
طالبان کے کمانڈر مولوی امان الدین منصور (اے آئی جی کمانڈر) نے بدخشاں کے ضلع اشکاشم میں ایک اجتماع میں دعویٰ کیا کہ اگر انہیں اجازت دی جائے تو وہ تاجکستان پر قبضہ کر سکتے ہیں۔مولوی امان الدین نے تاجکوں کا مذاق اڑاتے ہوئے اور روس کو یوکرین میں مداخلت کرنے کی وجہ سے رکاوٹ کے طور پر مسترد کیا۔یہ دعویٰ طالبان کے توسیع پسندانہ عزائم کو ظاہر کرتا اور ان کی علاقائی امن و استحکام کے حوالے سے بے حسی کو بے نقاب کرتا ہے۔داعش خراسان نے افغان طالبان رہنمائوں کے قتل کی منصوبہ بندی کر لیوہ حکومت جو کبھی عدم مداخلت کا وعدہ کرتی تھی اب اپنے پڑوسیوں کو دھمکیاں دے رہی ہے۔ دنیا کو تسلیم کرنا چاہیے کہ طالبان کے عزائم افغانستان سے باہر بھی پھیلے ہوئے ہیں۔تاجکستان کو کمزور قرار دے کر اور روس کی ڈیٹرنس کو مسترد کرتے ہوئے، طالبان کمانڈر لاپرواہی سے تنازعات کو دعوت دیتے ہیں، سفارتکاری اور بقائے باہمی کو بالکل نظر انداز کر رہے ہیں۔افغان طالبان کی سرحدی اشتعال انگیزی: افغان سرزمین سے پیدا ہونے والی دہشت گردی کو بچانے کی مایوس کن کوششان کا غلط اعتماد دوحہ معاہدے سے آتا ہے، جہاں انہوں نے جوابدہی کے بغیر قانونی حیثیت حاصل کی۔ یہ دنیا کے لیے ایک سبق کے طور پر کام کرے گا کہ خوشامد صرف جارحیت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔اگر طالبان اپنے ہی دھڑوں کو جنگ کی دھمکیاں دینے سے کنٹرول نہیں کر سکتے تو ایک جائز حکومت کے طور پر ان پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ ان کے الفاظ ان کی بے حسی کو بے نقاب کرتے ہیں۔طالبان کی حکومت کا فوجی فتوحات پر زور دینا اس بات کی علامت ہے کہ وہ حکومتی اصلاحات اور معاشی بحالی کے بجائے صرف طاقت کے استعمال کو ترجیح دے رہے ہیں، جو کہ خطے کے لیے بڑا خطرہ ہو سکتا ہے۔