
مارچ 1971 کو جیسے ہی پاکستانی فوج نے ڈھاکہ میں آپریشن سرچ لائٹ شروع کیا، عوامی لیگ کے جنرل سیکرٹری تاج الدین احمد اور ڈھاکہ کے ممتاز وکیل امیر الاسلام خفیہ مقام پر منتقل ہو گئے۔یہ دونوں اس وقت پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن تھے اور اگلے دو دن انھوں نے ڈھاکہ کے علاقے لال متیا میں گزارے۔یہ جگہ شیخ مجیب الرحمان کی دھان منڈی میں رہائش گاہ سے زیادہ دور نہیں تھی۔اس کے بعد وہ انڈیا کی سرحد کی طرف بڑھنے لگے۔ تین دن تک پیدل اور بیل گاڑیوں پر مسلسل سفر کرنے کے بعد وہ ضلع کشتیا کے علاقے میں پہنچے جو انڈیا کی سرحد سے متصل ہے۔پہلے سے طے شدہ مقام پر ان کی ملاقات بنگالی افسر توفیق الٰہی چودھری سے ہوئی۔ 30 مارچ کو توفیق الٰہی چودھری نے سرحد پر تعینات بارڈر سکیورٹی فورس کے افسران کو پیغام بھیجا: ’مجیب کے قریبی ساتھی، عوامی لیگ کے دو سینیئر رہنما سرحد پر پہنچ گئے ہیں۔ اگر ان کا سرکاری مہمانوں کے طور پر استقبال کیا جاتا ہے تو وہ انڈیا وزیر اعظم سے ملنا چاہیں گے۔‘بی ایس ایف حکام نے یہ اطلاع اپنے آئی جی گولک مجمدار کو دی اور مجمدار نے فوراً اس کی اطلاع دہلی میں اپنے سینیئر افسر کے ایف رستم جی کو دی۔نیو مارکیٹ سے کپڑے خریدےجب وہ وہاں پہنچے تو رات کا ایک بج چکا تھا۔ اس وقت تک کولکتہ کے تمام ہوٹل اور دکانیں بند ہو چکی تھیں۔رستم جی ہمیشہ ہنگامی سفر کے لیے کپڑوں کا ایک بیگ تیار رکھتے تھے۔ انھوں نے اس میں سے پاجامہ نکالا اور اپنے مہمانوں کو پہننے کے لیے دیا۔مجمدار نے سب کے لیے چولہے پر آملیٹ بنائے۔ اگلے دن ایک آدمی کو کولکتہ کی نیو مارکیٹ بھیجا گیا۔وہاں سے تاج الدین احمد اور ان کے ساتھی کے لیے تیار کپڑے خریدے گئے۔ رستم جی چاہتے تھے کہ ان کے لیے بہترین کپڑے خریدے جائیں، کیونکہ وہ اپنے ملک کی نمائندہ وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ملنے جا رہے تھے۔تاج الدین کی اندرا گاندھی سے ملاقاتاگلے دن تاج الدین احمد رستم جی کے ساتھ خصوصی طیارے سے دہلی پہنچے۔جریدے ’سٹیٹس مین‘ کے سابق نامہ نگار منش گھوش اپنی کتاب ’بنگلہ دیش وار رپورٹ فرام گراؤنڈ زیرو‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اندرا گاندھی نے تاج الدین احمد کو مشورہ دیا تھا کہ بین الاقوامی قبولیت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت بین الاقوامی میڈیا کے سامنے حلف لے۔‘’۔۔۔ اور یہ حلف برداری کی تقریب ایسی جگہ پر ہونی چاہیے جو بنگلہ دیشی آزادی پسندوں کے کنٹرول میں ہو۔‘اندرا گاندھی نے وہاں موجود انڈین حکام بالخصوص رستم جی کو ہدایت کی کہ وہ تاج الدین احمد اور ان کی مجوزہ حکومت کو تمام ضروری سہولیات فراہم کریں۔نگران وزیر اعظم کا حلف اٹھا لیافیصلہ کیا گیا کہ ضلع نادیہ سے متصل بیدیا ناتھلا کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی حلف برداری کے مقام کے طور پر منتخب کیا جائے گا۔17 اپریل 1971 کو کلکتہ میں تمام غیر ملکی صحافیوں کو جمع کیا گیا اور بتایا گیا کہ انھیں کسی خاص تقریب کی رپورٹنگ کے لیے کسی نامعلوم مقام پر لے جایا جائے گا۔تقریباً 60 کاروں کا قافلہ کلکتہ سے بیدیا ناتھل کی طرف روانہ ہوا۔میناج پور سے عوامی لیگ کے رکن پارلیمنٹ پروفیسر یوسف علی نے مائیک پر اعلان کیا کہ بنگلہ دیش اب ایک آزاد اور خودمختار جمہوریہ ہے۔انھوں نے سید نذر اسلام کو صدر اور تاج الدین احمد کو وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف دلایا۔ اگلے روز اس تاریخی واقعے کی خبر دنیا کے معروف اخبارات میں شائع ہوئی۔عوامی لیگ کے رہنماؤں کا غصہتاج الدین احمد 23 جولائی 1925 کو ڈھاکہ سے 62 کلومیٹر دور دردیہ گاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ عوامی لیگ کے بانی ارکان میں سے تھے۔ تاج الدین احمد کو عوامی لیگ کا ’دانشورانہ پاور ہاؤس‘ کہا جاتا تھا۔معاشیات کے ہونہار طالب علم تاج الدین احمد کو 60 کی دہائی میں اکثر سائیکل پر شہر میں گھومتے اور عام لوگوں سے ملتے دیکھا جاتا تھا۔ چھ نکاتی تحریک میں حصہ لینے پر انھیں تین سال تک پاکستان کی جیلوں میں رہنا پڑا۔تاج الدین احمد کی اندرا گاندھی سے تاریخی ملاقات عوامی لیگ کے بعض حلقوں میں پسند نہیں کی گئی۔منش گھوش اپنی کتاب Mujib's Blunders میں لکھتے ہیں کہ ’مجیب کے بھتیجے اور مکتی باہنی کے سربراہ شیخ فضل الحق مونی نے تاج الدین احمد کی قیادت کو کھلم کھلا چیلنج کیا اور سوال کیا کہ وہ عوامی لیگ کے سربراہ کی حیثیت سے اندرا گاندھی سے ملنے کیوں گئے تھے؟’تاج الدین کو نیچا دکھانے کے لیے انھوں نے پارٹی میں تاج الدین کے حریف مشتاق احمد سے ہاتھ ملایا، حالانکہ دونوں میں نظریاتی مماثلت نہیں تھی۔‘تاج الدین اور مشتاق کے درمیان کشمکشستمبر 1971 میں جب مشتاق احمد بنگلہ دیش کے وفد کے ساتھ اقوام متحدہ جانے والے تھے تو تاج الدین احمد نے انھیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔اس کے لیے مشتاق نے انھیں کبھی معاف نہیں کیا اور خیال کیا جاتا ہے کہبعد میں یہی رنجش تاج الدین احمد کے قتل کی وجہ بنی۔ بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران وہ 8 تھیٹر روڈ، کلکتہ میں اپنے دفتر کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے تھے۔وہ ایک سادہ چارپائی پر سو گئے۔ ان کے پاس چند کپڑے تھے جو انھوں نے ہاتھ سے دھوئے۔تاج الدین احمد کے خلاف غلط معلومات کی مہم22 دسمبر کو بنگلہ دیش کی آزادی کے چھ دن بعد 16 دسمبر کو تاج الدین احمد اپنی کابینہ کے ساتھ انڈین فضائیہ کے خصوصی ہیلی کاپٹروں میں ڈھاکہ پہنچے۔ایئرپورٹ سے ان کی گاڑیوں کے قافلے کو ڈھاکہ کے گورنمنٹ ہاؤس لے جایا گیا۔تاج الدین کی غیر موجودگی میں دھان منڈی میں ان کا دو منزلہ مکان پاکستانی فوج نے تباہ کر دیا تھا۔ تاج الدین احمد نے ابتدائی دنوں میں گورنمنٹ ہاؤس سے بنگلہ دیش پر حکومت کی۔تاج الدین کو معلوم تھا کہ ان کے پاس شیخ مجیب کا کرشمہ نہیں ہے اور نہ ہی انھیں شیخ کی طرح عوامی حمایت حاصل ہے۔پارٹی میں ان کے حریف شیخ مونی اور مشتاق احمد یہ افواہ پھیلانے میں مصروف تھے کہ تاج الدین بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد بہت پرجوش ہو گئے ہیں اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ شیخ مجیب پاکستانی جیل سے رہا ہونے کے بعد واپس آئیں۔منش گھوش لکھتے ہیں کہ ’تاج الدین اس پروپیگنڈے سے اس قدر رنجیدہ ہوئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے، انھوں نے اپنے قریبی ساتھی نورالقادر سے کہا کہ ’بہتر ہوتا کہ میں بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد مر جاتا، تاکہ مجھے یہ جھوٹی کہانیاں نہ سننی پڑتیں جن میں مجیب بھائی سے میری وفاداری پر سوالیہ نشان لگایا گیا ہے۔‘مجیب نے تاج الدین کو وزیراعظم کے عہدے سے سبکدوش ہونے کو کہاجب شیخ مجیب 9 جنوری کو پاکستانی جیل سے رہا ہوئے اور ڈھاکہ پہنچے تو تاج الدین احمد لاکھوں لوگوں کے ساتھ ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔انھوں نے شیخ مجیب کو دیکھتے ہی انھیں گلے لگا لیا اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ شیخ مجیب جلد از جلد بنگلہ دیش کے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنا چاہتے تھے۔منش گھوش لکھتے ہیں کہ ’جب شیخ مجیب کو پھولوں سے لدے ٹرک میں ایئرپورٹ سے ڈھاکہ شہر لے جایا جا رہا تھا، تو انھوں نے تاج الدین کے کان میں سرگوشی کی کہ وہ وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔’اگلی صبح وہ لونگی اور کُرتا پہنے تاج الدین کے گھر پہنچے اور ان سے کہا کہ وہ ان کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لیے انتظامات کریں۔ اس تبدیلی کو لے کر پورے ڈھاکہ میں شکوک و شبہات کا ماحول تھا۔ لوگ خاموش لہجے میں پوچھ رہے تھے کہ ملک کے وزیر اعظم کو تبدیل کرنے میں اتنی جلدی کیوں کی جا رہی ہے؟ لوگ یہ تیزی ہضم نہیں کر پا رہے تھے۔‘وہ ’آمرانہ رویے‘ جو جمہوریت پسند شیخ مجیب کے زوال کا باعث بنےوہ دباؤ جس کے بعد بھٹو بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئےتاج الدین وزیر خزانہ بن گئےتاہم تاج الدین نے استعفیٰ دینے میں کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔ شیخ مجیب نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی اور تاج الدین احمد کو اپنا وزیر خزانہ مقرر کیا۔اگرچہ بہت سے لوگ توقع کر رہے تھے کہ ان کی شہرت کو دیکھتے ہوئے مجیب انھیں نائب وزیر اعظم بنا دیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔وزیر خزانہ کی حیثیت سے وہ نئے آزاد ملک کی تعمیر نو میں مصروف ہو گئے۔ 1974 میں ان کے دورۂ امریکہ کا بہت چرچا رہا۔سید بدر الاحسن اپنی کتاب ’Glory and Despair The Politics of Tajuddin Ahmed‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جب ورلڈ بینک کے صدر رابرٹ میکنامارا نے ان سے پوچھا کہ ورلڈ بینک بنگلہ دیش میں کیا ضروریات پوری کر سکتا ہے، تو انھوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا کہ انھیں کھیتی کے لیے بیلوں اور ہل سے باندھنے کے لیے رسیوں کی ضرورت ہے۔‘لیکن اس دوران شیخ مجیب اور تاج الدین کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے گئے۔ 26 اکتوبر 1974 کو بنگلہ دیش کی کابینہ کے سیکریٹری توفیق امام دو لفافے لے کر تاج الدین احمد کے دفتر آئے۔منش گھوش لکھتے ہیں کہ ’ایک لفافے میں مجیب کی طرف سے ایک خط تھا، جس میں لکھا گیا تھا کہ قومی مفاد کے پیش نظر، آپ سے فوری مستعفی ہونے کو کہا جاتا ہے۔’آپ کا ٹائپ کردہ استعفیٰ نامہ ایک اور لفافے میں بھیجا جا رہا ہے۔ براہ کرم اس پر دستخط کریں اور یہ خط لینے والے کو دے دیں۔‘تاج الدین احمد نے مسکراتے ہوئے استعفے پر دستخط کر کے کیبنٹ سیکریٹری کے حوالے کر دیا۔ بنگلہ دیش میں تاج الدین احمد کے جبری استعفے کو آنے والی مصیبت کی علامت کے طور پر دیکھا گیا۔تاج الدین کی گرفتاریجب 15 اگست 1975 کو شیخ مجیب الرحمان کو ان کے خاندان سمیت قتل کر دیا گیا اور خندکر مشتاق احمد بنگلہ دیش کے نئے صدر بنے تو تاج الدین احمد کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔جب تاج الدین احمد، سید نذر اسلام، کیپٹن منصور علی اور اے ایچ قمر الزمان نے خندکر مشتاق احمد کی کابینہ میں شامل ہونے سے انکار کیا تو انھیں ڈھاکہ سینٹرل جیل بھیج دیا گیا۔سلیل ترپاٹھی اپنی کتاب 'The Colonel Who Would Not Repent' میں لکھتے ہیں کہ ’دو اور تین نومبر 1975 کی درمیانی شب جب بنگلہ دیش میں فوجی بغاوت ہوئی، جیل کے انسپیکٹر جنرل محمد نورزمان کو بنگا بھون سے فون آیا کہ فوجی وردی میں کچھ لوگ ڈھاکہ جیل میں آئیں گے، انھیں سیاسی قیدیوں کی جیل میں لے جایا جائے۔تاج الدین احمد کا قتلچند ہی لمحوں میں مصلع الدین کی قیادت میں سیاہ لباس میں ملبوس فوجی ڈھاکہ جیل پہنچ گئے۔سلیل ترپاٹھی لکھتے ہیں کہ ’چاروں قیدیوں کو جگا کر دوسرے قیدیوں سے الگ کر دیا گیا۔ تاج الدین اور نذرل کو چھ قیدیوں کے ساتھ ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ ان دو کو اور منصور علی اور قمر الزمان کو دوسرے کمرے میں لے جایا گیا۔‘’جیلر امین الرحمن کو ان قیدیوں کی شناخت کرنے کے لیے کہا گیا۔ اس دوران تاج الدین سارا معاملہ سمجھ گئے، اس نے جیلر سے نماز پڑھنے کی اجازت مانگی، جیلر نے اس کی اجازت دے دی۔ جیسے ہی نماز ختم ہوئی، کیپٹن اور اس کے ساتھیوں نے ان چاروں پر فائرنگ شروع کر دی۔‘عوامی لیگ کے چاروں رہنما زمین پر گر پڑے۔ یہ قتل جیل کے اندر جیل حکام کے سامنے کیے گئے۔جب سپاہی ان چاروں کو مارنے کے بعد واپس گئے تو جیل کے عملے نے بنگ بھون کو فون کیا اور بتایا کہ تاج الدین احمد اور کیپٹن منصور علی زندہ ہیں اور پانی مانگ رہے ہیں۔منش گھوش لکھتے ہیں کہ ’مشتاق نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ واپس جیل جائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ زندہ نہیں ہیں۔ سپاہیوں نے واپس جیل جا کر تاج الدین اور منصور علی کو قتل کر دیا۔‘بانیِ بنگلہ دیش جن کی میت کو غسل دینے کے لیے صابن تک دستیاب نہ ہواوہ ’آمرانہ رویے‘ جو جمہوریت پسند شیخ مجیب کے زوال کا باعث بنےوہ دباؤ جس کے بعد بھٹو بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئےبنگلہ دیش پاکستان سے معافی کا مطالبہ کیوں کرتا ہے؟پاکستانی اور بنگلہ دیشی نوجوان ایک دوسرے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟