دبئی کی شاہراہوں سے کوہاٹ کی سڑکوں پر ڈرائیونگ سکھاتا ’رول ماڈل‘


متحدہ عرب امارات جیسے ترقی یافتہ ملک کی سڑکوں پر عرب خواتین کو ڈرائیونگ سکھانے کے بعد گُل آفریدی آج کل خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کی سڑکوں پر خواتین کو گاڑی چلانے کے گُر سکھا رہی ہیں۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جس کا وہاں چند برس پہلے تک تصور نہیں ہوتا تھا۔ کوہاٹ جیسے روایت پسند معاشرے میں خواتین کا گاڑی چلانا آج بھی ایک غیرمعمولی عمل سمجھا جاتا ہے لیکن گُل آفریدی نے اس روایت کو چیلنج کیا ہے۔ چھ سال قبل جب وہ پاکستان آئیں تو انہوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنا ذاتی ڈرائیونگ سکول قائم کیا جہاں وہ نہ صرف فیس ادا کرنے والی خواتین کو ڈرائیونگ سکھاتی ہیں بلکہ ان خواتین کی بھی رہنمائی کرتی ہیں جو مالی مشکلات کے باعث ڈرائیونگ سیکھنے سے قاصر ہیں۔گل آفریدی نے دبئی میں 34 برس گزارے ہیں جہاں وہ 16 برس تک ڈرائیونگ انسٹرکٹر رہیں۔یہ راستہ ان کے لیے بھی آسان نہیں تھا۔ انہوں نے اس وقت بیٹوں کی مخالفت کے باوجود ڈرائیونگ سیکھی۔ ’میرے بیٹوں نے کہا کہ آپ لائسنس کیوں لے رہی ہیں؟ کیا ہم مر گئے ہیں؟ لوگ کیا کہیں گے؟‘گل آفریدی یاد کرکے کہتی ہیں کہ ان سب باتوں کے باوجود ان کے شوہر نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ’میرے شوہر میری حمایت کرتے تھے۔ میں نے اپنے بچوں سے کہا کہ تم لوگوں کی غیرموجودگی میں جب مجھے ضرورت پڑے گی تو لوگ تو میرے کام نہیں آئیں گے۔ اگر خود کام کریں گے تو لوگوں کے محتاج نہیں رہیں گے۔ پھر میرے شوہر نے کہا کہ میری اجازت ہے اور میں نے دبئی میں مینوئل ڈرائیونگ سیکھی۔‘گل آفریدی کا سفر دبئی سے شروع ہوا جہاں انہوں نے ڈرائیونگ سیکھی اور اپنا پہلا لائسنس حاصل کیا۔ پاکستان واپسی پر انہوں نے یہ عزم کیا تھا کہ یہ ہنر دیگر خواتین کو سکھانا ہے جو ایمرجنسی کے وقت دوسروں کی مدد لیتی ہیں۔انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ جب کورونا کی وبا کے دوران وہ پاکستان رہنے کے لیے آئیں تو ان کو ڈرائیونگ سکول قائم کرنے کا خیال آیا۔’کام کی عادت ہے اس لیے مجھ سے فارغ نہیں بیٹھا جا رہا تھا۔ میں جب گاڑی نہ چلاؤں تو ایسا لگتا ہے جیسے گھر میں مریض بن گئی ہوں۔ بس میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ میں نے ڈرائیونگ سکول کھولنا ہے۔ مخالفت کی گئی اور مشورہ دیا گیا کہ آپ اسلام آباد میں ڈرائیونگ سکول کھولیں۔ میری فیملی وہاں بھی رہتی ہے لیکن میں نے تہیہ کیا تھا کہ اگر کام کرنا ہے تو کوہاٹ میں ہی کرنا ہے۔‘گل آفریدی کا سفر دبئی سے شروع ہوا جہاں انہوں نے ڈرائیونگ سیکھی۔ (فوٹو: سکرین گریب)ان کا مقصد صرف ڈرائیونگ سکھانا نہیں تھا بلکہ خود انحصاری اور خواتین کو بااختیار بنانا بھی تھا۔60 برس کی گل آفریدی کہتی ہیں کہ ڈرائیونگ کا شوق انہیں بچپن سے تھا لیکن ضرورت اس وقت محسوس کی جب اسلام آباد میں اوجڑی کیمپ کا واقعہ پیش آیا۔’اسلام آباد میں 1988 میں اوجڑی کیمپ میں دھماکے ہو رہے تھے، میں اپنے بچوں کو کوہاٹ لے جانا چاہتی تھی۔ گھر میں دو گاڑیاں موجود تھیں لیکن ڈرائیور نہیں تھا کہ ہمیں کوہاٹ پہنچا دیتا۔ اس وقت سے میں نے ٹھان لی کہ میں ڈرائیونگ سیکھوں گی اور اچھے طریقے سے سیکھوں گی۔‘ان کا کہنا ہے کہ کوہاٹ میں ڈرائیونگ سکول کا سیٹ اپ مشکل کام ہے تاہم انہیں زیادہ دقت نہیں ہوئی۔’لوگوں نے میرے اس اقدام کی تعریف کی۔ میں نے گزشتہ چھ برسوں میں تقریباً 250 خواتین کو ڈرائیونگ سکھائی۔ جن میں طالبات، ملازمت پیشہ اور گھریلو خواتین بھی شامل ہیں۔‘آج گل آفریدی صرف ڈرائیونگ انسٹرکٹر نہیں بلکہ ان خواتین کے لیے ایک ’رول ماڈل‘ ہیں جو خود بھی گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنا چاہتی ہیں۔خیبرپختونخوا کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک ملازمت کے سلسلے میں مقیم ہے اور اپنے اہل خانہ سے دور ہے۔ گھر کے راشن کی خرید و فروخت یا کسی ایمرجنسی کے وقت خواتین کو قریبی رشتہ داروں پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔لیکن اب ایمان کی طرح ایسی خواتین بھی ہیں جن کے والد اور بھائی بیرون ملک مقیم ہیں اور وہ گھر کی ذمہ داریاں پوری کرنے لیے خود ڈرائیونگ سیکھ رہی ہیں۔ان کی والدہ دل کی مریضہ ہیں اور انہیں ایمرجنسی کے وقت ہسپتال کی ضرورت ہوتی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ’والد سے کہا مجھے ڈرائیونگ سیکھنی ہے۔ میری دو شادی شدہ بہنوں نے بھی سیکھی ہے۔ گھر کے لیے ہر چیز کی ضرورت ہوتی ہے، میرے والد اور بھائی تو نہیں آ سکتے کہ خریداری کریں۔ سب سے بڑی بات ایمرجنسی کے وقت اگر آپ کے پاس یہ ہنر نہ ہو اور گاڑی کھڑی ہو تو انسان کیا کر سکتا ہے۔ اس لیے اب میں بھی سیکھ رہی ہوں۔‘ گل آفریدی صرف ڈرائیونگ انسٹرکٹر نہیں بلکہ ان خواتین کے لیے ایک رول ماڈل ہیں۔ (فوٹو: سکریب گریب)گل آفریدی کے ڈرائیونگ سکول میں نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کو بھی ڈرائیونگ کی تربیت دی جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ تین ایسے معذور افراد بھی ان کے ڈرائیونگ سکول آئے تھے جن کو انہوں نے خود ڈرائیونگ سکھائی۔’پاؤں سے معذور ایک افغان شہری نے بھی مجھ سے ڈرائیونگ سیکھی تھی۔ اس نے اب اپنے لیے ایک نئی گاڑی خریدی ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ سپیشل افراد کو خود ڈرائیونگ سکھاؤں۔ میرے پاس انسٹرکٹر بھی ہیں وہ بھی ڈرائیونگ کی تربیت دیتے ہیں۔‘گل آفریدی کا کہنا ہے کہ معاشرہ روز بروز ترقی کر رہا ہے اور وقت کے ساتھ ضروریات بدل رہی ہیں۔ ’اب وہ حالات نہیں رہے جو پہلے تھے، خواتین کو بھی زندگی کی گاڑی خود چلانی چاہیے۔‘

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید پاکستان کی خبریں

ایرانی صدر مسعود پزشکیان آج دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچیں گے

کوئٹہ: دو کمسن بہنوں کی بوری بند لاشیں برآمد، ’سانس روک کر قتل کیا گیا‘

اسرائیل نے متحدہ عرب امارات سے سفارتی عملہ واپس بلا لیا، شہریوں کو دہشت گردی کے خطرے کا سخت انتباہ

لاہور میں اسلام آباد ایکسپریس ٹرین کی پانچ بوگیاں پٹری سے اُتر گئیں، 26 مسافر زخمی

ایرانی صدر مسعود پزشکیان سنیچر کو دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچیں گے

سابق روسی صدر کے ’اشتعال انگیز‘ بیانات: ٹرمپ نے جوہری آبدوزوں کو ’مناسب خطوں میں پوزیشن سنبھالنے‘ کے احکامات دے دیے

بانی پی ٹی آئی کی قید کے دو سال: 5 اگست کو توڑ پھوڑ کا ارادہ نہیں، عمران خان جیل میں ثابت قدم ہیں، سلمان اکرم راجہ

کوئٹہ اور مستونگ میں قتل کے واقعات، وزیراعلیٰ کا سخت نوٹس، مجرموں کی گرفتاری کا حکم

اسلام آباد: ڈی ایچ اے میں والد کے ساتھ بہہ جانے والی لڑکی کی تلاش کا عمل ختم کرنے کا فیصلہ، غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کر دی گئی

ملک بھر میں آج سے یوٹیلیٹی اسٹورز آپریشن مکمل طور پر بند

رحیم یار خان میں کچے کے ڈاکوؤں کا پولیس چوکی پر حملہ، پانچ اہلکار ہلاک

اسلام آباد: ڈی ایچ اے میں والد سمیت بہہ جانے والی بیٹی کی تلاش کا آپریشن ختم کرنے کا فیصلہ، غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کر دی گئی

پاکستان میں حکومت نے پیٹرول سستا جبکہ ڈیزل مزید مہنگا کر دیا

دبئی کی شاہراہوں سے کوہاٹ کی سڑکوں پر ڈرائیونگ سکھاتا ’رول ماڈل‘

کیا پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اور مرکزی رہنماؤں کو ملنے والی سزاؤں اور نااہلیوں سے تحریک انصاف پارلیمان میں مزید کمزور ہو سکتی ہے؟

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی