
عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے صدر میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ امن کے علمبردار مولانا خانزیب کا قتل پورے صوبے کے امن و امان پر سوالیہ نشان ہے۔
مولانا خانزیب جو دہشت گردی کے خلاف امن کی مہم چلا رہے تھے، ایسے علاقے میں شہید کیے گئے جو باجوڑ میں سکیورٹی اداروں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، مگر ریاستی ادارے اور کیمروں کی موجودگی کے باوجود قاتل آزاد ہیں۔ اگر کسی مقتول کا قاتل معلوم نہ ہو تو اس کی قاتل ریاست ہوتی ہے۔
نوشہرہ کی ویلج کونسلز کابل ریور اور کھنڈر میں مجوزہ مائنز اینڈ منرلز بل 2025 کے حوالے سے آگاہی مہم کے دوران خطاب کرتے ہوئے میاں افتخار حسین نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے عوام ایک قتل گاہ میں زندگی گزار رہے ہیں، نہ گھر محفوظ ہیں، نہ کاروبار، اور نہ ہی عبادت گاہیں۔ ’’ہم عدم تشدد کے راستے پر چلتے ہوئے اپنے حقوق کی جدوجہد کر رہے ہیں، ہماری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ریاست پنجاب اور سندھ میں امن قائم کرسکتی ہے تو خیبر پختونخوا کیوں محروم ہے؟ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں امن ریاستی ترجیحات میں شامل نہیں۔
میاں افتخار نے کہا کہ صوبے کے سنگین حالات کے تناظر میں 26 جولائی کو باچا خان مرکز میں قومی امن جرگہ منعقد ہوگا جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور ضم شدہ اضلاع کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا ہے تاکہ آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جاسکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا کے عوام 21 آپریشنز کے باوجود امن قائم نہ ہونے پر سوال اٹھا رہے ہیں اور اب یہ سمجھ چکے ہیں کہ 22ویں آپریشن سے بھی امن ممکن نہیں۔ اگر 72 کالعدم تنظیمیں پنجاب میں موجود ہیں تو وہاں کارروائی کی جائے۔
میاں افتخار حسین نے کہا کہ اے این پی مائنز اینڈ منرلز ایکٹ، غیر شفاف کمیٹیوں اور جبری آپریشنز کو تسلیم نہیں کرتی۔ ہم نے ماضی میں اپنی زمین کی حفاظت کی ہے، آئندہ بھی امن، محبت اور عدم تشدد کے ذریعے جدوجہد جاری رکھیں گے۔