اپنی بیٹی کو قتل کرنے والے ایک جوڑے کی الجھن، جھوٹ اور فریب سے بھرپور ڈرامائی زندگی کی کہانی


BBCبی بی سی نے کونسٹینس مارٹن اور مارک گورڈن کی زندگیوں اور ان کی پانچویں بیٹی وکٹوریا کی موت تک کے واقعات کی تحقیق کی ہےانتباہ: اس رپورٹ میں موجود تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کُن ہو سکتی ہیں5 جنوری 2023 کی شام پولیس کو ’ایم 61‘ موٹروے کے کنارے ایک جلی ہوئی گاڑی کی موجودگی کی اطلاع ملی۔ یہ گاڑی بولٹن نامی علاقے کے قریب کھڑی تھی۔ جب پولیس موقع پر پہنچی اور گاڑی کا جائزہ لیا تو اندر سے دو ہزار پاؤنڈ، 34 موبائل فونز اور ایک عورت کا پاسپورٹ ملا۔گاڑی کی پچھلی سیٹ پر تولیے میں لپٹا ہوا کچھ ایسا مواد بھی ملا، جس سے پتہ چلا کہ گاڑی میں کوئی نومولود بھی تھا۔مزید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ جس خاتون کا پاسپورٹ گاڑی سے ملا تھا اور اس کے پارٹنر سے حکام بخوبی واقف تھے۔ اُن کی تلاش کے لیے پورے ملک میں چھاپے مارے گئے اور جلد ہی یہ معاملہ خبروں کی شہ سرخیوں میں آ گیا۔لیکن اس کے بعد تقریباً دو ماہ تک یہ جوڑا گرفتاری سے بچنے کے لیے غیر معمولی کوششیں کرتا رہا۔ حالانکہ اُن کے پاس کافی پیسہ موجود تھا مگر پھر بھی وہ ایک سستے سے خیمے میں رہے اور دکانوں پر جا کر کھانا خریدنے کے بجائے کوڑے دانوں میں خوراک تلاش کرتے رہے۔آخر کار جب فروری 2023 کے آخر میں انھیں گرفتار کیا گیا تو اُن کی نومولود بیٹی اُن کے ساتھ نہیں تھی اور وہ پولیس کو یہ بتانے سے انکاری تھے کہ آخر بچی کہاں گئی۔اس جوڑے کے پہلے پیدا ہونے والے چار بچے ریاستی تحویل میں لے لیے گئے تھے۔چند ہی دن بعد پولیس کو ایک افسوسناک چیز کا پتا چلا۔ وہ یہ تھی کہ جس مقام سے جوڑے کو گرفتار کیا گیا تھا وہاں مٹی اور کچرے سے ڈھکی ایک نومولود بچی کی لاش ملی، جو گلابی چادر میں لپٹی ہوئی تھی۔BBCخاتون کا نام کونسٹینس مارٹن جبکہ اُن کے پارٹنر کا نام مارک گورڈن ہے۔بی بی سی نے کونسٹینس مارٹن اور مارک گورڈن کی زندگیوں اور ان کی پانچویں بیٹی وکٹوریا کی موت تک کے واقعات کی تحقیق کی ہے۔کونسٹینس مارٹن ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جن کے برطانیہ کے شاہی خاندان سے قریبی تعلقات تھے۔ انھوں نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ وہ بچپن میں شہزادہ ولیم اور ہیری کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں۔ جبکہ گورڈن ایک نرس کے بیٹے ہیں۔نوجوانی میں ان دونوں نے مختلف راستے اپنائے۔ اُن میں سے ایک (خاتون) نے نائجیریا کا رُخ کیا جہاں انھوں نے ایک خفیہ مذہبی گروہ میں شمولیت اختیار کی جبکہ دوسرے (گورڈن) کو فلوریڈا میں ریپ کے جرم میں جیل بھیج دیا گيا۔یہ کہانی کونسٹینس مارٹن اور مارک گورڈن کے ملنے، پھر انتشار کا شکار ہونے اور بالآخر ایک سانحے پر جا کر ختم ہوئی۔ اس کا آغاز دوسری عالمی جنگ کے کچھ عرصے بعد ہوتا ہے۔یہ نومبر 1949 کے اواخر کی بات ہے جب سینٹ جیمز پیلس میں ایک شاندار شادی کی تقریب ہوئی جس میں برطانیہ کے بادشاہ اور ملکہ نے بھی شرکت کی۔دلہن ملکہ کی ’گاڈ ڈاٹر‘ یعنی بیٹی جیسی تھیں، جو انتہائی گلیمرس تھیں اور انگلینڈ کی ایک خوبصورت کنٹری حویلی کرچل ہاؤس انھیں وراثت میں ملی تھی۔دس سال بعد ان کے ہاں ایک بیٹے نیپیئر کی پیدائش ہوئی۔ اسے ایٹن کالج میں تعلیم دی گئی اور وہ ملکہ الزبتھ دوم کے ’پیج آف آنر‘ بھی رہے۔ یہ اعزاز اشرافیہ کے نوجوان بیٹوں کو دیا جاتا ہے۔BBCنیپیئر نے سنہ 1986 میں ایک خاتون ورجینی کامو سے شادی کی اور بعد میں ان کے ہاں تین بچے ہوئے۔ مئی 1987 میں پیدا ہونے والی سب سے بڑی بیٹی کا نام کونسٹینس رکھا گیا اور جلد ہی تقریباً سب لوگ انھیں ’ٹوٹس‘ کے نام سے جاننے لگے۔دوسری جانب مارک گورڈن کی والدہ سلویہ ان افراد میں شامل تھیں جو ’ونڈرش جنریشن‘ کے تحت برطانیہ آئی تھیں۔ انھوں نے جمیکا سے تعلق رکھنے والے لیوکِل سیچل سے شادی کی، جن سے ان کے چار بچے ہوئے لیکن جب گورڈن ان کے پیٹ میں تھا تو ان کی شادی ختم ہو چکی تھی۔ گورڈن سنہ 1974 میں پیدا ہوئے۔گورڈن کی بہن کارن سیچل نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا چھوٹا بھائی ایک شرمیلا بچہ تھا لیکن بعض اوقات تھوڑی شرارتیں بھی کیا کرتا تھا۔انھوں نے کہا کہ ’میں نے کبھی اسے کسی سے لڑتے نہیں دیکھا۔ بالکل بھی نہیں۔ کبھی نہیں۔‘جب گورڈن کم عمر تھے تو ان کی والدہ سلویہ نے نرس کی نوکری چھوڑ دی اور امریکہ چلی گئیں، جہاں وہ بالآخر فلوریڈا میں مقیم ہو گئیں۔ یہیں میامی شہر کے قریب رہتے ہوئے 14 سال کی عمر میں گورڈن نے ایک سنگین جرم کیا۔امریکی عدالت کے کاغذات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپریل 1989 کی ایک صبح گورڈن نے اپنی 30 سالہ پڑوسی کے گھر میں گھس کر حملہ کیا۔ ان کے پاس ایک قینچی اور کچن میں استعمال ہونے والی ایک چھری تھی۔حملے کے وقت گورڈن کالے کپڑوں میں ملبوس تھے اور انھوں نے اپنے ماسک پہنا ہوا تھا۔ عدالت میں بتایا گیا کہ اس نے خاتون کو دھمکایا کہ اگر اس نے شور مچانے کی کوشش کی تو وہ اُن کے بیٹے اور بیٹی کو قتل کر دے گا، جو ساتھ والے کمرے میں سو رہے تھے۔ اگلے ساڑھے چار گھنٹے تک گورڈن چاقو کی نوک پر اس عورت کا ریپ کرتا رہا۔BBCگورڈن کی پولیس کی حراست میں لی گئی تصویر اور وہ گھر جہاں انھوں نے پڑوسی خاتون کا ریپ کیاسزا سنانے کے موقع پر متاثرہ خاتون نے عدالت کو بتایا کہ ’مجھے کہا گیا کہ اپنے بچوں کو الوداع کہہ دو کیونکہ آج تم مرنے والی ہو۔‘واقعے کے کچھ دن بعد محلے میں گشت کرنے والے ایک پولیس اہلکار کو گورڈن کے گھر کے باہر ایک نائلون کی جراب ملی، جس میں آنکھ اور ناک کی جگہ پر سوراخ بنے ہوئے تھے۔ یہ وہی جراب تھی جو انھوں نے حملے کے وقت پہن رکھی تھی اور اسی کی بنیاد پر انھیں حراست میں لے کر تفتیش کی گئی۔ابتدا میں گورڈن نے جرم قبول کر لیا تھا لیکن پھر بعد میں وہ اپنے بیان سے مکر گئے اور مقدمہ چلتا رہا۔سنہ 1990 میں جب انھیں سزا سنائی جا رہی تھی تو متاثرہ عورت نے جج سے درخواست کی کہ وہ گورڈن کو سخت سزا دے۔ اس وقت گورڈن کی عمر 15 سال تھی۔متاثرہ خاتون نے کہا کہ ’میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ یہ یقینی بنائیں کہ یہ شخص مزید کسی کی زندگی تباہ نہ کر سکے۔ اس پر رحم نہ کریں۔‘مارک گورڈن کو 40 سال قید کی سزا سنائی گئی۔جب گورڈن فلوریڈا کی جیل میں تھے تو ان سے عمر میں 13 سال چھوٹی مارٹن انگلینڈ کی کاؤنٹی ڈورسٹ میں بڑی ہو رہی تھیں۔وہ سینٹ میری کے ایک لڑکیوں کے سکول میں زیرِ تعلیم تھیں، جہاں انھیں ایک قدرے باغی طالبہ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ وہ تقریباً سات سال کی تھیں، جب ان کے والدین میں علیحدگی ہو گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ اُن کے والد روحانیت کی تلاش کے سفر پر آسٹریلیا چلے گئے جبکہ ان کی والدہ چوتھے بچے کے ساتھ حاملہ تھیں۔ بعد میں انھوں نے دوسری شادی کر لی۔BBCٹی بی جوشوا نائجیریا اور پوری دنیا میں ایک بااثر شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھےبی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ سنہ 2006 میں سکول ختم کرنے کے بعد مارٹن اور اُن کی والدہ نائیجیریا گئیں تاکہ لاگوس میں واقع سیناگوگ چرچ آف آل نیشنز (سکوان) کا دورہ کر سکیں۔مارٹن کی والدہ اب ’ورجینی دے سیلیئرز‘ کے نام سے جانی جانے لگی تھیں۔ وہ برطانیہ واپس آ گئیں جبکہ ان کی بیٹی وہیں رک گئیں تاکہ اسی چرچ میں ’شاگرد‘ بن سکیں۔بی بی سی افریقہ آئی کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ٹی بی جوشوا کی قیادت میں سکوان میں وسیع پیمانے پر بدسلوکی اور تشدد کے واقعات ہوئے۔ خود ٹی بی جوشوا پر ریپ اور زبردستی اسقاطِ حمل جیسے الزامات لگے اور یہ سب ان کے دور میں تقریباً بیس برس تک ہوتے رہے۔ 2021 میں جوشوا کی موت ہو گئی۔سکوان کے کئی سابق شاگردوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں جوشوا نے، جنھیں وہ ’ڈیڈی‘ کہتے تھے، جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تاہم بی بی سی کو اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ مارٹن، جو اُس وقت 19 سال کی تھیں، کے ساتھ وہاں کیا سلوک ہوا۔سکوان میں قیام کے دوران مارٹن کی دوستی وہاں کی ایک شاگرد اینجی سے ہوئی جنھوں نے بعد میں چرچ چھوڑ دیا۔اینجی نے مارٹن کو ایک ’ذہین، حاضر جواب، ہمدرد، خوش مزاج، مہربان اور بہت خودمختار‘ لڑکی کے طور پر یاد کیا۔اینجی کے مطابق تمام طالبات، جن میں مارٹن بھی شامل تھیں، ایک ہی بڑے کمرے میں رہتی تھیں۔ انھیں پبلک میٹنگز میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے پر مجبور کیا جاتا، اکثر بھوکا رکھا جاتا اور سونے نہیں دیا جاتا۔اینجی نے بتایا کہ ’یہ سمجھانا بہت مشکل ہے کہ وہ جگہ کتنی خوفناک تھی۔‘ جوشوا کی قیادت میں اس چرچ میں دس سال گزارنے والی اینجی کے مطابق ’وہ جگہ جسمانی، ذہنی، روحانی اور جنسی تشدد کا مرکز تھی۔‘بی بی سی نے ورجینی دے سیلیئرز سے اس بارے میں رابطہ کیا لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔چار مہینے بعد مارٹن کو سکوان سے نکال دیا گیا اور وہ واپس برطانیہ پہنچ گئیں، جہاں انھوں نے لیڈز یونیورسٹی میں ’عریبک اینڈ مڈل ایسٹرن سٹڈیز‘ کے کورس میں داخلہ لیا اور ایک سال قاہرہ میں بھی گزارا۔سارہ شریف: ایک ’ہنس مکھ بچی‘ کی مختصر زندگی کی کہانی جو والدین کے تشدد کی نذر ہو گئی’تم اور کتنا نیچے گرو گے‘: سارہ شریف قتل کیس کا وہ ڈرامائی لمحہ جس نے مقدمے کا رخ موڑ دیاوالدین کو بے دردی سے قتل کرنے والی بیٹی جو برسوں تک لاشوں کے ساتھ اِسی گھر میں رہیمیانوالی: اپنی سات دن کی بیٹی کو گولیاں مار کر قتل کرنے والا باپ گرفتارطالب علمی کے دوران ہی مارٹن کو ٹیٹلر میگزین نے ’مہینے کی حسین دوشیزہ‘ یا ’بیب آف دی منتھ‘ کے طور پر پیش کیا۔ جنوری 2009 کے شمارے میں شائع ایک مضمون میں انھوں نے وسکاؤنٹ کی جانب سے دی گئی ایک تقریب کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’قدیم یونان کی فحاشی سے بھری دعوت‘ جیسی تھی اور مزید یہ کہ وہ ایک کچھوے کا ٹیٹو بنوانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔لاگوس چھوڑنے کے چھ سال بعد مارٹن کا فیس بک پر اپنی پرانی دوست اینجی سے رابطہ ہوا۔ بی بی سی کو موصول ہونے والے پیغامات میں وہ ٹی بی جوشوا کے چرچ میں گزارے وقت کے بارے میں بات کرتی تھیں۔اکتوبر 2012 کے ایک میسج میں انھوں نے لکھا کہ ’سکوان میں جو کچھ ہوا، میں نے اس بارے میں کسی سے بات نہیں کی۔‘ وہ کبھی یہ ماننا نہیں چاہتی تھیں کہ سکوان ایک فرقہ تھا۔وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’مجھے معمول پر آنے میں کئی سال لگ گئے۔‘سکوان نے بی بی سی افریقہ آئی کی تحقیق میں لگائے گئے الزامات پر کوئی ردِعمل نہیں دیا لیکن اس کا کہنا ہے کہ پہلے بھی اس طرح کے الزامات بے بنیاد ثابت ہوئے اور یہ کہ ’ٹی بی جوشوا پر بے بنیاد الزامات لگانا کوئی نئی بات نہیں۔۔۔ ان پر لگائے گئے الزامات میں سے کوئی بھی ثابت نہیں ہوا۔‘یونیورسٹی کی تعلیم کے بعد مارٹن الجزیرہ نیوز چینل میں محقق کے طور پر کام کرنے لگیں اور ٹی بی جوشوا پر ایک ڈاکیومنٹری بنانے کی کوشش کی لیکن سنہ 2015 تک انھوں نے صحافت چھوڑ دی تھی اور اداکارہ بننے کی تربیت لینے لگیں۔BBCمارٹن نے ڈرامہ سکول میں دوستوں کو بتایا تھا کہ ان کے والدین سے ان کا تعلق منقطع ہےآدے اوشینائے نے ایسٹ 15 ایکٹنگ سکول میں ان کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ آدے کہتے ہیں کہ ’وہ (مارٹن) ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو ہجوم میں بھی نمایاں نظر آتی ہیں۔ ان کی شخصیت بہت جاذب نظر ہے۔‘اُس وقت مارٹن کی ایک اور دوست ایس ایچ این او (SHNO) تھیں، جو اب ایک اداکارہ اور گلوکارہ ہیں۔ایس ایچ این او کہتی ہیں کہ ’وہ بہت کول انسان تھیں۔ وہ بہت خاص تھیں اور ہمیشہ دوسروں میں اچھائی دیکھتی تھیں۔‘مارٹن نے ڈرامہ سکول میں دوستوں کو بتایا تھا کہ ان کے والدین سے ان کا تعلق منقطع ہے لیکن اپنے ایک بھائی کے ساتھ ان کی اچھی دوستی تھی۔ ایس ايچ این او کو یاد ہے کہ مارٹن نے انھیں بچپن کی کچھ باتیں بتائی تھیں جن سے ان کے مراعات یافتہ پس منظر کا اندازہ ہوتا تھا۔’انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ پرنس ہیری اور پرنس ولیم کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں اور انھوں نے یہ باتیں ایسے کہی جیسے یہ کوئی عام سی بات ہو۔‘آدے اور ایس ایچ این او دونوں کا خیال تھا کہ مارٹن ایک کامیاب اداکارہ بننے والی ہیں۔آبے نے کہا کہ ’وہ بہت باصلاحیت تھیں۔ مجھے لگتا تھا کہ وہ سیدھی ڈاؤنٹن ایبی جیسے کسی ڈرامے میں چلی جائیں گی کیونکہ ان میں وہ جاذبیت، وہ شخصیت اور آواز تھی۔‘لیکن پھر سنہ 2016 کے آغاز میں مارٹن غائب ہو گئیں۔ ان کا کلاسز میں آنا بند ہو گیا۔ انھوں نے فون کا جواب دینا بند کر دیا اور سوشل میڈیا پر بھی ان سے رابطہ ممکن نہ رہا۔آدے کہتے ہیں کہ ’یہ ایک ایسی شخصیت کے لیے بہت بڑا بدلاؤ تھا جو بہت زیادہ سوشل تھی، وہ اچانک بالکل غائب ہو گئیں۔‘’وہ بغیر کوئی نشان چھوڑے چلی گئیں۔‘دوسری طرف گورڈن کو 2010 کے اوائل میں 20 سال قید کاٹنے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ انھیں برطانیہ واپس بھیج دیا گیا، جہاں انھیں جنسی جرائم کرنے والوں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔ان کی بہن کیرن سیچل کہتی ہیں کہ گورڈن نے کبھی بھی جیل میں گزارے وقت کے بارے میں کُھل کر بات نہیں کی۔’آج تک انھوں نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔ یہ ان کا اس صدمے سے نمٹنے کا طریقہ تھا۔ انھوں نے جو کچھ جیل میں جھیلا، وہ سب اپنے اندر ہی رکھ لیا۔‘مارٹن کا کہنا ہے کہ گورڈن سے ان کی پہلی ملاقات لندن کے شمالی علاقے ٹوٹنہم کی ایک دکان میں ہوئی تھی۔ ان کا کہنا کہ ان کے خاندان والے ان کے تعلق کے بارے میں فکرمند تھے لیکن پھر سنہ 2017 میں مارٹن اور گورڈن کو جنوبی امریکی ممالک میں ایک ساتھ گھومتے پھرتے دیکھا گيا اور جب وہ واپس برطانیہ آئے تو مارٹن جو اب 30 سال کی عمر میں تھیں، اپنے پہلے بچے کے ساتھ حاملہ تھیں۔بچے کی پیدائش سے پہلے ہی وہ اس کے بارے میں تشویش کا شکار تھے۔BBCمارٹن نے حمل کے چھٹے مہینے تک کسی قسم کے طبی معائنے نہیں کروائے اور انھوں نے دائیوں کو بتایا کہ وہ ایک وین (گاڑی) میں رہتی ہیں۔ جب انھوں نے آنا چھوڑ دیا تو پریشان طبی عملے نے ملک بھر میں ایک الرٹ جاری کر دیا اور دوسرے ہسپتالوں سے درخواست کی گئی کہ وہ مارٹن اور گورڈن پر نظر رکھیں مگر وہ دونوں پہلے ہی لندن چھوڑ چکے تھے۔بعد میں مارٹن نے کہا کہ وہ ویلز چلی گئی تھیں تاکہ اپنے خاندان سے دور رہیں کیونکہ ان کے مطابق ان کے خاندان نے پرائیویٹ جاسوسوں کو ان کا پیچھا کرنے کے لیے رکھا ہوا تھا کیونکہ وہ گورڈن کو ناپسند کرتے تھے۔جیسے جیسے مارٹن کے ہاں بچے کی ولادت قریب آ رہی تھی، وہ اور گورڈن ویلز کے علاقے کارمارتھن کے ایک سپر مارکیٹ کی پارکنگ کے قریب ایک خیمے میں رہ رہے تھے۔جب مارٹن کو دردِ زہ شروع ہوا اور وہ ہسپتال پہنچیں تو ان کے رویے میں انجانے خوف کے آثار نظر آنے لگے۔ انھوں نے عملے کو اپنا جھوٹا نام بتایا اور جعلی آئرش لہجے میں بات کی اور انھیں بتایا کہ وہ خانہ بدوشوں کے کسی گروہ سے تعلق رکھتی ہیں۔مگر عملہ مطمئن نہ ہو سکا اور لندن سے جاری کردہ قومی الرٹ کو یاد کرتے ہوئے پولیس کو اطلاع دے دی۔پولیس کے پہنچنے پر مزاحمت ہوئی اور افسروں کو زچگی وارڈ میں موجود دوسرے والدین کی مدد سے گورڈن کو قابو کرنے کے لیے سی ایس سپرے استعمال کرنا پڑا۔ گورڈن کو گرفتار کر لیا گیا اور بعد میں دو خاتون پولیس افسران پر حملے کے جرم میں 20 ہفتے قید کی سزا سنائی گئی، جس کے باعث وہ اپنے نوزائیدہ بچے کی زندگی کے ابتدائی ہفتے ساتھ نہ گزار سکے۔جب گورڈن جیل میں تھے تو مارٹن کو ماں اور بچوں کے لیے مخصوص ایک نگہداشت مرکز میں رکھا گيا۔ یہ مرکز ایسے افراد کے لیے ہوتا ہے جنھیں اضافی مدد کی ضرورت ہو مگر جلد ہی اس بات پر سوالات اٹھنے لگے کہ کیا مارٹن اپنے بچے صحیح معنوں میں دیکھ بھال کر سکتی ہیں۔سماجی کارکنوں نے ان کے کمرے میں شراب کی بوتلیں دیکھیں اور مارٹن کو متنبہ کیا کہ بچے کو سینے پر لے کر سوتے رہنے سے خطرہ ہو سکتا ہے۔ چھ ماہ کے اندر نگرانی کا حکم جاری کیا گیا، جس سے سماجی خدمات کے شعبے کو بچے پر نگاہ رکھنے کا اختیار مل گیا۔یہ فیملی کورٹ کے نظام کے تحت ایک طویل سفر کی ابتدا تھی۔BBCمارٹن نے حمل کے چھٹے مہینے تک کسی قسم کا طبی معائنہ نہیں کروایابی بی سی کو حاصل ہونے والے عدالتی فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس جوڑے کے سوشل سروسز کے ساتھ تجربات کافی پیچیدہ تھے۔یہ بھی سامنے آیا کہ مارٹن اور گورڈن اکثر وکلا کی مدد لینے کے بجائے خود اپنا مقدمہ لڑتے، جھوٹ بولتے، بعض اوقات سماعتوں پر نہیں آتے اور بظاہر جان بوجھ کر گواہی دینے سے گریز کرتے۔سنہ 2018 کے آخر تک یہ جوڑا دوبارہ لندن واپس آ چکا تھا۔ وہ مختلف جگہوں پر رہے اور مالک مکانوں کے مطابق کئی بار کرایہ دیے بغیر ہی چلے گئے۔پڑوسیوں کے مطابق مارٹن اور گورڈن کے پاس کوئی کام نہیں تھا، وہ بہت کم باہر نکلتے اور کبھی کبھار ان کے درمیان شدید جھگڑے بھی ہوتے۔جب ان کے دوسرے بچے کی پیدائش ہوئی تو سوشل ورک والے دوبارہ اس معاملے میں شامل ہو گئے۔مگر فیملی کورٹ کے جج کو اس وقت خاص طور پر تشویش ہوئی جب مارٹن، اپنے تیسرے بچے کے حمل کے چودہویں ہفتے میں پہلی منزل کی کھڑکی سے گر گئیں۔ جب ایمبولینس پہنچی تو گورڈن نے ابتدا میں عملے کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی، جس پر پولیس کو بلایا گیا۔مارٹن نے آٹھ دن ہسپتال میں گزارے لیکن ان کے پیٹ میں موجود بچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔جب وہ ہسپتال سے باہر آئیں تو اپنے دو بچوں کو لے کر آئرلینڈ فرار ہو گئیں لیکن جیسے ہی وہ واپس آئیں بچے حفاظتی تحویل میں لے لیے گئے۔ مارٹن اور گورڈن کو وہ بچے کبھی واپس نہیں ملے۔مارٹن نے پولیس کو بتایا کہ وہ ٹی وی اینٹینا ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ کھڑکی سے گر گئیں لیکن بعد میں ایک جج نے فیصلہ دیا کہ مارٹن کے گرنے کی ’ممکنہ وجہ‘ گورڈن تھے۔فروری 2021 میں فیملی کورٹ کے جج نے لکھا کہ یہ دونوں ’اپنے رشتے کو تمام دوسرے معاملات پر فوقیت دیتے ہیں‘ اور ’مدد کی ہر پیشکش کو دشمنی سمجھتے ہیں۔‘’ان والدین کا رویہ ایسا تاثر دیتا ہے جیسے یہ دو لوگ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں کسی خیالی دشمن کے خلاف متحد ہوں۔‘پڑوسیوں کو یاد ہے کہ جوڑے کے تیسرے بچے کی پیدائش سے پہلے کئی بار پولیس ان کے گھر آئی اور ان سے کہا گیا کہ ’اگر بچے کے رونے کی آواز سنیں تو ہمیں اطلاع دیں۔‘بچے کی پیدائش کے دو ہفتے بعد اسے بھی حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔مارٹن اور گورڈن کو اپنے بچوں سے ملاقات کی اجازت تھی، جب بچے پریشان ہوتے تو وہ ان کے ساتھ ڈانس کرتے اور ان کے لیے گاتے اور ان کے لیے تحفے تحائف لاتے۔ گورڈن نے ملاقات کے مرکز کے باغیچے میں خاندان کے ہر فرد کے لیے سیب کے بیج لگائے تھے۔لیکن پھر وہ ملاقات کے سیشن سے غائب رہنے لگے۔BBC ایک جج نے فیصلہ دیا کہ حاملہ مارٹن کے گرنے کی ’ممکنہ وجہ‘ گورڈن تھےانھوں نے بچوں کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا اور پھر آخر کار وہ بالکل ہی غائب ہو گئے۔مئی 2021 تک مارٹن اپنے چوتھے بچے کو جنم دے چکی تھیں لیکن ایک ہفتے بعد اس بچے کو بھی ان سے لے لیا گیا۔آٹھ ماہ بعد یعنی جنوری 2022 میں ایک فیملی کورٹ کے جج نے فیصلہ دیا کہ چاروں بچوں کو جن کی عمریں 10 سال سے کم ہیں، کو مستقل طور پر اس جوڑے سے لے لینا چاہیے۔اس موقع پر بچوں کی کسٹڈی لینے کے لیے مارٹن نے گورڈن سے علیحدہ ہونے کی پیشکش کی لیکن جج کو یقین نہیں آیا کہ وہ واقعی ایسا کریں گی۔اس کیس پر کام کرنے والی سینیئر کراؤن پراسیکیوٹر سمانتھا ییلند کہتی ہیں کہ ’جب انھیں اس بارے میں انتخاب کرنے کا موقع دیا گیا کہ بچوں کے لیے کیا ٹھیک ہے اور ان کے اپنے لیے کیا ٹھیک، تو انھوں نے اپنا انتخاب کیا۔‘’وہ ایک دوسرے کے ساتھ اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ وہ خود کو اپنے بچوں پر بھی ترجیح دیتے ہیں۔‘ستمبر 2022 میں مارٹن ایک بار پھر حاملہ تھیں۔ اس خدشے کے پیش نظر کہ ان سے ان کا بچہ لے لیا جائے گا، اس جوڑے نے جنوب مشرقی لندن میں اپنا گھر کرایہ ادا کیے بغیر چھوڑ دیا اور غائب ہونے کی تیاری کر لی۔ مارٹن پیسے جمع کر رہی تھیں اور اگلے چار ماہ تک وہ اور گورڈن مختلف ایئر بی این بیز میں رہتے رہے تاکہ ان کا سراغ نہ لگایا جا سکے۔انھوں نے اس حمل کو اس قدر احتیاط سے چھپایا کہ اگر جنوری 2023 میں موٹروے پر ان کی گاڑی میں آگ نہ بھڑک اٹھتی تو ان کے نئے بچے کا وجود راز ہی رہ جاتا۔مارٹن کے پاسپورٹ کے بغیر جو گاڑی میں رہ گیا تھا، یہ جوڑا ملک چھوڑنے کے قابل نہیں تھا۔ مارٹن اور گورڈن جنوب کی طرف روانہ ہوئے، آخر کار برائٹن کے قریب ساحل پر پہنچ گئے، جہاں وہ شدید سردی کے دوران ایک چھوٹے سے خیمے میں رہتے رہے۔جیسے جیسے ان کی تلاش جاری رہی، میڈیا کی کوریج بھی بڑھتی گئی اور پھر ایک سی سی ٹی وی فوٹیج میں مارٹن اور گورڈن کو ان کے بچے کے ساتھ دیکھا گیا۔وکٹوریا کو انتہائی سرد موسم میں ناکافی کپڑے پہنے ہوئے دیکھا گیا، بعض اوقات بغیر جرابوں، ٹوپی اور بغیر کمبل کے بھی دیکھا گیا۔ اس کے والدین نے ایک چھوٹی گاڑی خریدی جو ایک نومولود کے لیے نامناسب تھی، پھر اسے اسی دن پھینک دیا اور وکٹوریا کو مارٹن کی جیکٹ کے اندر چھپا لیا۔BBCیہ جوڑا اپنی بیٹی وکٹوریا کی لاش کو ایک بیگ میں ڈال کر پھرتا رہامارٹن کا کہنا ہے کہ وہ اپنی جیکٹ کے اندر وکٹوریا کو دودھ پلاتے ہوئے اپنے خیمے میں سو گئیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جب وہ جاگیں تو وکٹوریا ہل نہیں رہی تھیں۔ مارٹن نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ’وہ مکمل طور پر بے سدھ تھی اور اس کے ہونٹ نیلے ہو چکے تھے۔‘مارٹن کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اور گورڈن نے وکٹوریا کے منہ میں سانس دے کر اور اس کے سینے کو پمپ کر کے اسے واپس لانے کی کوشش کی۔‘گورڈن نے پولیس کو بتایا کہ ’یہ میری زندگی کی سب سے بری چیزوں میں سے ایک تھی۔‘یہ جوڑا وکٹوریا کی لاش کو ایک بیگ میں اٹھا کر پھرتا رہا اور یہاں تک کہ اسے برائٹن کے ساحل پر بھی لے کر گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اسے دفن کرنا چاہتے تھے لیکن اس فرار کے دوران انھوں نے اتنا کم کھایا تھا کہ ان میں اتنا گہرا گڑھا کھودنے کی طاقت نہیں تھی۔ مارٹن نے وکٹوریا کی لاش کو آگ لگانے کا بھی سوچا اور پیٹرول کی بوتل بھی خریدی تھی لیکن پھر ان کا ارادہ بدل گیا۔انھوں نے بعد میں عدالت کو بتایا کہ’مجھے نہیں لگتا کہ میں اس واقعے کو کبھی بھول سکوں گی۔‘54 دن بعد پولیس نے مارٹن اور گورڈن کو ڈھونڈ نکالا اور انھیں گرفتار کر لیا۔ وکٹوریا کی لاش اس کے دو دن بعد ملی۔ایک پیتھالوجسٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وکٹوریا کی موت کی وجہ کا تعین کرنا ممکن نہیں لیکن کہا کہ موت کی وجہ سردی یا ساتھ سونا ہو سکتا ہے۔38 سالہ کونسٹینس مارٹن اور 51 سالہ مارک گورڈن نے وکٹوریا کو نقصان پہنچانے اور ان کی موت کو چھپانے کے الزامات سے انکار کیا لیکن وہ سنگین لاپرواہی کی وجہ سے ہونے والے قتل عام کے مجرم پائے گئے۔ پہلے مقدمے کی سماعت میں انھیں بچوں پر ظلم، وکٹوریا کی پیدائش کو چھپانے اور انصاف کے راستے میں رکاوٹ بننے کے جرم میں سزا سنائی گئی۔مقدمے کی سماعت کے دوران اس جوڑے کے رویے نے حکام پر شک اور عدم اعتماد کا اظہار کیا اور ایسا لگتا تھا کہ وہ عدالت کا بہت کم احترام کرتے ہیں۔ ایک موقع پر جج نے ان پر الزام لگایا کہ وہ اس عمل کو ’سبوتاژ‘ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مارٹن نے تردید کی کہ ان کی بیٹی کو خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ ان کی جیکٹ کے اندر گرم رہی۔انھوں نے سوشل سروسز کو ’گھناؤنا‘ قرار دیا اور کہا کہ ان کے چار زندہ بچے ’ریاست نے چوری کر لیے ہیں۔‘انھوں نے عدالت کو اپنے بچپن کا ایک ’دردناک‘ واقعہ بھی بتایا جس میں ان کے خاندان کا ایک فرد شامل تھا۔ مارٹن نے کہا کہ چونکہ انھوں نے ’شدید بدسلوکی کے بارے میں بات کی تھی‘ تو ان کے خاندان نے انھیں واپس لانے کے لیے ان کے بچوں کو لے جانے کی کوشش کی۔انھوں نے عدالت کو کہا کہ ’آپ کو ایسے لوگوں کا سامنا ہے جو کبھی نہیں رکیں گے۔‘جیوری کو بتایا گیا کہ مارٹن کے خاندان نے تین مواقع پر ان کا پتہ لگانے کے تین پرائیویٹ تفتیش کاروں کی خدمات حاصل کیں۔BBCمارٹن نے تردید کی کہ ان کی بیٹی کو خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ ان کی جیکٹ کے اندر گرم رہیںگورڈن کے بیرسٹر نے مارٹن کو ’شیرنی‘ کے طور پر بیان کیا، جسے اپنے بچوں سے پیار تھا۔ مارٹن کے اپنے بیرسٹر نے کہا کہ وکٹوریا کی موت ایک ’المناک‘ حادثہ تھا۔گورڈن نے کہا کہ یہ پولیس کی غلطی تھی کہ ان کی بیٹی مر گئیں۔ پولیس کی جانب سے ان کی تلاش کی مہم نے انھیں ’مجبور‘ کر دیا تھا کہ وہ ایسے حالات میں ساؤتھ ڈاونس میں خیمے میں رہیں جو ’آئیڈیل نہیں تھے۔‘لیکن استغاثہ کے مطابق مارٹن کے منہ سے جھوٹ نکلتے رہے۔ انھوں نے کہا کہ مارٹن اور گورڈن ’خود غرض اور مغرور افراد‘ تھے اور ’اس زہریلے رشتے کے بیچ میں وہ بچہ پھنس گیا تھا جس کی واضح طور پر دیکھ بھال نہیں کی جا رہی تھی۔‘وکٹوریا ایسے والدین کی پانچویں اولاد تھی، جن سے پہلے ہی چار بچے چھینے جا چکے تھے۔یہ قطعی طور پر معلوم نہیں کہ وہ کب پیدا ہوئی تھیں یا ان کی موت کب ہوئی۔ انھوں نے کبھی کسی دائی یا ڈاکٹر کو نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی انھیں رہنے کے لیے ایک محفوظ گرم گھر دیا گیا تھا۔ ان کے والدین نے ایسے فیصلے کیے جن سے اس کی زندگی خطرے میں پڑ گئی اور بالآخر اس کی موت ہو گئی۔جیسا کہ استغاثہ نے عدالت میں کہا کہ وکٹوریا کو ’موقع ہی نہیں ملا۔‘والدین کو بے دردی سے قتل کرنے والی بیٹی جو برسوں تک لاشوں کے ساتھ اِسی گھر میں رہیگھر کا کام نہ کرنے پر اپنی دو برس کی بیٹی کو قتل کرنے والی ماں کو نو سال قید کی سزاسارہ شریف: ایک ’ہنس مکھ بچی‘ کی مختصر زندگی کی کہانی جو والدین کے تشدد کی نذر ہو گئیٹک ٹاک پر ’قابل اعتراض ویڈیوز‘ بنانے پر 14 سالہ لڑکی قتل: ’حرا نے ابو ابو کی آوازیں لگائیں‘’تم اور کتنا نیچے گرو گے‘: سارہ شریف قتل کیس کا وہ ڈرامائی لمحہ جس نے مقدمے کا رخ موڑ دیامیانوالی: اپنی سات دن کی بیٹی کو گولیاں مار کر قتل کرنے والا باپ گرفتار

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید عالمی خبریں

غزہ میں جنگ بندی کی کوششیں، صدر ٹرمپ آج قطر کے وزیراعظم سے ملیں گے

چار کروڑ 78 لاکھ ڈالر کی کرپشن، چین میں اعلیٰ عہدے دار کو سزائے موت سنا دی گئی

کینیڈا میں چھوٹا طیارہ ہائی جیک، فضائی حدود بند کر کے پروازیں کا رخ موڑ دیا گیا

پاکستان سے ایران، عراق اور شام جانے والوں کی ڈیجیٹل نگرانی کا فیصلہ: ’زائرین گروپ آرگنائزیشن بھی حج ٹور آپریٹرز کی طرح کام کرے گی‘

80 ہزار تصاویر، ویڈیوز اور ایک کروڑ ڈالر کی وصولی: بدھ مذہبی رہنماؤں سے سیکس کر کے پیسے بٹورنے والی خاتون گرفتار

دنیا کے’معمر ترین‘ میراتھن رنر فوجا سنگھ انڈیا میں گاڑی کی ٹکر سے ہلاک، ایک شخص زیرِ حراست

ایف بی آئی ایجنٹ کا مبینہ اغوا: پاکستان میں ایرانی سفیر رضا امیری کو انتہائی مطلوب افراد کی امریکی فہرست میں کیوں شامل کیا گیا؟

خفیہ پروگرام کے تحت ہزاروں افغان باشندوں کو برطانیہ میں آباد کیے جانے کا انکشاف

اپنی بیٹی کو قتل کرنے والے ایک جوڑے کی الجھن، جھوٹ اور فریب سے بھرپور ڈرامائی زندگی کی کہانی

ساس نے بال کاٹ دیے تاکہ بدصورت لگوں۔۔ بیٹی کو مارنے کے بعد خودکشی کرنے والی لڑکی کی آخری پوسٹ میں ہوشربا انکشافات

پیٹریاٹ میزائل سسٹم کیا ہے اور یہ روس کے خلاف یوکرین کی کس طرح مدد کرے گا؟

’سٹیکر کی بجائے ای ویزا‘: کون سے پاکستانی برطانیہ کی نئی سہولت سے مستفید ہو سکیں گے؟

دنیا کے’معمر ترین‘ میراتھن رنر فوجا سنگھ انڈیا میں ٹریفک حادثے میں ہلاک

عقيدہِ بيغن: ’دشمن ملک کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے‘ کی اسرائیلی پالیسی کیسے وجود میں آئی؟

طلاق کے بعد 40 کلو دودھ سے نہایا۔۔ اس شخص نے یہ عجیب و غریب حرکت کیوں کی؟ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی