گھریلو لڑکی سے انڈیا کی پہلی خاتون ’باغی‘ کمانڈر بننے والی شمبھالا دیوی نے 25 برس جنگل میں گزارنے کے بعد ہتھیار کیوں ڈالے؟


شمبھالا دیوی مجھے اپنی ایک پرانی تصویر دکھا رہی ہیں جس میں انھوں نے گہرے سبز رنگ کی شرٹ اور پینٹ پہن رکھی ہے۔ ان کے ہاتھ میں اے کے 47 رائفل ہے اور کمر پر واکی ٹاکی لٹکا ہوا ہے۔ان کے پاس ایسی صرف دو تصویریں ہیں، جنھیں 25 برس پہلے بنایا گیا تھا۔ یہ تصاویر اس وقت کی ہیں جب وہ انڈیا میں ماؤ نواز باغیوں کی خاتون کمانڈر بنی تھیں۔شمبھالا دیوی نے 25 برس جنگل میں گزارنے کے بعد سنہ 2014 میں ہتھیار ڈالے تھے۔اس دوران انھوں نے کئی مرتبہ اپنا نامتبدیل کیا تھا۔ جب وہ باغیوں میں شامل ہوئیں تو ان کا نام دیوکا رکھا گیا جبکہ اس سے قبل ان کا نام وٹی اڈئمی تھا۔شمبھالا دیوی کے شوہر رویندر بھی ایک ماؤ نواز کمانڈر تھے۔ ان کے تجربات درجنوں تصاویر اور ویڈیوز کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں لیکن شمبالا دیوی کے بارے میں اب تک ہمارے سامنے کم ہی تفصیلات آئی ہیں۔ہم جاننا چاہتے تھے کہ وہ کیسے ایک ماؤ نواز کمانڈر بنیں اور پھر دو دہائیوں سے زیادہ کے عرصے کے بعد انھوں نے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ابتدا میں وہ اپنی زندگی کی کہانی سنانے میں ہچکچا رہی تھیں لیکن بعد میں ہم سے اپنے گاؤں میں ملنے پر راضی ہو گئیں۔شمبھالا دیوی کی عمر اب 50 برس ہے۔ جب ہم ان سے ملنے پہنچے تو انھوں نے فیروزی رنگ کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی، جسے انھوں نے پاؤں سے کچھ اونچا کر رکھا تھا تاکہ کام کرتے وقت وہ پانی میں نہ بھیگے۔ہماری ان سے چائے پر گفتگو ہوئی جو کئی حصوں پر مشتمل تھی۔ اس دوران وہ اپنے اوزار لے کر کھیت میں کام کرنے بھی جاتی رہیںاور ہم بھی ان کے ساتھ گئے تاکہ گفتگو کا سلسلہ نہ ٹوٹے۔BBCشمبھالا دیوی کی عمر اب 50 برس ہےماؤ نواز باغیوں میں شمولیتیہ وہ وقت تھا جب مسلح ماؤنواز باغیوں کی صفوں میں خواتین کی تعداد بہت کم تھی۔ شمبھالا دیوی نے اپنی گھریلو دیہی زندگی چھوڑ کر باغی سیاست اور ’گوریلا جنگ‘ کا راستہ اختیار کیا۔انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’اس وقت ہمارے پاس زمین نہیں تھی، ہم غریب تھے اور اکثر بھوکے رہتے تھے۔ ہمیں بنیادی سہولتیں بھی نہیں ملتی تھیں۔‘’جب ہم نے جنگل کی زمین پر کاشت کرنے کی کوشش کی تو محکمہ جنگلات کے اہلکار ہمیں مارتے تھے۔‘جنگل کی زمین پر کاشتکاری غیر قانونی ہے۔ مقامی افراد اور کارکنان کا کہنا ہے کہ دیہاتیوں کو اس سے روکنا اور انھیں زبردستی باہر نکالنا اس وقت بھی معمول تھا۔شمبھالا دیوی کا کہنا ہے کہ وہ صرف 13 برس کی تھیں جب انھوں نے محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کو اپنے والد کو بار بار مارتے ہوئے دیکھا اور اس کے بعد پولیس نے ان کے والد کو جیل میں ڈال دیا۔یہ سب دیکھ کر شمھبالا دیوی نے گھر چھوڑ کر تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’اپنی بات صرف ایک ہی طریقے سے منوائی جا سکتی تھی: بندوق کی نوک پر۔‘جب ہم نے ان سے پوچھا کہ گاؤں والوں نے حکام سے محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کی شکایت کیوں نہیں کی تو انھوں نے جواب دیا کہ ’پولیس نے کبھی ہماری بات نہیں سنی اور محکمہ جنگلات کے حکام بھی اس وقت ہی پیچھے ہٹے جب ماؤنواز باغی آئے۔‘جب انگریزوں نے ’کشتی کے ذریعے‘ مہاراجہ رنجیت سنگھ کو لاہور تحفے میں گھوڑے بھیجےانڈیا کی ’200 برس پرانی‘ مسجد جس میں ہندو اذان دیتے ہیں: ’میں نے سوچا یہ اللہ کا گھر ہے اسے آباد رہنا چاہیے‘’تم مشہور ہو جاؤ گے‘: بِکنی کِلر چارلس سوبھراج کی گرفتاری کی کہانی انھیں گرفتار کرنے والے افسر کی زبانی19 کروڑ روپے کی فون کال: ڈیجیٹل گرفتاری کا فراڈ جس میں خاتون نے خود بینک جا کر رقم جعلسازوں کو منتقل کیحکومت کا ماؤنواز باغیوں کے خاتمے کا دعویٰشمبھالا دیوی نے سنہ 1988 میں مسلح ماؤنواز گروہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ 2000 کی دہائی میں ماؤ نواز شورش اپنے عروج پر تھی۔ ماؤ نواز گروہوں میں ہزاروں افراد شامل تھے اور ان کا گڑھ وسطی اور مشرقی انڈیا کے دور دراز جنگلات میں تھا۔انڈیا میں ماؤ نواز شورش چینی انقلابی رہنما ماؤزے تنگ کی ریاستی طاقت کے خلاف عوامی بغاوت کے نظریے پر کھڑی تھی۔سنہ 1967 میں مغربی بنگال کے نکسل واڑی گاؤں میں ایک مسلح کسان بغاوت ہوئی تھی، اسی مناسبت سے اسے ’نکسلی تحریک‘ بھی کہا جاتا ہے۔کئی دہائیوں سے جاری پرتشدد بغاوت میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں تاہم حالیہ برسوں میں بغاوت کافی کمزور پڑ گئی ہے۔گھات لگا کر گوریلا طریقوں سے حملے کرنے والے یہ باغی کہتے ہیں کہ وہ غریب برادریوں میں زمین کی منصفانہ تقسیم اور مسلح جدوجہد کے ذریعے حکومت کو ہٹا کر کمیونسٹ معاشرے کے قیام کے لیے لڑ رہے ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے دور افتادہ دیہی علاقوں کو کئی دہائیوں سے نظر انداز کیا ہوا ہے اور وہ جنگلات کی زمین بڑی کمپنیوں کو دے رہی ہے۔دوسری طرف حکومت کا مؤقف ہے کہ ان دیہی برادریوں کو جنگل کی زمین پر ملکیتی حقوق حاصل نہیں اور وہ وہاں کاشتکاری نہیں کر سکتے۔ حکومت کا کہنا ہے ان علاقوں میں ترقی اور ملازمتیں بڑی صنعتوں کے ذریعے ہی آئیں گی۔انڈیا کے وزیرِ داخلہ امت شاہ ماؤنواز باغیوں کے لیے ’زیرو ٹالیرنس پالیسی‘ کا اعلان کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کو 31 مارچ 2026 تک ان باغیوں سے پاک کر دیا جائے گا۔حکومت اور باغیوں کے درمیان لڑائی میں مارے گئے لوگہمارے لیے شمبھالا دیوی کے دعوؤں کی آزادانہ تصدیق کرنا ممکن نہیں۔ان کے مطابق باغیوں میں شمولیت کے بعد وہ 30 افراد پر مشتمل پلاٹون کی قیادت کرتی رہیں اور کبھی ایک جگہ پر نہیں ٹھہریں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ سکیورٹی فورسز پر گھات لگا کر حملہ کرنے کے مقصد سے مختلف ریاستوں میں اپنی پلاٹون کے ساتھ گشت کرتی رہی ہیں۔شمبھالا دیوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے وہ وقت یاد ہے جب میں نے پہلی بار گھات لگا کر حملہ کیا تھا۔ میں نے 45 کلو وزنی بارودی سرنگ بچھائی تھی اور ایک بم پروف گاڑی کو اڑا دیا تھا۔ اس حملے میں کئی سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔‘وہ ایسے حملوں پر آج بھی فخر محسوس کرتی ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ انھیں ان حملوں میں مارے گئے سکیورٹی اہلکاروں کی موت پر کوئی پچھتاوا نہیں تاہم اس کے باوجود بھی ہم نے ان کے ہاتھوں مارے گئے لوگوں کے بارے میں کئی سوالات ان سے پوچھے۔وہ ان انڈین شہریوں کی ہلاکت پر دکھ کا اظہار کرتی ہیں جنھیں انھوں نے پولیس کا مخبر ہونے کی شک پر ہلاک کیا تھا، یا وہ افراد جو سکیورٹی فورسز پر حملوں کے دوران مارے گئے۔شمبھالا دیوی کہتی ہیں کہ ’یہ مجھے غلط محسوس ہوا کیونکہ ہم نے اپنے ہی لوگوں کو مارا تھا۔ میں ان کے گاؤں جا کر ان کے اہل خانہ سے معافی مانگوں گی۔‘ایک ایسا واقعہ انھیں آج بھی یاد ہے جب ان کی پلاٹون نے سکیورٹی اہلکاروں پر گھات لگا کر حملہ کیا تھا اور اس دوران ایک سکیورٹی اہلکار کی موٹر سائیکل پر سوار ایک شہری بھی ہلاک ہو گیا تھا۔سابق ماؤ نواز کمانڈر کہتی ہیں کہ اس شہری کی والدہ بہت غصے میں تھیں اور سوال کر رہی تھیں کہ ان کی پلاٹون نے رات میں یہ حملہ کیوں کیا؟شمبھالا دیوی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے خود کہا کہ اس وقت رات کے پہر عام شہریوں کی شناخت کرنا مشکل ہوتا تھا لیکن رات میں کیے گئے حملے ہی مؤثر ثابت ہوتے تھے۔سابق ماؤنواز کمانڈر کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتیں کہ انھوں نے کتنے لوگوں کو مارا لیکن سکیورٹی فورسز اور ماؤ نواز باغیوں کے درمیان پرتشدد جھڑپوں میں ہزاروں لوگ مارے گئے تھے اور ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق قبائلی برادری سے تھا۔ماؤ نواز بغاوت کے دوران کتنے لوگ مارے گئے؟ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق اس تنازع میں سنہ 2000 سے لے کر سنہ 2025 تک تقریباً 12 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔ان میں کم از کم چار ہزار 900 ماؤ نواز باغی، چار ہزار عام شہری اور 2700 سیکورٹی اہلکار شامل ہیں۔لوگ پُرتشدد واقعات اور ہلاکتوں کے لیے ماؤنواز باغیوں پر بھی کڑی تنقید کرتے ہین لیکن شمبھالا دیوی کا دعویٰ ہے کہ مقامی دیہات کے لوگ اکثر ماؤنواز باغیوں کی حمایت کرتے تھے، انھیں خوراک اور دیگر اشیا فراہم کرتے تھے۔وہ کہتی ہیں کہ بہت سی قبائلی برادریاں ماؤ نواز باغیوں کو اپنا مسیحا مانتی تھیں۔ ان کے مطابق جن علاقوں میں ماؤنواز گروہوں نے قبضے کیے وہاں جنگلات کی زمین عام لوگوں میں تقسیم کی گئی، پانی اور صحت کی سہولیات فراہم کی گئیں۔ماؤ نواز باغیوں میں شمبھالا دیوی کا کیا مقام تھا؟ابتدائی دنوں میں گوریلا جنگ کے دوران سامنے آنے والے جسمانی اور ذہنی چیلنجز شمبھالا دیوی کے لیے نئے تھے۔ انھوں نے اس سے قبل کبھی مردوں سے عوامی سطح پر بات نہیں کی تھی۔اس لیے انھیں ان مردوں کی قیادت کرنے کے لیے بہت کچھ سیکھنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ مرد ان کی عزت کرتے تھے کیونکہ انھوں نے یہ مقام کئی سال تک نچلی سطح پر کام کرنے کے بعد حاصل کیا تھا۔سابق ماؤنواز کمانڈر کے مطابق ماؤنواز تنظیم میں روزانہ پانی لانے کی کی ذمہ داری خواتین کو دی گئی تھی اور کیمپ پانی کے ذرائع سے بہت دور بنائے گئے تھے کیونکہ سکیورٹی فورسز اکثر وہاں باغیوں کی تلاش میں رہتی تھیں۔شمبھالا دیوی کی پلاٹون جنگلوں اور پتھریلی علاقوں میں مسلسل گشت کرتی تھی اور ان کے مطابق حیض کے مشکل دنوں میں بھی خواتین کے لیے کوئی راحت نہیں تھی۔لیکن اس کے باوجود بھی شمبھالا دیوی ایک ’آزادی‘ محسوس کرنے کے بارے میں بات کرتی ہیں جو انھوں نے خود کو ثابت کرنے اور اپنی شناخت بنا کر محسوس کی۔’قبائلی معاشرے میں خواتین کو محض جوتے کی طرح سمجھا جاتا تھا، کسی کی بیوی یا ماں ہونے کے علاوہ ان کی کوئی شناخت نہیں تھی لیکن ماؤ نواز تنظیموں میں ہمارے کام کو تسلیم کیا گیا اور مجھے کمانڈر بنایا گیا۔‘شمبھالا دیوی کا دعویٰ ہے کہ اگر وہ اپنے گاؤں میں رہتیں تو کم عمری میں ہی ان کی زبردستی شادی کر دی جاتی، لیکن ماؤنواز باغی بننے کے بعد وہ اپنی پسند کے شخص سے شادی کرنے میں کامیاب ہوئیں۔لیکن جیسے جیسے ماؤنواز باغیوں اور سکیورٹی فورسز کے ایک دوسرے پر حملے تیز ہوئے اور زیادہ لوگ مارے جانے لگے تو شمبھالا دیوی نے اپنی زندگی پر نظرثانی کرنا شروع کر دی۔انھوں نے محسوس کیا کہ جس انقلاب کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا وہ انھیں کہیں نظر نہیں آرہا۔’ایک طرف سکیورٹی فورسز ہمیں تلاش کرنے کے لیے کارروائیاں تیز کر رہی تھیں تو دوسری طرف ہم اور حملے کر رہے تھے اور ان میں ہلاکتیں بھی ہو رہی تھیں۔‘اس گوریلا زندگی کو چھوڑنے کی ایک اور وجہ شمبھالا دیوی کی اپنی بگڑتی ہوئی صحت کو بھی قرار دیتی ہیں۔ انھیں تپ دق کا مرض لاحق تھا اور بار بار علاج کے لیے جنگل سے شہر کے ہسپتالوں میں چھپ کر سفر کرنا پڑتا تھا۔شمبھالا دیوی کہتی ہیں ’کوئی بھی پائیدار تبدیلی صرف ملک گیر تحریک کے ذریعے ہی آتی ہے۔ ہم تھک چکے تھے، ہمارا اثر و رسوخ کم ہو رہا تھا اور لوگوں میں ہماری حمایت بھی کم ہوتی جا رہی تھی۔‘ان کے مطابق ایک تنظیمی رپورٹ میں بھی انکشاف ہوا تھا کہ ان کی تنظیم میں لوگوں کی شمولیت کم ہو گئی ہے۔دور دراز علاقوں میں رہنے والی برادریاں جو کبھی مدد کے لیے ماؤنواز باغیوں پر انحصار کرتی تھیں، اب وہ اپنی زندگیوں میں تبدیلی دیکھ رہی تھیں اور موبائل فون اور سوشل میڈیا کے ذریعے بیرونی دنیا سے بہتر طور پر جُڑ چکی تھیں۔اس کے علاوہ ڈرون جیسے جدید آلات سے لیس سکیورٹی فورسز ماؤ نوازوں کو دیہات اور جنگلوں سے دور دھکیل کر انھیں تنہا کر رہی تھیں۔ہتھیار ڈالنے پر انعامپچیس سال تک جنگلوں میں رہنے کے بعد شنبھالا دیوی نے سنہ 2014 میں حکومت کی سرینڈر پالیسی کے تحت ہتھیار ڈال دیے تھے۔اس پالیسی کے تحت ماؤنواز باغیوں کو ہتھیار ڈالنے اور دوبارہ نہ اٹھانے کی ضمانت دینے پر معافی دی گئی تھی۔حکومت ان باغیوں کی بحالی کے لیے رقم، زمین اور جانور فراہم کرتی ہے۔اب شمبھالا دیوی اس ہی گھریلو اور دیہی زندگی کی طرف لوٹ آئی ہیں جس سے وہ بھاگ گئی تھیں۔ہتھیار ڈالنے پر شمبھالا دیوی اور ان کے شوہر کو حکومت سے کم قیمت پر زمین کا ایک ٹکڑا، نقد رقم اور 21 بھیڑیں ملی تھیں۔ہتھیار ڈالنے کی پالیسی میں واضح طور پر یہ نہیں کہا گیا کہ ماؤ نوازوں کو ان کے جرائم پر معافی دے دی جائے گی، بلکہ اس پالیسی کے تحت ہر کیس پر انفرادی طور پر غور کیا جاتا ہے کہ اس میں معافی دی جا سکتی ہے یا نہیں۔شمبھالا دیوی اور ان کے شوہر کا کہنا ہے کہ اب ان کے خلاف تشدد سے متعلق کوئی قانونی مقدمہ نہیں۔ بی بی سی کو سرکاری رپورٹس میں بھی ان کے خلاف ایسا کوئی مقدمہ نہیں ملا۔حکومت کے مطابق گذشتہ دس برس میں آٹھ ہزار ماؤ باغیوں نے ہتھیار ڈالے ہیں تاہم یہ تاحال نہیں معلوم کہ اب مسلح باغیوں کی تعداد کتنی ہے اور وہ کتنے متحرک ہیں۔ہتھیار ڈالنے کے بعد شمبھالا دیوی نے گرام پریشد (دیہات کونسل) میں وارڈ ممبر کا انتخاب لڑا اور جیت بھی گئیں۔وارڈ اراکین لوگوں کی شکایات گاؤں کے سربراہ تک پہنچاتے ہیں اور سرکاری سکیموں کو نافذ کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ حکومت کے ساتھ کام کرنا کیسا ہے۔‘ہم شمبھالا دیوی سے یہ جاننا چاہتے تھے کہ اگلے سال مارچ کے آخر تک تمام ماؤ نوازوں کا صفایا کرنے کے حکومتی اعلان کے بارے میں وہ کیا سوچتی ہیں۔انھوں نے اس سوال کے جواب میں تھوڑا توقف کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر اس تحریک کو شکست ہو بھی جاتی ہے تب بھی ایک تاریخ رقم ہو چکی ہے۔ دنیا بہت بڑی جدوجہدیں دیکھ چکی ہے۔ یہ جدوجہد شاید نئی نسل کو اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی ہمت دے سکے۔‘سابق ماؤ کمانڈر نے حکومتی اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ مسلح ماؤ نواز لیڈروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور مار سکتے ہیں لیکن سب باغیوں کو نہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ پوری تحریک کو ختم کر پائیں گے۔‘لیکن جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ کبھی اپنی آٹھ سالہ بیٹی کو مسلح ماؤ نوازوں کے ساتھ بھیجنا چاہیں گے تو ان کا جواب واضح تھا۔’نہیں، اب ہم ویسی ہی زندگی گزاریں گے جیسی یہاں معاشرے میں گزاری جاتی ہے۔‘سید محمد حسینی: ’بندہ نواز، گیسو دراز‘ کے لقب سے معروف ہونے والے صوفی جن کی درگارہ کو ’دکن کا کعبہ‘ کہا گیاانڈین سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی قانون کی متنازع شقیں معطل کر دیں: ’اس قانون کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے‘1500 سے 5000 لیٹر تک: خسارے میں چلنے والے پٹرول پمپ کو خواتین نے منافع بخش کیسے بنایا؟ کرناٹک میں ٹرک کی مذہبی جلوس سے ٹکر، 10 افراد ہلاک: ’ڈرائیور کی شناخت کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی‘انڈین حکومت کی ’مہمان‘ شیخ حسینہ کا ممکنہ ’جانشینی منصوبہ‘ کیا ہے؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

’ڈیجیٹل حراست‘ کی آڑ میں ساڑھے چھ لاکھ روپے کا فراڈ، معمر خاتون کی موت کے بعد بھی دھوکے باز فون پر پیغام بھیجتے رہے

امریکہ میں ہنر مند غیر ملکی ملازمین کی سالانہ ویزا فیس ایک لاکھ ڈالر: ایچ ون بی ویزا کیا ہے اور ٹرمپ کا فیصلہ کن ممالک کو زیادہ متاثر کرے گا؟

اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے مزید 17 فلسطینی ہلاک، اسرائیل کا غزہ شہر پر حملوں میں طاقت کے بھرپور استعمال کا اعلان

گھریلو لڑکی سے انڈیا کی پہلی خاتون ’باغی‘ کمانڈر بننے والی شمبھالا دیوی نے 25 برس جنگل میں گزارنے کے بعد ہتھیار کیوں ڈالے؟

3 لاکھ حجاج کا ڈیٹا ڈارک ویب پر لیک ، چیئرمین پی ٹی اے کا انکشاف

ڈونلڈ ٹرمپ کا ہنرمند غیر ملکی ملازمین کی ویزا فیس ایک لاکھ ڈالر کرنے کا اعلان

’62 لاکھ روپے کا سونا‘ جس کے لیے خاتون نے اپنے شوہر اور بہن کے ساتھ مل کر اپنی سہیلی کو مبینہ طور پر قتل کر دیا

جلال پور پیروالہ: موٹروے ایم فائیو کا ایک اور حصہ سیلاب میں بہہ گیا

پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ: کیا خطے میں ’طاقت کا توازن‘ تبدیل اور اسرائیلی اہداف متاثر ہوں گے؟

جعفر ایکسپریس حملے کا ماسٹر مائنڈ افغانستان میں ہلاک

طالبان کی قید سے رہائی کے بعد برطانوی جوڑا قطر پہنچ گیا: ’ہم افغان شہری ہیں اور افغانستان واپس جانے کے منتظر ہیں‘

سونے کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ.. کتنا مہنگا ہوگیا؟

دنیا کے بیشتر نقشوں میں شمال ہی اوپر کی جانب کیوں ہوتا ہے؟

چابہار بندرگاہ پر امریکی پابندیاں: انڈیا پر ’شکنجہ مزید کسنے کی کوشش‘ یا مقصد ایران کو تنہا کرنا ہے؟

صدر ٹرمپ کا بگرام فوجی اڈے کا کنٹرول واپس لینے کا اعلان: ’لالچ پر مبنی مقاصد رکھنے والوں کو افغانستان کی تاریخ پڑھنی چاہیے،‘ طالبان کا جواب

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی