اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کو دو اہم ذمہ داریاں ملنے پر انڈیا میں تشویش کیوں؟


Getty Imagesپاکستان کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے منسلک دو اہم کمیٹیوں میں کلیدی عہدے ملنے پر جہاں ملک میں اسے 'بڑی سفارتی پیش رفت' قرار دیا جا رہا ہے تو وہیں انڈیا میں تحفظات ظاہر کیے گئے ہیں۔ رواں ہفتے پاکستان کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی انسدادِ دہشتگردی کمیٹی کا نائب چیئرمین اور طالبان پر پابندیوں کے نفاذ کے لیے قائم نگران کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔اقوامِ متحدہ میں یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب گذشتہ مہینے انڈیا اور پاکستان نے ایک دوسرے پر حملے کیے تھے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت بھی دونوں ممالک کے سفارتی وفود مغربی ممالک کے دارالحکومتوں کا سفر کر رہے ہیں اور اتحادیوں کو اپنے اپنے موقف سے آگاہ کر رہے ہیں۔اس تحریر کا مقصد قارئین کو آگاہ کرنا ہے کہ اقوام متحدہ کی دونوں کمیٹیاں دراصل کام کیا کرتی ہیں اور پاکستان کا بطور نائب چیئرمین اور چیئرمین ان کمیٹیوں میں کردار کیا ہوگا۔پاکستان کو کون سے دو اہم عہدے ملے؟ سلامتی کونسل کی کمیٹی برائے انسدادِ دہشتگردیاس کمیٹی کے قیام کی قرارداد اقوامِ متحدہ میں سنہ 2001 میں منظور کی گئی تھی اور کمیٹی برائے انسدادِ دہشتگردی اسی کے تحت کام کرتی ہے۔یہ کمیٹی انسدادِ دہشتگردی کے قوانین اور ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کی نگرانی کرتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق کمیٹی ممالک کے ساتھ نہ صرف کام کرتی ہے بلکہ ان ممالک کا دورہ بھی کرتی ہے تاکہ انسدادِ دہشتگردی کے چارٹر پر عملدرآمد کر سکے۔یہ رپورٹس صرف متعلقہ ممالککے ساتھ ہی شیئر کرتی ہے اور یہ رپورٹس ان ممالک، بین الاقوامی اداروں اور دیگر ذرائع کی مدد سے تیار کرتی ہے۔طالبان پر پابندیوں کے نفاذ کی نگرانیپاکستان کو اس کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ یہ کمیٹی اقوامِ متحدہ کی قرارداد 1988 کے تحت بنائی گئی تھی اور اس کا مقصد طالبان پر، اس سے منسلک دیگر گروہوں اور ان کے اراکین پر پابندیوں کے نفاذ کی نگرانی کرنا ہے۔ان کمیٹیوں میں تقرریاں کیسے ہوتی ہیں؟سلامتی کونسل اقوام متحدہ کے چھ اہم اداروں میں سے ایک ہے۔ اس کونسل کی بنیادی ذمہ داری بین الاقوامی سطح پر امن و سلامتی کو برقرار رکھنا ہے۔ اس کے کل پانچ مستقل اور دس عارضی ارکان ہیں۔پانچ مستقل اراکین میں چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں، جبکہ اس کے دس دیگر عارضی اراکین دو سال کے لیے سکیورٹی کونسل کے رُکن منتخب ہوتے ہیں۔اس کے غیرمستقل اراکین میں الجیریا، ڈنمارک، یونان، گیانا، پاکستان، پانامہ، جنوبی کوریا، سیرالیون، سلوینیا اور صومالیہ شامل ہیں۔ماضی میں اقوامِ متحدہ میں بطور پاکستانی سفیر خدمات سرانجام دینے والی ملیحہ لودھی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ان دونوں کمیٹیوں میں تقرریاں سکیورٹی کونسل کے تمام ممالک کے اتفاق سے ہوتی ہیں۔'تقرریوں کے لیے تمام ممالک کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔ سکیورٹی کونسل میں موجود ان کمیٹیوں میں دلچسپی رکھنے والے تمام ممالک کو ان کمیٹیوں میں شمولیت اختیار کرنے کا موقع دیا جاتا ہے اور کسی بھی ملک کو شاذ و نادر ہی مخالف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔'جب انڈیا کے آرمی چیف نے ایک پاکستانی فوجی افسر کو بہادری کا تمغہ دینے کی ’سفارش‘ کیپاکستان اور انڈیا کی عسکری قیادت نے چار روز کی لڑائی سے کیا سیکھا؟دو جوہری طاقتوں کے بیچ پہلی ڈرون جنگ: کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان روایتی لڑائی میں نئے اور خطرناک باب کا آغاز ہو چکا ہے؟انڈیا، پاکستان کشیدگی کا ایک ماہ: 88 گھنٹوں پر محیط تنازعے کے دوران کیا کچھ ہوتا رہا؟ملیحہ لودھی کے مطابق یہ کمیٹیاں سکیورٹی کونسل کی جانب سے کالعدم قرار دیے گئے گروہوں اور شخصیات کی بھی نگرانی کرتی ہیں۔دوسری جانب سابق امریکی سفارتکار ایلزبتھ تھریلکڈ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ان کمیٹیوں میں تقرریاں اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے پہلے سے طے شدہ اصولوں کے مطابق ہوتی ہیں۔'صدارت اور نائب صدارت کے کردار ایک مذاکراتی طریقہ کار کے تحت تقسیم کیے جاتے ہیں تاکہ کونسل کے اراکین میں توازن برقرار رکھا جا سکے۔'سلامتی کونسل کی کمیٹیاں پاکستان کے لیے اہم کیوں ہیں؟اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مشن کا کہنا ہے کہ 'یہ تقرریاں اقوامِ متحدہ کے نظام میں پاکستان کے متحرک کردار کی عکاسی اور سلامتی کونسل کے بطور منتخب شدہ رکن کے تعمیری کردار کے قبولیت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ پاکستان کی دہشتگردی کی روک تھام کی کوششوں کی بھی بین الاقوامی قبولیت کے مترادف ہیں۔'ایلزبتھ کے مطابق پاکستان کمیٹیوں میں اپنے نئے کردار کے تحت اجلاس منعقد کر سکے گا، مختلف موضوعات پر گفتگو شروع کروا سکے گا اور کوشش کرے گا کہ اقوامِ متحدہ کی پابندیوں اور انسدادِ دہشتگردی کے حوالے سے قراردادوں پر مکمل عمل ہو سکے۔’یہ عارضی پوزیشنز ہیں لیکن ان کے ساتھ ایجنڈے کو سیٹ کرنے اور دیگر معاملات پر اثر انداز ہونے کے موقع بھی آتے ہیں۔‘کیا طالبان پر پابندیوں کے نفاذ کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی صدارت پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر اثرانداز ہوگی؟افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں اور اسلام آباد متعدد مرتبہ یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ عسکریت پسند گروہ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف کر رہے ہیں۔افغانستان کی جانب سے ان الزامات کی متعدد مرتبہ تردید کی گئی ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کے تعلقات بہتری کی طرف جاتے ہوئے نظر آئے ہیں۔حال ہی میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی سرزمین پر موجود اپنے سفارتکاروں کو باقاعدہ سفیروں کا درجہ بھی دیا ہے۔ کیا ایسے میں پاکستان کا سلامتی کونسل کی کمیٹی کی صدارت کرنا دونوں ممالک کے تعلقات پر منفی اثر ڈال سکتا ہے؟سابق سفیر ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ پاکستان کوئی بھی کام تنہا نہیں کر سکتا۔ ’پاکستان اس کمیٹی کے کام پر ضرور اثر انداز ہو سکتا ہے لیکن اس کمیٹی کا زیادہ تر کام کا تعین سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اور دیگر منتخب اراکین کرتے ہیں۔’پاکستان اس کمیٹی کا استعمال پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر اثرانداز ہونے کے لیے نہیں کرسکتا اور وہ اسی مینڈیٹ کے مطابق کام کرے گا جس کا اسے اختیار ہوگا۔‘دوسری جانب الیزبتھ کہتی ہیں کہ طالبان پر پابندیوں کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کی صدارت کے نتیجے میں پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے ہونے والی گفتگو میں ’ایک نظر آنے والا کردار ملے گا، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب افغانستان اور پاکستان کے تعلقات بہت زیادہ اچھے نہیں ہیں۔‘جنوبی ایشیا کے امور کے تجزیہ کار مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ طالبان پر پابندیوں سے متعلق کمیٹی کی سربراہی ملنے سے پاکستان کو دوبارہ طالبان پر اثر و رسوخ حاصل کرنے کا موقع ملے گا جو ماضی قریب میں کم ہو گیا تھا۔ ان کے مطابق اگر طالبان چاہتے ہیں ان پر عائد پابندیاں ہٹ جائیں تو اس کے عوض پاکستان طالبان کے ساتھ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی کا معاملہ اٹھا سکتا ہے۔کوگلمین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد طالبان کے ساتھ تناؤ کم کر رہا ہے اور یہ ایسے اقدامات سے گریز کرے گا جو انھیں ناراض کریں۔Getty Imagesششی تھرور نے کہا کہ اقوام متحدہ میں انڈیا کا مستقل مشن پاکستان کی سرگرمیوں پر نظر رکھے گاانڈیا کو تشویش کیوں؟انڈیا کی جانب سے اقوامِ متحدہ میں رونما ہونے والی اس پیش رفت پر کوئی سرکاری بیان تو نہیں جاری کیا گیا لیکن نئی دہلی میں کچھ حلقے ضرور پاکستان کو سلامتی کونسل کی کمیٹیوں میں اہم عہدے دینے پر خائف نظر آتے ہیں۔کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور ان انڈین وفود میں شامل ہیں جنھیں پاکستان کے ساتھ جاری کشیدگی کے دوران انڈین بیانیے کے فروغ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔جب ششی تھرور سے اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ 'یو این ایس سی میں نصف درجن انسداد دہشت گردی کمیٹیاں ہیں۔ کونسل کے ارکان باری باری ایسی کمیٹیوں کی سربراہی کرتے ہیں۔ جب تک پاکستان سلامتی کونسل میں ہے، اسے ایسی مراعات مل سکتی ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ میں انڈیا کا مستقل مشن پاکستان کی سرگرمیوں پر نظر رکھے گا۔'راجستھان میں سردار پٹیل یونیورسٹی آف پولیس، سکیورٹی اینڈ کریمنل جسٹس میں بین الاقوامی امور اور سکیورٹی اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ونے کاؤڈا، افغانستان-پاکستان، انسداد دہشت گردی اور انسداد بغاوت جیسے موضوعات پر تحقیق کر رہے ہیں۔بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ یو این ایس سی جیسے ادارے میں پاکستان جیسے ملک کو کوئی ذمہ داری دینا نہ صرف سفارتی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ پورے ڈھانچے کی خامیوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔انھوں نے کہا کہ 'پاکستان کو ان کمیٹیوں کا حصہ بنانا دہشت گردی کی نگرانی کی ذمہ داری اسی ملک کو سونپنے کے مترادف ہے جس پر دہشت گردی کو پناہ دینے اور اسے خارجہ پالیسی کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کے سنگین الزامات ہیں۔ یہ نہ صرف انڈیا کے لیے بلکہ عالمی انسداد دہشت گردی کے ڈھانچے کی ساکھ کے لیے بھی تشویشناک ہے۔'جے این یو کے اسسٹنٹ پروفیسر ونیت پرکاش کا ماننا ہے کہ یہ خبر انڈیا کے لیے تشویشناک ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایسی تقرریاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک سے گرین سگنل ملنے کے بعد ہی کی جاتی ہیں اور گرین سگنل دینے کا مطلب یہ تسلیم کرنا ہے کہ پاکستان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انڈیا کی مخالفت سے پاکستان کو اقوامِ متحدہ میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی اس سوال کا جواب نفی میں دیتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’انڈیا اس لیے اعتراضات اس لیے اُٹھا رہا ہے کیونکہ اس نے پاکستان کی ساکھ پر سوالات اٹھانے کی مہم شروع کر رکھی ہے لیکن اس مہم کا اثر صفر ہی ہوگا کیونکہ انڈیا تو سلامتی کونسل کا رُکن تک نہیں ہے۔'سابق امریکی سفارتکار الیزبتھ تھریلکڈ کہتی ہیں کہ انڈیا کے اعتراضات اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان پہلے سے موجود تناؤ کا نتیجہ ہیں۔’لیکن اس کے باوجود بھی اس کا سکیورٹی کونسل میں پاکستان کے کردار پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ کمیٹیوں میں تقرریاں پہلے سے طے شدہ طریقہ کار کے تحت ہوتی ہیں۔‘پاکستان اس کو اپنی سفارتی کامیابی کیوں سمجھ رہا ہے؟ انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز کے ایک سینئر فیلو فضل الرحمان بھی اس تقرری کے وقت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر یہ تقرری پانچ چھ ماہ پہلے کی گئی ہوتی تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا اور اسے معمول کی اپ ڈیٹ کے طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ ’لیکن ایک ایسے وقت میں جب صرف دو ماہ قبل انڈیا میں پہلگام حملہ ہوا، اس کے بعد پاکستان کے ساتھ نیم جنگ جیسی صورتحال پیدا ہو گئی اور انڈین وفد یو این ایس سی کے عارضی رکن ممالک کے دورے پر تھا، تو اسے ایسے ہی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘ان کا خیال ہے کہ یہ پاکستان کی بڑی سفارتی فتح ہے۔فضل الرحمان کے مطابق ’اس تقرری سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں موڑ دیا ہے۔‘تو پاکستان ان کمیٹیوں میں کیا کر سکتا ہے؟ اس سوال پر ونیت پرکاش کا کہنا ہے کہ پاکستان بہت محدود حد تک ہی کچھ کر پائے گا کیونکہ تمام فیصلے اتفاق رائے سے کیے جاتے ہیں۔ 'کمیٹی کا چیئرمین یا وائس چیئرمین تنہا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔'جنوبی ایشیا کے امور کے تجزیہ کار مائیکل کوگلمین کی رائے میں یہ پاکستان کی سفارتی فتح ضرور ہے کہ اس نے اقوام متحدہ میں اثر و رسوخ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی کیونکہ اس کے لیے سلامتی کونسل کے مستقل اور غیر مستقل ارکان کی متفقہ رائے درکار تھی۔مگر وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا اکثر اقوام متحدہ میں آمنے سامنے آتے ہیں تو ایسے میں اس بات کے امکانات کم ہیں کہ پاکستان کو نئی ذمہ داریاں ملنے سے یہ روایت بدل جائے، خاص کر کشیدگی کے ماحول میں۔انڈیا، پاکستان کشیدگی کا ایک ماہ: 88 گھنٹوں پر محیط تنازعے کے دوران کیا کچھ ہوتا رہا؟دو جوہری طاقتوں کے بیچ پہلی ڈرون جنگ: کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان روایتی لڑائی میں نئے اور خطرناک باب کا آغاز ہو چکا ہے؟پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا ایک خطرناک جنگ کے دہانے پرپاکستان اور انڈیا کی عسکری قیادت نے چار روز کی لڑائی سے کیا سیکھا؟جب انڈیا کے آرمی چیف نے ایک پاکستانی فوجی افسر کو بہادری کا تمغہ دینے کی ’سفارش‘ کی

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

مودی کو جی سیون اجلاس میں مدعو کرنے پر کینیڈا کی سکھ برادری وزیر اعظم کارنی سے ناراض

منشیات کی ’خطرناک مقدار سمگل کرنے کی سازش‘: پاکستانی نژاد آصف حفیظ عرف ’سلطان‘ کو امریکہ میں 16 برس قید کی سزا

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کو دو اہم ذمہ داریاں ملنے پر انڈیا میں تشویش کیوں؟

حضرت ابراہیم کی ’بڑی آزمائش‘: قربانی کا تصور اسلام، یہودیت اور مسیحیت میں

نیاز سٹیڈیم حیدرآباد میں وسیم اکرم کا مجسمہ: ایک تو صورت وہ نہیں اوپر سے 1999 کی تلخ یاد، سوشل میڈیا پر فینز سخت نالاں

’ہر طرف موت اور تباہی تھی‘: جب آپریشن بلیو سٹار کے بعد تعفن زدہ لاشیں ’شراب پلا کر اٹھوائی گئیں‘

درجنوں خواتین کا ریپ کرنے والے ڈاکٹر کو 21 سال قید کی سزا: ’مریضوں کا نامناسب انداز میں معائنہ کرتے ہوئے ڈیوڈرنٹ بھی استعمال کیا‘

پہلگام حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کشیدگی کا ایک ماہ: چار روزہ تنازع نے دونوں ملکوں کو کیسے بدلا؟

قربانی کا مزہ تو پاکستان میں ہے

صحیح جانور چُننا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔۔ جرمن سفیر قربانی کا جانور خریدتے نڈھال ! ویڈیو بھی شیئر کردی

پاکستان کے ہاتھوں بھارت کے گرنے والے طیاروں کے پائلٹ کہاں گئے؟ شہزاد اقبال کے انکشافات

پاکستان مذاکرات کے لیے تیار ہے، امید کرتے ہیں کہ انڈیا امریکی صدر کی ’عظیم کوششوں‘ کو سبوتاژ نہیں کرے گا: بلاول بھٹو

پاکستان انڈیا کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے تیار ہے، انڈین حکومت بھی آگے بڑھے: بلاول بھٹو زرداری

روس کے یوکرین میں ڈرون اور میزائل حملے، کم از کم پانچ افراد ہلاک، 80 زخمی

حارث رؤف اور فہیم اشرف کو بکرے نہیں ملے۔۔ پھر کیا ہوا؟ دلچسپ ویڈیو

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی