
انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک کے شہر ہاسن میں ایک ٹینکر ٹرک کی مذہبی جلوس سے ٹکر ہوئی جس سے موقع پر10 افراد ہلاک اور 19 زخمی ہوئے۔ زخمیوں کو علاج کے لیے ہاسن میڈیکل کالج ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے دفتر نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایک ٹویٹ کیا ہے جس میں انھوں نے مرنے والے کے خاندان کو دو، دو لاکھ روپے معاوضہ جبکہ زخمیوں کو 50، 50 ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر بظاہر بعض صارفین کی طرف سے اس واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ صارفین نے دعویٰ کیا کہ یہ دہشتگرد حملہ تھا اور اس میں ایک مسلم ٹرک ڈرائیور ملوث تھا۔تاہم ہاسن کی پولیس نے اس کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعے سے متعلق جعلی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں اور ڈرائیور کی شناخت کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ مرنے والوں میں طلبہ کی تعداد زیادہیہ واقعہ نیشنل ہائی وے 373 پر جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب ہوا جہاں چار لین میں سے جلوس کے لیے دو لین کو مختص کیا گیا تھا۔اس بارے میں ملزم کی فرقہ وارانہ شناخت کے تحت جعلی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔بہت سے سوشل میڈیا ہینڈل سے اس دہشت گردانہ فعل کہا جا رہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ٹرک ڈرائیور مسلمان ہے اور اس نے دانستہ طور پر گنیش کے جلوس پر ٹرک چلا دیا۔سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں ٹینکر ٹرک کو ڈیوائیڈر کو عبور کرنے کے بعد ہجوم سے ٹکراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ریاستی حکومت نے پانچ-پانچ لاکھ روپے معاوضے کی رقم کا اعلان کیا ہے۔دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا نے ریاست کے وزیر اعلی سدارمیا پر زور دیا ہے کہ مرنے والوں کے لواحقین کا معاوضہ بڑھا کر 10 لاکھ روپے کر دیا جائے۔انھوں نے اس کے ساتھ یہ کہا کہ ان کی پارٹی جے ڈی ایس مرنے والوں کے لواحقین کو ایک-ایک لاکھ روپے دے گی جبکہ زخمیوں کو 25-25 ہزار روپے معاوضے دیے جائیں گے۔سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا نے کہا کہ ’اگر ڈیوائیڈر نہ ہوتا تو مزید اموات ہو سکتی تھیں۔‘انڈیا میں مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف تشدد کے واقعات: ’یہ پہلگام حملے کو فرقہ واریت میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے‘انڈین پارلیمان میں ’آپریشن سندور‘ پر بحث اور حکومتی وضاحتوں سے جنم لیتے نئے سوال: ’اگر پاکستان واقعی گھٹنے ٹیکنے کو تیار تھا، تو آپ کیوں جھکے؟‘ایک ہندو کے قبولِ اسلام کی وائرل ویڈیو جو درگاہ حضرت بل کے امام پر پابندی کا باعث بنی: ’اب میں درگاہ کا پانی کے راستے دیدار کرتا ہوں‘وقف کے متازع قانون پر پُرتشدد واقعات، مسلم لیگ اور جناح کا تذکرہ: ’ایک چائے والا کسی کو پنکچر والا کہہ کر مذاق اڑا رہا ہے‘انڈین خبررساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق جعمے تک مرنے والوں کی تعداد نو تھی جبکہ سنیچر کی شب ایک اور فرد کی موت ہو گئی اور اب مرنے والوں کی تعداد 10 ہو گئی ہے۔دی ڈکن ہیرالڈ نے لکھا ہے کہ مرنے والوں میں سے نو افراد کی عمر 17 سے 27 کے درمیان تھی۔ اس کے مطابق خوشی کا ماحول اس وقت اچانک صدمے میں تبدیل ہو گیا جب ’ٹرک حادثے نے متعدد افراد کو کچلڈالا۔‘متاثرین میں سے تین متھن، سریش اور پروین موسلے ہوساہلی کے گورنمنٹ انجینئرنگ کالج کے طالب علم تھے، جب کہ دو گوکل اور ایشور گورنمنٹ فرسٹ گریڈ کالج کے طالب علم تھے۔ ان میں سے کچھ رات کے کھانے کے لیے ہاسٹل سے باہر آئے تھے۔ دیگر مقامات سے بھی کچھ لوگ جلوس اور ڈی جے میوزک میں شامل تھے۔ برتھ ڈے بوائے متھن جلوس میں ناچ رہا تھا۔ ایک شخص، چندن (26) جو موسلے ہوساہلی سے تھا،اسے سنیچر کو ایچ آئی ایم ایس ہسپتال میں برین ڈیڈ قرار دیا گیا۔واقعے سے متعلق گردش کرتی افواہیں اور پولیس کا ردعملسوشل میڈیا پر جہاں اس واقعے پر دُکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں ایک حلقے سے اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔برنول ڈیلی نامی ایکس ہینڈل سے لکھا گیا کہ انڈین ریاست کرناٹک کے موسلے ہوسالی گاؤں کے قریب این ایچ-373 پر ایک ٹینکر ٹرک جو ’محمد فیروز چلا‘ رہا تھا۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ ’یہ دانستہ کیا گیا تھا یا محض ایک حادثہ تھا؟‘اسی طرح کے خیالات کا اظہار روی اگروال نامی ایک صارف نے بھی کیا۔ انھوں نے لکھا: 'ایک بار پھر اسلامی دہشت گرد حملہ۔۔۔ فیروز نامی ٹرک ڈرائیور نے گنپتی وسرجن کے لیے جانے والے ہندوؤں کے ہجوم پر اپنا ٹرک چڑھا دیا۔‘تاہم پولیس نے ان افواہوں کو جعلی خبریں قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں پولیس نے کہا ہے کہ ’ملزم کی شناخت کے حوالے سے جعلی خبریں بڑے پیمانے پر پھیلائی جا رہی ہیں۔‘’یہ واضح طور پر ثابت ہے کہ ڈرائیور ہاسن ضلعے کے ہولیناراسی پورہ تعلقہ میں آنے والے کاٹیبلاگولی گاؤں کا رہائیشی بھووانیش ہے۔ وہ زخمی ہے اور زیر علاج ہے۔ اس کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔‘ہاسن پولیس کے بیان کے بعد بعض صارفین کو اپنے ٹویٹ حذف بھی کرنے پڑے۔آلٹ نیوز نے اس کے متعلق ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’سوشل میڈیا صارفین نے بے بنیاد فرقہ وارانہ دعوے شیئر کیے کہ ایک مسلمان ڈرائیور محمد فیروز نے گنیش وسرجن کے جلوس کے دوران جان بوجھ کر ہندوؤں کے جلوس پر ٹرک چڑا دیا۔ یہ جھوٹ ہے۔‘خبر رساں ادارے آئی اے این ایس نے ایک ٹویٹ میں ٹرک ڈرائیور کا نام بھووانیش لکھا ہے۔ اس کے مطابق: ’اس معاملے کا مرکزی ملزم ڈرائیور بھوونیش ہے۔ جائے وقوع کا فرانزک معائنہ کیا جا رہا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا اس میں کوئی تکنیکی خرابی تھی یا دیگر عوامل ملوث تھے۔‘وقف کے متازع قانون پر پُرتشدد واقعات، مسلم لیگ اور جناح کا تذکرہ: ’ایک چائے والا کسی کو پنکچر والا کہہ کر مذاق اڑا رہا ہے‘آر ایس ایس کے 100 سال: وہ ہندو تنظیم جس نے گاندھی کے قتل پر ’مٹھائی بانٹی‘ اور انڈیا کو دو وزرائے اعظم دیےمسلمانوں کی سرپرستی سے چمکنے والا کرکٹ سٹار ’لالا امرناتھ‘: ’وہ لڑکا لاہور کی سڑکوں سے اٹھا اور شہزادوں کے ساتھ چلنے لگا‘انڈیا میں مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف تشدد کے واقعات: ’یہ پہلگام حملے کو فرقہ واریت میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے‘انڈین پارلیمان میں ’آپریشن سندور‘ پر بحث اور حکومتی وضاحتوں سے جنم لیتے نئے سوال: ’اگر پاکستان واقعی گھٹنے ٹیکنے کو تیار تھا، تو آپ کیوں جھکے؟‘’ایسا پہلے کبھینہیں ہوا‘: ’کشمیر کا مطالبہ‘ اور انڈین آرمی چیف کی وہ تصویر جس نے ہنگامہ برپا کر دیا