ایران کا جوہری پروگرام جو دہائیوں قبل امریکہ کی مدد سے شروع ہوا تھا


Getty Imagesایران کا کہنا ہے کہ پرامن مقاصد کے لیے اسے اپنا جوہری پروگرام جاری رکھنے کا حق حاصل ہےایران کا جوہری پروگرام گذشتہ دو دہائیوں سے عالمی سیاست میں سب سے زیادہ موضوعِ بحث رہا ہے۔بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے سنہ 2003 میں کہا تھا کہ ایران تقریباً 18 سال سے جوہری پروگرام چلا رہا ہے۔اس میں ایک سے زیادہ بڑے اور جدید ترین ایٹمی مراکز شامل ہیں۔ اس کے بعد ایران کا جوہری پروگرام سفارتی حلقوں میں اہم ترین مسائل میں سے ایک بن گیا۔اس سے متعلق حیرت انگیز معلومات کے سامنے آنے کے بعد عالمی سفارت کاری میں اس کا تیزی سے چرچا ہونے لگا۔ یہ معلومات ایران کی جانب سے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط کرنے والے ملک کے طور پر اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کا واضح اشارہ تھا۔اس کے بعد مغربی طاقتوں کے ساتھ ساتھ روس اور چین جیسے ایران کے پرانے دوستوں نے بھی اس کی مذمت کی اور اس پر پابندیاں لگانے اور دباؤ بڑھانے کے مختلف اقدامات میں شامل ہو گئے۔ایران کے اُس وقت کے صدر محمد خاتمی کی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے لیکن امریکہ اس پروگرام کو طویل عرصے تک شک کی نگاہ سے دیکھتا رہا۔ اُس کا خیال تھا کہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔چار امریکی صدور جارج ڈبلیو بش، براک اوبامہ، ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے دور میں ایران کا جوہری پروگرام سب سے اہم مسئلہ رہا۔Getty Imagesصدر اوبامہ کے دور میں ایران کے جوہری پروگرام پر ایک بین الاقوامی معاہدہ سنہ 2015 میں طے پایا تھاایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کی کوششیںان رہنماؤں نے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایسا کوئی بھی امکان مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔بہت سے ماہرین کا کہنا تھا کہ اس سے خطے میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔صدر جارج ڈبلیو بش نے سنہ 2002 میں اپنی تقریر میں شمالی کوریا اور عراق کے ساتھ ساتھ ایران کو ’برائی کا محور‘ (ایکسس آف ایول) قرار دیا اور ایران پر جامع بین الاقوامی پابندیاں لگانے کے لیے سخت دباؤ ڈالا۔دوسری جانب صدر براک اوباما نے اپنے دور میں برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی کی حکومتوں کے ساتھ مل کر ایران کے ساتھ دو سال تک مذاکرات کیے اور 2015 میں ’جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن‘ پر دستخط کیے۔اس معاہدے کے تحت ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی نگرانی اور حد مقرر کرنے کے بدلے تہران پر عائد پابندیوں میں کچھ نرمی دی گئی لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کر لیا اور یکطرفہ طور پر ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔جواب میں تہران نے معاہدے کی شرائط کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا اور یورینیئم کی افزودگی کی شرح 60 فیصد تک بڑھا دی۔ یہ بجلی کی پیداوار کے لیے درکار 4.5 فیصد سے کہیں زیادہ اور جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار 90 فیصد کے بہت قریب سمجھی جاتی ہے۔ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی صدر جو بائیڈن نے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے جس کے بعد دوسری بار صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے والے ٹرمپ نے اس معاملے پر سخت موقف اختیار کیا۔گذشتہ ہفتے امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف فوجی مہم میں اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے تہران کے جوہری پلانٹس پر بمباری کی۔ اس حملے کا مقصد ان مقامات کو تباہ کرنا تھا تاہم ایران کے جوہری پروگرام پر تنازع اب بھی جاری ہے جس کی ابتدا واشنگٹن سے ہی ہوئی تھی۔ یہ اس لیے بھی کہ ایران کا ایٹمی پروگرام 1950 کی دہائی میں امریکہ کی مدد سے شروع ہوا تھا اور یہ سارا معاملہ امریکی صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور کی تقریر سے شروع ہوا۔Getty Imagesامریکہ میں ’ایٹمز فار پیس‘ سکیم پر ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا تھاامن کے لیے جوہری پروگرامامریکی صدر آئزن ہاور نے 8 دسمبر سنہ 1953 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک تاریخی تقریر کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’جوہری ٹیکنالوجی کو جب فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو یہ انسانیت کے لیے خوفناک خطرہ بن جاتی ہے۔‘اس وقت تک اس ٹیکنالوجی پر امریکہ کی اجارہ داری نہیں تھی۔ دنیا کے کئی دوسرے ممالک بھی ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر رہے تھے۔آئزن ہاور نے کہا تھا کہ ’ان ہتھیاروں کو فوجیوں کے ہاتھوں سے ہٹا دینا کافی نہیں، ہمیں انھیں ان لوگوں کو دینا چاہیے جو ان کے عسکری خول کو ہٹا کر پرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنا جانتے ہیں۔‘اس کے بعد انھوں نے اقوام متحدہ کے تحت بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے قیام کی تجویز پیش کی۔ اس ایجنسی کا مقصد جوہری مواد کو انسانی فلاح کے لیے مفید بنانا تھا۔امریکی صدر نے کہا تھا کہ ہمارا خاص مقصد یہ ہو گا کہ دنیا کے ان ممالک کو مناسب بجلی فراہم کی جائے جنھیں توانائی کی کمی کا سامنا ہے۔انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے قیام کی بنیاد آئزن ہاور کی اس تقریر سے رکھی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ’ایٹمز فار پیس‘ کے نام سے ایک پہل بھی کی گئی۔اس کے تحت امریکہ نے ترقی پذیر ممالک کو جوہری توانائی کے پرامن استعمال میں مدد دینے کے لیے تربیت اور ٹیکنالوجی کی منتقلی شروع کی۔Getty Imagesاگست 1954 میں آئزن ہاور نے جوہری ٹیکنالوجی کی برآمد کی اجازت دینے کے لیے یو ایس اٹامک انرجی ایکٹ میں ترمیم کی’ایٹمی جن‘ کو بوتل سے باہر نکالناآئزن ہاور کی اقوام متحدہ میں تقریر کے ایک سال کے اندر امریکہ نے اپنے ایٹمی توانائی ایکٹ میں ترمیم کی۔اس سے دوسرے ممالک کو جوہری ٹیکنالوجی اور آلات کی برآمد کی اجازت دی گئی لیکن اس شرط پر کہ ان آلات کو کسی بھی حالت میں ہتھیاروں کی تیاری کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔مارچ 1955 میں آئزن ہاور انتظامیہ نے اس سمت میں ایک قدم اور اٹھایا۔ اس نے امریکی اٹامک انرجی کمیشن کو قابل اعتماد ممالک کو محدود مقدار میں قابل انشقاق مواد (یعنی دھماکہ خیز مواد) برآمد کرنے کی اجازت دی اور ری ایکٹر کی تعمیر میں مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔پینٹاگون میں ڈیٹرنس پالیسی کے سابق ڈائریکٹر پیٹر آر لاوائے نے آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا کہ ’اس برآمد کا مقصد امریکی عالمی قیادت کو برقرار رکھنا، سوویت اثر کو کم کرنا اور یورینیئم اور تھوریم کے غیر ملکی ذرائع تک رسائی کو یقینی بنانا تھا۔'انڈیا اس پروگرام کا فائدہ اٹھانے والا پہلا ملک تھا۔ اس کے بعد جنوبی افریقہ، اسرائیل، ترکی، پاکستان، پرتگال، یونان، سپین، ارجنٹائن، برازیل اور ایران کو بھی امریکہ سے ایٹمی امداد ملنا شروع ہو گئی۔Getty Imagesاکبر اعتماد ایران کے جوہری پروگرام کے پہلے سربراہ بنائے گئےتہران کے لیے ایک ری ایکٹرامریکہ اور ایران نے 5 مارچ 1957 کو جوہری تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس وقت ایران پر شاہ محمد رضا پہلوی کی حکومت تھی۔ ’ایٹمز فار پیس‘ انیشی ایٹو کے تحت اس معاہدے نے ایران کے جوہری پروگرام کی بنیاد رکھی۔ایران سرد جنگ کے دور میں امریکہ کی نظر میں ایک اہم سٹریٹیجک اتحادی تھا۔سنہ 2018 میں ولسن سینٹر میں شائع ہونے والے ایک تجزیے میں جونا گلِک انٹرمین نے لکھا کہ ’اس وقت کلاسیفائڈ دستاویزات کے مطابق غیر جانبدار ایران کو سوویت یونین کے خلاف جوابی حکمت عملی کی بنیاد کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور ایٹم فار پیس پروگرام ایران کو مغربی اتحاد کے ساتھ وفادار رکھنے کا ایک طریقہ تھا۔‘امریکہ نے 1967 میں ایران کو پانچ میگاواٹ کا نیوکلیئر ریسرچ ری ایکٹر فراہم کیا، اس کے ساتھ اس کے آپریشن کے لیے درکار انتہائی افزودہ یورینیئم بھی دیا گیا۔تین سال بعد سنہ 1970 میں ایران نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کر دیے۔ اس معاہدے کے ذریعے ایران نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے یا تیار کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔کیا ایران چند ماہ میں ایٹمی طاقت بننے والا تھا؟’تہران اب بھی ایٹمی ہتھیار کے لیے افزودہ یورینیئم تیار کر سکتا ہے‘: امریکی حملے سے ایرانی جوہری تنصیبات کو کتنا نقصان ہوا؟زیر زمین جوہری شہر اور یورینیئم کی کانیں: ایران کی ایٹمی صلاحیت اور تنصیبات کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں’خطروں کا سوداگر‘: پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام ایران کے جوہری پروگرام سے کیوں جوڑا جاتا ہے؟ایران جوہری پروگرام کے سربراہ اکبر اعتماد نے سنہ 2013 میں بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’شاہ رضا پہلوی نے اس وقت کہا تھا کہ اگر ایران اپنے علاقائی مفادات کے تحفظ کے لیے مضبوط ہو جائے گا تو اسے جوہری ہتھیاروں کی ضرورت نہیں رہے گی لیکن انھوں نے مجھے بتایا کہ اگر حالات بدلے تو ہمیں جوہری ہتھیاروں کے راستے پر چلنا پڑے گا۔ یہ سوچ ابھی تک ان کے ذہن میں تھی۔‘اکبر اعتماد سنہ 1974 میں وجود میں آنے والے ادارے ایران کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن (اے ای او آئی) کے چیئرمین تھے اور انھوں نے ملک کے جوہری پروگرام کی ابتدا میں قیادت کی تھی۔شاہ رضا پہلوی نے اسی سال اعلان کیا تھا کہ آئندہ دو دہائیوں کے دوران ایران میں جوہری توانائی کے 23 مراکز قائم کیے جائیں گے اور ان میں سے ہر ایک کی پیداواری صلاحیت 23 ہزار میگاواٹ کے لگ بھگ ہو گی۔لیکن اس میں ایک بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ ایران کے پاس اس کے لیے مطلوبہ تعداد میں ماہر نیوکلیئر انجینیئرز اور سائنسدانوں کی کمی تھی۔Getty Imagesایران کے شاہ رضا پہلوی سنہ 1969 میں امریکی صدر نکسن کے ساتھامریکی مدد سے رکاوٹ کو دور کرنے کی کوششجولائی سنہ 1974 میں ایرانی حکام نے تجویز پیش کی کہ امریکہ کے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ایران کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے منتخب طلبا کے لیے ماسٹر ڈگری پروگرام شروع کیا جائے۔ایران نے اس تعلیمی پروگرام کے پہلے دو سال کے لیے تقریباً 1.3 ملین ڈالر (آج تقریباً 8.5 ملین ڈالر) فراہم کیے لیکن ایم آئی ٹی کے طلبا اور پروفیسرز کی طرف سے اس اقدام کی شدید مخالفت کی گئی۔ انھوں نے شاہ پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا اور خدشہ ظاہر کیا کہ یہ پروگرام ایران میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔لیکن سنہ 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری تعاون کا یہ معاہدہ ختم ہو گیا۔ٹیکنالوجی کے تاریخ دان سٹیورٹ ڈبلیو لیسلی اور رابرٹ کرگن نے ایک مضمون میں لکھا کہ ’ایم آئی ٹی میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ جو پروگرام انھوں نے شاہ کے لیے تیار کیا وہ اتنی جلدی انقلابیوں کے ہاتھ لگ جائے گا۔ وہ یقین نہیں کر سکتے تھے کہ جن ایرانی طلبا اور اساتذہ کو وہ تربیت دے رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر انقلاب کی حمایت کریں گے۔‘Getty Imagesایران کے شاہ 1954 میں امریکی صدر آئزن ہاور کے ساتھ وائٹ ہاؤس میںانقلاب کا اگلا موڑانقلاب کے بعد اقتدار سنبھالنے والی آیت اللہ خمینی کی قیادت میں نئی اسلامی حکومت نے ابتدا میں شاہ کے ایٹمی منصوبوں کو یکسر مسترد کر دیا۔ اس شعبے میں تربیت یافتہ کئی پروفیسرز ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔فلوریڈا انٹرنیشنل یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر محمد ہمایونوش بتاتے ہیں کہ سنہ 1979 کے انقلاب کے بعد ایرانی، جوہری توانائی کے بہت مخالف تھے۔ وہ اس منصوبے کو شاہ کا ’سفید ہاتھی‘، ایک ’غیر موثر اور مہنگا پروجیکٹ‘ سمجھتے تھے۔‘انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’حکومت نے تقریباً پانچ چھ سال تک جوہری توانائی کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ اس وقت ایران کے پاس تیل کے بہت وسائل تھے۔‘تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اسلامی انقلاب کی قیادت کرنے والوں کو رفتہ رفتہ ایٹمی ٹیکنالوجی کی عسکری اہمیت کا احساس ہونے لگا۔ اس کے بعد انھوں نے نہ صرف ملک چھوڑنے والے ماہرین کو واپس بلانے کے لیے کوشش شروع کر دی بلکہ خفیہ طور پر اپنا ایٹمی پروگرام بھی شروع کر دیا۔Getty Imagesایرانی انقلاب کے بعد امریکہ سے ایران کا معاہدہ ختم ہو گیاغیر متوقع تبدیلیلیکن یہاں یہ سوال اٹھایا گیا کہ ’ایٹمز فار پیس'‘منصوبے کا درحقیقت دیگر ممالک میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور خاص طور پر ایران کے موجودہ پروگرام پر کتنا اثر پڑا؟پروفیسر ہمایون وش نے کہا کہ ’صدر آئزن ہاور کی سوچ یہ تھی کہ دوسرے ممالک کو جوہری ہتھیاروں کے راستے پر جانے سے روکنے کے لیے اگر انھیں جوہری ٹیکنالوجی کو پرامن مقاصد کے لیے مقررہ مقدار میں استعمال کرنے کا موقع دیا جائے تو مناسب حفاظتی اقدامات کے ذریعے اسے کسی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔‘اس کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ امریکہ نے یورینیئم نہیں بیچا۔ یہ اسے لیبارٹری کی سطح پر محدود مقدار میں کرائے پر دیتا تھا، جو ری ایکٹر کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔اس طرح امریکہ نے دنیا کے تقریباً 30 ممالک میں جوہری توانائی کی تحقیق اور مطالعہ کا راستہ آسان کر دیا۔تاہم، پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو ماہرین کے درمیان اس بات پر کوئی اتفاق رائے نہیں کہ ’ایٹم فار پیس‘ پروجیکٹ نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ میں کس حد تک کردار ادا کیا۔پروفیسر ہمایون وش کا ماننا ہے کہ ’یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایٹمز فار پیس نے ایک ایسا ماحول بنایا جس میں پرامن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کی منتقلی ممکن ہوئی لیکن ایک بار جب اس ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھ لیا جاتا ہے تو متعلقہ ممالک کو مختلف اقدامات کے ذریعے اپنے اپنے انداز میں اس معاملے میں آگے بڑھنے کا موقع مل جاتا۔‘پروفیسر ہمایون وش کا خیال ہے کہ براہ راست یہ کہنا مشکل ہے کہ ’ایٹم فار پیس‘ پروگرام کی عدم موجودگی میں کچھ ممالک جوہری طاقت کی موجودہ حالت تک نہ پہنچ پاتے۔وہ کہتے ہیں کہ ’اس طرح کے کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے دلائل اور استدلال کی فہرست کافی پیچیدہ ہے۔ اسے سیدھی لکیر کھینچ کر بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے میں ایسا نہیں کہوں گا۔‘دوسری جانب بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ آئزن ہاور کے اقدام نے جوہری پھیلاؤ کی حوصلہ افزائی کی۔جارجیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر جان کریگ کا کہنا ہے کہ ’نئی تحقیق نے اب انکشاف کیا ہے کہ یہ اقدام کتنا خطرناک تھا اور یہ کہ ایٹمز فار پیس پروجیکٹ نے جوہری ہتھیاروں کے پروگراموں کی ترقی میں مدد کی اور اس کی حوصلہ افزائی کی۔‘اس نظریے کے حامی اکثر انڈیا اور پاکستان کی مثال دیتے ہیں جہاں ایٹمی سائنسدانوں کو پہلے ایٹم فار پیس اقدام کے تحت تربیت دی گئی اور بعد میں انھون نے ایٹم بم تیار کر لیا۔لیکن اس دلیل میں مزاحمت کے واقعات بھی شامل ہونے چاہئیں۔پیٹر آر لاوائے لکھتے ہیں کہ ’بہت سے معاملات میں، سائنسی یا صنعتی درجے کے جوہری مواد کو سٹریٹجک استعمال کی طرف موڑنے کی کوششوں کا پتہ چلا۔ یہ صرف ایٹم فار پیس کے تحت بنائے گئے سکیورٹی فریم ورک کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اس کی مثالیں ارجنٹائن، برازیل، تائیوان، اور جنوبی کوریا ہیں۔‘لیکن ایران کے معاملے میں اسرائیل اور امریکہ کی حالیہ بمباری کے بعد ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اس کی جوہری تنصیبات کس حالت میں ہیں اور اس کے جوہری پروگرام کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے۔’خطروں کا سوداگر‘: پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام ایران کے جوہری پروگرام سے کیوں جوڑا جاتا ہے؟جوہری توانائی ایجنسی میں ایران کے خلاف قرارداد منظور، ایران کا جواباً ’محفوظ مقام‘ پر یورینیم افزودگی کا نیا مرکز کھولنے کا اعلانپینٹاگون نے جوہری تنصیبات پر حملے سے پہلے کیسے ’ٹاپ سیکرٹ‘ پروازوں کے ذریعے دنیا کی نظریں ایران سے ہٹا کر ایک جزیرے پر مرکوز کروا دیںٹرمپ کا ’ہمیشہ جاری رہنے والی جنگیں‘ نہ شروع کرنے کا وعدہ: کیا امریکی صدر ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روک سکیں گے؟ایران کا جوہری پروگرام اس قدر متنازع کیوں ہے؟کیا ایران چند ماہ میں ایٹمی طاقت بننے والا تھا؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

انڈیا میں شاہد آفریدی سے منسوب جعلی پیغام اور یوٹیوب پر ٹرینڈ ہوتے پاکستانی ڈراموں پر بحث

کراچی: مچھیروں کی خاموش بستی کو ’روشنیوں کا شہر‘ بنانے والے ہرچند رائے کون تھے؟

کیا حالیہ تنازع کے دوران ایران نے واقعی جدید ترین اسرائیلی ایف-35 طیاروں کو مار گرایا تھا؟

تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد زیر غور نہیں: رانا ثنا اللہ

امریکی حملے نے ایران کا جوہری پروگرام ایک سے دو سال پیچھے دھکیلا ہے: پینٹاگون

باجوڑ دھماکے میں اسسٹنٹ کمشنر سمیت پانچ افراد ہلاک، 11 زخمی

پاکستانی سرحد کے قریب انڈین فضائیہ کی ملکیت ہوائی پٹی مبینہ دھوکہ دہی سے کیسے فروخت کی گئی؟

امریکی نائب صدر نے کہا اگر ہم نے کچھ باتیں تسلیم نہ کیں تو پاکستان انڈیا پر بہت بڑا حملہ کرے گا: انڈین وزیر خارجہ

بیٹی کی سالگرہ، ماتم میں بدل گئی۔۔ نوید پہلوان کے 3 بچے جاں بحق ! افسوس ناک واقعہ کیسے پیش آیا؟

آن لائن کھانا، فضلے کا ڈھیر اور ایک کرسی: وہ شخص جس نے تین سال تک خود کو گھر میں بند رکھا

ایران کا جوہری پروگرام جو دہائیوں قبل امریکہ کی مدد سے شروع ہوا تھا

ٹیچر کا پلک جھپکتے میں انتقال۔۔ نوجوانوں میں دل کے دوروں کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے اور اسے کیسے روکیں؟ ماہرین کی رائے

سندھ حکومت سمندری پانی کو میٹھا بنانے کا منصوبہ عالمی اداروں کے تعاون سے مکمل کرے گی، شرجیل میمن

اولڈ سٹی ایریا کے مکین مخدوش عمارتیں کیوں نہیں چھوڑ رہے ؟ افسوسناک وجہ سامنے آگئی

کیا انڈیا اور امریکہ کے درمیان ’بڑا اور شاندار‘ تجارتی معاہدہ خطرے میں ہے؟

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی