
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے اپنی پہلی کرکٹ گیم کے ذریعے موبائل گیمنگ کی دنیا میں قدم رکھنے کا ارادہ کر لیا ہے۔کرکٹ ویب سائٹ ای ایس پی این کرک انفو کے مطابق آئی سی سی نے یہ فیصلہ مستقبل میں نشریاتی حقوق کی قدر میں ممکنہ کمی کے باعث اپنے ریوینیو میں اضافے کے لیے کیا ہے۔ اگرچہ کرکٹ گیمنگ کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے، لیکن یہ پہلا موقع ہوگا جب اس کھیل کی گورننگ باڈی کرکٹ گیم بنائے گی اور اس کے ذریعے منافع بخش اور تیزی سے ترقی کرتی گیمنگ مارکیٹ میں قدم رکھے گی۔آئی سی سی کی ڈیجیٹل ٹیم آج سے ہرارے میں شروع ہونے والی آئی سی سی کی بورڈ میٹنگز میں چیف ایگزیکٹیوز کمیٹی (سی ای سی) کو اپنے منصوبوں پر ایک پریزنٹیشن دے گی۔ اس حوالے سے پچھلی میٹنگز میں بھی تبادلہ خیال کیا جا چکا ہے۔آئی سی سی اب مکمل ممبران سے منظوری حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ڈیویلپرز کو ایک ایسی گیم بنانے کے لیے ٹینڈر جاری کیا جا سکے جو ابتدائی طور پر موبائل صارفین کے لیے ہوگی۔زیادہ تر کرکٹ شائقین کو گیمز کنسولز پر ای اے سپورٹس کی کرکٹ سیریز، یا کوڈ ماسٹر کی برائن لارا کرکٹ یاد ہوگی، اور ان کے علاوہ 1980 کی دہائی تک بہت سی دوسری گیمز بھی موجود تھیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں بہت کم موبائل کرکٹ گیمز ہی کامیاب ہو پائی ہیں۔اس تمام صورتحال میں آئی سی سی کی جانب سے ایک کرکٹ گیم کا لانچ کیے جانا کرکٹ شائقین اور گیمرز کے لیے ایک اہم لمحہ ہو سکتا ہے۔ماضی میں سپورٹس گیمنگ کی بہترین مثال تلاش کی جائے تو فیفا کا ای اے گیمز سے 30 سالہ اشتراک تھا جو 2023 میں ختم ہوا۔ آئی سی سی کی کرکٹ گیم کا معاملہ اس بات پر منحصر ہوگا کہ آئی سی سی کھلاڑیوں کے نام، تصاویر اور مشابہت (NIL rights) کے حقوق کے لیے کس طرح اس پیچیدگی سے نمٹتا ہے۔ای اے سپورٹس کی 2007 میں اپنی کرکٹ سیریز ختم کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ کھلاڑیوں کے ناموں کے لیے لائسنسنگ کے حقوق حاصل کرنا بہت مشکل عمل تھا۔ گیم کے آخری ایڈیشن میں کچھ ٹیموں کے چند مشہور کھلاڑیوں کے ناموں کے حقوق تھے لیکن صرف فرضی نام استعمال کیے گئے تھے۔ ای اے گیمز کی کرکٹ 2007 گیم آج بھی گیمرز کی پسندیدہ کرکٹ گیمز میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ (فوٹو: کرکٹ وِد اے کنٹرولر)واضح رہے آئی سی سی تمام سکواڈز کے لیے ناموں، شناخت اور مشابہت کے حقوق پر دستخط کرتا بھی ہے تو صرف ٹورنامنٹس اور ایونٹس کی مدت کے لیے۔ اس سے باہر کی تمام کرکٹ آئی سی سی کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ایک ایسے کھیل کے لیے جس میں قومی ٹیموں کے ساتھ ساتھ ٹی20 فرنچائزز یا ڈومیسٹک ٹی20 ٹیمیں ایک دوسرے کے خلاف کھیلتی ہوں، آئی سی سی کو انفرادی بورڈز اور ان ممالک میں جن میں پلیئر ایسوسی ایشنز نہیں ہیں (جیسے کہ انڈیا اور پاکستان) کے ساتھ ساتھ ورلڈ کرکٹرز ایسوسی ایشن (WCA) عالمی کھلاڑیوں کی باڈی کے ساتھ لائسنسنگ کے معاہدے کرنے ہوں گے۔2024 کے اوائل میں WCA نے نوواک جوکووچ کی حمایت یافتہ پروفیشنل ٹینس پلیئرز ایسوسی ایشن (PTPA) سے الحاق شدہ Winners Alliance کے ساتھ ایک طویل مدتی شراکت داری پر دستخط کیے تھے۔ ونرز الائنس کرکٹرز کی جانب سے ڈیلز سنبھالتا ہے جو WCA سے منسلک کھلاڑیوں کی ایسوسی ایشنز کے ممبر ہیں، جیسے کہ آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ۔ڈبلیو سی اے کھیل کے لیے آئی سی سی کے منصوبوں سے واقف ہے لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کسی بھی نقطہ نظر کا کیا جواب دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔یہ کتنا پیچیدہ ہوسکتا ہے اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب آسٹریلیا کے ٹیلی گراف اور نیوزی لینڈ ہیرالڈ کی حالیہ رپورٹس سے ظاہر ہوا، جس میں کرکٹ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کرکٹ کے درمیان ڈیجیٹل گیمز کے NIL حقوق پر اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ جاری تنازعات کا انکشاف ہوا۔ دونوں صورتوں میں، بورڈز ریئل کرکٹ ایپ پر گیمز میں کھلاڑیوں کی تصاویر کے استعمال پر پلیئر ایسوسی ایشنز کے ساتھ تنازعہ کا شکار ہیں۔ نیوزی لینڈ کے معاملے میں بورڈ پہلے ہی انڈیا میں ایک اور ایپ کے ساتھ NIL معاہدے پر دستخط کر چکا ہے۔ پچھلے سال اگست میں ڈبلیو سی اے (جس کے ساتھ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں پلیئر ایسوسی ایشنز وابستہ ہیں) اور ونر الائنس نے پلیئر NIL کے حقوق کے لیے ریئل کرکٹ ایپ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ریئل کرکٹ ایپ کی ایک گیم میں آسٹریلوی پلیئرز کے نام اور مشابہت کے حقوق پر حال ہی تنازع ہو چکا ہے۔ (فوٹو: supplied)اس معاملے سے واقف ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ تقریباً 100 کمپنیاں مختلف گیمز میں کھلاڑیوں کو بغیر اجازت کے استعمال کر رہی ہیں اور نہ ہی کھلاڑیوں کو گیم سے آنے والی آمدنی کا حصہ دار بنایا جا رہا ہے۔ ڈبلیو سی اے اور ونرز الائنس اس ہی آمدنی کو تحفظ فراہم کرنا چاہتا ہے۔آئی سی سی یہ جانتا ہے کہ اسے ڈبلیو سی اے کے ساتھ لائسنسنگ کے معاہدے کی ضرورت ہوگی۔ انڈین کھلاڑیوں کے حقوق کا حصول، جس میں کوئی پلیئر ایسوسی ایشن اور ڈبلیو سی اے شامل نہیں ہے، آئی سی سی کے لیے کامیابی ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ انڈین پریمئر لیگ کے حقوق کا حصول بھی اہم ہوگا مگر کہا یہ جا رہا ہے کہ آئی پی ایل کی فرنچائزز اپنے ناموں کے لائسنس آئی سی سی کو گیم کے لیے فراہم کرنے پر راضی نہیں ہوں گی۔ واضح رہے متعدد رپورٹس میں انکشاف ہوا ہے کہ سال 2024 میں انڈیا میں گیمنگ مارکیٹ کا حجم تقریباً تین بلین امریکی ڈالر تھا۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ آئی سی سی اس میں شامل ہونے کا خواہاں ہے۔ آئی سی سی ایسے ماحول میں اس گیم کو اضافی آمدنی کا سلسلہ فراہم کرنے کے طور پر دیکھتا ہے جس میں اشارے یہ ہیں کہ وہ ریکارڈ توڑ نشریاتی حقوق دوبارہ محفوظ نہیں کر سکے گا۔