
افریقی ملک موزمبیق کے ساحل کے قریب کئی ماہ سے ایل پی جی گیس کے کارگو سے لدے ’گیس فالکن‘ نامی کارگو جہاز کی منزل ویسے تو زمبابوے تھی تاہم اسے موزمبیق کے حکام کی جانب سے ساحلی شہر بیئرا کے قریب اپنی تحویل میں لے لیا گیا تھا۔اگرچہ موزمبیق کی عدالتوں نے گیس فالکن کو مالی بے ضابطگیوں کے الزامات پر روکنے کا حکم دیا تھا تاہم اس پر موجود پاکستانی اور انڈونیشیئن عملے نے اپنے اپنے ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ نہ صرف اس بحری جہاز سے اترنے میں بلکہ تنخواہیں دلانے میں بھی ان کی مدد کریں۔جہاز پر انڈونیشیئن عملے کے رکن آندری پیلندینو کا کہنا ہے کہ 'ہم محنت مزدوری اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے ملازمتیں کرتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں چھ ماہ سے تنخواہ نہیں گئیں۔ جہاز پر ایئر کنڈیشنر خراب ہے۔ انتہائی بُرے حالات میں، انتہائی گرمی کے دن گزارے ہیں۔ پہلے کم یا زیادہ خوراک تو مل جاتی تھی۔ مگر اب حالات بہت خراب ہوچکے ہیں۔'جہاز کے پاکستانی کپتان محمد اسلم کہتے ہیں کہ 'ہمارا حوصلہ جواب دے چکا ہے۔ اب ہمیں مدد چاہیے اور یہ مدد جلد چاہیے۔'پاکستانی میں بحری امور کی وزارت کے ترجمان کے مطابق پاکستان کے وفاقی وزیر برائے بحری امور محمد جنید انور چوہدری نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے موزمبیق میں پھنسے پاکستانیوں کی فوری مدد کی ہدایت کی ہے۔ ترجمان کی جانب سے 18 جولائی کو جاری بیان کے مطابق ڈی جی پورٹس اور شپنگ نے کپتان محمد اسلم سے رابطہ کیا ہے اور موزمبیق حکومت سے رابطہ کر کے ضروری کارروائی مکمل کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں پاکستانی وزارتِ خارجہ سے ضروری مدد لی جا رہی ہے۔ تاحال پاکستانی وزارتِ خارجہ نے بی بی سی کی جانب سے کیے گئے سوالات پر کوئی جواب نہیں دیا ہے اور موزمبیق میں پاکستانی سفارت خانہ بھی موجود نہیں ہے۔معاملہ آخر ہے کیا؟کیپٹن محمد اسلم کے مطابق بحری جہاز کو کینیا کے ساحلی شہر ممباسہ سے ایل پی جی گیس کے کارگو سے لوڈ کیا گیا تھا۔ 'ہماری کمپنی نے کینیا کی کسی کمپنی سے فیول حاصل کیا۔ اس فیول کی ادائیگی کے لیے وقت طے ہوا تھا۔ ہماری منزل زمبابوے تھی۔ ہمیں موزمبیق میں کچھ کارگو اتارنا تھا۔ موزمبیق کا ساحل بہت مصروف ہوتا ہے۔ وہاں پر ہمیں لنگر انداز ہونے میں ایک ماہ لگ گیا۔ اس دوران حالات تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہوئے۔'ان کا کہنا تھا کہ کینیا کی کمپنی اور اس کے علاوہ موزمبیق میں موجود ایک اور کمپنی نے موزمبیق کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا جس میں استدعا کی گئی کہ بحری جہاز کی کمپنی نے بروقت ادائگیاں نہیں کی، اس لیے گیس فالکن کو تحویل میں لے لیا جائے۔ عدالت نے اُن کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے جہاز کو تحویل میں لے لیا۔اس پر، کیپٹن محمد اسلم کے مطابق جہاز کے ساتھ ساتھ اس پر موجود عملے کے کاغذات بھی موزمبیق کی انتظامیہ نے اپنے قبضے میں لے لیے جبکہ میری ٹائم کے اہلکار چھ ماہ تک جہاز پر تعنیات رہے۔اس کے بعد عدالت سے فیصلہ آیا کہ کارگو کو اتار دیا جائے اور ممکنہ طور پر جہاز ران کمپنی اس کارگو کو فروخت کر کے تمام ادائیگیاں کرے گی۔ عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عملے کی تنخواہیں اور دیگر ادائیگیاں بھی حاصل ہونے والی رقم سے کی جائیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ کارگو کو کچھ مشکلات کے بعد اتار دیا گیا ہے مگر اب بھی مسائل باقی ہیں۔ 'اس سارے معاملے میں تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ جب کارگو فروخت ہوگا تو ہی ادائیگیاں ممکن ہوسکیں گی۔ اب وہ کمپنی کارگو فروخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس میں دوسرے مسائل کا سامنا ہے۔'کارگو جہاز پر پھنسے ہوئے عملے کو مشکلات کا سامنا: 'بجلی ہے نہ پانی'کیپٹن محمد اسملم کہتے ہیں کہ جہاز پر اس وقت 12 لوگوں کا عملہ ہے۔ 'یہ ایک جہاز پر کم از کم عملہ ہوتا ہے۔ اس میں ہم تین پاکستانی اور نو انڈونیشیئن ہیں۔ ہمارے کاغذات موزمبیق کی میری ٹائم کے قبضے میں ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جہاز پر کسی بھی حادثے سے بچنےکے لیے جہاز پر کم سے کم عملہ انتہائی لازمی ہے۔ اگر جہاز پر یہ عملہ جاتا ہے تو پھر ان کی جگہ پر جہاز ران کمپنی کو دوسرا عملہ بھیجنا ہوگا اور کمپنی دوسرا عملہ بھیج نہیں رہی ہے۔'ان کے بقول ان کا گیس فالکن کی کمپنی سے چار ماہ کا معاہدہ تھا جو ختم ہو چکا ہے۔ اسی طرح عملے کے باقی لوگوں کے معاہدے بھی ختم ہوچکے ہیں مگر وہ اس کے باوجود جہاز پر رہنے پر مجبور ہیں۔کیپٹن محمد اسلم کہتے ہیں ایسے تنازعات میں 'عموماً غریب ممالک کے جہاز ران، جیسے پاکستانی، انڈین، بنگلہ دیشی، انڈونیشیئن یا فلپائنی وغیرہ ہی متاثر ہوتے ہیں۔'وہ بتاتے ہیں کہ اس سے قبل جب جہاز موزمبیق میں ابتدائی دونوں میں پھنسا ہوا تھا تو انڈین عملے کے دو ارکان کے معاہدے ختم ہو گئے تھے۔ 'ان کو اس وقت جانے کی اجازت ملی جب کمپنی نے ان کی جگہ اور دو کا عملہ بھیجا۔ یہ دونوں پاکستانی تھے اور اب یہ بھی ہمارے ساتھ پھنسے ہوئے ہیں۔'آندری پیلندینو کا کہنا تھا کہ 'ہمیں طویل عرصہ گزر چکا ہے کہ صبح کا ناشتہ نہیں ملتا۔۔۔ ہمیں جو ایک، دو وقت کا کھانا مل رہا ہے، وہ بھی ہمارے کلچر اور ذائقے کے مطابق نہیں جس سے ہماری صحت پر بہت بُرے اثرات مرتب ہوچکے ہیں۔'ان کا کہنا تھا کہ اس جہاز کا ایئر کنڈیشنر خراب تھا اور دنیا کے اس حصے میں دسمبر میں انتہائی گرمی پڑتی ہے۔پاکستانی کپتان جو سمندر میں پھنسے انڈونیشین ماہی گیروں کو بچانے پہنچ گئےپاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سمندری راستے سے تجارت کیسے بحال ہوئی’بحیرہ احمر میں پھنسے پاکستانی ملاحوں کو بچا کر مصر پہنچا دیا گیا‘1971 کی جنگ: جب امریکہ نے انڈیا کو ڈرانے کے لیے اپنا جنگی بیڑہ بھیجاپاکستانی عملے کے ایک رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'چھ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں تو سوچیں اس کے کیا نتائج نکل رہے ہوں گے؟ ہمارے بچوں کے سکولوں کی فیس ادا نہیں ہو رہی۔ کچھ لوگوں کے گھروں کے کرایے باقی ہیں۔ ہم خود تو انتہائی مسائل کا شکار ہیں مگر ہمارے خاندان اور بچے بھی مشکلات کا شکار ہوچکے ہیں۔'کیپٹن محمد اسلم کہتے ہیں کہ 'جہاز پر ہر چیز کی سپلائی مہنگی ہوتی ہے۔ جہاز ران کمپنی نے شروع میں تو مناسب طریقے سے خوراک کی سپلائی کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔ مگر اب کچھ عرصے سے یہ سپلائی مناسب نہیں۔'وہ مزید بتاتے ہیں کہ جہاز پر موجود 'جنریٹر خراب ہیں جس سے بجلی کے مسائل بھی پیدا ہوچکے ہیں۔ اس وقت ہم انتہائی کم بجلی میں گزارا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے کبھی موبائل چارج ہوتے ہیں اور کبھی نہیں ہوتے۔'کیپٹن محمد اسلم کا کہنا تھا کہ پینے کے صاف پانی کی قلت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ 'ہمارے پاس بہت کم پانی ہے جس کو بہت احتیاط سے استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے مسائل کتنے بڑھ چکے ہیں، یہ بتانا بھی اب مشکل ہو رہا ہے اور اس کا حل یہی ہے کہ پاکستان اور انڈونیشیا کی حکومتیں اپنے اپنے شہریوں کی مدد کو آئیں۔'تاحال پاکستان کے دفتر خارجہ نے بی بی سی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا ہے۔’جہاز رانی کے بین الاقوامی قوانین پر عملدرآمد نہیں ہو رہا‘کیپٹن منصور سعید طویل عرصہ سے جہاز رانی کے شعبے سے منسلک ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جہاز رانی کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق جہاز رانوں کے حقوق کا تحفظ موجود ہے۔ 'عالمی قوانین جہاز رانوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ مگر ان قوانین پر عملدر آمد کم ہی ہوتا ہے اور اس وقت تو بہت مشکلات پیش آنے لگتی ہیں جب غریب ممالک کے جہاز ران موجود ہوں۔'ان کا کہنا تھا کہ ایسے میں جہاز رانوں کی تنظیمیں اپنا کچھ کردار ادا کرنے کی کوشش کرتی ہیں مگر اکثر اوقات جس ملک میں ایسے ہو رہا ہوتا ہے وہاں کے قوانین اور عدالتوں کے فیصلوں کے بعد وہ بھی بے بس ہوجاتی ہیں۔کیپٹن منصور سعید کا کہنا تھا کہ جہاز رانوں کے حقوق کا تحفظ تب ہی ممکن ہے جب ایسے حالات کے اندر تمام ممالک کی عدالتیں جہاز رانی کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق جہاز رانوں کا تحفظ کریں۔’بحیرہ احمر میں پھنسے پاکستانی ملاحوں کو بچا کر مصر پہنچا دیا گیا‘پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سمندری راستے سے تجارت کیسے بحال ہوئیہنگور: جب پاکستانی ’شارک‘ نے انڈین ’کھکری‘ کا شکار کیاغازی آبدوز جس کے ڈوبنے کی اصل وجہ پچاس سال بعد بھی ایک معمہ ہے1971 کی جنگ: جب امریکہ نے انڈیا کو ڈرانے کے لیے اپنا جنگی بیڑہ بھیجاپاکستانی کپتان جو سمندر میں پھنسے انڈونیشین ماہی گیروں کو بچانے پہنچ گئے