
وفاقی وزیر خزانہ و ریونیو سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان کو پائیدار ترقی کے لیے ردعمل پر مبنی پالیسیوں کے بجائے مستقبل بینی اور ساختی اصلاحات پر مبنی حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ وہ کراچی میں دی فیوچر سمٹ کے نویں ایڈیشن کے افتتاحی سیشن سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت معیشت کی بحالی، سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی اور دیرپا ترقی کے لیے ساختی اصلاحات، مالی نظم و ضبط اور نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری کو ترجیح دے رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے میکرو اکنامک استحکام حاصل کرلیا ہے جسے عالمی اداروں نے تسلیم کیا ہے تاہم یہ حتمی منزل نہیں بلکہ دیرپا ترقی کے سفر کا آغاز ہے۔
محمد اورنگزیب نے بتایا کہ رواں سال کے ابتدائی نو ماہ میں پاکستانی کمپنیوں کے منافع میں 14 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ او آئی سی سی آئی سروے کے مطابق 73 فیصد سی ای اوز پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے موزوں ملک قرار دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ معدنیات، آئی ٹی، زراعت، فارماسیوٹیکل اور بلیو اکانومی کو ترجیحی شعبے قرار دیا گیا ہے جہاں نجی شعبے کو فعال کردار کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے گوگل کے پاکستان میں دفتر قائم کرنے کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک کو ریجنل ٹیکنالوجی حب بنانے کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت اب منصوبہ بندی سے آگے بڑھ کر عمل درآمد کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اس دوران ٹیکس اصلاحات، توانائی سیکٹر کی بہتری، نجکاری، پنشن اصلاحات اور قرضوں میں کمی کے لیے اقدامات جاری ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 9 لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کو نظام میں شامل کیا گیا ہے جبکہ مصنوعی ذہانت کے استعمال سے شفافیت میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے پی آئی اے اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری پر پیش رفت سے بھی آگاہ کیا اور کہا کہ غیر فعال اداروں کو بند کرنے اور سرکاری ڈھانچے کو مختصر کرنے کا عمل جاری ہے۔
وزیر خزانہ نے آبادی میں تیزی سے اضافے اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات پر فوری توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی غذائی قلت، تعلیمی معیار اور ماحولیات کے تحفظ کو قومی ترجیحات میں شامل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت معاشی استحکام، اصلاحات کے تسلسل اور انسانی ترقی پر مبنی پائیدار ترقی کے عزم پر قائم ہے۔