
حکومت سندھ نے مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے 15 اہم امور پیش کردیے ہیں جن میں چار نئے مسائل اور گیارہ پرانے اور التوا میں پڑے معاملات شامل ہیں۔ حکومت سندھ کی جانب سے یہ اقدام وفاقی سطح پر صوبے کے مفادات کے تحفظ اور دیرینہ مطالبات کے حل کی کوششوں کا حصہ ہے۔
پیش کیے گئے نئے نکات میں شامل جلال پور اریگیشن کینال کی تعمیر، کراچی کیلئے پینے اور صنعتی استعمال کے پانی کی مستقل فراہمی،مشترکہ مفادات کی کونسل کے سیکریٹریٹ کا قیام،کونسل کی گزشتہ تین سالہ کارکردگی رپورٹ کی تیاری کی تجویز شامل ہے۔
اس کے علاوہ انڈیکیٹو جنریشن کیپیسٹی ایکسپینشن پلان کی کارکردگی رپورٹ کا جائزہ،نیٹ ہائڈل پرافٹ پر قاضی کمیشن میتھڈولوجی پر عملدرآمد،1991ء کے واٹر معاہدے پر مکمل عملدرآمد کے لیے اٹارنی جنرل انور منصور کی رپورٹ پر عمل ،1991ء کے واٹر معاہدے پر مکمل عملدرآمد کے لیے اٹارنی جنرل کی رپورٹ پر عمل بھی ایجنڈہ میں شامل ہے۔
دیگر اہم نکات میں چشمہ جہلم ہائیڈرو پرائیویٹ لمیٹڈ کے لیے پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا مطالبہ،ایل این جی کی درآمد سے متعلق امور،آئین کے آرٹیکلز 158، 172(3) اور 154 پر مکمل عملدرآمد،پیٹرولیم پالیسی 2012 کے تحت گیس کی تیسرے فریق کو فروخت کا معاملہ اور بزرگ شہریوں کے استحقاق کا تحفظ کا معاملہ ایجنڈہ میں شامل ہے۔
قومی بین المذاہب ہم آہنگی پالیسی کی منظوری،ورکرز ویلفیئر فنڈ اور ای او بی آئی کی صوبوں کو منتقلی بھی ایجنڈہ میں شامل کی گئی ہیں۔
سندھ حکومت نے وفاق پر زور دیا ہے کہ وہ وفاقی و صوبائی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے مشترکہ مفادات کی کونسل کے فیصلوں پر بروقت عملدرآمد کو یقینی بنائے۔