ائیر انڈیا طیارہ حادثے کی تحقیقات کس طرح کی جائیں گی؟


Getty Imagesچالیس سیکنڈ سے بھی کم۔۔۔یہ وہ وقت ہے جتنی دیر ایئر انڈیا کی پرواز 171احمد آباد کے گنجان آباد علاقے میں گرنے سے پہلے فضا میں بلند ہوئی۔تفتیش کاروں کو اب بوئنگ 787 ڈریم لائنر کے کاک پٹ وائس اور فلائٹ ڈیٹا ریکارڈرز کو ڈی کوڈ کرنے کے مشکل کام کا سامنا ہے تاکہ اڑان بھرنے کے چند سیکنڈ بعد ہونے والی تباہ کن غلطیوں کا پتہ لگایا جا سکے۔اقوام متحدہ کے ہوا بازی کی تنظیم آئی سی اے او کی جانب سے طے کردہ بین الاقوامی قوانین کے تحت ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ 30دن کے اندر جاری کی جانی چاہیے اور حتمی رپورٹ 12 ماہ کے اندر مکمل کی جانی چاہیے۔لندن گیٹوِک جانے والے طیارے کی کیپٹن سُمت سبھروال اور ساتھی پائلٹ کلائیو کندر نے مقامی وقت کے مطابق 13 بجکر 39 منٹ پر مغربی شہر احمد آباد سے اڑان بھری جس میں 242افراد اور تقریباً 100 ٹن ایندھن موجود تھا۔کچھ ہی لمحوں میں کاک پٹ سے ایک کال آئی۔ یہ آخری ٹرانسمیشن تھی۔ اس کے بعدجہاز کی بلندی کم ہونے لگی اور یہ حادثے کا شکار ہو کر شعلوں کی لپیٹ میں آگیا۔انڈیا کے ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بیورو (اے اے آئی بی) کے سابق تفتیش کار کیپٹن کشور چنتا نے اسے ’نایاب ترین‘ حادثہ قرار دیا ہے۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میری معلومات کے مطابق ایسا کچھ بھی پہلے کبھی نہیں ہوا۔‘کیا پرندوں کے ٹکرانے یا ایندھن کی آلودگی کی وجہ سے دونوں انجن فیل ہوگئے؟ کیا فلیپس کو غیر مناسب طریقے سے بڑھایا گیا تھا، جس سے شدید گرمی میں وزنی اور بھرے ہوئے جیٹ کی اٹھان کم ہوگئی تھی؟کیا یہ مینٹیننس کی غلطی تھی اور انجن سروسنگ کے دوران کوئی چُوک ہوگئی؟ یا عملے کے نادانستہ اقدام کی وجہ سے دونوں انجنوں کا ایندھن منقطع ہو گیا؟Getty Imagesتفتیش کار ان تمام اور دیگر امکانات کی تحقیقات کریں گے ۔فضائی حادثے کی تحقیقات کا انحصار اس بات پر ہے کہ طیارے کی کارکردگی کے ریکارڈ شدہ اعداد و شمار کے ساتھ ملبے سے ملنے والے شواہد کا جائزہ لے کر ایک مربوط تصویر تیار کی جاسکے کہ کیا غلط ہوا تھا۔ہر جھلسی ہوئی کیبل، خراب ٹربائن بلیڈ، ہوائی جہاز کی دیکھ بھال کا لاگ اور فلائٹ ڈیٹا اور کاک پٹ وائس ریکارڈرز سے سگنل اور آوازوں کی جانچ کی جائے گی۔بی بی سی نے ماہرین سے بات کی تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ تحقیقات کیسے آگے بڑھیں گی۔کم از کم تین تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ زمین پر پہلا سراغ دونوں انجنوں کے ملبے سے مل سکتا ہے۔امریکہ کے نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ (این ٹی ایس بی) کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر پیٹر گوئلز کا کہنا ہے کہ ’آپ نقصان سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آیا انجن توانائی پیدا کر رہے تھے یا نہیں۔ یہ پہلا اشارہ ہے کہ کیا غلط ہوا ہے۔‘ٹربائن گھومنے والے وہ اہم اجزا ہیں جو زور پیدا کرنے کے لیے درکار توانائی کے حصول میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔’اگر انجن بجلی پیدا نہیں کر رہے تھے تو تفتیش کاروں کے ہاتھوں میں ایک سنگین معاملہ ہے اور توجہ تیزی سے کاک پٹ پر منتقل ہو جائے گی۔‘کاک پٹ میں جو کچھ ہوا اس کا انکشاف بوئنگ 787 کے انہینسڈ ایئربورن فلائٹ ریکارڈرزیا ’بلیک باکسز‘ سے ہو گا، جس کے بارے میں تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے کہانی بتانے میں مدد ملے گی۔انڈین حکام کا کہنا ہے کہ ریکارڈرز جائے حادثہ سے برآمد کر لیے گئے ہیں۔یہ آلات پائلٹ ریڈیو کالز سے لے کر کاک پٹ کی آوازوں تک وسیع پیمانے پر پرواز کے اعداد و شمار اور کاک پٹ آڈیو کو ریکارڈ کرتے ہیں۔اس صوتی ریکارڈنگ میں پائلٹس کے انفرادی مائکس، ریڈیو ٹرانسمیشن اور ایک ایریا مائیکروفون سے حاصل ہونے والی آوازوں کے ساتھ ساتھ کاک پٹ میں پس منظر کا شور سب شامل ہوتا ہے۔یہ ڈیٹا ریکارڈرز گیئر اور فلیپ لیورز کی پوزیشن، تھرسٹ سیٹنگز، انجن کی کارکردگی، ایندھن کے بہاؤ اور یہاں تک کہ فائر ہینڈل ایکٹیویشن کو نہایت درستگی کے ساتھ ٹریک کرتے ہیں۔ایئر انڈیا کے طیارے میں ہلاک ہونے والا خاندان جو برسوں بعد ایک ساتھ رہنے کا خواب لیے لندن جا رہا تھاایئرانڈیا کے تباہ ہونے والے طیارے کی 21 سالہ ایئرہوسٹس: ’وہ خاندان کی پہلی لڑکی تھی جس نے ہمارا سر فخر سے بلند کیا‘ایئر انڈیا کی پرواز کے واحد زندہ مسافر: ’مجھے خود بھی یقین نہیں ہوتا کہ میں طیارے سے باہر کیسے نکلا‘ایئر انڈیا کے طیارے کی ٹیک آف کے 30 سیکنڈز میں گِر کر تباہ ہونے کی ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟Getty Imagesگوئلز کہتے ہیں ’اگر فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر سے پتہ چلتا ہے کہ انجن پوری طاقت بنا رہے تھے، تو توجہ فلیپس اور سلاٹس کی طرف چلی جائے گی۔ اگر ان کی توسیع بھی ضرورت کے مطابق کی گئی تھی تو تحقیقات کافی مشکل ہو جائیں گی۔‘فلیپس اور سلاٹس کم رفتار پرجہاز کو اڑان بھرنے میں مدد کرتے ہیں جس سے طیارے کو بغیر کسی رکاوٹ کے آہستہ پرواز کرنے اور محفوظ طریقے سے اترنے میں مدد ملتی ہے۔’اگر فلائٹ مینجمنٹ کنٹرول سسٹم میں کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس سے نہ صرف بوئنگ بلکہ پوری ہوا بازی کی صنعت کے لیے سنگین خدشات پیدا ہوں گے۔‘بوئنگ787کا فلائٹ مینجمنٹ کنٹرول سسٹم ایک انتہائی خودکار نظام ہے جو نیویگیشن، کارکردگی اور رہنمائی کو منتظم کرتا ہے۔یہ طیارے کی پرواز کے راستے اور ایندھن کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے متعدد سینسرز کے اعداد و شمار کو ضم کرتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2011سے اب تک دنیا بھر میں 1100 سے زائد بوئنگ 787 طیاروں کی پروازوں کے بعد تفتیش کاروں کو اس بات کا تعین کرنا ہے کہ آیا یہ ایک منظم مسئلہ تھا جو عالمی سطح پر بوئنگ کے بیڑے کو متاثر کر سکتا ہے یا اس مخصوص پرواز کی ناکامی۔گوئلز کہتے ہیں کہ ’اگر یہ نظام میں موجود مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے تو ریگولیٹری اداروں کو بہت جلدی کچھ سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔‘اب تک کسی کی جانب سے غلطی کا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے۔Getty Imagesانڈیا کی شہری ہوا بازی کی وزارت نے منگل کے روز کہا کہ ایئر انڈیا کے بوئنگ 787بیڑے کے حالیہ معائنے میں اب تک 33میں سے 24طیاروں کی جانچ پڑتال کی گئی ہے۔بوئنگ کے صدر اور سی ای او کیلی اورٹبرگ نے 12 جون کو کہا ’بوئنگ اقوام متحدہ کے آئی سی اے او پروٹوکول کے مطابق ایئر انڈیا کی پرواز 171کے بارے میں معلومات کے لیے انڈیا کے ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بیورو (اے اے آئی بی) سے رجوع کرے گا۔‘دہلی میں اے اے آئی بی لیب میں ڈیٹا کی ڈی کوڈنگ کی قیادت انڈین تفتیش کار کریں گے، جس میں بوئنگ، انجن بنانے والی کمپنی جی ای، ایئر انڈیا اور انڈین ریگولیٹرز کے ماہرین شامل ہوں گے۔ این ٹی ایس بی اور برطانیہ کے تفتیش کار بھی اس میں شامل ہوں گے۔گوئلز کہتے ہیں کہ ’میرے تجربے کے مطابق تفتیش کرنے والی ٹیمیں عام طور پر اس بات کا تعیّن کر سکتی ہیں کہ کیا ہوا۔ لیکن یہ سمجھنے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔‘ملبے سے دوسرے اشارے مل سکتے ہیں۔ چنتا کا کہنا ہے کہ ’ہر حصہ ، تار، نٹ، بولٹ ' کو احتیاط سے جمع کیا جائے گا۔عام طور پر، ملبے کو قریبی ہینگر یا محفوظ جگہ پر منتقل کیا جاتا ہے، جہاں اسے تمام حصوں کی نشاندہی کرنے کے لیے بچھایا جاتا ہے اور پھر جوڑا جاتا ہیں۔تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کا انحصار پرواز کے اعداد و شمار اور صوتی ریکارڈرز پر ہے اس کی مکمل تعمیر نو کی ضرورت نہیں ہوگی۔تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ حادثے کے لحاظ سے ملبے کی اہمیت مختلف ہوتی ہے۔ جولائی 2014میں مشرقی یوکرین میں مار گرائے جانے والے ملائیشیا ایئر لائنز کے طیارے ایم ایچ 17کے لیے یہ کام کیا جانا انتہائی اہم تھا کیونکہ اسی سے ظاہر ہوا کہروسی ساختہ میزائل اس کے اگلے حصے سے ٹکرانے سےنقصان ہوا تھا۔Getty Imagesحادثے کے ایک تفتیش کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تفتیش کار ملبے میںشامل ایندھن کے فلٹرز، لائنوں، والوز اور جہاز میں موجود ایندھن کی بھی جانچ پڑتال کریں گے تاکہ اس میں موجود ممکنہ آلودگی کی جانچ کی جا سکے۔ اس کے علاوہ ان کا خیال ہے کہ روانگی سے پہلے استعمال ہونے والے ایندھن بھرنے کے آلات کو ’ممکنہ طور پر قرنطینہ کیا گیا ہے اور ان کا معائنہ کیا جا چکا ہے۔‘صرف یہی نہیں۔ چنتا کا کہنا ہے کہ تفتیش کار ایئر لائن اور بوئنگ کے اے سی اے آر ایس (ایئرکرافٹ کمیونیکیشنز ایڈریسنگ اینڈ رپورٹنگ سسٹم) سے مینٹیننس اور فالٹ ہسٹری کا ریکارڈ جمع کریں گے۔ یہ نظام ریڈیو یا سیٹلائٹ کے ذریعے بوئنگ اور ایئر انڈیا دونوں کو ڈیٹا منتقل کرتا ہے۔وہ حالیہ مہینوں کے دوران طیارے اور عملے کی طرف سے آپریٹ کی گئی تمام پروازوں کا جائزہ لیں گے۔ساتھ ہی پائلٹ کی رپورٹ کردہ خرابیوں کے تکنیکی لاگ اور طیارے کی سروسکے دوران کیے گئے اقدامات کا بھی جائزہ لیں گے۔تفتیش کار پائلٹوں کے لائسنس، تربیتی ریکارڈ، سمولیٹر کی کارکردگی اور انسٹرکٹر کے تبصروں کی بھی جانچ کریں گے جس میں پائلٹوں نے جدید فلائٹ سمولیٹر میں انجن کی ناکامی جیسے منظرنامے کو کس طرح سنبھالا۔چنتا کہتے ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ ایئر انڈیا پہلے ہی تحقیقاتی ٹیم کو یہ ریکارڈ فراہم کر چکا ہوگا۔‘تفتیش کار طیارے کے ان تمام اجزا کی سروس ہسٹری کا جائزہ لیں گے جنھیں ہٹایا گیا یا تبدیل کیا گیا تھا، بار بار آنے والے مسائل کے بارے میں رپورٹ کردہ نقائص یا مسائل کی علامات کی جانچ پڑتال کریں گے جو اس پرواز کو متاثر کرسکتے ہیں۔گوئلز کہتے ہیں کہ ’یہ تحقیقات غیر معمولی طور پر پیچیدہ ہیں۔ ان میں وقت لگتا ہے لیکن اس بات کے ابتدائی اشارے مل سکتے ہیں کہ ممکنہ طور پر کیا غلط ہوا ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کس حد تک آ چکی ہے۔1994 میں ہونے والے پہلے حادثات میں سے ایک میں فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر صرف چار پیرامیٹرز پر نظر رکھتا تھا۔ آج کے ریکارڈرز ہر سیکنڈ میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کو پکڑتے ہیں۔ اس ایک چیز نے حادثات کی تحقیقات کے طریقے کو تبدیل کر دیا ہے۔‘ایئر انڈیا کے طیارے میں ہلاک ہونے والا خاندان جو برسوں بعد ایک ساتھ رہنے کا خواب لیے لندن جا رہا تھاایئر انڈیا کے طیارے کی ٹیک آف کے 30 سیکنڈز میں گِر کر تباہ ہونے کی ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟ایئر انڈیا کی پرواز کے واحد زندہ مسافر: ’مجھے خود بھی یقین نہیں ہوتا کہ میں طیارے سے باہر کیسے نکلا‘ایئرانڈیا کے تباہ ہونے والے طیارے کی 21 سالہ ایئرہوسٹس: ’وہ خاندان کی پہلی لڑکی تھی جس نے ہمارا سر فخر سے بلند کیا‘32 برس قبل گلگت سے روانہ ہونے والی پی آئی اے کی فلائیٹ جو آج تک منزل پر نہیں پہنچ سکی

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

ایران سے آنے والے پاکستانی طلبا پر کیا بیتی: ’فضا میں ڈرونز کو پھٹتا دیکھ کر محسوس ہوا جیسے زندگی ختم ہونے والی ہے‘

ائیر انڈیا طیارہ حادثے کی تحقیقات کس طرح کی جائیں گی؟

ڈونلڈ ٹرمپ اورعاصم منیر کی ملاقات: کیا ایران، اسرائیل جنگ میں پاکستان کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟

ریتی بجری سے لدا ڈمپر کار پر الٹ گیا، خاتون اور بچی جاں بحق، فرار ڈرائیور کی تلاش

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے خلاف درخواست مسترد: ’تبادلے کو نئی تقرری تصور نہیں کیا جا سکتا‘

پاک بحریہ نے سمندر میں زخمی بھارتی عملے کو کیسے بچایا؟ انسانیت کی اعلیٰ مثال ! ویڈیو

ارجنٹ اور ایگزیکٹو شناختی کارڈ بنوانے کی فیس کتنی ہے؟ اہم معلومات

ایرانی سائنسدانوں کے قتل سے لبنان میں ’پیجر اور واکی ٹاکی بم‘ تک: موساد کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی کہانی

ڈونلڈ ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ’دو گھنٹے سے زیادہ جاری رہنے والی ملاقات‘ جس میں آئی ایس آئی سربراہ بھی موجود تھے

پرنٹ کرو، استعمال کرو: سستے ’تھری ڈی اسلحہ‘ کا پھیلاؤ جو عالمی سطح پر خدشات کو جنم دے رہا ہے

کے ایم سی ملازمین کا کراچی پریس کلب اور سندھ اسمبلی پر احتجاجی مظاہرہ

ایرانی میزائل حملے: جنوبی اسرائیل کے سب سے بڑے ہسپتال کو بھی نقصان پہنچا، اسرائیلی فوج کا دعوی

گلشن حدید میں بینک سے رقم لے کر نکلنے والا شخص فلمی انداز میں لٹ گیا

روز آم کھانے سے دل کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے؟ نئی تحقیق میں اہم انکشاف

ایران اسرائیل تنازع: اسلام آباد کس حد تک تہران کی مدد کر سکتا ہے اور اس کے پاکستان پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں؟

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی