
BBCیوکرینی بندرگاہ پر پھنسے جہاز کے عملے میں شامل ایک انڈین شہری کی تصویرجنوری 2025 کی ایک شام کو کیپٹن امیتابھ چودھری عراق سے متحدہ عرب امارات جانے والے ایک بحری کارگوجہاز کی قیادت کر رہے تھے جب خراب موسم کی وجہ سے انھیں اپنا راستہ معمولی سا بدلنا پڑا۔چند ہی لمحوں میں تنزانیہ کے پرچم کے سائے میں چلنے والا ایم ٹی سٹریٹوس نامی ان کا بحری جہاز سعودی عرب کے قریب زیرِ سمندر موجود چٹانوں سے ٹکرا کر گیا، جس سے اس کے تیل سے بھرے ٹینک کو نقصان پہنچا اور اس کے بعد یہ جہاز مہینوں تک وہیں پھنسا رہا۔جہاز کے عملے میں نو انڈین اور ایک عراقی باشندہ تھا۔ انھوں نے کئی بار اسے دوبارہ چلانے کے قابل بنانے کی کوشش کی لیکن ہر بار ناکام رہے۔جہاز سے تیل کو اتارا گیا اور اسے دوسرے جہازوں کی مدد سےکھینچ کر باہر نکالنے کی بھی کوشش کی گئی لیکن اس میں بھی ناکامی ہوئی۔جہاز تقریباً چھ ماہ تک وہیں کھلے سمندر میں پھنسا رہا اور کیپٹن چودھری کے مطابق عملے کو جہاز کے عراقی مالک نے نقصانات کا حوالہ دے کر تنخواہیں دینے سے انکار کر دیا۔بی بی سی نے جہاز کے مالک سے اس معاملے پر گفتگو کرنےکے لیے رابطہ کیا لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔سنہ 2024 میں کتنے انڈین افراد کو سمندر میں تنہائی کاٹنی پڑی؟سنہ 2006 کی میری ٹائم لیبر کنونشن کے مطابق اس طرح کی صورتحال جس میں جہاز کا مالک عملے سے تعلق ختم کر دیتا ہے اور انھیں باقاعدہ راشن و اجرت فراہم نہیں کرتا اسے 'ابینڈنمینٹ' یعنی تنہا چھوڑ دینا کہتے ہیں۔انڈیا جہاز رانی کے شعبے میں عملے کی بھرتی کے لیے ایک مقبول ملک ہے، سنہ 2023میں انڈیا سے تعلق رکھنے والے 2 لاکھ 80 ہزار فعال بحریہ افسر اور عملے کے ارکان اس صنعت میں کام کر رہے تھے جو کہ عالمی سطح پر دوسرا سب سے بڑا نمبر ہے۔لیکن اتنی بڑی تعداد کا مطلب یہ بھی ہے کہ انڈیا سمندر میں تنہا چھوڑ دیے جانے والے بحریہ افسروں اور عملے کے اعداد و شمار کی فہرست میں بھی نمایاں ہے۔ سنہ 2024 میں 899 انڈین افراد کو سمندر میں تنہائی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔لندن میں مقیم انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ ورکرز فیڈریشن (آئی ٹی ایف) کے مطابق سنہ 2024میں مختلف مالکان نے 312 جہازوں پر 3 ہزار133 سی فیرز کو سمندر میں بے یارومددگار چھوڑ دیا تھا۔BBCانڈین جہاز نروانا’فلیگ آف کنوینیئنس‘ جو کئی مسائل کی وجہ ہےشپنگ انڈسٹری میں کام کرنے والے چودھری جیسے بحری افسران اور عملے کے ارکان مہینوں گھر سے دُور رہتے ہیں لیکن جب یہ انتظار مزید طویل ہو جائے توسمندر کی غیر یقینی صورت حال ان کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیتی ہے۔چودھری بتاتے ہیں کہ 'قرض کی ادائیگی نہ کر پانے کی وجہ سے ان کے جہاز کے عملے کے ایک رکن نے خودکشی کی کوشش کی، ایک شخص جہاز کو باہر نکالنے کی کوششن میں اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھا اور ایک کو تیراکی کے دوران جیلی فِش نے ڈس لیا۔'واضح رہے کہ بین الاقوامی سمندری قوانین جہاز کے مالکان کو اپنے جہاز کو اپنے ملک کے علاوہ دیگر ممالک رجسٹر کروانے کی یا کسی دوسرے ملک کا پرچم لگانے کی اجازت دیتے ہیں۔آئی ایف ٹی کے مطابق جہاز کے عملے کو ترک کرنے کی سب سے بڑی وجہ 'فلیگ آف کنوینیئنس' کا طریقہ کار ہے جس کے تحت مالکان ایسے ملک میں جہاز کو رجسٹر کرواتے ہیں جہاں متعلقہ قائدے قانون کمزور ہیں۔یہ پالیسی ان ممالک کو، جہاں کی شپنگ صنعت کمزور ہے، غیر ملکی جہازوں کو رجسٹر کرنے اور آمدنی حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے، جو کئی دفعہ عملے کی فلاح پر منفی اثر ڈالتا ہے۔اس گروپ کا کہنا ہے کہ یہ نظام اصل مالک کی شناخت کو بھی پوشیدہ رکھتا ہے، جس سے مشکوک مالکان کو جہاز چلانے میں مدد ملتی ہے۔ترکی میں آئی ٹی ایفکے انسپیکٹر کینان دنچ وضاحت کرتے ہیں کہ مالکان قوانین سے بچنے کے لیے 'فلیگ آف کنوینیئنس' والے ممالک کا انتخاب کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ 'وہیں اگر جہاز کا مالک کسی ذمہ دار ملک کا پرچم چنتا ہے تو وہاں کی بحریہ اور انتظامیہ یہ نظر رکھتی ہے کہ عملے کو کوئی مسئلہ تو نہیں ہے'۔سنہ 2024میں 90 فیصد 'ترک' کیے گئے جہاز 'فلیگ آف کنوینیئنس' ممالک کے تحت رجسٹر تھے۔شپنگ جیسی عالمی نوعیت کی انڈسٹری میں جہاز کا مالک، مینجمنٹ، پرچم اور عملہ سب الگ الگ ممالک سے ہو سکتے ہیں۔ لیکن کسی بھی پریشانی کی صورت میں یہ نظام تعاون کو مشکل بھی بناتا دیتا ہے۔چاند کے بعد انڈیا کی توجہ اب سمندر پر، گہرے پانیوں کی یہ دوڑ اتنی اہم کیوں ہے؟’ناتجربہ کار‘ ملاح: وہ شخص جو سمندر کی تہہ میں غرقاب جہاز سے 60 گھنٹے بعد زندہ نکال لیا گیاسمندر کی تہہ میں موجود ’انسانی تاریخ کے سب سے بڑے خزانے‘ کی ملکیت کی جنگوہ بحری سفر جس نے جدید سمندری تحقیق کو جنم دیاجہاز چھوڑنے کا مطلب تنخواہ نہیں ملے گیمانس کمار جو اپریل سے یوکرین میں ایک ترک شدہ جہاز پر مدد کے منتظر ہیں، اس صورتحال کی تصدیق کرتے ہیں۔کمار کے جہاز کے عملے میں پانچ انڈین، دو آذربائیجانی اور چھ مصری افراد شامل ہیں۔ اس 18 اپریل کو یوکرینی حکام نے روکا تھا جب وہ ترکی جا رہا تھا۔ان کا یہ جہاز اس وقت ترکی کی ایک کمپنی کی نگرانی میں اور تنزانیہ کے پرچم تلے مکئی لے کر یوکرین اور مالدووا کو جدا کرنے والے دریائے ڈینیوب سے گزر رہا تھا۔یوکرین نے ایک اعلامیے میں کہا کہ 'یہ جہاز روس کے 'شیڈو فلیٹ' کا حصہ تھا، جسے وہ یوکرین سے لوٹا ہوا اناج دوسرے ممالک کو بیچنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔'جہاز کے مالک نے اس مسئلے پر بات کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ جب کہ کمار جو جہاز کے چیف آفیسر ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب انھیں اس جہاز پر ملازمت ملی اس وقت وہ اس کے ماضی سے لاعلم تھے۔کمار کہتے ہیں کہ 'جہاز کے مالک اور انڈین شپنگ حکام نے ہر بار'ایک دن اور، بس ایک دن اور' کا وعدہ کرتے کرتے کرتے تین ماہ نکال دیے۔'جہاز اب بھی ایک یوکرینی بندرگاہ کے قریب لنگر انداز ہے۔ جب کہ یوکرینی حکام اسے نیلام کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔کمار کے مطابق جہاز کو روکتے وقت یوکرینی حکام نے عملے کو بتایا تھا کہ چونکہ صرف جہاز تحقیقات کے دائرے میں ہے اور اس کا عملہ نہیں، اس لیے وہ چاہیں تو جہاز چھوڑ سکتے ہیں۔لیکن جہاز چھوڑنے کا مطلب یہ تھا کہ عملے کو تنخواہیں نہیں ملتیں جو انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کے مطابق جون تک 102,828 ڈالر ہو چکی تھی۔انھوں نے کہا کہ 'یہ جنگی علاقہ ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی یہاں نہیں رہنا چاہتا۔ ہم سب گھر واپس جانا چاہتے ہیں'۔BBCنروانا کا عملہ جہاز کے اندر کھانا تیار کرتے ہوئے’ہم نے کئی دن صرف چاول یا آلو کھایا‘بحری افسران اور ان کے عملے کے ارکان اکثر ملازمتیں دلوانے والی ان کمپنیوں کو قصوروار ٹھہراتے ہیں، جو انڈین حکومت کے منظور شدہ بھرتی کے نظام کا حصہ ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ انڈین 'ڈائریکٹوریٹ جنرل آف شپنگ' کو ان جہازوں اور ان کے مالکان کی اچھی طرح جانچ کرنی چاہیے۔ڈائریکٹوریٹ جنرل آف شپنگ نے بی بی سی کے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ایسی ہی صورتحال کا سامنا اکثر انڈین جہازوں کے عملے کو بھی کرنا پڑتا ہے۔کپتان پربجیت سنگھ 22رکنی انڈین عملے کے ساتھ نروانا نامی جہاز پر تعینات تھے۔ یہ جہاز انڈیا کی ملکیت تھا اور کیوراساؤ کے پرچم تلے تیل لے کر جا رہا تھا۔ اسے حال ہی میں ایک نئے مالک کو بیچا گیا تھا، جو اسے توڑنا چاہتا تھا۔اپریل کے آخر میں پربجیت سنگھ جہاز کو توڑنے کے لیے انڈیا کی ریاست گجرات کی ایک بندرگاہ کی طرف لے جا رہے تھے، جب ایک مقامی عدالت نے پرانے اور نئے مالک کے درمیان عملے کی بقایہ تنخواہ کی ادائیگی کے تنازعے پر جہاز کوتحویل میں لینے کا حکم دے دیا۔اس کے چند روز کے بعد پربجیت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو معلوم ہوا کہ انھیں جہاز سمیت سمندر میں ترک کر دیا گیا ہے۔سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ 'ہمارے پاس مناسب خوراک اور سامان نہیں تھا۔ جہاز کا ڈیزل ختم ہو چکا تھا اور ہم مکمل تاریکی میں تھے۔ ہم کھانا بنانے کے لیے جہاز کی لکڑی توڑ کر جلا رہے تھے'۔اکتوبر 2024 میں بھرتی ہونے والے پربجیت سنگھ چند مہینوں میں پیسہ کما کر گھر لوٹنے کے لیے پر امید تھے۔ سنگھ کے مطابق عملہ مارچ 2025 سے واجب الادا تنخواہ کے بغیر 7 جولائی کو ایک عدالتی حکم کے بعد جہاز سے اتر گیا۔سنگھ کے جہاز سے ہزاروں میل دور پھنسے چودھری کے عملے کو خوف تھا کہ جہاز ٹینک میں سوراخ ہونے کی وجہ سے کہیں ڈوب نہ جائے۔Getty Imagesکپتان پربجیت سنگھ 22رکنی انڈین عملے کے ساتھ نروانا نامی جہاز پر تعینات تھےچودھری کہتے ہیں کہ ’مگر اس سے بھی زیادہ بڑا خطرہ بھوک تھی، کیونکہ مالک نے سامان کی فراہمی بند کر دی تھی۔‘انھوں بتایا کہ ’ہم نے کئی دن صرف چاول یا آلو کھایا۔‘تقریباً چھ ماہ تک سمندر میں پھنسے رہنے کے بعد عملے نے ایک بار پھر جہاز کو چلانے کی کوشش کی۔قسمت سے وہ اس بار جہاز کو چلانے میں کامیاب رہے لیکن کیوں کہ ’ریڈار‘، جو کہ جہاز کو صحیح رخ میں لے جاتا ہے، تباہ ہو چکا تھا، وہ مزید سفر کے قابل نہیں تھے۔30 مئی کو آخر کار اسے کھینچ کر اس کی طے شدہ منزل متحدہ عرب امارات کے بجائے سعودی عرب کے قریب جبیل بندرگاہ تک لے جایا گیا۔اس کا عملہ اب بھی اسی جہاز میں پھنسا ہوا ہے اور نومبر سے اپنی زیر التوا تنخواہوں کا منتظر ہے۔چودھری بتاتے ہیں کہ 'جہاز کا مالک کہتا ہے کہ وہ تنخواہ تبھی دے سکتا ہے جب جہاز دوبارہ سفر کرے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ نقصان اتنا زیادہ ہوا ہے کہ وہ اس پیسے سے ایک نیا جہاز خرید لیتا۔'چودھری اور ان کے ساتھی مختلف دروازوں پر مدد کے لیے دستک دے رہے ہیں اور پھر سے پانی میں گھرے ہوئے اچھی خبر کے منتظر ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے دنیا بھر میں ترک کیے گئے سینکڑوں دیگر افراد مدد کے انتظار میں ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ 'ہم اب بھی اسی حالت میں ایک ہی جگہ پر ہیں۔ دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے، سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ہمیں اور کیا کرنا چاہیے۔'وہ پوچھتے ہیں کہ کیا انھیں کچھ مدد مل سکتی ہے؟'ہم صرف گھر جانا چاہتے ہیں اور اپنے عزیروں سے ملنا چاہتے ہیں'۔نوٹ: کچھ افراد کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ان کے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔وہ بحری سفر جس نے جدید سمندری تحقیق کو جنم دیاچاند کے بعد انڈیا کی توجہ اب سمندر پر، گہرے پانیوں کی یہ دوڑ اتنی اہم کیوں ہے؟’ناتجربہ کار‘ ملاح: وہ شخص جو سمندر کی تہہ میں غرقاب جہاز سے 60 گھنٹے بعد زندہ نکال لیا گیاسمندر کی تہہ میں موجود ’انسانی تاریخ کے سب سے بڑے خزانے‘ کی ملکیت کی جنگ