
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مشترکہ دفاعی معاہدے کے بعد خطے پر اس کے اثرات اور بین الاقوامی سیاست میں اس کے مضمرات کا معاملہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ پاکستان میں اسے ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاملات میں تعاون اور سلامتی سے متعلق ’باہمی دفاع کا سٹریٹجک معاہدہ‘ ہوا ہے جس کے تحت ’کسی ایک ملک کے خلاف بیرونی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔‘مبصرین کے مطابق سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان مشترکہ دفاعی معاہدے کے اعلان نے کئی وجوہات کی بنا پر ہلچل مچا دی ہے۔ کچھمبصرین کا خیال ہے کہ یہ سٹریٹجک معاہدہ طاقت کے علاقائی توازن میں ایک بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے اور خطے سے متعلق اسرائیل کی حکمت عملی کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ نو ستمبر کو قطر میں اسرائیلی کارروائی کے بعد کسی خلیجی ریاست کی جانب سے اُٹھایا گیا یہ پہلا بڑا دفاعی ردعمل ہے۔ ماہرین کے مطابق اسرائیل کے حملے نے خلیجی ممالک کے خدشات کو ہوا دی ہے کہ ان کا دفاع کرنے کے لیے امریکہ کے عزم میں کسی حد تک کمی آئی ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دوحہ پر اسرائیلی حملے کو ’وحشیانہ جارحیت‘ قرار دیا تھا جس کے لیے عرب، اسلامی اور بین الاقوامی ردعمل کی ضرورت ہے۔ ’اچانک اور چونکا دینے والی پیش رفت‘آسٹرین انسٹی ٹیوٹ فار یورپ اینڈ سکیورٹی پالیسی کی ڈائریکٹر ریسرچر ویلینا چاکارووا کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان مشترکہ دفاعی معاہدہ ایک ’اچانک اور چونکا دینے والی جغرافیائی سیاسی پیش رفت‘ کی نمائندگی کرتا ہے۔اُن کے بقول اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ریاض اب مکمل طور پر ’امریکی جوہری تحفظ‘ پر انحصار سے مطمئن نہیں ہے۔چاکارووا نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ اس معاہدے کے ساتھ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا ایک ’نئی جغرافیائی سیاسی حقیقت‘ میں داخل ہو رہے ہیں۔بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں، سعودی سیاسی محقق مبارک العطیٰ نے کہا کہ یہ معاہدہ حیران کن نہیں ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان 80 برس سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں اور یہ سب کو معلوم ہے۔العطیٰ کا خیال ہے کہ اس معاہدےکا خاص پہلو یہ ہے کہ یہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب خطہ اور عالمی برادری انتہائی پیچیدہ سیاسی صورتحال سے گزر رہی ہے۔ Getty Imagesماہرین کا کہنا ہے کہ معاہدے کے تحت پاکستان، سعودی عرب میں کسی بھی جگہ پر اپنے میزائل نصب کر سکے گا’علاقائی طاقت کے توازن میں تبدیلی‘سعودیوزارت دفاعکے مطابق ’سٹریٹجک‘ معاہدے کا مقصد سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعاون کے پہلوؤں کو فروغاور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ ڈیٹرنس کو بڑھانا ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’کسی بھی ملک کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت دونوں کے خلاف جارحیت ہے۔‘بی بی سی سے بات کرتے ہوئے، مبارک العطی نے ان پیچیدہ تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا جن کی وجہ سے اس معاہدے کی بنیاد رکھی گئی۔اُن کے بقول اس کا تعلق خطے میں بڑھتی ہوئی اسرائیلی کارروائیاں اور قطر پر اسرائیل کے حملے کے دوران اس کے سٹریٹجک اتحادی امریکہ کی جانب سے دھوکہ دہی سے ہے۔کئی دہائیوں سے امریکہ اور چھ خلیجی ریاستوں بحرین، کویت، عمان، قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان ایک معاہدہ چلا آ رہا ہے۔ اس کے تحت واشنگٹن تیل اور گیس کی فراہمی کے عوض ان چھ ملکوں کو سکیورٹی ضمانت دینے کا پابند ہے۔سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدے کو انڈیا کے لیے ’بڑا دھچکا‘ کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟پاکستان اور سعودی عرب میں دفاعی معاہدہ: ’جوہری تحفظ پر ابہام بھی سعودی مقاصد پورا کر سکتا ہے‘شہزادوں کو قید اور ’والد کو رشتہ داروں سے دور‘ کرنے والے 40 سالہ محمد بن سلمان نے سعودی سلطنت پر اپنی گرفت کیسے مضبوط کی؟سعودی عرب پاکستان کی مالی امداد کیوں کرتا ہے اور کیا پاکستان سعودی عرب کے لیے ایک طاقت ہے یا بوجھ؟برطانوی جریدے ’دی اکانومسٹ‘ کے مطابق اس معاہدے کی بنیاد میں پہلی دراڑ اس وقت پڑی جب سنہ 2019 میں ایران نواز حوثی باغیوں نے سعودی عرب اور سنہ 2022 میں متحدہ عرب امارات میں حملے کیے۔ ان دونوں مواقع پر امریکہ کی جانب سے کوئی خاص ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ ’دی اکانومسٹ‘ کے مطابق خلیجی ریاستیں اب نہ صرف اس بات کی ضمانت مانگ رہی ہیں کہ اسرائیل قطر یا کسی دوسرے ملک کے خلاف ایسی کوئی کارروائی نہیں دہرائے گا بلکہ یہ اب اس سے بھی زیادہ قابل اعتماد اور طویل مدتی سلامتی کی ضمانتیں مانگ رہی ہیں۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے، سعودی محقق العطی نے کہا کہ ان کا ملک ’اپنی سلامتی یا سٹریٹجک مسائل کے لیے کسی ایک اتحادی پر انحصار نہیں کرنا چاہتا؛ اس لیے وہ اپنے اتحاد کو متنوع بنانا ضروری سمجھتا ہے۔‘مبصرین کا خیال ہے کہ نیا معاہدہ طاقت کے علاقائی توازن میں ایک بڑی تبدیلی کا آغاز کر سکتا ہے، اور یہ اسرائیل کے سٹریٹجک اہداف کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔اس معاہدے کے تحت پاکستان سعودی سرزمین پر بغیر کسی استثنیٰ کے اپنے میزائل یا اپنا کوئی ہتھیار نصب کر سکتا ہے۔AFPبعض ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے کے دیگر ممالک بھی مستقبل میں اس معاہدے میں شامل ہو سکتے ہیںسعودی عرب کا اپنا فیصلہ ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے فیلو حسین حقانی کے مطابق، نئے سعودی-پاکستان مشترکہ دفاعی معاہدے کی وضاحت میں استعمال ہونے والی اصطلاح ’حکمت عملی‘ میزائلوں اور جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا احاطہ کرتی ہے۔حسین حقانی نے ایکس پر لکھا کہ پاکستان اپنے میزائل اور جوہری پروگرام کی وضاحت کے لیے اکثر ’سٹریٹجک‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔العطی کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ ’سعودی خود مختار فیصلہ سازی کی طاقت‘ کو ظاہر کرتا ہے، جو متعدد طاقتوں کے ساتھ اپنے اتحاد کو متنوع بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور خود کو کسی ایک اتحادی تک محدود نہیں رکھتا، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔‘اُن کے بقول یہ معاہدہسعودی عرب کی طرف سے کسی دوسری طاقت کے ساتھ طے پانے والے کسی دوسرے معاہدے کو منسوخ نہیں کرتا ہے بلکہ ان معاہدوں کو مزید تقویت دیتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں خطے میں امریکہ کی زیر قیادت سکیورٹی سے متعلق مضبوط شراکت دار ہیں۔ یہ امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے آپریشنل دائرہ کار میں بھی سب سے اہم ممالک میں شامل ہیں۔ العطی کے مطابق امریکہ سعودی عرب کا بنیادی سکیورٹی پارٹنر ہے، پاکستان کے ساتھیہ دفاعی معاہدہ دونوںممالک اور اسلامی دنیاکے لیے علاقائی سیاست (جیو پولیٹیکل) اور سٹرٹیجک فوائد کا حامل ہے۔ العطی کہتے ہیں کہ ایک مشترکہ مذہب اور دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط اعتماد نے پاکستان اور سعودی عرب کو متحد کیا ہے۔ اُن کے بقول دونوں ملکوں کو خلیج عمان تقسیم کرتا ہے جو ان کے جغرافیائی محل و وقوع کو مزید اہم بناتا ہے جبکہ خطے میں بڑی تعداد میں پاکستانی آبادی سمیت دیگر عوامل کی وجہ سے بھی یہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔ پاکستان واحد مسلم اکثریتی ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ اسلام آباد کے پاس 170 سے زیادہ جوہری ہتھیار اور جوہری مواد لیجانے والے وار ہیڈز موجود ہیں۔ سعودی عرب نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان میں مختلف شعبوں میں اپنی سرمایہ کاری کو 25 ارب ڈالرز تک بڑھانے پر غور کر رہا ہے۔بلومبرگ کے مطابق، سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ پاکستان میں معدنیات اور پیٹرولیم کے شعبوں میں اربوں ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سعودی عرب پاکستان کے مرکزی بینک میں اپنے ڈپازٹ دو ارب ڈالرز تک بڑھانے پر بھی غور کر رہا ہے۔ تاریخی شراکت داریسرکاری سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کے مطابق، پاکستان کے ساتھ نیا مشترکہ دفاعی معاہدہ ’تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط تاریخی شراکت داری،بھائی چارے اور اسلامی یکجہتی کے بندھن پر مبنی ہے۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ سٹریٹجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون کا بھی عکاس ہے۔ مبصرین کے مطابق، مکہ اور مدینہ میں دو مقدس مساجد کے دفاعکے لیے سکیورٹی کا عزم پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ’اتحاد کی بنیاد‘ ہے۔سنہ 1960 میں پہلی مرتبہ پاکستان کی فوج سعودی عرب کی سرزمین پر تب آئی تھی جب یمن میں مصری افواج کی طرف سے جنگ چھیڑنے کے خدشات نے سر اُٹھایا۔ اس کے بعد سنہ 1979 میںایرانی انقلاب کے بعد تہران کے ساتھ تصادم کے خدشات کے دوران بھی پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے مزید قریب آ گئے۔ سنہ 1991 میں عراق کی کویت پر چڑھائی کے دوران بھی پاکستان نے ایک فوجی دستہ سعودی عرب بھیجا تھا جسے مکہ اور مدینہ میں مقدس مقامات کی حفاظت کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔ سنہ 2016 میں پاکستان نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد میں بھی شمولیت اختیار کی تھی۔ سنہ 2018 تک پاکستانی فوج کے ایک ہزار سے زائد افسران اور اہلکار تربیت کے لیے سعودی عرب میں موجود تھے۔کیا دیگر خلیجی ممالک بھی دفاعی معاہدے میں شامل ہو سکتے ہیں؟کچھ تجزیہ کار پاکستان کے دفاعی بجٹ اور اس کے جوہری ہتھیاروں کو وسعت دینے کے لیے ریاض کو اسلام آباد کے جوہری پروگرام کا ’خاموش فنانسر‘ بھی قرار دیتے ہیں۔ دی اکانومسٹ کے مطابق برسوں سے پاکستانی مبصرین اور سفارت کاروں نے بار بار یہ دلیل دی ہے کہ سعودی عرب پاکستان کی ’جوہری طاقت‘ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔یونیورسٹی آف ایکسیٹر میں مشرق وسطیٰ کی سلامتی کے امور کے محقق طلحہ عبدالرزاق کے مطابق سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان مشترکہ دفاعی معاہدہ ایک ایسے معاہدے کا مرکز بن سکتا ہے جس میں خطے کے دیگر ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ایکس پر اپنی پوسٹ میں اُن کا کہنا تھا کہ خطے کے ممالک اب امریکہ کی سکیورٹی ضمانت کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے اور اب خلیجی ریاستیں اپنے سکیورٹی معاہدوں کو متنوع بنانے کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے الجزیرہ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں دوسرے خلیجی ممالک کی شمولیت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’یہ ممکن ہے اگر جی سی سی میں شامل کوئی بھی ملک ایسا کوئی اشارہ دیتا ہے تو جیسا باہمی معاہدہ سعودی عرب کے ساتھ ہوا ہے، ہم باقی (ممالک) کو بھی اس میں شامل کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔‘پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ قطر پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں کیا معنی رکھتا ہے؟پاکستان اور سعودی عرب میں دفاعی معاہدہ: ’جوہری تحفظ پر ابہام بھی سعودی مقاصد پورا کر سکتا ہے‘ترکی، سعودی عرب یا مصر: قطر پر حملے کے بعد اسرائیل کے ’اگلے ہدف‘ کے بارے میں قیاس آرائیاںشہزادوں کو قید اور ’والد کو رشتہ داروں سے دور‘ کرنے والے 40 سالہ محمد بن سلمان نے سعودی سلطنت پر اپنی گرفت کیسے مضبوط کی؟سعودی عرب پاکستان کی مالی امداد کیوں کرتا ہے اور کیا پاکستان سعودی عرب کے لیے ایک طاقت ہے یا بوجھ؟ترکی، سعودی عرب یا مصر: قطر پر حملے کے بعد اسرائیل کے ’اگلے ہدف‘ کے بارے میں قیاس آرائیاں