
Getty Imagesخودساختہ مذہبی پیشوا مبینہ طور پر اپنے پیروکاروں کے فون میں سپائی ایپ انسٹال کرتے تھےانڈیا کی ریاست مہاراشٹرا میں پولیس نے ایک خود ساختہ مذہبی پیشوا کو اپنے پیروکاروں کو مبینہ طور پر بلیک میلنگ کے ذریعے قابلِ اعتراض سرگرمیاں کروانے پر گرفتار کر لیا ہے۔پولیس کے مطابق یہ مذہبی پیشوا اپنے پیروکاروں کے موبائل فونز پر ایک ایپ ڈاؤن لوڈ کرتے تھے جس کے ذریعے وہ اُن کے نجی لمحات کو دیکھتے اور ریکارڈ کرتے تھے۔پولیس کے مطابق پیروکاروں کی ریکارڈ کی گئی ویڈیوز کے ذریعے مبینہ طور پر خود ساختہ مذہبی پیشوا انھیں قابلِ اعتراض حرکات کرنے پر مجبور کرتے تھے۔ وہ اپنے پیروکاروں کی موت کی تاریخ کی پیشگوئی کر کے ان میں خوف کا بیج بوتے اور پھر موت کی تاریخ کو آگے کرنے کے لیے انھیں مختلف اقدامات بشمول نازیبا حرکات کرنے پر مجبور کرتے تھے۔اس 29 سالہ خودساختہ مذہبی پیشوا کا نام پرساد دادا عرف بابا ہے۔ ابتدائی طور پر اُن کے خلاف مہاراشٹرا میں ایک متاثرہ پیروکار کی جانب سے شکایت درج کروائی گئی تھی جس کے بعد انھیں گرفتار کیا گیا ہے۔اس سے قبل سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویڈیوز بھی وائرل ہوئی تھیں جن میں برساد دادا کو خواتین کو نہلاتے ہوئے، ان کے ساتھ رقص کرتے ہوئے اور بعض مواقع پر اُن کے نازک اعضا کو چھوتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ویڈیوز کی جانچ ہو رہی ہے۔ڈپٹی پولیس کمشنر باپو بانگر نے اس حوالے سے صحافیوں کو مزید تفصیلات دی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پرساد نے پونے کی ایک عمارت میں اپنا آشرم بنایا تھا، جہاں وہ اپنے مرد اور خواتین پیروکاروں کے ساتھ موجود ہوتے تھے۔‘Getty Imagesایک سابقہ پیروکار کی شکایت پر مذہبی پیشوا کو گرفتار کیا گیا ہےانھوں نے کہا کہ 'پرساد کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک روحانی گرو ہیں اور اس کے پاس روحانی طاقتیں ہیں۔ وقت کے ساتھ اُن کے پیروکاروں کی تعداد بڑھ گئی تھی۔‘پولیس نے اُن کے خلاف انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 318 اور 75 اور مہاراشٹرا ہیومن سیکرافائس اینڈ ادر انہیومن ایکٹ اور انڈین ٹیکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 67 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔پرساد کے خلاف الزامات منظرِ عام پر آنے کے بعد بہت سے حقوق کی تنظیموں نے بھی غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔’معجزانہ صلاحیتوں کے حامل‘ یا ’بھونڈی چالوں‘ کے ماہر، شہ سرخیوں میں آنے والے انڈین گرو’معجزوں‘ سے مریضوں کو صحتیاب کرنے والا پادری جو دنیا بھر سے آئی خواتین کا ہفتے میں کئی بار ریپ کرتاخواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن سنگیتا تیواری نے کہا کہ 'آسا رام اور رام رحیم بابا جیسے خود ساختہ مذہبی پیشواؤں کی چونکا دینے والی حرکات منظرِ عام پر آنے کے بعد باوجود بھی خواتین ایسے مذہبی گروہوں کا شکار کیوں بن رہی ہیں۔‘انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ پولیس پرساد کے خلاف سخت کارروائی کرے گی اور انھیں سخت سزا دی جائے گی۔Getty Imagesپولیس کا کہنا ہے کہ مذہبی پیشوا مبینہ طور پر اپنے پیروکاروں کو نازیبا حرکات پر مجبور کرتے تاکہ اُن کی موت ٹل سکےخودساختہ مذہبی پیشوا پیروکاروں کے موبائل کیسے کنٹرول کرتے تھے؟انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مذہبی پیشوا اپنے پیروکاروں کو آنکھیں بند کر کے کچھ علوم زیر لب دہرانے کا کہتے اور اس دوران سپائی ایپ ان کے فون میں انسٹال کر دیتے۔ پولیس کے مطابق اس سپائی ایپ کی مدد سے وہ پیروکاروں کے فون کا کیمرا بھی کنٹرول کر پاتے تھے۔اس متعلق آگاہی اس وقت ملی جب ایک پیروکار کے دوست نے انھیں آگاہ کیا کہ ان کے موبائل فون میں سپائی ایپ انسٹال کی گئی ہے۔ اس کی تصدیق کے بعد پیروکار نے پولیس کو اس کی اطلاع کی۔پولیس کا کہنا ہے کہ اس وقت تک چار افراد (سابقہ پیروکار) نے پولیس سے خودساختہ مذہبی پیشوا کے خلاف رابطہ کیا ہے۔سائبر سکیورٹی ایکسپرٹ روہن نیائدھیش نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کیس میں ایسی ایپ کا استعمال کیا گیا تھا جسے امریکہ اور مغربی ممالک میں والدین اپنے کم عمر بچوں کی آن لائن نگرانی کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن انڈیا میں اس کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس ایپ کے استعمال سے صارف کی بہت سی حرکات پر نظر رکھی جا سکتی ہے اور انھیں ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔‘'آج کل زیاد تر لوگ موبائل استعمال کرتے ہیں اس لیے دن میں کئی کئی گھنٹے موبائل ہمارے ہاتھ میں یا ہمارے آس پاس رہتا ہے۔ موبائل میں ایسا سافٹ ویئر انسٹال کیا جاتا ہے جس سے صارف کی نگرانی کی جاتی ہے یا ان کی ذاتی معلومات اکھٹی کی جاتی ہے۔‘اس سافٹ ویئر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر ایسی ایپ پیسے دے کر خریدی جائے تو اس کا لوگو باقی ایپس کی طرح موبائل سکرین پر ظاہر نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ صارف کو اندازہ نہیں ہو پاتا کہ ان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔اپنے موبائل فون کو کیسے محفوظ بنایا جائے؟ماہرِ آئی ٹی روہن کہتے ہیں کہ ایسی ایپس کو موبائل فونز میں دو طرح سے انسٹال کیا جاتا ہے، پہلا طریقہ یہ کہ فراڈ کرنے والا شخص کسی کا موبائل اپنے ہاتھ میں لے کر متاثرہ افراد کے موبائل فونز میں یہ ایپ انسٹال کر دیتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ موبائل فون میں ایسی ایپس پین ڈرائیوز کے ذریعے بھی انسٹال کی جاتی ہیں لیکن پونے والے مقدمے کی تفصیلات سن کر لگتا ہے کہ موبائل فونز میں ایپس انسٹال کرنے کے لیے پہلے طریقے کا استعمال کیا گیا ہے۔ایسے سافٹ ویئر سے بچنے کا طریقہ بتاتے ہوئے روہن کہتے ہیں کہ ’اس طرح کے سافٹ ویئر یا ایپس سے خود کو بچانے کے لیے اپنے موبائل فون پر اینٹی وائرس انسٹال کرنا ضروری ہے۔ جس طرح ہم اپنے لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر پر اینٹی وائرس انسٹال کرتے ہیں اسی طرح ہمیں اپنے موبائل فون پر بھی کرنا چاہیے۔‘’معجزانہ صلاحیتوں کے حامل‘ یا ’بھونڈی چالوں‘ کے ماہر، شہ سرخیوں میں آنے والے انڈین گروبدنام مذہبی رہنما مریضوں کو شفایاب کرنے کے جعلی معجزے کیسے دکھاتا تھا؟ ’کاش ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ سب ایک تماشا تھا‘’معجزوں‘ سے مریضوں کو صحتیاب کرنے والا پادری جو دنیا بھر سے آئی خواتین کا ہفتے میں کئی بار ریپ کرتا’روحانی پیروں‘ کا مسائل کے حل اور جِن نکالنے کے نام پر خواتین کا ریپ اور جنسی استحصال کرنے کا انکشاففرانس کے کیتھولک چرچ کے پادریوں نے دو لاکھ سولہ ہزار بچوں سے جنسی زیادتی کی، رپورٹ