وہ عرب شہر جہاں سنیما گھر ’مزاحمت‘ کی علامت سے مذہبی انتہا پسند تحریکوں کی نذر ہو کر ویران ہو گئے


Getty Imagesلبنان کا تاریخی ساحلی شہر طرابلس اپنے کلچر اور سیاسی تنوع کے حوالے سے جانا جاتا تھاایک وقت تھا جب لبنان کا تاریخی ساحلی شہر طرابلس اپنے کلچر اور سیاسی تنوع کے حوالے سے جانا جاتا تھا لیکن اب معاشرتی اور سیاسی ہلچل نے اسے نہ صرف غیرمحفوظ بنا دیا ہے بلکہ مذہبی انتہاپسندی کی طرف بھی دھکیل دیا ہے۔لبنان کے شمالی شہر طرابلس میں حالیہ برسوں میں مسلح تنازع دیکھا گیا ہے اور اس کی نوعیت فرقہ وارانہ تھی۔ یہ تنازعات لبنان میں خانہ جنگی کے بعد شروع ہوئے تھے۔سنہ 2008 سے 2014 کے درمیان سنّی اور علوی مسلک کے گروہوں کے درمیان شروع ہونے والے تنازعات کے سبب نہ صرف یہ شہر عدم استحکام کا شکار ہو گیا تھا بلکہ مسلح جتھوں نے اس کی ساکھ بھی تباہ کر دی تھی۔اب یہاں صرف کچھ سنیما گھر یا ان کی باقیات ہی بچی ہیں جو تاریخی طور پر اس شہر کے کلچر اور سیاسی زندگی کی چہل پہل کے گواہ ہیں۔لبنانی ہدایت کار ہادی زکاک کئی برسوں سے طرابلس کے سنیما گھروں کو تلاش کر رہے ہیں اور شہر کے فراموش کر دیے گئے ماضی کو انٹرویوز اور دستاویزات کے ذریعے دوبارہ زندہ کر رہے ہیں۔ہادی نے پہلے اپنی تمام تحقیق اپنی کتاب 'دا لاسٹ شو، آ ہسٹری آف سلمیٰ' میں درج کی اور اس کے بعد 'سلمیٰ' نامی ایک فلم بھی بنائی جو حال ہی میں لبنان میں بڑے پردے پر دکھائی گئی ہے۔یہ فلم طرابلس یا اس کے سنیما گھروں کی ہی داستان نہیں دکھاتی بلکہ اس کی کہانی میں دراصل یہ بتایا گیا ہے کہ لبنان کی سیاسی تاریخ میں اس شہر کا کردار دارالحکومت بیروت سے کم نہیں رہا۔’سلمیٰ صرف ایک سکرین کا نام نہیں‘طرابلس کے مقامی شہری سنیما گھر کو 'سلمیٰ' کے نام سے پکارتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے مصری شہری اسے 'سیما' کہتے ہیں۔ہادی نے ایک انٹرویو کے دوران بی بی سی عربی کو بتایا کہ سنیما گھر پہلے یہاں 'ایک مقبول رجحان' ہوا کرتا تھا۔اس انٹرویو کے دوران انھوں نے بتایا کہ طرابلس میں فلموں نے خواتین کی آزادی اور صنفی تعلقات جیسے معاملات پر بھی اپنے اثرات چھوڑے۔ہادی کی فلم 'سلمیٰ' میں دکھایا گیا کہ کیسے شہر میں ایک سنیما گھر کے کُھل جانے کے بعد طرابلس میں سیاسی اور کلچرل تبدیلیاں آئیں اور سنیما کی سکرین اور شہر کے باسیوں کا آپس میں تعلق کیا تھا۔یہ تعلق کچھ ایسا تھا کہ لوگوں کو لگنے لگا کہ وہی سنیما سکرینوں کے مالک ہیں اور کچھ افراد نے تو اپنے اپنے سنیما گھر بھی کھول لیے۔ہادی طرابلس کی تاریخ کو سنیما کی تاریخ سے جوڑتے ہوئے کہتے ہیں: 'کبھی کبھی یہاں فلمیں حقیقت کا روپ بھی دھار لیتی تھیں۔''جب 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں یہاں مغربی فلمیں آنا شروع ہوئیں تو یہاں جنگجو بھی ان فلموں میں دکھائے جانے والے کاو بوائز سے متاثر ہوئے اور انھیں ایسے ہی حلیے میں لبنان میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران دیکھا گیا۔'ہادی مزید کہتے ہیں کہ یہ جنگجو خود کو ہیرو تصور سمجھتے تھے اور 'جب وہ کسی سین پر احتجاجاً سنیما کی سکرین پر گولی چلاتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ فلم میں ہیرو کے کردار پر حق جتا رہے ہوں۔'سنیما اور لوگوں کے درمیان رشتہ واضح کرنے کے لیے ہادی مزید کہتے ہیں کہ لوگوں نے ویتنام جنگ میں امریکی فوج کے کردار پر بننی والی فلم کو رُکوا دیا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ 'ایسا لگتا تھا جیسے کہ سنیما کی سکرین بھی شہر کا حصہ ہے اور ایک وقت میں اس کا گہرا تعلق بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے لوگوں کے پاس تھا۔'مینوسفیئر: مردانگی سے متعلق شدت پسند نظریات کی وہ دنیا جہاں بچوں کے ذہنوں میں خواتین سے ’نفرت کا زہر گھولا جا رہا ہے‘فلم کالکی 2898 اے ڈی: انڈین سنیما کی ’تاریخ کی تیسری بڑی اوپننگ‘ کرنے والی فلم میں ایسا کیا خاص ہے؟سُشانت سنگھ کی موت کی حتمی رپورٹ اور میڈیا ٹرائل پر بحث: ’کیا کوئی ریا چکرورتی سے معافی مانگے گا‘وہ سکینڈل جس پر فلم سٹوڈیو نے ایک لیب ٹیکنیشن کو سٹار بنا دیالبنانی ہدایت کار کہتے ہیں کہ یہ 'معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ اور ریاستی عملداری کی رخصتی' کے مرحلے کا آغاز تھا اور اس وقت بیروت سے باہر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوتا تھا کہ 'اب خانہ جنگی ناگزیر ہو چکی ہے۔'سنیما ہی معاشرے کے تمام طبقات کو جوڑتا تھاطرابلس میں فلم دیکھنے والے ہر شخص کی انفرادی یادیں بھی ہیں اور مجموعی بھی، انھیں دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ کیسے سنیما کی سکرین کا جادو لوگوں کے سر پر چڑھ کر بولتا تھا۔ماضی میں سنیما گھروں کے مالکان رہنے والے افراد سے گفتگو کرکے معلوم ہوتا ہے کہ سنیما طرابلس میں مقیم تمام برادریوں کی زندگی کا اہم جزو تھا۔تمام لوگ ایک سکرین کے سامنے ملا کرتے تھے لیکن اکثر ان کے پاس موجود ٹکٹوں کی قیمت مختلف ہوتی تھی۔ کچھ سنیما گھر غریبوں کے لیے مختص تھے جہاں پُرانی فلمیں دکھائی جاتی تھیں اور انھیں کھانے کے لیے روٹی اور انڈہ پیش کیا جاتا تھا۔کم عمری میں ان سنیما گھروں میں تواتر سے جانے والے ایک شخص کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ وہاں موجود کھانا فلم اداکاروں کے لیے ہے اور وہ بھی اپنی فلم دیکھنے کے لیے طرابلس آئے ہیں۔یہ وہ وقت تھا جب سنیما جانا شہر کے رہائشیوں کا کلچر بن گیا تھا اور چھوٹے چھوٹے سنیما گھر متوسط طبقے کے علاقوں میں کھلنے لگے۔ ہر سنیما گھر کے اپنے ناظرین تھے، حالانکہ وہاں پُرانی فلمیں لگائی جاتی تھیں۔ان سنیما گھروں میں غیر شادی شدہ جوڑے آیا کرتے تھے اور وہ بچے بھی جو سکول سے بھاگ کر آتے تھے۔طرابلس میں سیاسی تبدیلیاںلبنان میں پیش آنے والے تمام سیاسی واقعات کا اثر طرابلس میں بھی پڑتا تھا۔ اب چاہے وہ فرانسیسی مینڈیٹ کے خلاف مزاحمت ہو، بائیں بازو کے نظریات کا عروج ہو یا پھر خانہ جنگی۔طرابلس کے سنیما گھروں میں سیاسی عدم استحکام اور احتجاجی مظاہروں کے اثرات نظر آتے ہیں۔سنیما میں فلم دیکھنے والے ہر شخص کے اپنے نظریات ہوتے تھے، سوچ ہوتی تھی اور مشغلے ہوتے تھے اور فلم کے کسی بھی منظر پر وہاں لڑائیاں ہو سکتی تھی، جس کے سبب فلم کا رُکنا یقینی ہوتا تھا۔ شہر کے ایک رہائشی کا کہنا ہے کہ طرابلس میں ایک سنیما گھر ایسا بھی تھا جو صرف کمیونزم سے جُڑی فلموں کو فروغ دیتا تھا۔ ان کے مطابق سنیما کے مالک فلم کے مواد کی وضاحت دیتے اور سیاسی بحث کو بھی جنم دیتے تھے۔ہادی کا کہنا تھا کہ آزاد سنیما اور فلم کلبز کی شروعات بھی یہاں 1960 کی دہائی میں ہوئی تھی اور یہاں ایسی فلمیں بھی بننے لگی تھیں جنھیں سیاسی کہا جاتا تھا۔لیکن خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سکیورٹی فورسز کی غیرموجودگی میں سنیما گھر جانے کا رواج ختم ہونے لگا اور ان کی شکلیں ہی بدل گئیں۔ ان میں سے کچھ صرف مسلح افراد یا بااثر شخصیات کے استعمال میں رہنے لگے تھے۔خانہ جنگی کی شروعات سے قبل بھی یہاں رومانوی مناظر تو سکرین پر دکھائے جاتے تھے لیکن بعد میں کچھ سنیما گھروں میں پورن بھی دکھایا جانے لگا۔ایک شخص کا کہنا تھا کہ ایک بار وہ سکول سے بھاگ کر ایسی ہی ایک فلم دیکھنے سنیما گھر گئے تھے اور وہاں اپنے استاد کو بیٹھا دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔آخری فلمہدایت کار ہادی کہتے ہیں طرابلس میں سنیما گھر جانے کا رواج بالکل ویسے ہی ختم ہوا جیسے لبنان اور پوری دنیا میں گھروں میں فلمیں دیکھنے کی شروعات کے بعد ہوا۔'ویڈیو کیسیٹس کی آمد کے بعد چھوٹ علاقوں میں موجود سنیما گھر بند ہونا شروع ہوئے اور شہر میں صرف بڑے تھیٹرز ہی رہ گئے۔'تاہم ہادی کہتے ہیں کہ 'شہر پر سب سے زیادہ برا اثر انتہاپسند مذہبی تحریکوں کے عروج کے سبب ہوا۔'ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سب کی وجہ سے 'شہر میں فرقوں کے درمیان اتحاد ختم ہوگیا اور شہر میں جنونیت اورڈر کا ماحول رہنے لگا۔''ان تحریکوں کا کنٹرول ختم ہونے کے بعد بھی ڈر کا ماحول جاری رہا۔'انتہا پسند مذہبی تحریکوں کے عروج کے دوران سنیما گھروں کے خلاف بھی احتجاج ہوئے اور گھروں میں فلمیں دیکھنے پر پابندی کے بھی مطالبات سامنے آنے لگے۔فوجی حکام کی تعلیمی اداروں اور شوبز میں انٹری پر تنقید: ’ریاست اعتدال پسند لوگوں کو اپنا دشمن بنا رہی ہے‘’راجہ کو رانی سے پیار ہو گیا‘: عامر خان کی نئی گرل فرینڈ گوری پریٹ کون ہیں؟’دن کے 12، 12 جوائنٹ پیتا تھا‘: ہنی سنگھ کا شراب اور چرس کا نشہ چھوڑ کر دوبارہ عروج حاصل کرنے کا سفرمینوسفیئر: مردانگی سے متعلق شدت پسند نظریات کی وہ دنیا جہاں بچوں کے ذہنوں میں خواتین سے ’نفرت کا زہر گھولا جا رہا ہے‘شیو سینا پر تبصرہ کرنے پر کامیڈین کنال کامرا مشکل میں: ’میں معافی نہیں مانگوں گا، اس بھیڑ سے نہیں ڈرتا‘وہ سکینڈل جس پر فلم سٹوڈیو نے ایک لیب ٹیکنیشن کو سٹار بنا دیا

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید عالمی خبریں

برطانیہ کی امیگریشن قوانین میں بڑی تبدیلی

انڈیا کے شہر حیدرآباد میں 22 سالہ جرمن سیاح لڑکی سے ’گاڑی میں زیادتی‘

امریکہ نے ایرانی ڈرون نیٹ ورک پر پابندیاں عائد کر دیں

امریکی سینیٹر کی 25 گھنٹے سے زائد دورانیے کی تقریر، ریکارڈ قائم

امریکی سینیٹر کوری بُکر نے مسلسل 24 گھنٹوں سے زائد تقریر کرنے کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا

’سونے کا شہر‘ منڈلے جہاں اب موت کی بو آتی ہے

اس مرتبہ انڈیا میں معمول سے زیادہ گرمی پڑے گی، محکمۂ موسمیات کی پیش گوئی

بھارتی ریاست گجرات کی پٹاخہ فیکٹری میں دھماکہ، 18 افراد ہلاک

میانمار: زلزلے سے اموات کی تعداد 2 ہزار 700 ہوگئیں

’روسی حملے کا خوف اور امریکہ کی بے رخی‘ کے سبب جرمنی میں جنگی تیاریوں میں تیزی، دفاعی بجٹ میں غیر معمولی اضافہ

وہ عرب شہر جہاں سنیما گھر ’مزاحمت‘ کی علامت سے مذہبی انتہا پسند تحریکوں کی نذر ہو کر ویران ہو گئے

ایران کو اپنے نیوکلیئر اور بیلسٹک میزائل پروگرام کے پھیلاؤ کو روکنا ہو گا، امریکہ

ایران کی سالمیت پر حملہ ہوا تو جوہری ہتھیاروں کا حصول مجبوری ہو گی: علی لاریجانی

غزہ میں 10 دن کے دوران اسرائیلی حملوں میں 322 بچے شہید ہوئے: یونیسیف

قطر گیٹ، نتن یاہو اور خفیہ ادارے کا سربراہ: رشوت اور فراڈ کا سکینڈل جس نے اسرائیل میں کھلبلی مچا دی

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی