درگاہ حضرت نظام الدین: گلاب اور عود سے مہکتا صوفی مزار جو دلی کو روحانی سکون دیتا ہے


Getty Imagesدرگاہ حضرت نظام الدین تمام مذاہب کے لیے عقیدت اور احترام کی جگہ سمجھی جاتی ہےدلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخابرہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کےاردو کے معروف شاعر میر تقی میر سے منسوب یہ شعر دہلی کے ایک بار اجڑنے کا نوحہ ہے لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تاریخ کی پروفیسر رحما جاوید راشد کا کہنا ہے کہ دلی کے اجڑنے اور بسنے کے درمیان ایک چیز جو قائم و دائم رہی وہ یہاں کے صوفیا کی آواز تھی اور دلی کے تاریک ترین لمحوں میں بھی ان کی خانقاہوں کے چراغ روشن رہے اور سماع کی محفلیں سجتی رہیں۔دلی کو '22 خواجگان کی چوکھٹ' بھی کہا جاتا ہے جن میں سب سے مقبول و معروف نام خواجہ حضرت نظام الدین اولیا کا ہے جنھیں 'محبوب الہی' اور 'سلطان المشائخ' کے القاب سے بھی جانا جاتا ہے۔اگر آج کے اعتبار سے دیکھا جائے تو چودھویں صدی میں قائم ہونے والی ان کی درگاہ دہلی کے قلب میں واقع ہے جہاں جدید زندگی کی ہلچل کے درمیان قدیم یادوں کی گونج سنائی دیتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ جگہ وقت کی گرفت سے آزاد ہے۔آپ حضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ ساؤتھ دلی میں مغل بادشاہ ہمایوں کے عالیشان مقبرے کے مغرب سے گزرنے والی شاہراہ سے نکلنے والی عطر بیز گلاب کی خوشبو اور عود کی مہک سے معطر تنگ گلیوں سے گزر کر پہنچ سکتے ہیں۔یہ صوفی مزار آج بھی دلی شہر کو ایک روحانی سکون دیتا ہے جہاں عہد وسطی کا ہندوستان اور جدید انڈیا ایک دوسرے سے گلے ملتے نظر آتے ہیں۔'ساؤتھ ایشین اسلام: اے سپیکٹرم آف انٹیگریشن اینڈ انڈیجنائزیشن'یعنی 'جنوبی اشیائی اسلام: ہم آہنگی اور دیسی پن' میں چشتی صوفی سلسلے پر اپنے ایک مضمون میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد معین احمد نظامی لکھتے ہیں کہ نظام الدین اولیا بدایوں (موجودہ اترپردیش) میں پیدا ہوئے لیکن انھوں نے اپنی ساری زندگی دہلی سے کام کرتے ہوئے گزاری۔انھوں نے بدایوں میں علا الدین اصولی اور دہلی میں کامل الدین زاہد جیسے سکالروں سے تعلیم حاصل کی اور ایک ماہر عالم دین کے طور پر ابھرے۔Getty Imagesدرگاہ حضرت نظام کی ایک پرانی تصویرچشتی سلسلے کے صوفی سے ملاقات اور خلافتمعین احمد نظامی بتاتے ہیں کہ جب وہ 18 سال کے ہوئے تو انھوں نے صوفی درویش فریدالدین شکرگنج (جنھیں عرف عام میں بابا فرید کہا جاتا ہے اور ان کے اقوال سے سکھ مذہب سجا ہوا ہے) سے ملنے کے لیے اجودھن (اب پاکستان میں موجود پاک پتن) کا سفر کیا۔اس کے بعد انھوں نے بابا فرید کی زندگی میں رمضان کے مہینے میں دو بار مزید وہاں کا دورہ کیا۔معین احمد کے مطابق آخری ملاقات کے دوران ان کے شیخ بابا فرید نے انھیں خلافت دیتے ہوئے کہا کہ 'لو، میں نے تمہیں دونوں جہان عطا کیا۔ جاؤ، اور ہندوستان کی سلطنت سنبھالو' اور تاریخ بتاتی ہے کہ انھیں ہندوستان کے صوفی سلسلے میں آج بھی کسی بادشاہ کی حیثیت حاصل ہے اور شاید اسی وجہ سے انھیں 'سلطان المشائخ' کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔انھوں نے دہلی میں کئی جگہ قیام کیا لیکن پھر اخیر میں غیاث پور (اس وقت کی دلی کے مضافات میں ایک چھوٹے سے گاؤں) میں اپنی خانقاہ قائم کی اور اپنی باقی زندگی وہیں گزاری۔ یہ جگہ اب بستی حضرت نظام الدین کے نام سے شہرت رکھتی ہے اور اسی نام سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر حضرت نظام الدین ریلوے سٹیشن بھی ہے۔ان کی مقبولیت ان کے وقت کے معروف تاریخ نویس ضیا الدین برنی (متوفی 1357) سے بھی چھپی نہیں رہی اور انھوں نے مذہب، ذات اور پیشے سے قطع نظر حضرت نظام الدین کی لوگوں میں بڑھتی ہوئی قبولیت کو ریکارڈ کیا ہے۔آکسفورڈ اسلامک سینٹر کے فیلو معین احمد بتاتے ہیں کہ ان کے شاگردوں نے چشتیوں کو علاقائی سے بین علاقائی شہرت تک پہنچایا کیونکہ چشتی خانقاہ ان کے زمانے میں ہی دہلی کے ساتھ مالوا، گجرات، دکن اور بنگال میں پھیل گئی تھی۔مفتی الہی بخش اکیڈمی کے سربراہ اور مورخ نور الحسن راشد کاندھلوی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'نظام الدین اولیا کی مقبولیت میں ان کے شاگردوں کا زبردست کردار رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے تمام خلفا اپنے اپنے زمانے کے ماہر عالم دین اور زاہد ثابت ہوئے جن میں نصیرالدین چراغ دہلی سے لے کر بندہ نواز گیسو دراز (جن کی درگاہ گلبرگہ میں ہے) وغیرہ شامل ہیں۔خلافت سے الگ ان کے سب سے مشہور مرید اپنے زمانے کے معروف شاعر امیر خسرو دہلوی تھے جنھوں نے نہ صرف ان کی تعلیمات کو شاعری اور موسیقی کے ذریعے دنیا بھر میں پہنچایا بلکہ خوش گلو افراد کی ایک ایسی کھیپ تیار کی جس نے فنِ قوالی کو بامِ عروج عطا کیا اور ملک کے گوشے گوشے میں پھیلایا۔حضرت نظام الدین کی درگاہ آج بھی محبت، رواداری اور ہم آہنگی کی علامت ہے اور وہاں آج بھی صوفیانہ کلام مختلف قوالوں کی آواز میں گونجتے ہیں۔Getty Imagesنظام الدین اولیا کے مزار کا ایک منظرحکومت سے دوریمولانا راشد نے بتایا کہ اپنے چشتی پیشوا معین الدین چشتی، بختیار کاکی اور بابا فرید گنج شکر کی طرح نظام الدین اولیا نے بھی حکمران اشرافیہ کے ساتھ رفاقت سے گریز کیا اور اپنے خلفا کو بھی ایسا کرنے کی ہدایت کی۔ تاہم ان کی محفلوں میں امرائے دربار شامل رہا کرتے تھے۔ڈاکٹر رحما جاوید نے بتایا کہ حضرت نظام الدین کی بظاہر دربار سے دوری بھی تھی اور دربار سے قرب بھی نظر آتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دلی میں ان صوفیوں کی مقبولیت بادشاہ وقت کے اختیار کو چیلنج کر رہی تھی اور کوئی بادشاہ یہ نہیں چاہے گا کہ ایک ہی شہر میں ان کو چیلنج کرنے والی کوئی شخصیت ہو جو ان سے بھی زیادہ مقبول ہو اس لیے ان کے درمیان اختلاف واضح نظر آتا ہے۔حکومت اور کارِ سلطنت سے دوری کی ایک مثال بار بار نقل کی گئی ہے کہ نظام الدین اولیا کے ایک خلیفہ نظام الدین کاشانی (1319) نے جب اودھ کے قاضی (جج) کے طور پر خدمات انجام دینے کی خواہش ظاہر کی تو ان کی خلافت کو ایک سال کے لیے روک دیا گیا۔معین احمد بتاتے ہیں اس واقعے سے 'ایسا لگتا ہے کہ سرکاری عہدوں پر آنے کی پابندی صرف اعلیٰ روحانی صلاحیتوں کے حامل افراد اور صوفی سلسلے کی وراثت کو آگے بڑھانے والوں پر عائد کی گئی تھی۔ ان سب کے باوجو نظام الدین اولیا کے بادشاہ سلطان علا الدین خلجی (1316-1296) کے ساتھ تعلقات آرام دہ تھے، کیونکہ سلطان مشکل حالات میں ان سے مراعات حاصل کیا کرتے تھے۔جبکہ رحما جاوید بتاتی ہیں کہ قطب الدین بختیار کاکی کے دلی آنے کے کچھ ہی دنوں بعد سلطان التمش نے انھیں 'شیخ الاسلام' کا عہدہ دینے کی پیشکش کی تھی۔ یہ عہدہ بہت بڑا تھا لیکن کسی صوفی کے لیے سلطان کی ملازمت نامناسب تھی اور انھوں نے یہ عہدہ ٹھکرا دیا۔'ان کا کہنا ہے کہ چشتی صوفیا سلطانوں کے ساتھ اچھے رشتے رکھنا چاہتے تھے لیکن ان کی ملازمت اختیار کرنا عوام میں ان کی مقبولیت کو کم کر سکتا تھا اور شاید اسی لیے انھوں نے سلطنت سے دوری بنائے رکھی۔'Getty Imagesمغل دور کی سلطان غیاث الدین تغلق کے دربار کی خیالی تصویر کشی’ہنوز دلی دور است‘بادشاہ غیاث الدین تغلق (دور حکومت 1325-1320) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت نظام الدین کے مخالف ہو گئے تھے یہاں تک کہ انھوں نے مہینے کی آخری تاریخ کو تمام علما، مشائخ اور صوفیا کو اپنے دربار میں حاضری کا حکم دے دیا تھا لیکن حضرت نظام الدین ان کے دربار میں حاضر نہ ہوئے۔مولانا راشد کاندھلوی بتاتے ہیں بادشاہ بنگال پر لشکر کشی کے لیے نکلا تھا اور وہاں کامیابی حاصل کرنے کے بعد انھوں نے وہاں سے حضرت نظام الدین کے لیے فرمان روانہ کیا جس میں ان سے دلّی کو خالی کرنے کا حکم دیا گیا تھا جس کے جواب میں حضرت نظام الدین نے اپنے گھبرائے ہوئے مریدوں سے کہا 'ہنوز دلی دور است' یعنی ابھی دلی دور ہے۔بادشاہ جیسے جیسے دلی کے قریب آ رہا تھا خانقاہ میں گھبراہٹ بڑھتی جا رہی تھی لیکن حضرت نظام الدین کے اطیمنان میں کوئی فرق نہیں تھا اور وہ بس ایک ہی جواب دیتے 'ہنوز دلی دور است'۔مصنفہ آمنہ مفتی اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں کہ 'بادشاہ افغان پورہ پہنچ گیا جو دہلی سے تین کوس کی مسافت پہ ہے۔ یہاں ولی عہد نے اپنے باپ کے لیے ایک بے حد عالی شان چوبی محل بنوایا تھا۔ بادشاہ اسے دیکھنے میں مصروف تھا۔ ادھر لوگوں نے نظام الدین اولیا کے پاس غل مچایا کہ اب تو بادشاہ سر پہ آ پہنچا ہے اور کوئی دم میں دہلی میں داخل ہونے والا ہے۔ آ پ نے اسی اطمینان سے فرمایا، 'ہنوز دلی دور است'۔'عین اسی لمحے وہ عالی شان محل، اپنے سب تام جھام سمیت اڑا اڑا دھم بادشاہ کے سر پہ آ ن گرا۔ بادشاہ کبھی دہلی نہ پہنچ سکا۔ نظام الدین اولیا کا مزار آ ج بھی مرجع خلائق ہے۔'ہندوستانی خواتین کے حُسن کے معترف امیر خسرو جنھوں نے ’مسلمانوں میں بسنت کے تہوار کی بنیاد‘ ڈالی’غریب نواز‘: دریا جیسی سخاوت اور زمین جیسی مہمان نوازی کا درس دینے والے معین الدین چشتی جن کی درگاہ پر کوئی بھوکا نہیں سوتاقطب الدین بختیار کاکی: انڈیا میں قوالی متعارف کرانے والے بزرگ، جن کے مزار پر بادشاہوں سے عام افراد تک اپنی مرادیں لے کر آتے ہیںدرگاہ اجمیر شریف: ایک ’غریب نواز‘ کی آخری آرام گاہ جہاں دنیا بھر سے رہنما چادر چڑھانے آتے ہیںمعروف سیاح ابن بطوطہ کے مطابق یہ ان کے وزیر جونا خان (خواجہ جہان) کی سازش تھی کہ چوبی محل ان کے سر پر آن گرا۔ بادشاہ کی مخالفت کی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ جس زمانے میں انھوں نے تغلق آباد محل کی تعیر کا کام شروع کرایا تھا اسی زمانے میں حضرت نظام الدین نے ایک باؤلی بنانے کا کام شروع کروایا تھا۔مولانا راشد بتاتے ہیں کہ 'بادشاہ نے تمام لوگوں کو وہاں کام کرنے سے منع کر دیا تو نہ صرف مزدور بلکہ امرائے دربار بھی رات میں باؤلی بنانے کے کام میں شرکت کرتے۔ جب بادشاہ کو اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے کام کرنے کے لیے جلنے والے چراغوں کے لیے تیل دیے جانے پر پابندی لگا دی۔''جب یہ بات حضرت نظام الدین کو بتائی گئی تو انھوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں فلاں جگہ سے پانی لاکر چراغوں میں ڈال کر جلاؤ۔ چنانچہ ان کے چراغ جلتے رہے اور اس واقعہ کو ان کی کرامت تصور کیا گیا۔'Getty Imagesپاکستانی اداکارہ نے سنہ 2005 میں درگاہ حضرت نظام الدین کا دورہ کیا تھازندہ ثقافتی اور روحانی مرکزحضرت نظام الدیننے دہلی سلطنت کے دشوار دور میں امن، محبت اور مساوات کا درس دیا۔ ان کی خانقاہ نہ صرف مریدوں کا مرکز تھی بلکہ غربا، مساکین، اور ہر طرح کے لوگوں کے لیے سکون کی جگہ تھی۔ انھوں نے حکمرانوں کی قربت سے کنارہ کشی اختیار کی اور عوام کے قریب رہ کر محبت کا پیغام دیا۔درگاہ نظام الدین صرف ایک مزار نہیں بلکہ ایک زندہ ثقافتی اور روحانی مرکز ہے جس کو سلطنتِ مغلیہ کے دور میں مزید مقبولیت حاصل ہوئی۔ مغل سلطنت کا پایہ تخت آگرے سے دلی منتقل کرنے والے بادشاہ شاہجہاں کی سب سے بڑی بیٹی جہاں آرا کو صوفیوں سے انتہائی عقیدت تھی اور اسی لیے انھوں نے نہ صرف درگاہ میں تعمیری کام کروائے بلکہ انھوں نے اپنے مدفن کے لیے بھی اس درگاہ کا انتخاب کیا۔ایک بار دہلی کو 22 خواجہ کی چوکھٹ کیوں کہا جاتا ہے کے سلسلے میں ہماری ملاقات خواجہ حسن ثانی نظامی سے ہوئی تھی تو انھوں نے کہا تھا کہ آپ آج وہاں پہنچنے والوں سے پوچھیں تو وہ کہیں گے آج بھی، اس تیز رفتار اور تکنیکی دور میں، درگاہ کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے۔ وہاں ہمیشہ ایک جم غفیر موجود ہوتا ہے۔ اگرچہ وہاں دو عرس ہوتے ہیں ایک 17 جمادی الثانی کو جس دن نظام الدین اولیا کی وفات ہوئی تھی اور دوسرے 18 شوال کو امیر خسرو دہلوی کا عرس ہوتا ہے جو وہیں مدفون ہیں۔اس کے علاوہ جب اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کا رجب کے مہینے میں عرس ہوتا ہے تو ہزاروں زائرین پہلے حضرت نظام الدین کی درگاہ پر حاضری دیتے ہیں اور پھر وہاں سے اجمیر کی درگاہ کے لیے رخت سفر باندھتے ہیں۔اسی طرح جب مہرولی میں قطب الاقطاب بختیار کاکی کا 14 ربیع الاول کو عرس ہوتا ہے تو وہاں تین دنوں تک جشن کا ماحول ہوتا ہے۔ پہلے 12 ربیع الاول کو پیغمبر اسلام کے حوالے سے پھر 13 ربیع الاول کو صابر کلیری (یہ بابا فرید کے خلیفہ مانے جاتے ہیں جہاں سے چشتی صابری سلسلہ چلتا ہے) کا عرس ہوتا ہے اور اخیر میں 14 تاریخ کو بختیار کاکی کا عرس ہوتا ہے۔اگرچہ مسلمانوں کے کئی مکاتب فکر اور مسالک درگاہوں کو اسلام کی روح کے منافی قرار دیتے ہیں اور بدعت کہتے ہیں وہیں اسے دنیا میں بڑھتے ہوئے انتشار، خوف اور عدم تحفظ کے درمیان ہر مذہب، زبان اور پس منظر کے لوگوں کو امن کا پیغام دینے والے مرکز کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔خواجہ حسن ثانی نظامی کے مطابق حضرت نظام الدین کی صبر، شکر، اور عشق جیسی تعلیمات ہر انسان کے دل کو چھوتی ہیں۔Getty Imagesدرگاہ پر ہر مذہب و ملت کے لوگ پہنچتے ہیںمذہبی ہم آہنگی کی علامتدہلی یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد پروفیسر سید ظہیر حسین جعفری کہتے ہیں کہ عہد وسطی میں وجود میں آنے والی یہ درگاہیں دراصل بین المذاہب ہم آہنگی کا مرکز تھے جہاں سے مذہب اسلام ہندوستان کے دوسرے مذاہب کے عوام میں متعارف ہوا۔ان کے مطابق یہی وہ واحد جگہ تھی جہاں خواص و عام سے عوام کا رابطہ تھا اور یہ مذہبی ہم آہنگی کی علامت کے طور پر ابھریں۔اسلام کے سکالر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق پروفیسر اخترالواسع کے مطابق جہاں انڈیا میں فرقہ وارانہ تعصب بڑھ رہا ہے، درگاہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں سب لوگ امن اور محبت کے ساتھ ملتے ہیں۔ یہاں کی قوالی، جو مختلف زبانوں اور ثقافتوں کا امتزاج ہے، ہر زبان میں خدا کی حمد کرتی ہے۔درگاہ حضرت نظام الدین کے ایک خادم کلیم احمد نظام کا کہنا ہے کہ نوجوانوں میں صوفی موسیقی کی مقبولیت دیکھی جا سکتی ہے۔ان کے مطابق درگاہ کی قوالی نے آج کے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ جبکہ فلم ساز سورج کمار کے مطابق فلموں اور موسیقی کی وجہ سے یہ صوفیانہ نغمے دوبارہ زندہ ہو رہے ہیں جو دل کو چھوتے ہیں۔درگاہ نظام الدین صرف تاریخی ورثہ نہیں بلکہ آج بھی انسانیت کے لیے ایک روشن مینار ہے۔ جہاں دنیا میں تعصب، نفرت اور ذاتی فائدے کی دوڑ ہے، وہاں یہ درگاہ محبت اور انسانیت کی زبان بولتی ہے۔ہر جمعرات کی شام، جب سورج دہلی کی آسمان پر ڈوبتا ہے، دَرگاہ کا صحن قوالیوں کی گنگناتی آوازوں سے گونج اٹھتا ہے۔ یہاں ہر چہرہ ایک دوسرے کا دوست ہوتا ہے، ہر دل ایک دوسرے کے قریب ہوتا ہے۔ یہ جگہ وقت کی حدود کو توڑ کر محبت کی زبان میں بات کرتی ہے۔Getty Imagesقوالی کا ایک منظرمذہبی ہم آہنگی کی بڑی مثال بسنت کا تہوارصوفیائے چشتیہ کے ہاں بسنت کا تہوار بہت ہی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے جس کا مسلمانوں میں کوئی رواج نہیں تھا۔ لیکن اس کی بنیاد کچھ اس طرح پڑی کہ خسرو کے پیرو مرشد حضرت نظام الدین اپنے بھانجے تقی الدین نوح کی موت پر انتہائی غمزدہ اور گم سم رہنے لگے۔امیر خسرو کو ان کی فکر لاحق رہنے لگی اور وہ ان کی طبیعت بحال کرنے کی فکر میں رہنے لگے کہ ایک دن حضرت نظام الدین اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ تالاب کی سیر کو نکلے۔ کسی وجہ سے امیر خسرو پیچھے رہ گئے۔ وہ دن ہندوؤں کے تہوار بسنت پنچمی کا دن تھا۔راستے میں ان کی نظر ایک مجمعے پر پڑی۔ بستی حضرت نظام الدین اور چراغ دہلی کے درمیان کالکا جی مندر کے گرد بسنت کا میلہ لگا ہوا تھا اور لوگوں نے زرد لباس پہن رکھے تھے اور موج و مستی کے عالم میں گانا بجانا کر رہے تھے۔واضح رہے کہ بسنت کے دن دیوی کی رضاجوئی کے لیے ہر چیز کو پیلے یا زرد رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ پیلے کپڑے، پیلے پکوان، پیلے پھول۔ یہاں تک کہ وہ اپنے گاگر بھیسرسوں کے پھولوں کے ہار اور گجرے سے سجاتے اور اسے دیوی پر نذر کرتے۔امیر خسرو کو اپنے پیرو مرشد کو اسی طرح خوش کرنے کا خیال دل میں آیا اور انھوں نے اپنی پگڑی میں سرسوں اور گیندے کے پھول لٹکائے اور چند اشعار موزوں کرکے خاص کیف و مستی کے انداز میں گاتے ہوئے تالاب کی جانب روانہ ہو گئے۔حضرت نظام الدین اس وقت اپنے بھانجے کی مزار پر تھے۔ انھوں نے امیر خسرو کو عجیب رنگ ڈھنگ میں کیا دیکھا کہ بھانجے کے سارے رنج و غم بھلا کر ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ انھوں نے یہ شعر پڑھے:اشک ریزہ آمدہ است بہار (بہار کے بادل چھائے ہوئے ہیں تو بھی آنسو بہا)ساقیا گل بریز بادہ بہار (اے ساقی پھول بکھیر اور شراب لے آ)دوسرے مصرعے کا سننا تھا کہ نظام الدین اولیا یکسر بدل گئے اور اسی رنگ میں رنگ گئے۔ اس کے بعد یہ تہوار بطور خاصہ سلسلہ چشتیہ میں نظر آنے لگا اور آج بھی حضرت نظام الدین میں ان کے مزار پر منایا جاتا ہے۔Getty Imagesامیر خسرو نے حضرت نظام الدین کے پیغام کو عوام میں نغموں کے ذریعے پیش کیاخیال کیا جاتا ہے کہ اسی وقت سے بسنت کا میلہ مسلمانوں نے بھی منانا شروع کیا۔ دہلی میں چاند رات کو ایک پہاڑی پر اللہ میاں کی بسنت چڑھائی جاتی۔پہلی تاریخ کو قدم رسول پر، اس کے بعد خواجہ صاحب چراغ دہلی کے مزار پر، پھرحضرت نظام الدین کے ہاں قوال بسنت کے گیت گاتے اور سب سے آخر میں مولانا تقی الدین نوح کے مزار پر بسنت چڑھائی جاتی۔اجمیر کی درگاہ کے ایک خادم سید شارق نے بتایا کہ اجمیر میں بھی بسنت کا تہوار منایا جاتا ہے جو کہ دہلی کے حضرت خواجہ نظام الدین کی نسبت سے منایا جاتا ہے۔امیر خسرو کا حضرت نظام الدین سے اتنا والہانہ لگاؤ تھا کہ ان کی وفات کے بعد رنجیدہ رہنے لگے اور چند ہی ماہ میں انھوں نے بھی دنیا سے کوچ کیا۔حضرت نظام الدین کی وفات پر انھوں نے جو دوہا کہا وہ آج تقریباً سات سو سال بعد بھی بہت سے لوگوں کے ذہن میں موجود ہے:گوری سووے سیج پر، مکھ پر ڈارے کیسچل خسرو گھر آپنے، رین بھئی چہوں دیسنظام الدین اولیا اگرچہ صدیوں پہلے اس دنیا سے چلے گئے، مگر ان کا پیغام آج بھی ان کی جانب اٹھنے والے ہر قدم، ان دربار میں مانگی جانے والی ہر مراد اور وہاں گائے جانے والے ہر نغمے میں سنائی دیتی ہے۔اور امیر خسرو کا یہ کلام اس وحدت کا اظہار ہے:من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جان شدیتا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگریدرگاہ اجمیر شریف: ایک ’غریب نواز‘ کی آخری آرام گاہ جہاں دنیا بھر سے رہنما چادر چڑھانے آتے ہیںہندوستانی خواتین کے حُسن کے معترف امیر خسرو جنھوں نے ’مسلمانوں میں بسنت کے تہوار کی بنیاد‘ ڈالیقطب الدین بختیار کاکی: انڈیا میں قوالی متعارف کرانے والے بزرگ، جن کے مزار پر بادشاہوں سے عام افراد تک اپنی مرادیں لے کر آتے ہیں’غریب نواز‘: دریا جیسی سخاوت اور زمین جیسی مہمان نوازی کا درس دینے والے معین الدین چشتی جن کی درگاہ پر کوئی بھوکا نہیں سوتاقطب مینار سے اجمیر شریف کی درگاہ تک انڈیا میں وہ دس سے زیادہ مقامات جہاں ’مندر مسجد‘ کا تنازع چل رہا ہےسات بہنوں کی درگاہ جہاں آج بھی خواتین منتیں لے کر آتی ہیں

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

فیلڈ مارشل کا سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ، متاثرین کی مکمل بحالی کی یقین دہانی

پی آئی اے کا کینیڈا کے لیے فضائی آپریشن عارضی طور پر معطل

فیڈرل کانسٹیبلری ہیڈکوارٹر اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ

آپ کے پھیپھڑوں کی عمر کیا ہے اور یہ کتنے صحت مند ہیں؟ گھر پر جانچنے کا آسان طریقہ

33 گھنٹوں میں پولیس ٹرمپ کے حامی چارلی کرک کے مبینہ قاتل تک کیسے پہنچی؟ ’ملزم گرفتاری دینے کے بجائے خودکشی کا سوچ رہا تھا‘

ٹرمپ کے حامی چارلی کرک کے مبینہ قاتل کی 33 گھنٹوں میں گرفتاری: ’ملزم گرفتاری دینے کے بجائے خودکشی کا سوچ رہا تھا‘

درگاہ حضرت نظام الدین: گلاب اور عود سے مہکتا صوفی مزار جو دلی کو روحانی سکون دیتا ہے

حریفوں کے لیے ’ناقابلِ پیش گوئی‘ بنتا پاکستان

ایشیا کپ میں عمان کو پاکستان کے ہاتھوں 93 رنز سے شکست: ’صائم ایوب کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ بیٹنگ بھی کر سکتے ہیں‘

ٹرمپ کے حامی چارلی کرک کے مبینہ قاتل کو 33 گھنٹوں میں کیسے گرفتار کیا گیا؟

’خفیہ عدالتوں میں انصاف کیسے ہوگا‘: بلوچستان میں انسداد دہشتگردی ایکٹ میں ترامیم کی مخالفت کیوں؟

’کوئی بھی فضائی حادثہ ہو تو لوگ بغیر تحقیق پائلٹس کو مجرم بنا دیتے ہیں‘

بلوچستان میں انسداد دہشتگردی کے مقدمات میں ججز، وکلا اور گواہان کے ناموں کو خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟

اسلام آباد : گرلز اسکول سے متصل غیر قانونی کمرشل پلازہ تعمیر، طالبات تشویش میں مبتلا

اسلام آباد : جسٹس طارق محمود جہانگیری کی مبینہ جعلی ڈگری کیس سماعت کے لیے مقرر

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی