
ایک نجی اسکول میں لیکچر کے دوران نوجوان استاد نیاز احمد کی اچانک موت نے ہر کسی کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ معمول کے مطابق بچوں کو پڑھا رہے تھے کہ اچانک زمین پر گر گئے۔ ان کی موت کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو عوام اور ماہرین طب کی توجہ نوجوانوں میں بڑھتے دل کے دوروں کی جانب مبذول ہوئی۔ یہ واقعہ محض ایک ذاتی سانحہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی طبی خطرے کی طرف اشارہ ہے۔
ماہرِ قلب کی رائے: کیا یہ موت روکی جا سکتی تھی؟
پروفیسر ڈاکٹر زبیر اکرم، جو کہ امراضِ قلب کے ماہر ہیں، نے نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس واقعے پر تبصرہ کیا کہ
"ایسی اموات ہزار میں ایک بار ہوتی ہیں، لیکن اگر بروقت CPR دی جائے تو جان بچائی جا سکتی ہے۔ ٹیچر نیاز احمد کو اچانک ہارٹ اٹیک آنے کی دو بڑی وجوہات ہو سکتی ہیں: ایک، ان کے خاندان میں دل کی بیماری کی تاریخ، اور دوسرا، دل کی شریانوں میں تنگی کے باعث خون کا لوتھڑا پھنس جانا۔ ہمیں اسکولوں میں اساتذہ اور طلبہ کو سی پی آر کی تربیت دینا ہوگی تاکہ ایسی صورت میں فوری مدد ممکن ہو سکے۔"
نوجوانوں میں دل کے دورے کیوں بڑھ رہے ہیں؟
ماضی میں دل کے امراض بڑی عمر کے افراد سے منسلک سمجھے جاتے تھے، مگر آج صورتحال بدل چکی ہے۔ نوجوانوں میں دل کی بیماریوں کے بڑھنے کی کئی وجوہات سامنے آ رہی ہیں۔
سب سے پہلی وجہ مسلسل ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی ہے، جو دل پر براہِ راست اثر ڈالتے ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ بیٹھے بیٹھے کام کرنے والا طرزِ زندگی ہے جس میں جسمانی سرگرمی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، فاسٹ فوڈ، چکنائی اور مٹھاس سے بھرپور غذا شریانوں کو بند کر دیتی ہے۔ تمباکو نوشی اور ویپنگ کا رجحان بھی خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ کئی نوجوان یا تو بالکل ورزش نہیں کرتے، یا پھر حد سے زیادہ کرتے ہیں، جو کہ دونوں صورتوں میں دل کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
دل کی بیماری سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
اگرچہ یہ مسائل خطرناک ہیں، لیکن احتیاط سے ان سے بچا جا سکتا ہے۔ روزانہ کم از کم تیس منٹ کی چہل قدمی یا ہلکی پھلکی ورزش بہت ضروری ہے۔ غذا میں چکنائی اور نمک کی مقدار محدود رکھنی چاہیے۔ تمباکو نوشی اور نشہ آور چیزوں سے مکمل پرہیز کرنا بھی دل کی حفاظت کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ نیند پوری کرنا، ذہنی دباؤ کو سنبھالنا، اور سال میں ایک بار چیک اپ کروانا زندگی کا معمول ہونا چاہیے۔
سی پی آر کی تربیت: ہر اسکول اور ادارے میں ضروری
اس واقعے کے بعد ایک اہم سوال اُبھر کر سامنے آیا ہے: کیا ہمارے تعلیمی ادارے ہنگامی طبی تربیت فراہم کرتے ہیں؟ ڈاکٹر زبیر کی بات بالکل درست ہے کہ اگر بروقت CPR دیا جاتا تو شاید استاد نیاز احمد کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ ہر اسکول، کالج اور دفتر میں CPR اور فرسٹ ایڈ کی تربیت دی جانی چاہیے تاکہ کسی ہنگامی حالت میں فوری اور درست اقدام کیا جا سکے۔
استاد نیاز احمد کا اچانک انتقال صرف ایک فرد کا ذاتی نقصان نہیں بلکہ ایک اجتماعی تنبیہ ہے۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں صحت کے پہلو کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ نوجوانوں کو جسمانی، ذہنی اور طبی احتیاطی تدابیر سکھانا، اور اداروں کو بنیادی طبی تربیت دینا آج کی ضرورت ہے۔ صرف چند لمحوں کی تربیت کسی کی قیمتی جان بچا سکتی ہے اور یہی سب سے بڑی انسانیت ہے۔