انسانی ڈی این اے مصنوعی طور پر تیار کرنے کا متنازع منصوبہ: ’جِن بوتل سے نکل چکا ہے‘


BBCاس منصوبے کا مقصد انسانی ڈی این اے کو ازسر نو تیار کرنا ہےدنیا میں پہلی بار انسانی زندگی کی بنیاد کہے جانے والے ہیومن جینوم کی تیاری کے ایک متنازع منصوبے پر کام شروع ہو گیا ہے۔اب تک اس تحقیق کو بُرا سمجھا جاتا تھا کیونکہ یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ اس منصوبے سے ڈیزائنر بچے پیدا کیے جائیں گے یا مستقبل میں انسانوں میں غیر متوقع تبدیلیاں رونما ہوں گی۔مگر اب دنیا کے سب سے بڑے طبی خیراتی ادارے ویلکم ٹرسٹ نے اس منصوبے کو شروع کرنے کے لیے ابتدائی طور پر ایک کروڑ پاؤنڈ دیے ہیں۔ ادارے نے کہا ہے کہ اس میں بہت سی لاعلاج بیماریوں کے حل کی صلاحیت موجود ہے۔کیمبرج میں ایم آر سی لیبارٹری آف مالیکیولر بیالوجی کے ڈاکٹر جولین سیل بھی اس منصوبے کا حصہ ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’ہم ایسے علاج پر غور کر رہے ہیں جو لوگوں کی عمربڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگیوں کو بہتر بنائیں گے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اس طریقہ کار کو بیماری کے خلاف مزاحمت کی ضمانت دینے والے خلیات پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنے پر غور کر رہے ہیں تاکہ خراب اعضا مثال کے طور پر جگر اور دل، یہاں تک کہ مدافعتی نظام کو بھی دوبارہ بنا سکیں۔‘مگر اس منصوبے پر تنقید کرنے والوں کو خدشہ ہے کہ اپنے پیشے کے اصولوں سے انحراف کرنے والے محققین کے لیے ایک راستہ کھل جائے گا جو کہ تبدیل شدہ انسان بنانا چاہتے ہیں۔بیونڈ جی ایم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر تھامس کا کہنا ہے کہ ’ہم یہ خیال پسند کرتے ہیں کہ تمام سائنسدان اچھا کام کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ مگر سائنس کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے اور جنگ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘بی بی سی کو اس منصوبے کی تفصیلات ہیومن جینوم پروجیکٹ کی 25 ویں سالگرہ کے موقع پر دی گئیں ہیں۔یہ ایسا منصوبہ ہے جس نے انسانی ڈی این اے میں موجود مالیکیولز کا نقشہ تیار کیا تھا اور اس کے لیے ویلکم کی جانب سے زیادہ فنڈ دیا گیا تھا۔BBCریڈ بلڈ سیلز کے علاوہ جسم کے تمام خلیات میں ’ڈی این اے‘ نامی مالیکیول ہوتا ہے جس میں انسان کی تمام جینیاتی معلومات موجود ہوتی ہیں۔ ڈی این اے صرف چار بہت چھوٹے بلاکس سے بنا ہوتا ہے جنھیں اے، جی، سی اور ٹی کہا جاتا ہے۔ انھیں مختلف امتزاج میں بار بار دیکھا جا سکتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس میں وہ تمام جینیاتی معلومات شامل ہیں جو جسمانی طور پر ہمیں بناتی ہیں کہ ہم کون ہیں۔ہیومن جینوم پراجیکٹ نے سائنسدانوں کو تمام انسانی جینز کو بار کوڈ کی طرح پڑھنے کے قابل بنایا ہے۔ یہ محققین کو نہ صرف ڈی این اے کے ایک مالیکیول کو پڑھنے کی اجازت دے گا بلکہ اس کے کچھ حصوں کو تخلیق کرنے کی اجازت دے گا اور شاید ایک دن وہ مکمل طور پر ایک، ایک مالیکیول کے لیے ایسا کرنے کی اجازت دے دے۔سائنس دانوں کا پہلا مقصد انسانی ڈی این اے کے بڑے بلاکس کی تعمیر کے لیے طریقے تیار کرنا ہے تاکہ وہ انسانی کروموسومز مصنوعی طور پر بنا سکیں۔ اس میں جینز شامل ہیں جو کہ ہماری نشونما اور مرمت کی نگرانی کرتے ہیں۔ ’ڈارک میٹر‘: ڈی این اے کا پراسرار حصہ جس میں انسانی ارتقا کا راز چھپا ہےکیا 100 سال زندہ رہنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے؟’روزانہ ایک سیب کھائیں اور ڈاکٹر کے پاس جانے سے بچ جائیں‘: صدیوں پرانا یہ دعویٰ کتنا درست ہےسیکس کیم انڈسٹری کی ماڈلز: ’ہمیں اس وقت کام پر رکھا گیا جب ہم سکول میں پڑھتی تھیں‘اس کے بعد ان کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے اور تجربات کیے جاسکتے ہیں تاکہ اس بارے میں مزید جان سکیں کہ جینز اور ڈی این اے ہمارے جسم کو کس طرح منظم رکھتے ہیں۔پروفیسر میتھو ہرلس ویلکم سانگر انسٹی ٹیوٹ میں ڈائریکٹر ہیں۔ ان کے مطابق بہت سی بیماریاں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب ہمارے جینز میں کوئی مسئلہ ہوتا ہے، اس لیے تحقیقات سے ان کے علاج میں مدد مل سکتی ہے۔خیال رہے کہ یہ ادارہ انسانی جینوم کو سب سے بڑی تعداد میں ریکارڈ کرتا ہے۔پروفیسر میتھیو کا کہنا ہے کہ ڈی این اے کو نئے سرے سے تیار کرنے سے ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ ’ڈی این اے اصل میں کام کیسے کرتا ہے اور اس کے لیے نئی تھیوریز کی جانچ کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ اس وقت ہم صرف انسانی جسم میں ڈی این اے کو تبدیل کر پاتے ہیں۔‘BBCاس منصوبے کا کام ٹیسٹ ٹیوب اور ڈشز تک محدود ہو گا۔ اس میں مصنوعی زندگی کے لیے کوئی کوشش نہیں ہو گی۔ مگر یہ ٹیکنالوجی محققین کو انسانی زندگی کے نظام پر ایک غیر معمولی کنٹرول دے گی۔اگرچہ یہ پراجیکٹ طبی فوائد کی تلاش کے لیے کیا جا رہا ہے لیکن غیر محتاط سائنسدانوں کو اس کے غلط استعمال سے روکنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ جینیات کے شعبے کے ماہر پروفیسر بِل ارنشا مثال دیتے ہیں کہ اس منصوبے کو حیاتیاتی ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ بہتر صلاحیتوں والا انسان پیدا کیا جائے یا پھر ایسی مخلوق بنائی جائے جس میں انسانی ڈی این اے بھی ہو۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جِن بوتل سے باہر نکل چکا ہے۔ ہم رکاوٹیں قائم کر سکتے تھے لیکن ایک تنظیم جس کے پاس وسائل ہیں نے کچھ بھی مصنوعی طور پر بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میرا نہیں خیال ہم انھیں روک پائیں گے۔‘ تھامس کو خدشہ ہے کہ میڈیکل کمپنیوں کی جانب سے اس ٹیکنالوجی کو کس طرح کمرشلائز کیا جائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم مصنوعی جسم کے اعضا یا یہاں تک کہ مصنوعی لوگ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر ان کا مالک کون ہو گا۔ اور ان تخلیقات کے اعداد و شمار کا مالک کون ہو گا؟‘ٹیکنالوجی کے ممکنہ غلط استعمال کو دیکھتے ہوئے طبی ادارے ویلکم کے لیے بھی سوال ہے کہ اس نے اسپراجیکٹ کی فنڈنگ کا انتخاب کیوں کیا۔ فنڈنگ کی منظوری دینے والے ڈاکٹر ٹام کولنز کے مطابق یہ فیصلہ ممکنہ اثرات کو نظر انداز کر کے نہیں لیا گیا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے خود سے پوچھا کہ کوئی قدم نہ اٹھانے کی کیا قیمت ہو گی۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ٹیکنالوجی ایک دن تیار ہونے جا رہی ہے، اس لیے اب ایسا کر کے ہم کم از کم اسے زیادہ سے زیادہ ذمہ دارانہ طریقے سے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اخلاقی سوالات کا زیادہ سے زیادہ واضح انداز میں سامنا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘اس منصوبے کے تحت فلاحی پروگرام چلایا جائے گا اور اس کی قیادت کینٹ یونیورسٹی کے ماہر سماجیات پروفیسر جوئے ژانگ کریں گی۔وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ماہرین، سماجی ماہرین اور خاص طور پر عوامی رائے دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اس کو کیسے دیکھتے ہیں اور یہ بھی کہیہ کس طرح سے فائدہ مند ہو سکتا ہے اور خاص طور سے یہ کہ اس حوالے سے ان کے کیا سوالات اور تحفظات ہیں۔‘’ڈارک میٹر‘: ڈی این اے کا پراسرار حصہ جس میں انسانی ارتقا کا راز چھپا ہےحیات بعد از موت: کیا ہم کسی شکل میں ہمیشہ زندہ رہ سکتے ہیں؟کیا دل کے معاملات میں بھی سائنس مدد کر سکتی ہے؟سیکس کیم انڈسٹری کی ماڈلز: ’ہمیں اس وقت کام پر رکھا گیا جب ہم سکول میں پڑھتی تھیں‘’روزانہ ایک سیب کھائیں اور ڈاکٹر کے پاس جانے سے بچ جائیں‘: صدیوں پرانا یہ دعویٰ کتنا درست ہے

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید سائنس اور ٹیکنالوجی

واٹس ایپ نے صارفین کیلئے نیا اے آئی فیچر متعارف کرا دیا

شیفالی زریوالا کی اچانک موت: ’دنیا میں صرف ایک ہی ’کانٹا لگا‘ گرل ہو سکتی ہے اور وہ میں ہوں‘

انسانی ڈی این اے مصنوعی طور پر تیار کرنے کا متنازع منصوبہ: ’جِن بوتل سے نکل چکا ہے‘

سام سنگ گلیکسی ایس 25 ایچ ، نئی قیمت اور فیچرز نے سب کو حیران کر دیا

بیٹری 100 فیصد چارج کرنا نقصان دہ یا فا ئدہ مند؟

جرمنی کا چینی ڈیپ سیک اے آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ

شیفالی جریوالا کی اچانک موت: ’دنیا میں صرف ایک ہی ’کانٹا لگا‘ گرل ہو سکتی ہے اور وہ میں ہوں‘

ایپل کی پابندیوں کے باعث فیس میں ترمیم

’قاتل فنگس‘ کیا ہے؟ جان لیوا فنگل انفیکشن سے خود کو کیسے محفوظ رکھا جائے؟

خلا میں زمین کے قریب نیا سیارہ دریافت

آئی فون 17 کےصارفین کیلئے بڑی خوشخبری

بڑا پیزا دو گھنٹے میں ختم کرنے والی مکھیاں جو کچرے کو فائدہ مند پروٹین میں بدل سکتی ہیں

سیکس کیم انڈسٹری کی ماڈلز: ’ہمیں اس وقت کام پر رکھا گیا جب ہم سکول میں پڑھتی تھیں‘

یوٹیوب کا لائیو اسٹریمنگ کے حوالے سے بڑی تبدیلی کرنیکا اعلان

سوشل میڈیا پر میگنیشیم کے چرچے، یہ انسانی جسم کے لیے کیوں ضروری ہے؟

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی