’زندہ انسانوں کا قبرستان‘: ٹرمپ دور میں بے دخل کیے گئے افراد پر ایل سلواڈور کی بدنام زمانہ جیل میں کیا گزری؟


Anadolu via Getty Imagesامریکہ سے بے دخل کیے جانے والے افراد کا الزام ہے کہ سیکوٹ میں ان پر تشدد کیا گیا تھاایل سیلواڈور میں واقع دہشتگردوں کے لیے بنائے گئے قید خانے (سیکوٹ) پہنچنے کے بعد آرتورو سواریز نے سرکاری گارڈز سے صرف ایک درخواست کی تھی کہ انھیں ان کی نظر کی عینک استعمال کرنے دی جائے۔ان کا کہنا ہے کہ دوران تشدد ان کی یہ عینک ٹوٹ گئی تھی اور اس کے بعد وہ بے ہوش ہو گئے۔ آرتورو کہتے ہیں کہ اس کے بعد انھیں سیکوٹ میں موجود موڈیول ایٹ نامی وارڈ میں منتقل کر دیا گیا تھا جہاں امریکہ سے بے دخل کیے جانے والے وینیزویلا سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن کو مارچ اور جولائی 2025 کے درمیان رکھا گیا تھا۔میکسیمم سکیورٹی جیل سیکوٹ دراصل ایل سیلواڈور کے جرائم پیشہ گروہوں کے اراکین کے لیے بنائی گئی تھی اور اس کا افتتاح خود ملک کے صدر نجیب بکیلے نے سنہ 2023 میں کیا تھا۔اس جیل میں وینیزویلا سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن کو جرائم پیشہ گروہوں کے اراکین سے علیحدہ رکھا گیا تھا۔ ان افراد کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ملک بدر کیا تھا۔برسوں سے ایل سیلواڈور کے شہری ان جرائم پیشہ گروہوں کی دہشت کا نشانہ بن رہے ہیں جو کہ بڑے پیمانے پر قتل و غارتگری اور بھتہ خوری میں ملوث رہے ہیں۔صدر بکیلے کی سخت گیر پالیسیوں کے سبب ایل سیلواڈور میں قتل و غارتگری میں ڈرامائی کمی آئی ہے اور خطے میں موجود دیگر ممالک بھی ان کی مثال پر عمل کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایل سیلواڈور اور ان کے پڑوسی ممالک سے اکثر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات بھی موصول ہوتی رہتی ہیں۔اس جیل کے اندر ہوش میں آنے کے بعد جب آرتورو نے اپنی آنکھیں کھولیں تو ان کے ارد گرد تمام مناظر انھیں دھندلے نظر آ رہے تھے۔تاہم انھیں جیل کے ڈائریکٹر بیلارمینو گارشیا کے الفاظ آج بھی یاد ہیں: 'جہنم میں خوش آمدید، زندہ افراد کے قبرستان میں خوش آمدید۔ آپ کی یہاں سے مردہ حالت میں واپسی ہو گی۔'امریکی حکام کو شبہ ہے کہ بے دخل کیے جانے والے افراد کا تعلق 'آراگوا ٹرین' سے ہے۔ 'آراگوا ٹرین' ایک جرائم پیشہ تنظیم ہے جو سنہ 2014 میں منظرِ عام پر آئی تھی اور اب براعظم امریکہ کے متعدد ممالک میں اپنا وجود رکھتی ہے۔وائٹ ہاؤس اسے دہشتگرد تنظیم قرار دے چکا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس تنظیم کے 'ہزاروں اراکین غیر قانونی طور ہر امریکہ میں داخل ہوئے ہیں۔'Getty Images y AFPبی بی سی نے جیل سے رہائی پانے والے آٹھ افراد سے گفتگو کی ہےآرتورو کہتے ہیں کہ بغیر اپنی نظر کے عینک کے انھیں یہ دیکھنے میں پریشانی ہو رہی تھی کہ آخر ان کے اردگرد ہو کیا رہا ہے۔وینیزویلا میں آرتورو پیشے کے اعتبار سے ایک گلوکار تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں انھوں نے امریکہ میں 'ٹیمپرری پروٹیکٹڈ سٹیٹس' کے لیے اپلائی کیا ہوا تھا، جس کے تحت وینیزویلا سے تعلق رکھنے والے تقریباً چھ لاکھ تارکینِ وطن کو بے دخلی سے استثنیٰ حاصل تھا۔تاہم رواں برس 5 فروری کو ٹرمپ انتظامیہ نے وینیزویلا سمیت سات ممالک سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے لیے یہ استثنیٰ ختم کر دیا تھا۔اس استثنیٰ کے اختتام کے تین روز بعد آرتورو کو امریکی ریاست شمالی کیرولائنا سے اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ اپنی میوزک ویڈیو بنا رہے تھے۔AFP via Getty Imagesایڈوار ہرنینڈس رہائی کے بعد اپنے اہلخانہ کے ساتھایڈوار ہرنینڈز کو امریکی ریاست ڈیلاس سے گرفتار کیا گیا تھا جہاں وہ ایک ٹروٹیلا فیکٹری میں ملازمت کر رہے تھے۔ انھیں بھی سیکوٹ کے ڈائریکٹر کی تقریر یاد ہے۔وہ سیکوٹ کے ڈائریکٹر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'انھوں نے کہا تھا کہ ہم کبھی مرغی یا دیگر گوشت کا ذائقہ نہیں چکھ سکیں گے اور یہ کہ ہمارا تعلق بدنام زمانہ تنظیم ارگوانا ٹرین سے ہے۔'ایڈوار کہتے ہیں کہ 'ہم نے انھیں چیخ چیخ کر بتایا کہ ہم بے گناہ ہیں۔ لیکن انھوں نے کہا کہ وہ ہمارے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کریں گے بلکہ ہمارا فیصلہ خدا کرے گا۔'امریکہ سے بے دخلیجب آرتورو اور ایڈوار کو امریکہ سے بے دخل کرنے کے لیے جہاز میں بٹھایا گیا تو انھیں لگا تھا کہ انھیں وینیزویلا بھیجا جا رہا ہے کیونکہ ان کے مطابق انھیں یہی بتایا گیا تھا۔تاہم انھیں ہتھکڑیاں لگا کر ایل سیلواڈور پہنچا دیا گیا۔ایڈوار کہتے ہیں کہ جب تارکین وطن ایل سیلواڈور کے دارالحکومت پہنچے تو انھیں وہاں لاتیں مار کر جہاز سے اُتارا گیا اور پھر وہاں سے سیکوٹ منتقل کیا گیا۔جیل پہنچنے پر انھیں گھٹنوں کے بل بٹھایا گیا اور ان کے سر کے بال مونڈے گئے۔ اس کے بعد ان کی برہنہ تلاشی لی گئی اور انھیں سفید کپڑے مہیا کیے گئے۔AFPمارون یامرتے کی ایک تصویران تمام افراد نے تقریباً چار مہینے سیکوٹ میں گزارے۔ رواں برس 18 جولائی کو ایلو سلیواڈور، وینیزویلا اور امریکہ کے درمیان ایک معاہدے کے بعد 252 افراد کو وینیزویلا منتقل کر دیا گیا ہے۔بی بی سی منڈو نے سیکوٹ سے رہائی پانے والے آٹھ افراد سے ان کے گھروں پر گفتگو کی جہاں ان کے اہلخانہ اور دوست موجود تھے۔23 سالہ ایڈوار، 29 سالہ مارون یامرتے، 30 سالہ اینڈی پیروزو اور 39 سالہ رنگو رنکون نے مغربی وینیزویلا کی ریاست سولیا میں ایک ساتھ بی بی سی منڈو سے بات کی ہے۔یہ چاروں افراد ایک ساتھ ہی امریکہ گئے تھے اور انھیں ٹیکساس کے ایک فلیٹ سے حراست میں لیا گیا تھا۔BBCبی بی سی منڈو کی ایل سیلواڈور سے رہا ہونے والے افراد سے گفتگواس کے علاوہ ہم نے 31 سالہ اینڈری ہرنینڈز سے بھی بات کی ہے جو وینیزویلا کی ریاست تارچیرا میں رہائش پزیر ہیں۔ اس کے علاوہ 34 سالہ آرتورو سواریز، 23 سالہ جوان سواریز اور ولکن فلوریس دارالحکومت کاراکاس میں رہائش پزیر ہیں۔ان میں سے کچھ افراد قانونی اور کچھ غیرقانونی طریقے سے امریکہ میں داخل ہوئے تھے لیکن ان تمام آٹھ افراد کو مجرم قرار دے دیا گیا تھا۔امریکی حکومت یہ تسلیم کرتی ہے کہ بے دخل کیے گئے وینیزویلا کے تمام شہری مجرم نہیں تھے۔بی بی سی نے ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی سے پوچھا کہ ان کے پاس بے دخل کیے گئے افراد کے خلاف کیا ثبوت موجود ہیں، تاہم ان کی جانب سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ہمیں ایسی معلومات تک بھی رسائی نہیں دی گئی جس کا استعمال کرتے ہوئے ہم حراست میں لیے گئے افراد کے پسِ منظر کی آزادانہ تصدیق کر سکیں۔امریکہ میں جوان سواریز پر الزام تھا کہ وہ کولاروڈو میں بغیر لائسنس، بغیر انشورنس اور نامناسب نمبر پلیٹ والی گاڑی چلا رہے تھے۔ تاہم عدالتی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خلاف یہ مقدمہ بعد میں خارج کر دیا گیا تھا۔یہ آٹھوں افراد کسی بھی جرائم پیشہ تنظیم سے روابط کی تردید کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ انھیں ان الزامات کا جواب دینے کا موقع نہیں دیا گیا تھا۔سیکوٹ آمدان تمام افراد نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ سیکوٹ پہنچتے ہی ان پر تشدد کرنا شروع کر دیا گیا تھا۔مارون یامرتے کہتے ہیں کہ 'جب میں وہاں پہنچا تو انھوں نے میرے تمام کپڑے لے لیے اور مجھے برہنہ کر دیا۔ انھوں نے ایک لکڑی سے میری پشت اور پسلیوں پر تشدد کیا۔''وہ مجھے کپڑے تک نہیں پہننے دے رہے تھے۔'مارون کہتے ہیں کہ سیکوٹ کے گارڈز انھیں کہہ رہے تھے کہ 'جلدی کرو۔ میں کیسے کپڑے بدل سکتا تھا جب وہ مجھ پر مسلسل تشدد کر رہے تھے۔'بی بی سی منڈو نے ایل سیلواڈور کے صدارتی دفتر اور دیگر اداروں کو پیغامات بھیجے ہیں، تاہم تشدد کے الزامات کا کوئی جواب تاحال نہیں موصول ہوا ہے۔تاہم ماضی میں صدر نجیب بکیلے سیکوٹ جیل میں کسی بھی قسم کی خلاف ورزیوں کی تردید کر چکے ہیں۔جیل خانہاینڈری ہرنینڈز پیشے کے اعتبار سے ایک میک اپ آرٹسٹ تھے جو میکسیکو کے راستے امریکہ پہنچے تھے اور انھوں نے وہاں پناہ کی درخواست کی تھی۔وہ سیکوٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'وہ ایک انتہائی سرد اور بڑی جگہ ہے، یوں سمجھ لیں کہ ایک پورا شہر ہے۔'اس جیل میں قید تارکینِ وطن کا ایل سیلواڈو کے جرائم پیشہ گروہوں کے اراکین سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ تاہم وہاں دیگر قیدیوں سے ضرور ان کا رابطہ تھا۔جوان سواریز کہتے ہیں کہ 'وہاں بہت سی اندھیری کوٹھریاں ہیں جہاں وہ آپ کو تشدد کے لیے لے کر جاتے ہیں۔ وہ آپ کو آواز بند رکھنے کو کہتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، آپ کے اوپر چڑھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں، کانوں پر گھونسے مارتے ہیں اور لاتیں بھی مارتے ہیں۔'جوان سواریز بے دخلی سے قبل ڈینور میں بطور پینٹر اور نیو یارک میں بطور ڈیلیوری مین کے کام کرتے تھے۔سیکوٹ سے رہائی پانے والے افراد کا کہنا ہے کہ اس جیل کی چھت میں ایک سوراخ ہے اور صرف وہی جیل کے کمروں کے لیے روشنی کا ذریعہ ہے۔’ان کی آنکھوں میں نہ دیکھیے گا‘: ایل سلواڈور کے بدنام زمانہ جیل میں صحافیوں نے کیا دیکھا؟الکتراز جیل: ماضی میں بدنامِ زمانہ گینگسٹرز کی آماجگاہ جسے صدر ٹرمپ نے دوبارہ کھولنے کا حکم دیا ہےانڈیا کی بدنام ’تہاڑ جیل‘ کے اُس قیدی کے اثر و رسوخ اور فرار کی کہانی جو ’سُپر آئی جی‘ کے نام سے معروف تھاایل انفیرنیٹو: وہ بدنام زمانہ جیل جہاں خطرناک قیدیوں سے مگرمچھ، مرغیاں اور ریفریجریٹرز تک برآمد ہوئے سیکوٹ میں ایسے جرائم پیشہ گروہوں کے افراد بھی قید ہیں جو برسوں سے ایل سیلواڈور کی سڑکوں کو کنٹرول کرتے تھے۔ ان میں سے متعدد افراد کو مارچ 2022 میں گرفتار کیا گیا تھا جب ملک میں ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ اس ایمرجنسی کے دوران قانونی عمل کو پورا نہیں کیا جاتا ہے۔بی بی سی منڈو سے گفتگو کرنے والے آٹھوں افراد کا کہنا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ انھیں ان کے جسم پر بنے ٹیٹوز کے سبب گرفتار کیا گیا تھا، جسے امریکی حکام نے آراگوا ٹرین کے نشان کے طور پر دیکھا۔مثال کے طور پر انینڈری ہرینیڈس کو ان کی کلائیوں پر موجود تاج کی طرح نظر آنے والے ٹیٹوز کے سبب جرائم پیشہ گروہ کا مبینہ رُکن قرار دیا گیا تھا۔Documento judicialاینڈری ہرنینڈس کے ہاتھوں پر موجود ٹیٹوزبی بی سی نے اس حوالے سے جب وائٹ ہاؤس سے سوالات کیے تو ترجمان ابیگیل جیکسن نے بتایا کہ 'ٹرمپ انتظامیہ صدر بکیلے کے ساتھ پارٹنرشپ کی قدر کرتی ہے جس کے تحت امریکی کمیونیٹیز سے غیر قانونی، پرتشدد اور جرائم پیشہ تارکین وطن کو ملک سے نکالا جا رہا ہے۔'جیل کی کوٹھریاںکنسٹرکشن کے شعبے سے منسلک تین بچوں کے باپ رنگو رنکون کہتے ہیں کہ جب انھِیں جیل کے کمرے میں لایا گیا تو ایک گارڈ نے انھیں کہا: 'آپ کو معلوم ہے یہاں کوئی وکیل نہیں ہے، نہ فون کال کی جا سکتی ہے اور نہ ججز ہیں۔'اس جیل سے رہائی پانے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہاں آمد کے بعد ان کا ان کے اہلخانہ اور وکلا سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔AFP via Getty Imagesسیکوٹ کے ایک کمرے کی تصویراینڈری ہرینیڈز سیکوٹ کے کمروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے دائیں اور بائیں جانب پانی کی دو ٹنکیاں نظر آتی ہیں۔''ان ٹنکیوں کے کناروں پر سیوریج کے پائپ موجود تھے اور ان کے ساتھ ہی دو بیت الخلا۔ ہمیں ایک سُرخ لوٹا مہیا کیا گیا تھا جو پانی پینے اور دیگر کاموں کے لیے کام آتا تھا۔'اس جیل میں رکھے گئے افراد کا کہنا ہے کہ وہ ان ٹنکیوں سے ہی پانی پیا کرتے تھے اور بیت الخلا میں دیواروں کی غیرموجودگی میں ان کی پرائیویسی کی بھی خلاف ورزی ہوتی تھی۔ولکن فلوریس کہتے ہیں کہ 'وہاں خوفناک بدبو آتی تھی، وہ ایک گٹر تھا۔'جبکہ آرتورو کہتے ہیں کہجیل کی کوٹھریوں میں 'ہوا کا گزر نہیں تھا، شدید گرمی تھی اور چھت پر پانچ لائٹیں بھی جلتی رہتی تھیں۔'قیدی ان کمروں میں سوتے کیسے تھے؟بی بی سی سے گفتگو کرنے والے آٹھوں افراد کا کہنا ہے کہ جیل کے ہر کمرے میں انھیں لوہے کے بنکس (بیڈز) پر سونا پڑتا تھا۔اینڈری ہرنینڈس کہتے ہیں کہ 'زیادہ تر ہم ٹین پر سوتے تھے، ٹین کی میزوں پر جہاں بچھانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔''ہم اپنے بیڈز پر ایسے حوصلہ افزا الفاظ لکھتے تھے جن کے سبب ہمیں سونے میں مدد ملتی تھی۔'AFP via Getty Imagesاینڈی پیروزو کہتے ہیں کہ سیکوٹ کے گارڈ انھیں سونے نہیں دیتے تھےاینڈی پیروزو کہتے ہیں کہ جیل میں ایک گارڈ روزانہ رات کو ان کی نیند خراب کرتا تھا۔'وہ دیواروں اور دروازوں کو بجایا کرتا تھا تاکہ ہم سو نہ سکیں۔ ہمارے لیے ہر لمحہ ایک ٹارچر تھا۔'BBCولکن فلوریس کی اپنی والدہ کے ہمراہ ایک تصویرسیکوٹ میں کھانے کا انتظامجیل میں وقت گزارنے والے افراد کا کہنا ہے کہ انھیں صبح سات بجے ناشتہ دیا جاتا تھا: ایک چاول کی پلیٹ، کالا لوبیا اور ٹورٹیلاز۔دوپہر میں انھیں: پاستہ، چاول اور ٹوٹیلا دیا جاتا تھا، جبکہ شام پانچ بجے انھیں ڈِنر میں چاول، لوبیا اور ٹورٹیلا دیا جاتا تھا۔ان افراد کا کہنا تھا کہ وہ چمچوں کی غیرموجودگی میں ہاتھوں سے کھانا کھایا کرتے تھے۔ایڈوار ہرنینڈس کہتے ہیں کہ 'اکثر لوبیا میں سے بدبو آ رہی ہوتی تھی۔ ہمیں ٹورٹیلا کھانے کی اجازت نہیں تھی اس لیے ہم اسے گٹر میں پھینک دیا کرتے تھے۔'لیکن جب جیل کے گارڈز کو اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے ہمیں سزا دینے کی دھمکی دی۔اینڈی پیروزو کہتے ہیں کہ 'گارڈز کے پاس آنسو گیس اور پیپر سپرے تھا۔ انھوں نے ہمیں کہا کہ اگر ہم نے کھانا نہیں کھایا تو وہ ان اشیا کا ہم پر استعمال کریں گے۔'AFP via Getty Imagesایڈوار ہرنینڈس اور ان کی والدہجیل میں گزرے دنوں کو یاد کر کے مارون یامرتے کہتے ہیں کہ 'وہاں نفسیاتی تشدد اتنا شدید تھا کہ ہم وہاں بات کرنے کے قابل بھی نہیں تھے۔'طبی سہولیات کی کمیبی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ان افراد نے کہا کہ سیکوٹ میں وہ طبی سہولیات طلب کر سکتے تھے لیکن انھوں نے واضح کیا کہ وہاں انھیں دوائیں میسر نہیں تھیں۔ جیل میں پر پیر کو انھیں ٹی بی سے بچاؤ کے لیے چھ سرخ اور تین سفید گولیاں دی جاتی تھیں۔ایڈوار ہرنینڈس کہتے ہیں کہ 'یہ گولیاں آپ کو گارڈز کے سامنے کھانی پڑتی تھیں۔ ان گولیوں سے پیشاب سُرخ ہوجاتا تھا۔'ایڈوار ہرنینڈس اور اینڈی پیروزو کہتے ہیں کہ ان دونوں کو ایک عرصے تک روزانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا تھا۔ایڈوار ہرنینڈس کہتے ہیں کہ 'گارڈز ایک کمرے میں ہمیں رکھتے تھے اور دوسرے کمرے میں ایک نرس کو۔''ہم پر تشدد کرنے کے بعد اس نرس کو بُلایا جاتا تھا اور وہ ہمارا علاج کرتی تھی۔'جوان سواریز کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ گارڈز نے ان پر پیپر سپرے بھی استعمال کیا تھا۔'ہمارے ایک ساتھی کو دمے کا مرض تھا، وہ اس سبب بے ہوش ہو گیا اور اس کے سر پر چوٹ بھی آئی۔''ہمارے تین ساتھی اسے میڈیکل ایریا میں لے کر گئے اور پھر ہم گارڈز کے خلاف ہو گئے۔'EPAجوان سواریز اپنی بیٹی کے ہمراہجوان سواریز کا کہنا ہے کہ انھوں نے صابن کے ٹکڑے اور پانی گارڈز پر پھینکے اور اس کے جواب میں قیدیوں پر دوبارہ تشدد کیا گیا۔اس کے بعد قیدیوں نے بھوک ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا۔جوان سواریز کہتے ہیں کہ 'ہمارے پاس سفید بیڈ شیٹ تھی۔ ہمارے ساتھی اس پر خون سے لکھتے تھے کہ: 'ہم تارکینِ وطن ہیں اور دہشتگرد نہیں ہیں۔ ہمیں وکیل چاہیے۔'ولکن فلوریس کہتے ہیں کہ وہ بھی ان قیدیوں میں سے ایک تھے جنھوں نے لوہے کے بیڈ کے ذریعے اپنے ہاتھوں اور پیروں پر زخم لگائے تھے۔'میرے جسم پر آٹھ زخم تھے اور ان میں سے تین زخم انگلی کے سائز سے بھی بڑے تھے۔ یہ زخم اب بھر چکے ہیں لیکن وہ اب بھی سُرخ ہیں۔'جیل میں بنائے گئے گانےگلوکار آرتورو سواریز کہتے ہیں کہ سیکوٹ میں موسیقی نے انھیں جینے کی امید دلائی۔'میں اور میرے ساتھی گلوکاری کا استعمال توجہ بانٹنے کے لیے کیا کرتے تھے۔'انھوں نے جیل کے گارڈز کے تشدد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ: 'وہ ہمارے ہاتھوں کو ہتھکڑیوں سے جکڑ دیتے تھے اور ہمارے سر پر وار کرتے تھے۔'آرتورو سواریز نے سیکوٹ میں ہی دو گانے بھی لکھے تھے۔گلوکار کہتے ہیں کہ تشدد کے بعد گارڈز انھیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتے تھے۔'اس تشدد کے بعد ڈاکٹر تمسخرانہ انداز میں پوچھتا تھا کہ: کس چیز سے تکلیف ہو رہی ہے؟'آرتورو نے اس گفتگو کے دوران یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کے ایک ساتھی پر جنسی تشدد بھی کیا گیا تھا۔وہ ساتھی اینڈری ہرنینڈس تھے۔ڈر کا ماحولگارڈز ہمیشہ اپنے چہروں پر ماسک پہنا کرتے تھے اور وہاں بہت اندھیرا ہوتا تھا۔ اینڈری ہرنینڈس کہتے ہیں کہ انھیں نہیں معلوم کہ ان پر جنسی تشدد کرنے والے چار گارڈز کون تھے۔'میں فخر سے کہتا ہوں کہ میں ہم جنس پرست کمیونٹی کا رُکن ہوں، لیکن جیل میں میں نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے اور مجھ پر جیل حکام نے جنسی تشدد کیا تھا۔'ان کا دعویٰ ہے کہ اس برتاؤ کی سیکوٹ انتظامیہ سے شکایت کرنے کی وہ ہمت نہیں کر سکتے تھے۔'میں ڈرا ہوا تھا کہ کہیں میرے ساتھ اس سے زیادہ کچھ بُرا نہیں ہو جائے اور اسی لیے میں نے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا۔''میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ ایسا دوبارہ میرے ساتھ نہیں ہوا۔ میرے ساتھیوں کے سبب میں اس مشکل وقت سے گزر سکا۔'AFP via Getty Imagesاینڈری ہرنینڈس کی رہائی کے بعد وینیزویلا میں لی گئی ایک تصویرجیل کے دورےبی بی سی منڈو سے گفتگو کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ امریکی سیاستدانوں اور ہلال احمر کے کارکنان کے سیکوٹ کے دوروں کے موقع پر انھیں کھانے میں گوشت اور صاف بیڈ شیٹس دی جاتی تھیں۔آرتورو سواریز کہتے ہیں کہ 'جیل میں صرف دو مرتبہ ہم سورج کی روشنی اپنے جسم پر محسوس س کر سکے، یہ دونوں موقع ہلال احمر کے کارکنان کے دوروں کے دوران آئے تھے۔'اینڈی پیروزو کہتے ہیں کہ 'اگر کوئی دورے پر آتا تھا تو ہمیں فٹ بال کھیلنے یا عبادت کرنے لے جایا جاتا تھا تاکہ تصویریں بنوائی جا سکیں۔'یہ افراد ہلالِ احمر کے شکر گزار نظر آتے ہیں۔رنگو رنکون کہتے ہیں کہ 'ان کے ساتھ ہماری گفتگو گارڈز کی موجودگی میں ہی ہوتی تھی لیکن پھر بھی ہم انھیں اپنا پیغام دے دیتے تھے۔'ہلالِ احمر نے بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ اس کے کارکنان نے دو مرتبہ سیکوٹ کا دورہ کیا تھا۔ہلال احمر کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ 'ہم ان افراد کے خاندانوں کو ان کی جیل میں موجودگی کے حوالے سے اطلاع دینے میں کامیاب ہوئے تھے۔'تاہم انھوں نے واضح کیا کہ وہ وہاں موجود قیدیوں کی حالت کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں دے سکتے۔'ہم نے اپنے تحفظات، سفارشات اور تشویش سے حکام کو آگاہ کر دیا تھا۔'Getty Imagesامریکی سیکریٹری برائے ہوم لینڈ سکیورٹی کرسٹی نوئم بھی رواں برس اس جیل کا دورہ کر چکی ہیںامریکی سیکریٹری برائے ہوم لینڈ سکیورٹی کرسٹی نوئم بھی رواں برس اس جیل کا دورہ کر چکی ہیں اور اس موقع پر ان کے ساتھ ایل سیلواڈور کے وزیر برائے انصاف بھی تھے۔آرتورو سواریز کہتے ہیں کہ اپنی آمد کے موقع پر کرسٹی نوئم کوئی بھی ویڈیو نہیں بنا سکیں کیونکہ وہاں موجود تمام قیدی اشاروں کی زبان میں اپنی پریشانیوں کا اظہار کر رہے تھے۔'ہم نے انھیں پروپیگنڈا نہیں کرنے دیا کیونکہ ہم کیمروں کے ذریعے مدد مانگ رہے تھے اور آزادی کے لیے چیخ رہے تھے۔'تاہم سیکوٹ میں ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو میں امریکی عہدیدار نے صدر نجیب بکیلے کی حکومت کا 'دہشتگردوں' کو جیل میں قید کرنے پر شکریہ ادا کیا تھا۔اس پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ 'اگر آپ ہمارے ملک میں غیرقانونی طریقے سے آئیں گے تو آپ کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔'’ذہنی طور پر ہم اب بھی سیکوٹ میں ہیں‘آٹھ افراد جن سے اس رپورٹ کے لیے بات کی گئی وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ انھیں اس وقت تک یقین نہیں آیا کہ واقعی انھیں واپس وینیزویلا بھیجا جا رہا ہے جب تک وہ 18 جولائی جمعے کے روز اُس بس میں سوار نہیں ہوئے جو انھیں طیارے تک لے جا رہی تھی۔ اور تب ہی انھوں نے صدر نکولس مادورو کی حکومت کے اہلکاروں کی وینیزویلا کے لہجے میں آوازیں سنیں۔ولکن فلوریس یاد کرتے ہیں 'یہ ایک ناقابلِ یقین لمحہ تھا۔ ہم سب کی آنکھوں میں آنسو تھے، ایک دوسرے کے چہروں کو دیکھ رہے تھے اور بس میں ایک دوسرے کو گلے لگا رہے تھے۔ یہ خوشی لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔'Getty Imagesسیکوٹ جیل کا ایک منظرآرتورو سواریز جب وینیزویلا پہنچے تو ان کے گھر والوں نے فوراً انھیں نئے چشمے لے دیے۔ وہ بتاتے ہیں: 'میں چار مہینے تک ٹھیک سے دیکھ نہیں پایا، میں پڑھ بھی نہیں سکتا تھا۔'اینڈری ہرنانڈیز نہ صرف اپنے اہلِ خانہ سے ملے بلکہ اپنے شہر کاپاچو کے اُن سب لوگوں سے بھی جنھوں نے ان کی امریکی حراست کے خلاف آواز اٹھائی اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔سی کوٹ جیل سے رہائی پانے والے وینیزویلا کے یہ شہری کہتے ہیں کہ ان کا دوبارہ ہجرت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ اب وہ صرف اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔اب آرتورو سواریز اور اینڈری ہرنانڈیز نے ایک نیا منصوبہ بنایا ہے: وہ ایک دستاویزی فلم بنائیں گے جس کا عنوان ہوگا 'ماڈیول ایٹ، سلاخوں کے پیچھے کی تخلیق' تاکہ ایلسلواڈور میں ان پر جو بیتی وہ دنیا کے سامنے لا سکیں۔Cortesía de Andry Hernándezاینڈری ہرنینڈس اپنے والدین کے ہمراہہرنانڈیز ایک فاؤنڈیشن قائم کرنے کا بھی سوچ رہے ہیں تاکہ بے گھر افراد اور ایسے لوگوں کی مدد کی جا سکے جنھیں طبی امداد کی ضرورت ہو۔یہ سب ان کے لیے اس صدمے پر قابو پانے کا ایک طریقہ ہے جسے وہ اب تک محسوس کرتے ہیں۔ہرنانڈیز کہتے ہیں: 'چابیوں کی کھنک اب بھی مجھے خوفزدہ کر دیتی ہے۔ کیا وہ مجھے لینے آ رہے ہیں؟ کیا وہ سیل کھولنے والے ہیں؟ کیا مجھے پھر سزا ملے گی؟'وہ کہتے ہیں 'جسمانی طور پر ہم آزاد ہیں لیکن ذہنی طور پر ہم اب بھی سی کوٹ میں قید ہیں۔ ہمارے ذہن اب بھی انھی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں۔'ایل انفیرنیٹو: وہ بدنام زمانہ جیل جہاں خطرناک قیدیوں سے مگرمچھ، مرغیاں اور ریفریجریٹرز تک برآمد ہوئے ’ان کی آنکھوں میں نہ دیکھیے گا‘: ایل سلواڈور کے بدنام زمانہ جیل میں صحافیوں نے کیا دیکھا؟الکتراز جیل: ماضی میں بدنامِ زمانہ گینگسٹرز کی آماجگاہ جسے صدر ٹرمپ نے دوبارہ کھولنے کا حکم دیا ہےایل انفیرنیٹو: وہ بدنام زمانہ جیل جہاں خطرناک قیدیوں سے مگرمچھ، مرغیاں اور ریفریجریٹرز تک برآمد ہوئے 50 برس سے برطانوی جیل میں قید بدنام زمانہ مجرم چارلس برونسن کون ہے؟50 برس سے برطانوی جیل میں قید بدنام زمانہ مجرم چارلس برونسن کون ہے؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

ممکنہ ایٹمی جنگ سمیت چھ ماہ میں چھ جنگوں کا تصفیہ کرایا، تنقید کی پرواہ کیے بغیر روس۔یوکرین تنازع حل کراؤں گا: ٹرمپ

’زندہ انسانوں کا قبرستان‘: ٹرمپ دور میں بے دخل کیے گئے افراد پر ایل سلواڈور کی بدنام زمانہ جیل میں کیا گزری؟

پاکستان کے بڑے کاروباری گروپس میں فوجی فاؤنڈیشن سرِفہرست: آخر ان کمپنیوں کی ترقی کا راز کیا ہے؟

بلوچستان میں دہشت گردی کا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا، لیکچرار گرفتار، وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی

سانگھڑ میں صحافی کی موت اور لاش کا دوبارہ پوسٹ مارٹم : خاور حسین کے ’موبائل کی سِم آخری وقت تک استعمال میں تھی‘

بیٹا دلیر تھا خودکشی نہیں کرسکتا۔۔ صحافی خاور حسین کی نمازِ جنازہ کب ہوگی؟

حکومت بلوچستان کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان روانہ

ہفتے میں تین چھٹیاں صحت کے لیے فائدہ مند، پھر دنیا چار دن کا ورک ویک کیوں نہیں اپنا رہی؟

خیبر پختونخوا میں سیلاب کی تباہی، بین الاقوامی برادری سے فوری امداد کی اپیل

خیبرپختونخوا میں بارشوں اور سیلاب سے اموات کی تعداد 385 تک پہنچ گئی

ملک بھر میں مون سون کی شدت میں اضافہ، اربن فلڈنگ کا خطرہ

یوکرین کے کریمیا واپس حاصل کرنے اور نیٹو میں شمولیت کا امکان نہیں: ڈونلڈ ٹرمپ

عرفان پٹھان کا متنازع انٹرویو اور شاہد آفریدی پر حاوی ہونے کا دعویٰ: ’لالہ کبھی پیچھے نہیں ہٹا‘

لاہور میں متنازع ’ٹرانس جینڈر ڈانس پارٹی‘ پر درج مقدمہ خارج: ’جائزہ لے رہے ہیں ایونٹ کا ایجنڈا کیا تھا‘

’آپ زمین پر نہیں، کسی کے گھر پر کھڑے ہیں‘: بونیر کا وہ گاؤں جہاں ’ہر پتھر کے نیچے کسی کا مکان دبا ہے‘

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی