
Getty Imagesامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر افغانستان اور ایران سمیت 12 ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی کے حکم نامے پر دستخط کردیے ہیں۔ اس پابندی کا اطلاق سوموار 9 جون سے شروع ہو گا۔اس کے ساتھ ساتھ صدر ٹرمپ نے سات دیگر ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر جزوی طور پر پابندی عائد کی ہے۔صدر ٹرمپ نے اس پابندی کے حوالے سے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’گذشتہ دنوں کولوراڈو میں کیے جانے والا دہشت گرد حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ غیر ملکی شہری جو درست طریقے سے ویریفائی نہیں ہوتے، ہمارے ملک کے لیے شدید خطرہ بن سکتے ہیں۔‘یاد رہے کہ گذشتہ دنوں امریکی ریاست کولوراڈو میں اسرائیل کے حق میں ایک ریلی پرنامعلوم شخص نے حملہ کیا جس سے چھ افراد زخمی ہوگئے تھے تاہم حملہ آور کو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ حکام کے مطابق اس حملے میں ملوث شخص غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوا تھا۔یہ نئی سفری پابندی امریکی امیگریشن پالیسی میں ایک اہم تبدیلی سمجھی جا رہی ہے جس کے ممکنہ طور پر ان ممالک کے شہریوں پر سنگین اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔صدر ٹرمپ کے ’ٹریول بین‘ سے متاثر ہونے والے 12 ممالک کی فہرست میں: افغانستان، ایران، میانمار، چاڈ، جمہوریہ کانگو، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیٹی، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔دوسری جانب جزوی پابندیوں کی ذد میں آنے والے ممالک کی فہرست میں: برونڈی، کیوبا، لاؤس، سیرا لیون، ٹوگو، ترکمانستان اور وینزویلا شامل ہیں۔وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی شہریوں اور ان کے مفادات کو دہشت گردوں سے بچانے کے لیے اس پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔نئی سفری پابندی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ویڈیو پیغام میں صدر ٹرمپ نے الزام عائد کیا کہ ’خطرناک مقامات سے غیر ملکی ویزہ لے کر قیام کرنے والے ایک کے بعد ایک دہشت گردانہ حملہ کر رہے ہیں۔‘ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ان ممالک کے حالات بہتر ہوتے ہیں تو ممنوعہ ممالک کی فہرست میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ترجمان وائٹ ہاؤس ابیگیل جیکسن کے مطابق ’صدر ٹرمپ امریکہ کو ان خطرناک غیر ملکییوں سے محفوظ رکھنے کے لیے پرعزم ہیں جو مارے ملک میں آ کر ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔‘ترجمان کے مطابق ’یہ پابندیاں ان ممالک کو متاثر کر رہی ہیں جو مسافروں کے پس منظر کی مناسب جانچ نہیں کرتے، ویزا کی خلاف ورزیوں میں زیادہ ملوث پائے جاتے ہیں۔'‘انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’صدر ٹرمپ ہمیشہ امریکی عوام اور ان کی سلامتی کے بہترین مفاد میں کام کرتے رہیں گے۔‘دوسری جانب ٹرمپ نے ہارورڈ یونیورسٹی میں غیر ملکی طالب علموں کے ویزوں پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں 2017 میں کچھ مسلم ممالک پر ایسی ہی پابندیاں لگائی تھیں۔اس پابندی کو مختلف قانونی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس میں کئی بار ترامیم کی گئیں تاہم بعد میں سپریم کورٹ نے اسے نافذ کرنے کی اجازت دے دی تھی۔Getty Imagesصدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں 2017 میں کچھ ممالک پر ایسی ہی پابندیاں لگائی تھیںسفری پابندیوں سے مستثنیٰ کون ہو گا؟صدر ٹرمپ کی جانب سے سفری پابندی سے کچھ لوگوں کو استثنیٰ دیا گیا ہے جن کی تفصیل یوں ہے:وہ کھلاڑی جنھیں ورکڈ کپ، اولمپکس سمیت کھیلوں کے بڑے مقابلوں میں حصہ لینا ہے اس پابندی سی مستثنیٰ ہیں۔ایران میں نسلی تعصب اور مذہبی اقلیتیوں کے ویزا ہولڈرزخصوصی تارکین وطن کے ویزے رکھنے والے افغان شہریامریکہ کے قانونی مستقل رہائشیدوہری شہریت کے حامل افراد جن کی دوسری شہریت کسی ایسے ملک کی ہے جو اس پابندیوں کی فہرست میں شامل نہیںامریکی وزیر خارجہ ایسے افراد کو سفری پابندی سے مستثنیٰ قرار دے سکتے ہیں جو امریکی قومی مفادات کا تحفظ کریں۔Reutersصدر ٹرمپ کی جانب سے سفری پابندی سے کچھ لوگوں کو استثنیٰ دیا گیا ہےٹرمپ پہلے بھی ایسا کر چکے ہیں یہ ٹرمپ کی طرف سے نافذ کردہ پہلی سفری پابندی نہیں ہے۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں 2017 میں کچھ مسلم ممالک پر ایسی ہی پابندیاں لگائی تھیں۔اس پابندی کو مختلف قانونی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس میں کئی بار ترمیم کی گئی، حالانکہ بعد میں سپریم کورٹ نے اسے نافذ کرنے کی اجازت دی۔اس وقت ہزاروں سیاح، تارکین وطن، کاروباری مہمان اور رہائشی اجازت نامہ رکھنے والے دنیا بھر کے ہوائی اڈوں پر پھنسے ہوئے تھے۔ بہت سے لوگوں کو امریکہ جانے والی پروازوں میں سوار ہونے سے روک دیا گیا۔نئی سفری پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ویڈیو پیغام میں، ٹرمپ نے بائیڈن کی ’کھلے دروازے کی پالیسی‘ کو امریکہ میں ’لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔صدر نے کہا کہ امریکہ ’کسی ایسے ملک سے کھلے عام ترک وطن کی اجازت نہیں دے سکتا جو محفوظ اور قابل اعتماد طریقے سے اپنے آنے والوں کی جانچ اور جانچ نہ کر سکے۔‘ٹرمپ نے کہا کہ عائد پابندیوں کی شدت کا انحصار متعلقہ ملک کی طرف سے آنے والے ’خطرے کی سنجیدگی‘ پر ہے۔ ’ٹرمپ کی پالیسی ہمیں صرف تقسیم کرتی ہے‘امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی نے ٹرمپ کے اس فیصلے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔واشنگٹن سے ایک ڈیموکریٹک کانگریس خاتون پرامیلا جے پال نے سوشل میڈیا پر لکھا، ’یہ پابندی، جو ٹرمپ کے پہلے دور میں لگائی گئی مسلم پابندی کی توسیع ہے، ہمیں بین الاقوامی سطح پر مزید تنہا کر دے گی۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’کیونکہ آپ ان کی ملک کی حکومت کے ڈھانچے یا کام کاج سے متفق نہیں تو اس بنا پر ایک پوری کمیونٹی پر پابندی لگانا دراصل الزام کا غلط استعمال ہو گا۔‘ادھر ڈیموکریٹک کانگریس کے ڈان بیئر نے ٹرمپ پر الزام لگایا کہ وہ امریکہ کے بانیوں کے نظریات سے ’خیانت‘ کر رہے ہیں۔انھوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’ٹرمپ کی سفری پابندی تعصب اور نفرت سے بھری ہوئی ہے اور ہمیں زیادہ محفوظ نہیں بناتی۔ یہ صرف ہمیں تقسیم کرتی ہے اور ہماری عالمی قیادت کو کمزور کرتی ہے۔‘ Getty Imagesصدر ٹرمپ پہلے ہی تارکینِ وطن کے خلاف کارروائی شروع کر چکے ہیںانسانی حقوق کی خلاف ورزیانسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پابندی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل یو ایس اے نے اسے ’امتیازی، نسل پرستانہ اور انتہائی ظالمانہ‘ قرار دیا ہے۔سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ میں تنظیم اس نے لکھا کہ ’لوگوں کو ان کی قومیت کی بنیاد پر نشانہ بنا کر یہ پابندی صرف غلط معلومات اور نفرت پھیلاتی ہے۔‘امریکہ میں قائم ہیومن رائٹس فرسٹ نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’صدر ٹرمپ کی جانب سے ایک اور تارکین وطن مخالف اور تادیبی کارروائی‘ قرار دیا ہے۔تنظیم کے سینیئر ڈائریکٹر برائے پناہ گزین ایڈوکیسی روبن برنارڈ نے ایک بیان میں کہا کہ ’اس پابندی سےپناہ گزینوں اور دیگر کمزور آبادیوں کو نقصان پہنچے گا، جن میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو ہمارے ملک میں اپنے پیاروں سے ملنے کے منتظر ہیں۔‘انھوں نے کہا، ’پابندیاں ہمارے ملک کو محفوظ بنانے کے لیے کچھ نہیں کرتی ہیں، بلکہ ہماری قومی سلامتی کو کمزور کرتی ہیں اور من مانے طریقے سے ان لوگوں کو نشانہ بناتی ہیں جنہیں تحفظ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‘دلچسپی بات یہ ہے کہ مصر ممنوعہ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہے اور یہ بات اس تناظر میں اہم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے سفری پابندی کا اعلان کرتے ہوئے کولوراڈو میں ایک مصری شہری کے حالیہ حملے کا حوالہ دیا تھا۔ماہرین کے خیال میں ایسا شاید اس لیے ہے کہ امریکہ اور مصر کے درمیان ایک مضبوط دفاعی اتحاد ہے، ایک ایسی شراکت داری جسے امریکہ ’علاقائی استحکام کا ستون‘ قرار دیتا ہے۔مصر مشرق وسطیٰ میں امریکی اقتصادی اور فوجی امداد سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ممالک میں سے ایک ہے، جس نے 2023میں امریکی ایجنسیوں سے مجموعی طور پر 1.4ارب ڈالر وصول کیے۔اپنے پہلے دور حکومت میں ٹرمپ نے مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے تھے۔ مصری رہنما، جنہوں نے گزشتہ ایک دہائی سے ملک پر حکمرانی کی ہے، انھیں ٹرمپ نے اپنا ’پسندیدہ ڈکٹیٹر‘ قرار دیا ہے۔تاہم، ٹرمپ کے دوسرے دور میں دو طرفہ تعلقات غزہ میں اسرائیل کی جنگ کی وجہ سے پیچیدہ ہو گئے ہیں۔قاہرہ نے بے گھر فلسطینیوں کو مصر منتقل کرنے کی ٹرمپ کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے، جو جنگ سے تباہ حال غزہ کی تعمیر نو کی کوششوں کی قیادت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔