
امریکہ نے غزہ سے متعلق سلامتی کونسل میں پیش کردہ قرارداد کو ویٹو کر دیا ہے جس میں فوری جنگ بندی، حماس کے زیرِ حراست یرغمالیوں کی رہائی اور انسانی امداد کی ترسیل پر عائد پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔عرب نیوز کے مطابق امریکہ نے مؤقف اپنایا ہے کہ اس قرارداد سے مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا اور حماس کو جوابدہ نہیں ٹھہرا سکیں گے۔امریکی نائب سفیر ڈوروتھی شیا نے کہا کہ اس قرارداد میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ’غلط موازنہ‘ کیا گیا ہے جبکہ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق پر سمجھوتہ کرتے ہوئے عسکریت پسند گروپ کی حوصلہ افزائی ہو گی۔’یہ غیراخلاقی ہے کہ اقوام متحدہ نے حماس کو ایک دہشت گرد تنطیم نہیں قرار دیا اور نہ ہی اس پر پابندیاں عائد کی ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ مجوزہ جنگ بندی سے حماس اپنی پرانی پوزیشن پر واپس آ جائے گا جس سے وہ اسرائیل پر 7 اکتوبر جیسے حملے دوبارہ کر سکے گا۔امریکی نائب سفیر نے مزید کہا کہ مجوزہ قرارداد میں امداد کی ترسیل کے سابقہ نظام کی کمزوریوں کو نظر انداز کیا گیا ہے جبکہ حماس کو فلسطینی شہریوں کی قیمت پر خود کو فائدہ پہنچانے سے روکنے میں ناکام رہے ہیں۔انہوں نے کونسل کے ساتھی اراکین پر زور دیا کہ وہ غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کی حمایت کریں جو ان کے بقول بنیادی انسانی اصولوں کے مطابق کام کرے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ضرورت مند افراد تک امداد پہنچے۔قرارداد میں جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور امداد کی ترسیل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پیڈوروتھی شیا نے مزید کہا کہ ’امریکہ تمام یرغمالیوں بشمول حماس کے ہاتھوں قتل کیے گئے چار امریکیوں کی باقیات کی واپسی کے لیے کام کرنا نہیں چھوڑے گا۔ انہیں پیچھے نہیں چھوڑیں گے۔‘غزہ کے حوالے سے قومی سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی یہ پانچویں قرارداد ہے جس کی مخالفت میں امریکہ نے ووٹ دیا ہے۔یہ قرارداد سکیورٹی کونسل کے 10 غیر مستقل ارکان کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔ ان کی نمائندگی کرتے ہوئے سلووینیا کے سفیر سیموئل زبوگر نے کہا کہ اس قرارداد کا متن کونسل کے تمام اراکین کے درمیان اس اتفاق رائے کی عکاسی کرتا ہے کہ ’غزہ میں جنگ کو فوری طور پر روکنا ہوگا، تمام یرغمالیوں کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جانا چاہیے، غزہ کے شہریوں کو بھوک سے نہیں مرنا چاہیے اور بغیر رکاوٹ امداد کی رسائی ہونی چاہیے۔‘