلق کا خواب دیکھا ہے۔واضح رہے کہ صدر کے طور پر اپنی پہلی مدت کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے زیر زمین ذخائر میں دلچسپی ظاہر کی تھی اور افغانستان کو چین کے ہاتھوں میں جانے کے خلاف بارہا خبردار کیا ہے۔افغانستان میں زیر زمین سونا بھرا پڑا ہے، یہ خزانہ اب کس کے ہاتھ آئے گا؟اٹک میں 700 ارب روپے مالیت سونے کا دعویٰ: کیا پاکستان میں سونے کے بڑے ذخائر موجود ہیں؟استعمال شدہ لیپ ٹاپ اور پرانے موبائل فون میں چھپا سونا نکال کر زیورات کیسے بنائے جا رہے ہیں؟سمندر کی گہرائیوں میں موجود معدنی خزانے کے حصول کی دوڑ جس کے باعث عالمی طاقتوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہے