
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دن بھی کوئی بڑی پیش رفت نا ہو سکی ۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے اپنے منطقی اور مدلل مطالبات پر مؤقف برقرار رکھا ہے جبکہ افغان طالبان کا وفد ان مطالبات کو مکمل طور پر تسلیم کرنے سے گریزاں دکھائی دے رہا ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ نہ صرف میزبان ممالک بلکہ افغان وفد خود بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ پاکستان کے مطالبات معقول، جائز اور خطے کے امن کے لیے ضروری ہیں۔ تاہم افغان طالبان وفد مسلسل کابل انتظامیہ سے ہدایات لیتا رہا جس کے نتیجے میں مذاکرات میں تعطل برقرار ہے اور کوئی حوصلہ افزا جواب سامنے نہیں آ سکا۔
ذرائع نے انکشاف کیا کہ ایسا تاثر مل رہا ہے کہ کابل میں کچھ عناصر کسی اور ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے مذاکراتی عمل بار بار رکاوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ پاکستانی وفد نے واضح کر دیا کہ ان مطالبات کو تسلیم کرنا دونوں ممالک کے وسیع تر مفاد میں ہے۔
مذاکرات کے دوران پاکستان نے سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے سے متعلق ٹھوس شواہد بھی افغان وفد کے سامنے رکھ دیے۔ ذرائع کے مطابق دہشت گردوں کی نقل و حرکت، پناہ گاہوں اور ہلاک ہونے والے دہشت گردوں سے متعلق ویڈیوز دیکھ کر طالبان وفد حیرت زدہ ہو گیا۔ پاکستان کی جانب سے دوٹوک مؤقف اپنایا گیا کہ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اس حوالے سے ترک حکام نے بھی ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے افغان وفد کو حقیقت تسلیم کرنے پر زور دیا تاہم افغان طالبان زبانی طور پر تو تعاون کی یقین دہانی کر رہے ہیں مگر تحریری معاہدے پر آمادہ نہیں ہو رہے۔
یاد رہے کہ مذاکرات کا پہلا دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوا تھا جس میں سیز فائر پر اتفاق ہوا تھا، جبکہ دوسرے دور میں پہلے طے پانے والے نکات پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس بار پاکستان نے جامع پلان پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں کی سرپرستی ختم کی جائے اور دہشت گردی کے خلاف عملی اور یقینی اقدامات کیے جائیں۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کا مؤقف بدستور مضبوط اور خطے کے امن کے لیے ناگزیر ہے جبکہ مذاکرات میں ڈیڈ لاک برقرار ہے۔