
اپریل کا پہلا ہفتہ بھٹو خاندان کے لیے سوگ کی علامت ہے۔ اس میں چار اپریل کا سفاک، بے رحم دن بھی آتا ہے جب 46 برس قبل جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت نے بھٹو صاحب کو فجر سے پہلے اندھیرے میں پھانسی دے کر گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں چپکے سے دفنا دیا۔فوتیدگی کی علاقے میں اطلاع بھی نہیں دی گئی، بمشکل درجن بھر لوگوں نے نماز جنازہ پڑھی۔ یہ اور بات کہ وہ بھٹو جو اس رات رازداری کےساتھ مٹی میں اتار دیا گیا، اسے پاکستانی تاریخ کے صفحات سے مٹایا نہیں جا سکا۔ کسی نہ کسی شکل میں وہ بھٹو آج بھی موجود ہے، ایک خاص سطح تک متعلق بھی رہا ہے۔بھٹو کی ذات ہمارے ہاں متنازع رہی ہے بلکہ ان سے شدید محبت اور شدید نفرت کرنے والے گروہ ہمیشہ موجود رہے۔ رابرٹ ڈیلک مشہور امریکی صحافی ہیں، امریکی صدر لنڈن بی جانسن پر اپنی کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں، آپ ان سے محبت کرتے ہیں یا نفرت، ان کے ساتھ غیرجانبدارانہ رویہ رکھنا ممکن نہیں رہتا، ایکسٹریم لیول کے جذبات ہی ملتے ہیں۔ رابرٹ ڈیلک نے لنڈن بی جانسن کو بھی ایسے لوگوں میں شمار کیا۔ پاکستان کے ایک سابق بیوروکریٹ اور مصنف روئیداد خان جنہوں نے بھٹو صاحب کے ساتھ کئی برس کام کیا، انہوں نے اپنی کتاب میں رابرٹ ڈیلک کا یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھا کہ پاکستانی سیاست میں مسٹر بھٹو ایسی ہی ایک شخصیت تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک طویل عرصے تک پاکستانی سیاست پرو بھٹو، اینٹی بھٹو کیمپوں میں تقسیم رہی۔ ایک طرف بھٹو کے چاہنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹر تھے تو دوسری طرف بھٹو سے بیزار، انہیں ناپسند کرنے والے اینٹی بھٹو ووٹر (جو زیادہ تر مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور دیگر دینی جماعتوں کے پلیٹ فارم پر موجود تھے۔)بتدریج پاکستانی سیاست میں تبدیلی آئی اور سنہ 2011 کے بعد سے عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف قومی سیاست کا اہم حصہ بنی، ایسا حصہ کہ اس نے دیگر تمام جماعتوں کو ایک سائیڈ پر ہو کر انہیں ’گرینڈ اینٹی تحریک انصاف‘ اتحاد بنانے پر مجبور کر دیا۔بھٹو صاحب کی سیاست کے بارے میں ایک سے زائد آرا ہو سکتی ہیں۔ بطور وزیراعظم ان کی کارکردگی پر خاصی تنقید ہو سکتی ہے۔ وہ جمہوری رہنما تھے، مگر انہوں نے اپنی پارٹی جمہوری طریقوں سے چلائی نہ حکومت۔ان کے دور میں پریس پر سخت ترین سنسر اور پابندیاں لگیں۔ بھٹو صاحب نے آتے ہی جہاں ایک طرف رائٹ ونگ کے سینیئر صحافیوں الطاف حسن قریشی، ڈاکٹر اعجاز قریشی، مجیب الرحمن شامی وغیرہ کو جیل بھیجا، وہیں ان کے پرانے دوست اور لیفٹ کے سینیئر قابل قدر صحافی حسین نقی کو بھی پانبد سلاسل ہونا پڑا۔جہاں ایک طرف بھٹو صاحب نے ملک کو آئین دیا، 73 کا آئین جس پر کم وبیش مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ وہاں اس آئین کی منظوری کے چند ہی دن بعد بلوچستان میں نیپ کی صوبائی حکومت برطرف کر کے گورنر نواب غوث بخش بزنجو، وزیراعلٰی عطا اللہ مینگل سمیت نمایاں بلوچ پشتون قوم پرستوں کو گرفتار کروا کر حیدرآباد ٹربیونل کیس شروع کر دیا۔ ان کی پوری مدت میں سابق صوبہ سرحد اور بلوچستان میں صوبائی اسمبلیاں معطل رہیں۔ ولی خان سمیت بلوچ پشتون قوم پرست رہنماؤں کو بعد میں جنرل ضیا الحق حکومت نے رہا کیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں رائٹ ونگ کے سینیئر صحافیوں سمیت لیفٹ کے قابل قدر صحافی حسین نقی کو بھی پانبد سلاسل ہونا پڑا۔ (فائل فوٹو: ایکس)ایک طویل فہرست ہے ایسے الزامات اور تنقیدی نکات کی جو بھٹو صاحب پر عائد کیے جا سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں کے ساتھ بھی زیادتیاں ہوئیں۔ بھٹو دور اپوزیشن کے لیے خاصا مشکل رہا۔ کئی ایسے افسوس ناک واقعات ہوئے جو نہیں ہونے چاہیے تھے۔ ڈاکٹر نذیر اور خواجہ رفیق جیسے سیاسی لیڈر قتل ہوئے، ان کے ورثا نے الزام حکومت پر عائد کیا۔ احمد رضا قصوری پر قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں ان کے والد ہلاک ہوئے۔ یہ وہ مقدمہ تھا جس کی پاداش میں بعد میں بھٹو صاحب کو پھانسی کے تختے پرلٹکایا گیا۔کاش یہ سب نہ ہوا ہوتا۔ کاش بھٹو صاحب زیادہ بہتر جمہوری طرزعمل کا رویہ رکھتے، اپوزیشن کو برداشت کرتے، تنقید کو تحمل سے روا رکھتے۔ یہ تاریخ کے وہ کاش ہیں جو بعد میں صلیب بن کر سینے میں گڑے رہتے ہیں۔بھٹو صاحب کی شخصیت، ان کی اچھائیاں، برائیاں اپنی جگہ، بطور وزیراعظم ان کی غلطیاں، متنازع الیکشن، مذاکرات میں غی ضروری طول وغیرہ، یہ سب اپنی جگہ۔ ان پر بحث ہوسکتی ہے، ایک سے زیادہ آرا بھی آ سکتی ہیں۔ ایک بات مگر جس پر ہمیں متفق اور یکسو ہوجانا چاہیے، وہ ہے بھٹو صاحب کا عدالتی قتل۔یہ حقیقت ہے کہ جنرل ضیا کی حکومت نے اپنے مقاصد اور خالصتاً اپنے مفادات کی خاطر ایک منتخب وزیراعظم کو سولی پر لٹکایا۔ ان پر جو کیس بنایا گیا، وہ کمزور تھا، اس میں سقم موجود تھے، اس بنا پر بھٹو صاحب کو کیپٹل پنشمنٹ یعنی سزائے موت نہیں دی جا سکتی تھی۔ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔17 برس قبل جب جنرل مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو میں جس اخبار میں کالم لکھتا تھا، وہاں کالم لکھا کہ بھٹو صاحب کا عدالتی قتل ہوا تھا، اس پر اسٹیبلشمنٹ سمیت رائٹ ونگ انٹیلی جنشیا اور پوری قوم کو معذرت خواہ ہونا چاہیے، اس پر پبلک اپالوجی بنتی ہے۔ بھٹو کو اس الزام سے بری ہونا چاہیے تاہم یہ کام صرف پیپلز پارٹی کی حکومت نہ کرے، بلکہ متفقہ طور پر کرنا چاہیے۔ایسا تب نہیں ہوسکا۔ البتہ گذشتہ برس قاضی فائز عیسیٰ کی زیرِقیادت سپریم کورٹ کے نو رکنی بنچ نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ بھٹو قتل کیس میں انصاف سے کام نہیں لیا گیا تھا۔لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ان کی کیس کی شنوائی میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ ممکن ہے کسی کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلوں سے اختلاف ہو، مگر یہ فیصلہ بہرحال مختلف اور ٹھوس دلائل پر مبنی تھا۔ یہ اس لحاظ سے بہت اہم اور تاریخی ہے کہ اس نے سپریم کورٹ کے بھٹو قتل کیس کو ایک طرح سے باطل یا کام از کم مشکوک ضرور قرار دے دیا۔اس برس 23 مارچ کو وفاقی حکومت نے بھٹو صاحب کو سب سے بڑے سول ایوارڈ نشان پاکستان سے نوازا۔ یہ بعد ازمرگ ایوارڈ ریاست پاکستان کی جانب سے دیا گیا، وفاقی حکومت نامزد کرتی ہے البتہ اس کا اعلان صدر پاکستان کرتے ہیں۔اتفاق سے آج کل بھٹو کے داماد آصف زرداری اس عہدے پر براجمان ہیں۔ وفاقی حکومت مسلم لیگ ن کی ہے جو ماضی میں بھٹو صاحب کی شدید مخالف رہی بلکہ ایک زمانے میں نواز شریف صاحب اینٹی بھٹو ووٹ بینک کے نمائندہ تصور ہوتے تھے۔ اسی وجہ سے بزرگ صحافی مجیب الرحمن شامی نے گذشتہ روز اپنے ہفتہ وار کالم میں لکھا کہ ’ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اپنے ورثا اور مخالفین دونوں کے نزدیک قابل قدر اور قابل فخر قرار پائے ہیں۔ نشان پاکستان کا اعزاز ان کی مرقد پر سجا دیا گیا۔ مزید اہم بات یہ کہ اس اعزاز کے خلاف پورے ملک سے ایک بھی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔ بھٹو صاحب کی شدید ترین مخالف جماعت اسلامی کے بھی کسی رہنما نے ہلکی سے صدائے احتجاج یا صدائے اختلاف بلند نہیں کی۔ (حالانکہ) جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو ان کے مخالف کسی بھی سیاسی رہنما نے اس پر احتجاج نہیں کیا تھا۔ انہیں رات کی تاریکی میں سپرد خاک کر دیا گیا، پیپلز پارٹی والوں نے سوگ منایا، بعض نے خود سوزی بھی کی، مگر کسی بھی بھٹو مخالف سیاسی رہنما نے تعزیتی بیان جاری نہیں کیا۔ بیگم نصرت بھٹو کے زخم پر الفاظ کا مرہم رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ بھٹو کی مرقد پر پھول چڑھانے یا فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ‘یہ اچھی بات ہے کہ ہماری سیاست اور سیاست دان اپنی ماضی کی غلطیوں سے کچھ سیکھ کر آگے بڑھے ہیں، انہوں نے فکری ارتقا کا سفر طے کیا۔ اب ہماری انٹیلی جنشیا، سیاسی کارکنوں اور عوامی حلقوں کو بھی یہ چیزیں سیکھنا ہوں گی۔ ماضی کی تلخیاں، ناخوشگوار تاثرات کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے کا ہنر بہت اہم ہے۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے، اس لیے بھی کہ ایسی شدید تلخیاں اور سیاسی نفرت کے مظاہر ہماری آج کی سیاست میں بھی نظر آتے ہیں۔بھٹو صاحب کی پھانسی کے حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہمارے لکھنے پڑھنے اور سوچنے سمجھنے والے طبقات نے ماضی سے کچھ چیزیں سیکھ لی ہیں۔ یہ بات سمجھ لی ہے کہ سیاست دان خواہ کیسا ہی خطا کار، کمزور اور قابل تنقید ہو، بہرحال اس سے ڈیل کیا جا سکتا ہے۔ اسے الیکشن میں آج نہیں تو کل شکست دی جا سکتی ہے۔ اسے ہٹانے کے لیے غیرجمہوری قوتوں کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے۔مجھے یاد ہے کہ اپنے کالج یونیورسٹی کے زمانے میں اور صحافت کے ابتدائی برسوں میں دو تین باتیں اکثر سننے کو ملتیں۔ بھٹو صاحب کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ مکافات عمل کا شکار ہوئے۔ اعجاز بٹالوی کا فقرہ دہرایا جاتا کہ میں نے کیس نہیں جیتا، قدرت انہیں سزا دینے پر تلی ہوئی تھی۔ اسی طرح پی این اے، بھٹو حکومت مذاکرات کے حوالے سے یہ کہا جاتا کہ تب اسٹیبلشمنٹ کے پاس مداخلت کے سوا کوئی اور چارہ نہیں بچا تھا۔آج یہ دونوں فقرے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکے جا چکے۔ لوگ جان گئے ہیں کہ وہ مکافات عمل نہیں بلکہ ایک فوجی آمر کے اقتدار کو طاقت بخشنے کا بہانہ تھا۔ بھٹو زندہ رہتے تو ضیا حکومت ہمیشہ لرزہ براندام رہتی۔ روئیداد خان نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’بھٹو کی پھانسی کے بعد اگلے روز کابینہ کے اجلاس میں جنرل ضیا الحق آئے تو ان کے انداز سے طاقت اور بے پناہ اعتماد جھلک رہا تھا۔ وہ ایک پراعتماد اور طاقتور حکمران کا روپ دھار چکے تھے۔‘اسی طرح مذاکرات والی کہانی پر بھی کوئی یقین نہیں کرتا۔ مذاکرات خواہ کتنا طول کھینچ گئے تھے، فوج کو مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ سیاست دانوں کا ایشو تھا، انہیں ہی نمٹانے دینا چاہیے۔بھٹو صاحب ایک طرف تاریخ کا موضوع ہیں، دوسری طرف تعزیت کا۔ انہوں نے اپنی حکومت میں ظلم کیے یا سختیاں کی ہوں، یہ سب کام ان کی مظلومانہ موت کے نیتجے میں دھندلا گئے۔ انہیں جس طرح سے ڈیڑھ پونے دو برس تک جیل کی سختیوں سے دوچار کیا گیا، لاہور ہائی کورٹ میں مولوی مشتاق جیسے واضح تعصب رکھنے والے چیف جسٹس نے ان کی مسلسل توہین اور بے توقیری کی، ان کے کیس کو جس طرح بگاڑا گیا، بری کرنے یا سزائے قید کے بجائے زندگی چھیننے کی پلاننگ کی گئی، جس طرح کسمپرسی کے عالم میں دفنایا گیا، عوامی جنازہ نہ ہونے دیا گیا۔ یہ سب ایسے کام تھے جس نے بھٹو کی تعزیت اور افسوس کے پہلو کو نمایاں کر دیا۔ ان کی غلطیاں اس کے نیچے چھپ گئیں۔بدقسمتی سے ایک طویل عرصے تک ہمارے رائٹ ونگ کے دانشور، صحافی، اہل قلم اس حوالے سے خاموش یا متعصب رہے، اب اتنا وقت گزرجانے کے بعد ان کی آرا بدل رہی ہے۔ یہ خوش آئند ہے۔بھٹو صاحب کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔ وہ انصاف کے مستحق ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ تاریخ کے ایک کردار کو اگر انصاف ملے گا تو پھر باقیوں کی باری بھی آ ہی جاتی ہے۔