
وفاقی دارالحکومت میں حال ہی میں نصب کی گئی ایک غیر روایتی یادگار نے اپنے مختصر وجود میں جس قدر عوامی توجہ، حیرانی اور تنقید سمیٹی، شاید ہی کسی اور سرکاری مجسمے کے حصے میں آئی ہو۔ اسلام آباد کی مارگلہ ایونیو چورنگی پر نصب کی گئی اس یادگار کو اب مشینوں کے ذریعے زمین بوس کیا جا رہا ہے، مگر اس کی باقیات سے زیادہ وہ سوالات باقی رہ گئے ہیں جو اس کے قیام اور اچانک خاتمے سے جنم لے چکے ہیں۔
یادگار کا ڈیزائن غیر مانوس تھا. دو سنہری رنگ کے انسانی ہاتھ، جن کی ہتھیلیوں پر ایک سفید گیند رکھی گئی تھی۔ اس منظر کو دیکھ کر سوشل میڈیا پر حیرت سے زیادہ طنز کی لہر دوڑ گئی۔ کچھ نے اسے بے مقصد فن پارہ قرار دیا، تو کچھ نے اس کے پیچھے چھپے نظریے کو سمجھنے کی کوشش کی — جو وضاحت کبھی سامنے آئی ہی نہیں۔
Key to success monument Islamabad If you know you know 😉 #SlabSystemNahiChalega pic.twitter.com/zNscF3Bwc4— Out of Context World (@OutofcontextW_x) July 14, 2025
انتظامیہ نے ابتدائی ردعمل کے بعد یادگار کو پردوں سے ڈھانپ کر وقتی طور پر نظر سے اوجھل کرنے کی کوشش کی، لیکن سوشل میڈیا کے دباؤ کے سامنے یہ ہتھکنڈہ بھی دیرپا ثابت نہ ہوا۔ چند ہی دنوں بعد، بغیر کسی باضابطہ اعلان کے، اسے ختم کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا۔ جگہ کو عام افراد کی رسائی سے روک دیا گیا اور مشینری لگا دی گئی, جیسے کوئی شرمندگی چھپائی جا رہی ہو۔
A monument is being installed on Margalla Avenue in Islamabad.Finally a statue that perfectly captures the path to success in Pakistan.It should be called "Uthao" pic.twitter.com/uLBofstwQu— Pakistan Viral Series (@Pakviralseries_) July 14, 2025
شہری اس تمام عمل پر حیران ہیں۔ نہ اس یادگار کے قیام سے قبل کوئی عوامی مشاورت ہوئی، نہ اس کی علامتی حیثیت یا مقصد پر روشنی ڈالی گئی، اور اب اس کی مسماری بھی خاموشی سے کی جا رہی ہے، جیسے یہ کبھی تھا ہی نہیں۔ یہ معاملہ صرف ایک ڈیزائن یا فن پارے کا نہیں، بلکہ اس سوچ، منصوبہ بندی اور پالیسی عمل کا ہے جو بغیر سمت اور جواز کے آگے بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔
The Capital Development Authority (CDA) removed a recently installed sculpture in Islamabad after it drew sharp criticism on social media for being ambiguous and suggestive. pic.twitter.com/wy7h1HoHJK— sahir nizamani (@nizamani_sahir) July 14, 2025
سوال اب یہ ہے کہ اگر یہ مجسمہ شروع سے ہی ناقابلِ قبول تھا تو اس پر سرکاری وسائل کیوں خرچ کیے گئے؟ اور اگر یہ کوئی غلط فہمی تھی تو جواب دہی کس سے طلب کی جائے گی؟ کیا عوام کو یہ حق نہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ ان کے ٹیکس سے بننے والی ایک یادگار کیوں صرف چند دن میں تاریخ بن گئی؟