
چین کے وزیراعظم لی چیانگ نے دنیا کے سب سے بڑے ہائیڈرو پاور ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے چینی نیوز ایجنسی ژنوا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ حکام کا کہنا ہے یہ ڈیم تبت کے مشرقی حصے میں واقع ہے اور اس پر 170 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔یہ منصوبہ اس پروگرام کا حصہ ہے جس کا مقصد قابل تجدید توانائی کی طرف بڑھنا اور کاربن کے اخراج کو کم کرنا ہے۔پانچ ہائیڈرو پاور سٹیشنز پر مشتمل یہ ڈیم دریائے یارلونگ زینگبو کے زیریں حصے پر بنے گا جس سے انڈیا اور بنگلہ دیش کے لاکھوں لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔ لی کیانگ نے ڈیم کو ’صدی کا سب سے بڑا منصوبہ ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ماحولیات کے تحفظ اور نقصانات کو روکنے کے لیے خصوصی زور دیا جانا چاہیے۔ حکام کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ منصوبے کے لیے تبت کے کتنے لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑے یا پھر اس کے ماحولیاتی نظام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔تبت میں ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کا ماحولیات یا نیچے کی طرف پانی کی فراہمی پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا۔ بھارت اور بنگلہ دیش نے اس کے باوجود ڈیم کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔تاہم چینی حکام یہ کہنا ہے کہ اس منصوبے سے تبت میں موحولیات یا نیچے کی طرف جانے والے پانی پر پر کچھ زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔تاہم اس کے باوجود انڈیا اور بنگلہ دیش منصوبے پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔تبت کے لیے بین الاقوامی طور پر مہم چلانے والے ادارے سمیت دیگر این جی اوز کا کہنا ہے کہ یہ ڈیم سطح مرتفع کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا اور نیچے کی طرف لاکھوں کی تعداد میں لاکھوں لوگوں کے ذرائع معاش کی راہ میں رکاوٹ ڈالے گا۔ڈیم کے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے اس سے سالانہ 300 ارب کلو واٹ بجلی پیدا ہو گی جس سے تبت اور چین کے دوسرے علاقوں میں بجلی کی طلب کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔پچھلے سال دسمبر میں اس پراجیکٹ کے اعلان کے موقع پر چینی حکام نے بتایا تھا کہ یہ منصوبہ کاربن کے اخراج میں کمی کے ہدف کو پورا کرنے، صنعتوں کے فروغ اور تبت میں نئی ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرے گا۔دریائے یارلونگ زینگبو کا ایک حصہ 50 کلومیٹر کے حصے میں 2000 میٹر کی بلندی سے گرتا ہے اور وہاں ہائیڈرو پاور کے لیے وسیع صلاحیت موجود ہے۔اس سے آگے دریا برہم پترا بن جاتا ہے اور جنوب کی طرف اروناچل پردیش اور آسام ریاستوں سے ہوتا ہوا آگے جا کر بنگلہ دیش میں شامل ہو جاتا ہے۔