
BBCعظمت کے بقول انھوں نے یہ سب ’انسانیت کی خاطر کیا‘افغانستان میں ایک استاد عظمت اللہ کو کچھ روز قبل یہ معلوم ہوا تھا کہ ایک بچے کے دل میں سوراخ ہے مگر اس کے والدین ویزا اور پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اسے پاکستان میں علاج کی غرض سے نہیں لا پا رہے تھے۔ایک ماہ کے اس معصوم بچے کے والدین عظمت اللہ کو جانتے نہیں تھے۔ مگر اس مجبوری کی حالت میں انھوں نے ایک اجنبی کے ہاتھ اپنے نومولود بچے کو علاج کے لیے پاکستان روانہ کر دیا۔مدثر خان نامی یہ بچہ قریب 10 روز سے پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں زیرِ علاج ہے۔ حکام کے مطابق گذشتہ روز اس کی والدہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پاکستان آنے کی اجازت دی گئی تھی اور اب وہ اپنے بچے کے پاس پہنچ چکی ہیں۔عظمت بتاتے ہیں کہ ایک ماہ کے بچے کے ساتھ پاکستان آنا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کے ’ماں بار بار فون کر کے پوچھ رہی تھی ’میرا بیٹا کیسا ہے؟ روتا تو نہیں؟ دودھ دیا؟ مجھے اس کی ویڈیو بھیج دو۔‘انھوں نے اس بچے کی خاطر عید پشاور میں ہی گزاری۔ ’یہ سب کچھ انسانیت کی خاطر کیا ہے تاکہ اللہ ہم سے راضی ہو جائے اور اللہ ہماری محنت کا اجر دے تاکہ یہ بچہ صحتیاب ہو سکے۔‘مدثر خان کی والدہ نے دس روز تک پاک افغان سرحد پر انتظار کیا اور اس دوران وہ کبھی جلال آباد میں اپنے گھر چلی جاتی تھیں لیکن جب ان کا دل مطمئن نہیں ہوتا تھا تو دوبارہ سرحد کے پاس آجاتی تھیں۔یہ خاتون گذشتہ روز جمعرات کی صبح آٹھ بجے سے طورخم سرحد پر انتظار میں تھیں کہ کسی طریقے سے انھیں اپنے بچے تک پہنچایا جائے۔جمعے کو خاتون کو انسانی ہمدردی کے تحت پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت ملی۔وزیراعظم پاکستان کے ٹرائبل افیئرز کے معاون اور باجوڑ سے رکن قومی اسمبلی مبارک زیب نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے سوشل میڈیا پر بچے کے بارے میں دیکھا تھا، اس لیے وہ بچے سے ملنے ہسپتال گئے تھے۔اس کے بعد انھوں نے وزیر مملکت برائے داخلی امور طلال چوہدری سے رابطہ کیا اور اپنے ذرائع سے بھی کوششیں کیں تاکہ بچے کی والدہ اس کے پاس پہنچ سکیں۔انھوں نے کہا کہ ’جمعے کی صبح بچے کی والدہ کو پاکستان داخل ہونے کی اجازت مل گئی اور اب بچے کے علاج پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے۔‘افغان والدین نے بچے کی جان بچانے کے لیے ایک اجنبی پر اعتبار کیاہوا کچھ یوں کہ افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے مومندرہ کے علاقے میں ایک افغان شہری سباؤن خان کے ہاں ایک بچہ گذشتہ ماہ پیدا ہوا۔ بچے کو پیدائش کے بعد ایک عارضہ لاحق ہوا اور اسے دورے پڑنے لگے۔ننگرہار کے ڈاکٹروں نے بچے کو کابل لے جانے کا کہا اور مگر وہاں کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کا علاج پاکستان میں ہی ممکن ہے۔پشاور کے ڈاکٹروں کے مطابق دراصل بچہ دل کے ایک عارضے میں مبتلا ہے جسے عام زبان میں دل میں سوراخ ہونا کہتے ہیں جبکہ اسے کیلشیئم کی بھی قلت کا سامنا ہے۔ایک ماہ کے اس بچے کے والدین پاکستان نہیں آ سکتے تھے کیونکہ ان کے پاس سفری دستاویزات نہیں تھے۔ اس کے باوجود وہ پاکستان جانے کے لیے طورخم پر واقع پاکستان-افغان سرحد پہنچ گئے تھے۔ان والدین کے ساتھ مقامی سکول ٹیچر عظمت اللہ بھی روانہ ہوئے تھے جن کے پاس پاکستان آنے کے لیے پاسپورٹ اور ویزا دونوں تھے۔عظمت اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ بچے کے والدین کو نہیں جانتے تھے۔ مگر وہ ان کے ایک دوست کے جاننے والے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ جب والدین کو طورخم سرحد عبور کرنے کی اجازت نہ ملی تو ’والدین نے بچہ میرے حوالے کیا اور کہا کہ میں اسے پشاور کے ایک نجی ہسپتال لے جاؤں۔‘’ہم نے جس ملک سے پناہ مانگی تھی، وہاں ہمارے لیے کوئی لچک نہیں‘: کیا پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے کوئی حقوق ہیں؟خواتین کو دھمکاتی کابل کی دیواریں: ’خوشبو لگا کر مردوں کے پاس سے گزرنے والی عورت زانی ہے‘افغان طالبان کے اہم عسکری رہنما کی پہلگام حملے کے بعد انڈیا ’خفیہ‘ آمد: ابراہیم صدر کون ہیں؟افغانستان میں طالبان متعدد مذہبی سکالرز کو 'گرفتار اور اغوا' کیوں کر رہے ہیں؟وہ بچے کو لے کر پاکستان پہنچے اور پشاور کے آر ایم آئی ہسپتال لے گئے۔ مگر یہاں علاج بہت مہنگا تھا اور ان کے پاس رقم کم تھی جو دو دن کے علاج میں ہی ختم ہو گئی تھی۔اس کے بعد وہ بچے کو سرکاری ہسپتال حیات آباد میڈیکل کمپلیکس لے گئے لیکن عید کی چھٹیوں کی وجہ سے ہسپتال میں ماہر ڈاکٹر موجود نہیں تھے۔وہ مجبور ہو کر بچے کو گھر لے گئے۔ ایک دن بچے کی حالت بہت خراب ہوئی تو وہ اسے ایک دوسرے نجی ہسپتال لے گئے اور اس کا وہاں علاج کیا گیا اور بچے کی حالت کچھ بہتر ہو گئی۔وہ عید کے بعد بچے کو دوبارہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس لے آئے اور یہاں تاحال اس کا علاج جاری ہے۔بچے کے والد سباؤن خان نے بی بی سی کو بتایا کہ بچہ محض ایک ماہ کا تھا جب اسے عظمت اللہ کے جوالے کیا گیا تھا اور اس کی نشونما کے لیے ماں کا دودھ بھی ضروری تھا۔وہ کہتے ہیں کہ 'یہ ہمارے لیے انتہائی مشکل فیصلہ تھا کیونکہ ایک طرف ہم بچے کی حالت دیکھتے تھے تو ہم سے برداشت نہیں ہوتا تھا۔'Getty Images(فائل فوٹو) ایک طویل عرصے سے بڑی تعداد میں افغان مریض علاج کے لیے پشاور کے سرکاری اور نجی ہسپتالوں کا رخ کرتے رہے ہیں۔ مگر سرحد پر سفری دستاویز کی کڑی شرائط کی وجہ سے اب انھیں پاکستان آنے میں مشکلات کا سامنا ہے’اب تک لوگوں سے بہت رقم قرض میں لے چکا ہوں‘سباؤن نے بتایا کہ بڑے آپریشن کے ذریعے پیدائش کے بعد سے بچے کو دورے پڑتے تھے مگر جلال آباد اور کابل میں علاج ممکن نہیں تھا۔ ’ڈاکٹروں نے پشاور کا کہا تو ہم نے قرض لیا اور پشاور آنے کا فیصلہ کیا لیکن پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر ہمیں اجازت نہیں ملی اور مجبور ہو کر بچہ ہم نے عظمت اللہ کے حوالے کر دیا تھا۔‘’یہ کوئی آسان کام نہیں۔ ہم عظمت اللہ کے مشکور ہیں کہ وہ کیسے بچے کی دیکھ بھال کر رہا ہوگا کیونکہ بچے کو فیڈر میں دودھ ڈال کر دینا ہوتا ہے، اس کو صاف کرنا ہوتا ہے اور رونے پر چپ کرانا ہوتا ہے۔ بہت مشکل ہے اور یہ صرف ایک ماں ہی کر سکتی ہے۔‘پشاور کے نجی ہسپتالوں میں علاج کافی مہنگا ہے جبکہ سرکاری ہسپتال میں بھی علاج کے لیے اچھی خاصی رقم چاہیے ہوتی ہے۔عظمت اللہ نے بتایا کہ ’جب میں بچے کو لے کر طورخم سے روانہ ہوا تو بچے کے والدین نے مجھے 55 ہزار روپے دیے تھے لیکن یہ رقم تو نجی ہسپتال کے تین دنوں میں علاج کے دوران خرچ ہو گئی۔ اس کے بعد سباؤن سے کہا تو اس نے مزید رقم کا انتظام کیا اور میں نے خود یہاں کچھ ساتھیوں سے قرض لیا ہے تاکہ بچے کا علاج ممکن ہو سکے۔‘عظمت اللہ نے بتایا کہ وہ دعائیں کر رہے ہیں کہ ’اللہ بچے کو صحت دے۔ میں چاہتا ہوں کہ بچے کو بیماری سے پاک حالت میں والدین کے حوالے کروں۔‘سباؤن بھی ایک سکول ٹیچر ہی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’اب تک لوگوں سے بہت رقم قرض میں لے چکا ہوں۔‘حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں موجود ڈاکٹر عطا اللہ نے بتایا کہ اس وقت بچے کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں، ان میں بچے کے دماغ کا معائنہ کیا گیا ہے، وہ بالکل ٹھیک ہے، دل میں اشو ہے اور اس کے علاوہ بچے میں کیلشیئم پیدا نہیں ہو رہی، اسے دیکھا جا رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ وہ بچے کے تمام ٹیسٹ کرا رہے ہیں اور بچے کا علاج جاری ہے۔صحت کے شعبے میں افغانستان کا پاکستان پر انحصارافغانستان میں گذشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل جنگی صورتحال کے باعث ملک میں صحت کی سہولیات کی دستیابی میں مسائل درپیش ہیں۔ اس لیے بڑی تعداد میں افغان عوام کا انحصار پشاور یا اسلام آباد میں موجود ہسپتالوں پر ہوتا ہے۔ایک طویل عرصے سے بڑی تعداد میں افغان مریض علاج کے لیے پشاور کے سرکاری اور نجی ہسپتالوں کا رخ کرتے رہے ہیں۔ مگر سرحد پر سفری دستاویز کی کڑی شرائط کی وجہ سے اب انھیں پاکستان آنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پشاور کے بڑے نجی ہسپتال اور پشاور میں قائم افغان شہریوں کے لیے قائم ہسپتال افغانستان سے آنے والے مریضوں کی پہلی منزل ہوتی ہے۔پاکستان میں نجی ہسپتالوں میں بڑی تعداد افغان شہریوں کی ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لیے پشاور یا اسلام آباد اس لیے ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ یہ قریب ہے سفری اخراجات کم ہیں اور یہ کہ زبان اور کلچر ایک ہیں۔ایک افغان شہری سمیع اللہ نے بتایا کہ اب سرحد پر سختی کی وجہ سے یا تو امیر لوگ یہاں آ سکتے ہیں اور یا بہت مجبوری ہو تو کسی ایک ایسے شحص کو درخواست کی جاتی ہے جس کے پاس سفری دستاویز ہوں تاکہ وہ مریض کو پشاور لا سکے۔خواتین کے حقوق اور افغان پناہ گزینوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی خاتون فوزیہ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ 'سرحد پر کڑی شرائط پر دوبارہ غور کرنا چاہیے اور ان میں انسانیت کی خاطر اگر کوئی سرحد عبور کرنا چاہے تو اس کے لیے نرم گوشے کی گنجائش ضروری ہے۔'’سٹریٹجک ریزرو‘ یا مستقبل کی منصوبہ بندی: چین معاہدے کے باوجود افغانستان سے ’50 ارب ڈالر‘ کا تانبہ کیوں نہیں نکال رہا؟افغانستان میں طالبان متعدد مذہبی سکالرز کو 'گرفتار اور اغوا' کیوں کر رہے ہیں؟افغان طالبان کے اہم عسکری رہنما کی پہلگام حملے کے بعد انڈیا ’خفیہ‘ آمد: ابراہیم صدر کون ہیں؟خواتین کو دھمکاتی کابل کی دیواریں: ’خوشبو لگا کر مردوں کے پاس سے گزرنے والی عورت زانی ہے‘’ہم نے جس ملک سے پناہ مانگی تھی، وہاں ہمارے لیے کوئی لچک نہیں‘: کیا پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے کوئی حقوق ہیں؟